Type Here to Get Search Results !

نزولِ قرآن کریم کا آغاز قسط نمبر 10

نزولِ قرآن کریم کا آغاز
_________(❤️)_________
سیرت النبی ﷺ قسط نمبر 10
••────────••⊰❤️⊱••───────••
نزول قرآن کا آغاز 
انہوں نے آتے ہی عرض اقراء پڑھیے آپ نے جواب دیا میں ما انا بقارئ پڑھنے والا نہیں ہوں۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پھر اس فرشتے نے مجھے پکڑ کر دبایا سینے سے لگایا اور اتنی زور سے دبایا کہ مجھے محسوس ہونے لگا پھر مجھے چھوڑ دیا دوسری مرتبہ پھر یوں ہی دبایا اور تیسری مرتبہ دبانے کے بعد عرض کیا پڑھیے اپنے رب کے نام سے ۔جس نے پیدا فرمایا پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون سے پڑھیے اور اپ کا رب بڑا کریم ہے, جس نے علم سکھایا قلم کے واسطے سے, اس نے سکھایا انسان کو جو وہ نہیں جانتا تھا۔
 آپ ﷺْ نے
 ان آیتوں کو اسی طرح پڑھ دیا جس کے بعد وہ فرشتہ چلا گیا، اس کے بعد آپ ﷺْ گھر تشریف لائے۔
 بعض روایات میں آتا ہے کہ جبرئیل علیہ السلام جب غار میں آئے تو پہلے انہوں نے یہ الفاظ کہے تھے:
’اے محمد ﷺْ ! آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرئیل ہوں۔
آپ ﷺْ کی گھر تشریف آوری سے پہلے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حسب معمول آپ ﷺْ کے لئے کھانا تیار کرکے ایک شخص کے ہاتھ آپ ﷺْ کے پاس بھجوادیا تھا مگر اس شخص کو آپ ﷺْ غار میں نظر نہ آئے۔ اس شخص نے واپس آکر یہ بات سیدہ خدیجہ رضٰی اللہ عنہا کو بتائی۔ انہوں نے آپ ﷺْ کی تلاش میں آپ ﷺْ کے عزیز و اقارب کے گھر آدمی بھیجے۔ مگر آپ ﷺْ وہاں بھی نہ ملے۔ اس لئے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پریشان ہوگئیں۔ وہ ابھی اسی پریشانی میں تھیں کہ آٓپ ﷺْ تشریف لے آئے۔ آپ ﷺْ نے جو کچھ دیکھا اور سنا تھا، اس کی تفصیل سیدہ خدیجہ رضٰی اللہ عنہا سے بیان فرمائی۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام کا یہ جملہ بھی بتایا کہ
اے محمد ﷺْ ! آپ اللہ کے رسول ﷺْ ہیں۔
یہ سن کر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
’’آپ ﷺْ کو خوش خبری ہو۔۔۔ آپ ﷺْ یقین کیجئے! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، آپ اس امت کے نبی ﷺْ ہوں گے۔‘‘
پھر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ غار والا سارا واقعہ انہیں سنایا۔ ورقہ بن نوفل پرانی کتابوں کے عالم تھے۔ ساری بات سن کر انہوں نے:
’اللہ جل وتعالی کی حمد بیان کی۔ خدیجہ! اگر تم سچ کہہ رہی ہو تو اس میں شک نہیں، ان کے پاس وہی ناموس اکبر یعنی جبرئیل علیہ السلام آئے تھے جو موسی علیہ السلام کے پاس آیا کرتے تھے۔ محمد ﷺْ اس امت کے نبی ہیں۔ یہ اس بات پر یقین کرلیں۔
ورقہ بن نوفل کو جبرئیل علیہ السلام کا نام سن کر حیرت اس لئے ہوئی تھی کہ عرب کے دوسرے شہروں میں لوگوں نے یہ نام سنا بھی نہیں تھا۔ 
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ورقہ بن نوفل نے آپ ﷺْ کے سر کو بوسہ دیا تھا اور پھر کہا تھا:
’’کاش! میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیں گے۔ میں آپ ﷺْ کی مدد کرتا، اس عظیم کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں، جب آپ ﷺْ کی قوم آپ ﷺْ کو جھٹلائے گی، آپ ﷺْ کو تکالیف پہنچائے گی۔ آپ ﷺْ کے ساتھ جنگیں لڑی جائیں گی اور آپ ﷺْ کو یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو آپ ﷺْ کا ساتھ دوں گا، اللہ کے دین کی حمایت کروں گا۔
آپ ﷺْ یہ سن کر حیران ہوئے اور فرمایا:
’’میری قوم مجھے وطن سے نکال دے گی؟
جواب میں ورقہ نے کہا:
’’ہاں! اس لئے کہ جو چیز آپ ﷺْ لے کر آئے ہیں، اسے لے کر جو بھی آٓیا، اس پر ظلم ڈھائے گئے۔۔۔ اگر میں نے وہ زمانہ پایا تو میں ضرور آپ ﷺْ کی پوری مدد کروں گا۔‘‘
ورقہ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے یہ بھی کہا:
’’تمہارے خاوند بے شک سچے ہیں، درحقیقت یہ باتیں نبوت کی ابتدا ہیں۔۔۔ یہ اس امت کے نبی ﷺْ ہیں۔‘‘
لیکن اس کے کچھ ہی مدت بعد ورقہ بن نوفل کا انتقال ہوگیا۔ 
ورقہ سے ملاقات کے بعد آپ ﷺْ گھر تشریف لے آئے۔ اس کے بعد ایک مدت تک جبرئیل علیہ السلام آپ ﷺْ کے سامنے نہیں آئے۔ درمیان میں جو وقفہ ڈالا گیا، اس میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت تھی کہ آپ ﷺْ کے مبارک دل پر جبرئیل علیہ السلام کو دیکھ کر جو خوف پیدا ہوگیا تھا، اس کا اثر زائل ہوجائے اور ان کے نہ آنے کی وجہ سے آپ ﷺْ کے دل میں وحی کا شوق پیدا ہوجائے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔۔ سلسلہ وحی جاری ہوا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔سورہ مدثر'
ترجمہ ۔: اے کپڑے میں لپیٹنے والے اٹھو ! (یعنی اپنی جگہ سے اٹھو اور تیار ہوجاؤ ) پھر کافروں کو ڈراؤ اور پھر اپنے رب کی بڑائیاں بیان کرو اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔
اس طرح آپ ﷺْ کو نبوت کے ساتھ تبلیغ کا حکم دیا گیا۔
ابن اسحاق لکھتے ہیں ۔
"سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پہلی خاتون ہیں جو اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺْ پر ایمان لائیں اور اللہ کی طرف سے جو کچھ آنحضرت ﷺْ لے کر آئے، اس کی تصدیق کی۔ مشرکین کی طرف سے آپ ﷺْ کو جب بھی تکلیف پہنچی، صدمہ پہنچا، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺْ کو دلاسا دیا۔‌"
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد دوسرے آدمی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔جو آپ ﷺْ کے پرانے دوست تھے۔انہوں نے آپ ﷺْ کی زبان سے نبوت ملنے کا ذکر سنتے ہی فوراً آپ ﷺْ کی تصدیق کی اور ایمان لے آئے ۔ بچوں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں۔جو آپ ﷺْ پر پہلے ایمان لائے۔۔ اور غلاموں میں سے حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ سب سے پہلے ایمان لائے ۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ کچھ اس طرح ہے۔
ایک دن آپ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے۔اس وقت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کے ساتھ تھیں اور آپ ﷺْ ان کے ساتھ چھپ کر نماز پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے یہ نئی بات دیکھ کر پوچھا: 
"یہ آپ ﷺْ کیا کررہے ہیں "
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
"یہ وہ دین ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنے لئے پسند فرمایا ہے اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے اپنے پیغمبر بھیجے ہیں، میں ﷺْ تمھیں بھی اس اللہ کی طرف بلاتا ہوں، 
 اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر ۸ سال کے قریب تھی اس سے پہلے بھی انہوں نے کبھی بتوں کی عبادت نہیں کی تھی۔ وہ بچپن ہی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔
(جاری ہے)
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
کتبہ:-
حضرت علامہ مولانا وزیر احمد ھزاروی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area