فرمانِِ قرآن اور عرب حکمران
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
از قلم:- مشاہد رضا اسلام پوری
از قلم:- مشاہد رضا اسلام پوری
••────────••⊰❤️⊱••───────••
اللہ رب العالمین نے بنی نوعِ انسانی کو عدم سے حیز وجود میں لایا، پھر ان کو مکلّف بنایا کہ وہ اللہ تعالی کی ربوبیت اور وحدانیت پر ایمان لاکر اس کے اوامر کی تعمیل آوری اور نواہی سے اجتناب کرے۔ اور اسی لیے رب تعالی نے وقتا فوقتا کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو مبعوث فرمایا،
اللہ رب العالمین نے بنی نوعِ انسانی کو عدم سے حیز وجود میں لایا، پھر ان کو مکلّف بنایا کہ وہ اللہ تعالی کی ربوبیت اور وحدانیت پر ایمان لاکر اس کے اوامر کی تعمیل آوری اور نواہی سے اجتناب کرے۔ اور اسی لیے رب تعالی نے وقتا فوقتا کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو مبعوث فرمایا،
تاکہ وہ پیغام الہی بندگان خدا تک پہونچائیں۔
لیکن کاتب تقدیر نے جن کے نصیب میں ایمان لکھا انہوں نے انبیاء کرام اور ان کے لائے ہوئے پیغامات کی تصدیق کی اور جن کے نصیب میں ضلالت و گمراہی لکھا انہوں ان کا انکار کیا۔ اسی اعتبار سے ابناے آدم کے دو گروہ ہو گئے: ایک مسلم اور دوسرا غیر مسلم، اسلام قبول کرنے والا گروہ مومن، مقدس اور پسندیدہ قرار پایا اور غیر مسلم گروہ کافر، ناپسندیدہ اور مبغوض۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم کے متعدد مقامات پر اہل ایمان کو وارننگ دیا کہ وہ اہل کفر سے دوستی و محبت اور رازدارانہ تعلقات نہ رکھے۔ اس سلسلے میں درجنوں آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ وارد ہوئیں:
ربّ العالمین کا فرمان ہے:
"یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَ قَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَآءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّۚ-یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَ اِیَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْؕ-اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِیْ ﳓ تُسِرُّوْنَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ ﳓ وَ اَنَا اَعْلَمُ بِمَاۤ اَخْفَیْتُمْ وَ مَاۤ اَعْلَنْتُمْؕ-وَ مَنْ یَّفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ"(ممتحنہ آیت:1)
ترجمۂ کنزالایمان:
اے ایمان والو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم انہیں خبریں پہنچاتے ہو دوستی سے حالانکہ وہ منکر ہیں اس حق کے جو تمہارے پاس آیا گھر سے جدا کرتے ہیں رسول کو اور تمہیں اس پر کہ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لائے اگر تم نکلے ہو میری راہ میں جہاد کرنے اور میری رضا چاہنے کو تو ان سے دوستی نہ کرو تم انہیں خفیہ پیام محبت کا بھیجتے ہو اور میں خوب جانتا ہوں جو تم چھپاؤ اور جو ظاہر کرو اور تم میں جو ایسا کرے وہ بیشک سیدھی راہ سے بہکا۔
اس آیت کریمہ میں رب کریم نے اہل اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے ایمان والو! تم میں سے جو کفار و مشرکین سے دوستی کریں، ان تک اسلام کے خفیہ پیام پہنچائیں بےشک وہ ضلالت و گمراہی میں ہیں۔
سورۂ مائدہ میں ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ" (المائدة: 51)
ترجمۂ کنزالایمان:
اے ایمان والو یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بیشک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا۔
اس آیت کریمہ میں رب تعالی نے مومنین کو یہود ونصاریٰ کے ساتھ دوستی وموالات سے بچنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ سخت وعید کا اظہار فرمایا کہ جو ان سے دوستانہ تعلقات قائم کرے وہ انہی میں سے ہے۔
سورۂ نسا میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿ٱلَّذِینَ یَتَّخِذُونَ ٱلۡكَـٰفِرِینَ أَوۡلِیَاۤءَ مِن دُونِ ٱلۡمُؤۡمِنِینَۚ أَیَبۡتَغُونَ عِندَهُمُ ٱلۡعِزَّةَ فَإِنَّ ٱلۡعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِیعࣰا﴾ [النساء ١٣٩]
ترجمۂ کنزالایمان:
وہ جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں کیا ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں تو عزت تو ساری اللہ کے لیے ہے۔
اس آیت میں جو لوگ مومنین کو چھوڑ کر کفار و مشرکین کو صاحب قوت وشوکت سمجھ کر ان سے دوستی کرتے ہیں ان سے ملنا باعث عز و شرف جانتے ہیں ان کا بطلان ہے۔
قرآن کریم میں ایک اور مقام پر ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(توبہ۔ آیت 23)
ترجمۂ کنزالایمان:
اے ایمان والو اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ سمجھو اگر وہ ایمان پر کفر پسند کریں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی کرے گا تو وہی ظالم ہیں۔
اس آیت میں راب تعالی نے فرمایا: اے مسلمانو! کفار و مشرکین کو اپنا دوست نہ بناؤ اگرچہ وہ تمہارے باپ بھائی ہو۔اس کی تفسیر کرتے ہوئے امام قرطبی نے لکھا ہے:
"ظَاهِرُ هَذِهِ الْآيَةِ أَنَّهَا خِطَابٌ لِجَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ كَافَّةً، وَهِيَ بَاقِيَةُ الْحُكْمِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فِي قَطْعِ الْوِلَايَةِ بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْكَافِرِينَ"
ترجمہ:
ظاہر ہے کہ اس آیت میں تمام مومنین سے خطاب ہے، اور مومنین و کافرین کے مابین دوستی و موالات منقطع کرنے کے بارے میں اس کا حکم تا قیامت باقی رہے گا۔
ایک اور مقام پر باری عز وجل نے فرمایا:
"لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ"الآیۃ۔ (مجالہ، آیت:22)
نہ پاؤ گے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ اُن کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے والے ہوں۔
اس آیت میں بتایا گیا کہ مومن اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے کبھی دوستی کر ہی نہیں سکتا چاہے وہ اس کے کتنے ہی قریبی کیوں نہ ہوں۔
مذ کورہ نصوص سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ مسلمان کا اہل کفر و شرک سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا، ان کی عزت کرنا، عزت کی تلاش میں ان سے محبت کرنا یہ ساری باتیں ناجائز و حرام اور گمراہیت کی علامت ہیں۔
آج ہم دیکھ تے ہیں کہ کچھ لوگ مسلمانوں کے لبادے میں رہ کر سچے مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں لیکن انہوں نے کفار و مشرکین کے ساتھ اس قدر دوستانہ تعلقات قائم کیا کہ تعلیم دین اسلام کو بھول کر ان کے رنگ میں رنگ گئے، ان کو اسلام و مسلمین کے خفیہ راز بتانے لگے۔
اس کی ایک واضح نظیر آپ موجودہ عرب حکمرانوں میں دیکھ سکتے ہیں:
چنانچہ سن2018 سے پہلے سر زمیں حجاز میں سینما ہال کا نام ونشان تک نہ تھا لیکن موجودہ عرب حکمرانوں کی عیاشیاں تو دیکھیں انہوں نے سب سے پہلے مرکزِ کفر و شرک نجد میں اس کا افتتاح کیا اور آج پورے حجاز شریف میں سینما ہال موجود ہے، یہاں تک کہ ان ظالموں نے وہ سرزمین مقدس( جس کی رب تعالی نے قسم اٹھائی اور فرمایا:
" لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ، وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَد"
(مجھے اس شہر کی قسم ۔کہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔) مدینہ منورہ تک کو نہ چھوڑا، اور وہاں بھی سینما ہال قائم کیے۔
انہوں نے کفار و مشرکین سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کو باعث عز شرف جانا، ان کے ہاں ہاں ملایا، ان کے افکار و نظریات کو فروغ دیا، یہاں تک انہوں نے اہل کفر کو عرب شریف میں بلا کر اسلام اور اہل اسلام کے خفیہ پیامات سے باخبر کیا۔
وہ جماعت جس نے ہندو مسلم کے نام پر ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا، ہزاروں مسلمانوں کے مکانات کو توڑ کر ان کو بے گھر کیا، ان کی درجنوں مساجد کو مندروں میں بدل دیا، ان کے سیکڑوں مساجد ومدارس کو منہدم کر دیا، جس نے قرآن و سنت کے احکام کے خلاف پارلیمنٹ میں قانون سازی کی، جس نے عصمت انبیا علیہم السلام پر حملہ کرایا، جو اللہ اور اس کے رسول کے سخت دشمن ہے۔ اس کے لیڈروں کو سعودی حکومت نے حجاز شریف بلا کر ان کی مہمان نوازی کی۔ ان عیاشیوں نے 9جنوری 2024 کو بی جے پی پارٹی کی لیڈر مرکزی وزیر سمرتی ایرانی کو مدینہ منورہ میں بلا کر ان کا انتہائی گرم جوشی سے استقبال کیا، حد تو تب ہو گئی جب انہوں نے اس کفر و شرک کے پتلے کو حبیب کبریا ﷺ کے صحن مبارک اور مسجد نبوی کی سیر کرائی، مسجد نبوی کے بعد مسجد قبا میں جانے دیا، جبل احد کا دورہ کرایا، اس دشمن خدا کو اب زم زم بھی پلایا، ترجمان کے ذریعہ ہندی زبان میں ان مقامات کی تاریخ سے باخبر بھی کرایا۔
سوال یہ ہے:
سعودی حکومت کی اہل کفر و شرک سے اتنی دوستی کیوں؟
سعودی حکومت نے دشمن خدا کو مدینۃ الرسول میں دخول کی اجازت کیوں دی؟
کیا یہ دورہ مسلمانوں کے لیے مصلحت سازی پر مبنی تھا اگر ہاں تو سعودی میں اور بھی مقامات ہیں، نجد میں بلا لیتے، جدہ میں بلا لیتے دارلحکومت میں بلا لیتے، مدینہ الرسول میں ہی بلا کر حرمتِ شہرِ مقدس کو پامال کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
کیا یہ اہل کفر و شرک سے محبت و الفت کی واضح دلیل نہیں ہے؟
انہیں عیاشوں کے بارے میں مفتی اعظم ہند مصطفٰی رضا خاں نے لکھا تھا:
لیکن کاتب تقدیر نے جن کے نصیب میں ایمان لکھا انہوں نے انبیاء کرام اور ان کے لائے ہوئے پیغامات کی تصدیق کی اور جن کے نصیب میں ضلالت و گمراہی لکھا انہوں ان کا انکار کیا۔ اسی اعتبار سے ابناے آدم کے دو گروہ ہو گئے: ایک مسلم اور دوسرا غیر مسلم، اسلام قبول کرنے والا گروہ مومن، مقدس اور پسندیدہ قرار پایا اور غیر مسلم گروہ کافر، ناپسندیدہ اور مبغوض۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم کے متعدد مقامات پر اہل ایمان کو وارننگ دیا کہ وہ اہل کفر سے دوستی و محبت اور رازدارانہ تعلقات نہ رکھے۔ اس سلسلے میں درجنوں آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ وارد ہوئیں:
ربّ العالمین کا فرمان ہے:
"یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَ قَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَآءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّۚ-یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَ اِیَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْؕ-اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِیْ ﳓ تُسِرُّوْنَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ ﳓ وَ اَنَا اَعْلَمُ بِمَاۤ اَخْفَیْتُمْ وَ مَاۤ اَعْلَنْتُمْؕ-وَ مَنْ یَّفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ"(ممتحنہ آیت:1)
ترجمۂ کنزالایمان:
اے ایمان والو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم انہیں خبریں پہنچاتے ہو دوستی سے حالانکہ وہ منکر ہیں اس حق کے جو تمہارے پاس آیا گھر سے جدا کرتے ہیں رسول کو اور تمہیں اس پر کہ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لائے اگر تم نکلے ہو میری راہ میں جہاد کرنے اور میری رضا چاہنے کو تو ان سے دوستی نہ کرو تم انہیں خفیہ پیام محبت کا بھیجتے ہو اور میں خوب جانتا ہوں جو تم چھپاؤ اور جو ظاہر کرو اور تم میں جو ایسا کرے وہ بیشک سیدھی راہ سے بہکا۔
اس آیت کریمہ میں رب کریم نے اہل اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے ایمان والو! تم میں سے جو کفار و مشرکین سے دوستی کریں، ان تک اسلام کے خفیہ پیام پہنچائیں بےشک وہ ضلالت و گمراہی میں ہیں۔
سورۂ مائدہ میں ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ" (المائدة: 51)
ترجمۂ کنزالایمان:
اے ایمان والو یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بیشک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا۔
اس آیت کریمہ میں رب تعالی نے مومنین کو یہود ونصاریٰ کے ساتھ دوستی وموالات سے بچنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ سخت وعید کا اظہار فرمایا کہ جو ان سے دوستانہ تعلقات قائم کرے وہ انہی میں سے ہے۔
سورۂ نسا میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿ٱلَّذِینَ یَتَّخِذُونَ ٱلۡكَـٰفِرِینَ أَوۡلِیَاۤءَ مِن دُونِ ٱلۡمُؤۡمِنِینَۚ أَیَبۡتَغُونَ عِندَهُمُ ٱلۡعِزَّةَ فَإِنَّ ٱلۡعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِیعࣰا﴾ [النساء ١٣٩]
ترجمۂ کنزالایمان:
وہ جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں کیا ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں تو عزت تو ساری اللہ کے لیے ہے۔
اس آیت میں جو لوگ مومنین کو چھوڑ کر کفار و مشرکین کو صاحب قوت وشوکت سمجھ کر ان سے دوستی کرتے ہیں ان سے ملنا باعث عز و شرف جانتے ہیں ان کا بطلان ہے۔
قرآن کریم میں ایک اور مقام پر ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(توبہ۔ آیت 23)
ترجمۂ کنزالایمان:
اے ایمان والو اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ سمجھو اگر وہ ایمان پر کفر پسند کریں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی کرے گا تو وہی ظالم ہیں۔
اس آیت میں راب تعالی نے فرمایا: اے مسلمانو! کفار و مشرکین کو اپنا دوست نہ بناؤ اگرچہ وہ تمہارے باپ بھائی ہو۔اس کی تفسیر کرتے ہوئے امام قرطبی نے لکھا ہے:
"ظَاهِرُ هَذِهِ الْآيَةِ أَنَّهَا خِطَابٌ لِجَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ كَافَّةً، وَهِيَ بَاقِيَةُ الْحُكْمِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فِي قَطْعِ الْوِلَايَةِ بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْكَافِرِينَ"
ترجمہ:
ظاہر ہے کہ اس آیت میں تمام مومنین سے خطاب ہے، اور مومنین و کافرین کے مابین دوستی و موالات منقطع کرنے کے بارے میں اس کا حکم تا قیامت باقی رہے گا۔
ایک اور مقام پر باری عز وجل نے فرمایا:
"لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ"الآیۃ۔ (مجالہ، آیت:22)
نہ پاؤ گے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ اُن کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے والے ہوں۔
اس آیت میں بتایا گیا کہ مومن اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے کبھی دوستی کر ہی نہیں سکتا چاہے وہ اس کے کتنے ہی قریبی کیوں نہ ہوں۔
مذ کورہ نصوص سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ مسلمان کا اہل کفر و شرک سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا، ان کی عزت کرنا، عزت کی تلاش میں ان سے محبت کرنا یہ ساری باتیں ناجائز و حرام اور گمراہیت کی علامت ہیں۔
آج ہم دیکھ تے ہیں کہ کچھ لوگ مسلمانوں کے لبادے میں رہ کر سچے مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں لیکن انہوں نے کفار و مشرکین کے ساتھ اس قدر دوستانہ تعلقات قائم کیا کہ تعلیم دین اسلام کو بھول کر ان کے رنگ میں رنگ گئے، ان کو اسلام و مسلمین کے خفیہ راز بتانے لگے۔
اس کی ایک واضح نظیر آپ موجودہ عرب حکمرانوں میں دیکھ سکتے ہیں:
چنانچہ سن2018 سے پہلے سر زمیں حجاز میں سینما ہال کا نام ونشان تک نہ تھا لیکن موجودہ عرب حکمرانوں کی عیاشیاں تو دیکھیں انہوں نے سب سے پہلے مرکزِ کفر و شرک نجد میں اس کا افتتاح کیا اور آج پورے حجاز شریف میں سینما ہال موجود ہے، یہاں تک کہ ان ظالموں نے وہ سرزمین مقدس( جس کی رب تعالی نے قسم اٹھائی اور فرمایا:
" لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ، وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَد"
(مجھے اس شہر کی قسم ۔کہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔) مدینہ منورہ تک کو نہ چھوڑا، اور وہاں بھی سینما ہال قائم کیے۔
انہوں نے کفار و مشرکین سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کو باعث عز شرف جانا، ان کے ہاں ہاں ملایا، ان کے افکار و نظریات کو فروغ دیا، یہاں تک انہوں نے اہل کفر کو عرب شریف میں بلا کر اسلام اور اہل اسلام کے خفیہ پیامات سے باخبر کیا۔
وہ جماعت جس نے ہندو مسلم کے نام پر ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا، ہزاروں مسلمانوں کے مکانات کو توڑ کر ان کو بے گھر کیا، ان کی درجنوں مساجد کو مندروں میں بدل دیا، ان کے سیکڑوں مساجد ومدارس کو منہدم کر دیا، جس نے قرآن و سنت کے احکام کے خلاف پارلیمنٹ میں قانون سازی کی، جس نے عصمت انبیا علیہم السلام پر حملہ کرایا، جو اللہ اور اس کے رسول کے سخت دشمن ہے۔ اس کے لیڈروں کو سعودی حکومت نے حجاز شریف بلا کر ان کی مہمان نوازی کی۔ ان عیاشیوں نے 9جنوری 2024 کو بی جے پی پارٹی کی لیڈر مرکزی وزیر سمرتی ایرانی کو مدینہ منورہ میں بلا کر ان کا انتہائی گرم جوشی سے استقبال کیا، حد تو تب ہو گئی جب انہوں نے اس کفر و شرک کے پتلے کو حبیب کبریا ﷺ کے صحن مبارک اور مسجد نبوی کی سیر کرائی، مسجد نبوی کے بعد مسجد قبا میں جانے دیا، جبل احد کا دورہ کرایا، اس دشمن خدا کو اب زم زم بھی پلایا، ترجمان کے ذریعہ ہندی زبان میں ان مقامات کی تاریخ سے باخبر بھی کرایا۔
سوال یہ ہے:
سعودی حکومت کی اہل کفر و شرک سے اتنی دوستی کیوں؟
سعودی حکومت نے دشمن خدا کو مدینۃ الرسول میں دخول کی اجازت کیوں دی؟
کیا یہ دورہ مسلمانوں کے لیے مصلحت سازی پر مبنی تھا اگر ہاں تو سعودی میں اور بھی مقامات ہیں، نجد میں بلا لیتے، جدہ میں بلا لیتے دارلحکومت میں بلا لیتے، مدینہ الرسول میں ہی بلا کر حرمتِ شہرِ مقدس کو پامال کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
کیا یہ اہل کفر و شرک سے محبت و الفت کی واضح دلیل نہیں ہے؟
انہیں عیاشوں کے بارے میں مفتی اعظم ہند مصطفٰی رضا خاں نے لکھا تھا:
تیرے حبیب کا پیارا چمن کیا برباد
الٰہی نکلے یہ نجدی بلا مدینہ سے
بہر حال: اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم کے متعدد مقامات پر مسلمانوں کو تنبیہ کیا کہ أہل کفر و شرک سے دوستانہ تعلقات قائم نہ کریں،ان سے دوری بنائے رکھیں، ان تک اسلام اور اہل اسلام کے خفیہ پیامات کی رسائی نہ کریں، ان کو صاحب شان و شوکت سمجھ کر ان سے محبت کرنا باعثِ فخر نہ جانے، اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ عذاب شدید کا مستحق ہوگا۔
رب کریم کی بارگاہ میں دعا ہے: ہم مسلمانوں کو کفار و مشرکین کے شر وفساد سے محفوظ رکھے۔
بہر حال: اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم کے متعدد مقامات پر مسلمانوں کو تنبیہ کیا کہ أہل کفر و شرک سے دوستانہ تعلقات قائم نہ کریں،ان سے دوری بنائے رکھیں، ان تک اسلام اور اہل اسلام کے خفیہ پیامات کی رسائی نہ کریں، ان کو صاحب شان و شوکت سمجھ کر ان سے محبت کرنا باعثِ فخر نہ جانے، اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ عذاب شدید کا مستحق ہوگا۔
رب کریم کی بارگاہ میں دعا ہے: ہم مسلمانوں کو کفار و مشرکین کے شر وفساد سے محفوظ رکھے۔
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
از قلم:- مشاہد رضا اسلام پوری
از قلم:- مشاہد رضا اسلام پوری
١٢ جنوری ٢٠٢٤ بروز جمعہ