(سوال نمبر 4949)
کیا عورت مہر کو نکاح کے بعد ہاتھ لگا کر فورا صدقہ کردینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ نکاح پر عورت کو جو حق مہر دیا جاتا ہے کیا وہ اس کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتی ،لوگ کہتے ہیں اسے فوراً صدقہ کر دینا چاہیے ہاتھ لگا کر لیکن اپنے پاس ہرگز نا رکھے۔
شرعی رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ خیرا۔
سائلہ:- فائزہ شہر لاہور پاکستان
کیا عورت مہر کو نکاح کے بعد ہاتھ لگا کر فورا صدقہ کردینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ نکاح پر عورت کو جو حق مہر دیا جاتا ہے کیا وہ اس کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتی ،لوگ کہتے ہیں اسے فوراً صدقہ کر دینا چاہیے ہاتھ لگا کر لیکن اپنے پاس ہرگز نا رکھے۔
شرعی رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ خیرا۔
سائلہ:- فائزہ شہر لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
نکاح کے بعد مہر کو ہاتھ لگا کر فورا صدقہ کردے یہ غلط ہے اور ایسا کہنا شرعا گناہ ہے کہ عورت مہر اپنے پاس نہیں رکھ سکتی اس غلط بدعت سیئہ کو عوام سے ختم کرنا ضروری ہے۔
اللہ کا حکم ہے
سورہ النساء:۵) ترجمہ اور عورتوں کو ان کے مہر دلی خوشی سے ادا کرو۔ مہر کی تعیین فریقین کی رضا مندی سے ہوتی ہے۔
نکاح میں جو مہر طے ہو وہ خالص دلہن کا حق شرعی ہے والدین بھائی ساس سسر بھی نہیں لے سکتے ہیں البتہ بیوی اپنی مرضی سے جسے چاہے دے سکتی ہے چاہے تو صدقہ بھی کر سکتی ہے
نکاح پر عورت کو جو حق مہر دیا جاتا ہے کیا وہ اس کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتی
لوگ کہتے ہیں اسے فوراً صدقہ کر دینا چاہیے ہاتھ لگا کر لیکن اپنے پاس ہرگز ناں رکھے۔
یاد رہے کہ نکاح میں مہر دینے کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے
وأحل لکم ماوراء ذلکم أن تبتغوا بأموالکم۔
علامہ کاسانی نے مہر کی حکمت یہ لکھی ہے کہ اصل میں عورت ایک محترم ذات ہے، نکاح کے نتیجہ میں مرد کے لیے عورت سے اپنی فطری ضرورت کو پورا کرنا اور اُس کے خاص حصہ سے نفع اٹھانا حلال ہوجاتا ہے،اس نفع اٹھانے کے لیے شریعت نے مرد پر کچھ مال واجب کیا ہے، تاکہ مرد کے دل میں اس کی اہمیت رہے، ورنہ مردوں کو اس محترم رشتہ کو ختم کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں رہے گا اور نکاح کے مقاصد حاصل نہیں ہونگے ۔
بدائع الصنائع میں ہے
قال الکاساني: لو لم یجب المہر بنفس العقد، لایبالي الزوج عن ازالة ہذا الملک بأدنی خشونة تحدث بینہما؛ لأنہ لا یشق ازالتہ لما لم یخف لزوم المہر؛ فلا تحصل المقاصد المطلوبة من النکاح۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
نکاح کے بعد مہر کو ہاتھ لگا کر فورا صدقہ کردے یہ غلط ہے اور ایسا کہنا شرعا گناہ ہے کہ عورت مہر اپنے پاس نہیں رکھ سکتی اس غلط بدعت سیئہ کو عوام سے ختم کرنا ضروری ہے۔
اللہ کا حکم ہے
سورہ النساء:۵) ترجمہ اور عورتوں کو ان کے مہر دلی خوشی سے ادا کرو۔ مہر کی تعیین فریقین کی رضا مندی سے ہوتی ہے۔
نکاح میں جو مہر طے ہو وہ خالص دلہن کا حق شرعی ہے والدین بھائی ساس سسر بھی نہیں لے سکتے ہیں البتہ بیوی اپنی مرضی سے جسے چاہے دے سکتی ہے چاہے تو صدقہ بھی کر سکتی ہے
نکاح پر عورت کو جو حق مہر دیا جاتا ہے کیا وہ اس کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتی
لوگ کہتے ہیں اسے فوراً صدقہ کر دینا چاہیے ہاتھ لگا کر لیکن اپنے پاس ہرگز ناں رکھے۔
یاد رہے کہ نکاح میں مہر دینے کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے
وأحل لکم ماوراء ذلکم أن تبتغوا بأموالکم۔
علامہ کاسانی نے مہر کی حکمت یہ لکھی ہے کہ اصل میں عورت ایک محترم ذات ہے، نکاح کے نتیجہ میں مرد کے لیے عورت سے اپنی فطری ضرورت کو پورا کرنا اور اُس کے خاص حصہ سے نفع اٹھانا حلال ہوجاتا ہے،اس نفع اٹھانے کے لیے شریعت نے مرد پر کچھ مال واجب کیا ہے، تاکہ مرد کے دل میں اس کی اہمیت رہے، ورنہ مردوں کو اس محترم رشتہ کو ختم کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں رہے گا اور نکاح کے مقاصد حاصل نہیں ہونگے ۔
بدائع الصنائع میں ہے
قال الکاساني: لو لم یجب المہر بنفس العقد، لایبالي الزوج عن ازالة ہذا الملک بأدنی خشونة تحدث بینہما؛ لأنہ لا یشق ازالتہ لما لم یخف لزوم المہر؛ فلا تحصل المقاصد المطلوبة من النکاح۔
(بدائع الصنائع:۲/ ۲۷۵، ط: المکتبة العلمیة، بیروت)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
11/11/2023
11/11/2023