(سوال نمبر 4916)
کیا آقا علیہ السلام مختار کل ہیں؟ اللہ کو حاضر و ناظر کہنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا حضور ﷺ مختار کل ہیں؟ اور دوسرا یہ کہ کیا اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر کہہ سکتے ہیں ؟ مفصل جواب عنایت فرمائیں۔
کیا آقا علیہ السلام مختار کل ہیں؟ اللہ کو حاضر و ناظر کہنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا حضور ﷺ مختار کل ہیں؟ اور دوسرا یہ کہ کیا اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر کہہ سکتے ہیں ؟ مفصل جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- مولانا دلاور صاحبپاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ ہرچیز کا کلی مالک و مختار اللہ ہی ہے مگر وہ جسے چاہے مالک و مختار بنا دے اقا علیہ السلام کو مالک و مختار اللہ ہی نے بنایا ہے ۔
مگر مالک و مختار اللہ کا ہونا ذاتی ہے اقا علیہ السلام کا ہونا عطائی ہے اوریہ ایات و احادیث سے ثابت ہے ۔
!للہ کی عطاء سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم مختار کل ہیں
مختارِ کل کی تعریف
اہل اسلام کا ایمان ہے کہ اللہ جل شانہٗ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا فرمائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قاسم بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی عطا فرماتے ہیں وہ اللہ کے حکم اور اس کی رضا کے مطابق ہوتا ہے، اللہ کا فضل ہی مسلمان کے لئے خزانہ ہوتا ہے۔
مختار کل کا مطلب یہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ کی مرضی کے خلاف جس کو جو چاہیں عطا فرما دیں یہ تشریح ان خود ساختہ مفسرین کی ہے جو درِ مصطفےٰ سے اہل ایمان کو ہٹانے کی سازش میں ملوث ہیں مختار کل کا مطلب ہے کہ جس کو جو بھی ملتا ہے اللہ کے حکم سے ملتا ہے اور اللہ کا حکم درِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی نافذ ہوتا ہے، ملنے کا ذریعہ درِ مصطفٰے ہی ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے
وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِه ۔
اور انہیں کیا برا لگا یہی نہ کہ اللہ و رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کر دیا (پارہ ۱۰ ، سورۃ التوبہ ۷۴)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی لوگوں کو غنی اور مالدار فرماتے ہیں اور دوسروں کو غنی وہی کرتا ہے جو خود مالک و مختار ہوتا ہے
اللہ کریم کی طرف سے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو عطا کردہ خصوصی اختیارات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ کو جنّت اور دنیا کی تمام زمین کا مالک بنا دیا گیا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جسے چاہیں جنّت عطا فرما دیں اور جسے چاہیں دنیا کی زمین مَرحمت فرما دیں۔
جنّت اور دنیا کی تمام زمین کے مالک
امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اللہ تعالٰی نے دنیا اور آخرت کی تمام زمینوں کا حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مالک کردیا ہے حُضور جنّت کی زمین میں سے جتنی چاہیں جسے چاہیں جاگیر بخشیں۔ (جب جنّت کی زمین کا یہ معاملہ ہے) تو دنیا کی زمین کاکیا ذکر۔
ایک مقام پر فرماتے ہیں
رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم اپنے رب کی عطا سے مالکِ جنّت ہیں ، مُعْطِیِ جنّت ہیں ، جسے چاہے عطا فرمائیں۔
جنّت کے وارث
اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِیًّا(۶۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ ہرچیز کا کلی مالک و مختار اللہ ہی ہے مگر وہ جسے چاہے مالک و مختار بنا دے اقا علیہ السلام کو مالک و مختار اللہ ہی نے بنایا ہے ۔
مگر مالک و مختار اللہ کا ہونا ذاتی ہے اقا علیہ السلام کا ہونا عطائی ہے اوریہ ایات و احادیث سے ثابت ہے ۔
!للہ کی عطاء سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم مختار کل ہیں
مختارِ کل کی تعریف
اہل اسلام کا ایمان ہے کہ اللہ جل شانہٗ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا فرمائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قاسم بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی عطا فرماتے ہیں وہ اللہ کے حکم اور اس کی رضا کے مطابق ہوتا ہے، اللہ کا فضل ہی مسلمان کے لئے خزانہ ہوتا ہے۔
مختار کل کا مطلب یہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ کی مرضی کے خلاف جس کو جو چاہیں عطا فرما دیں یہ تشریح ان خود ساختہ مفسرین کی ہے جو درِ مصطفےٰ سے اہل ایمان کو ہٹانے کی سازش میں ملوث ہیں مختار کل کا مطلب ہے کہ جس کو جو بھی ملتا ہے اللہ کے حکم سے ملتا ہے اور اللہ کا حکم درِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی نافذ ہوتا ہے، ملنے کا ذریعہ درِ مصطفٰے ہی ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے
وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِه ۔
اور انہیں کیا برا لگا یہی نہ کہ اللہ و رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کر دیا (پارہ ۱۰ ، سورۃ التوبہ ۷۴)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی لوگوں کو غنی اور مالدار فرماتے ہیں اور دوسروں کو غنی وہی کرتا ہے جو خود مالک و مختار ہوتا ہے
اللہ کریم کی طرف سے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو عطا کردہ خصوصی اختیارات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ کو جنّت اور دنیا کی تمام زمین کا مالک بنا دیا گیا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جسے چاہیں جنّت عطا فرما دیں اور جسے چاہیں دنیا کی زمین مَرحمت فرما دیں۔
جنّت اور دنیا کی تمام زمین کے مالک
امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اللہ تعالٰی نے دنیا اور آخرت کی تمام زمینوں کا حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مالک کردیا ہے حُضور جنّت کی زمین میں سے جتنی چاہیں جسے چاہیں جاگیر بخشیں۔ (جب جنّت کی زمین کا یہ معاملہ ہے) تو دنیا کی زمین کاکیا ذکر۔
ایک مقام پر فرماتے ہیں
رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم اپنے رب کی عطا سے مالکِ جنّت ہیں ، مُعْطِیِ جنّت ہیں ، جسے چاہے عطا فرمائیں۔
جنّت کے وارث
اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِیًّا(۶۳)
( تَرجَمۂ کنز العرفان )
یہ وہ باغ ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اسے کریں گے جو پرہیزگار ہو۔
اس آیتِ مقدسہ کا ایک معنی یہ بیان کیا گیا ہے
اَیْ نُوْرِثُ تِلْکَ الْجَنَّۃَ مُحَمَّدًا صلَّی اللہ علیہ وسلَّم فَیُعْطِیْ مَن یَّشَاءُ وَیَمْنَعُ عَمَّن یَّشَاءُ یعنی ہم اس جنّت کا وارث محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بناتے ہیں کہ وہ جسے چاہیں جنّت عطا فرمائیں اور جسے چاہیں محروم۔
یہ وہ باغ ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اسے کریں گے جو پرہیزگار ہو۔
اس آیتِ مقدسہ کا ایک معنی یہ بیان کیا گیا ہے
اَیْ نُوْرِثُ تِلْکَ الْجَنَّۃَ مُحَمَّدًا صلَّی اللہ علیہ وسلَّم فَیُعْطِیْ مَن یَّشَاءُ وَیَمْنَعُ عَمَّن یَّشَاءُ یعنی ہم اس جنّت کا وارث محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بناتے ہیں کہ وہ جسے چاہیں جنّت عطا فرمائیں اور جسے چاہیں محروم۔
(ماینامہ فیضان مدینہ 2021)
٢ / آقا علیہ السلام کو حاضر و ناظر سمجھنا عقیدہ اہل سنت کے خلاف نہیں ہے بلکہ عین اہل سنت کے مطابق ہے البتہ اللہ کو حاضر و ناظر نہیں کہنا چاہئے منع ہے
حضور اقدسﷺ اللہ عز و جل کے محبوب بندے اور پیاری مخلوق ہیں ان کے لیے مکان و زمان ثابت ہے بے شک وہ حاضر و ناظر ہیں اور بلا شبہہ خدا وند کریم مکان و زمان سے پاک ہے اس کو اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں
وہی لا مکاں کے مکیں ہوئے سرِ عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں
اللہ عز وجل سمیع و بصیر، علیم و خبیر ہے ہر جگہ ہر مکان میں ہر شے کوہر وقت برابر دیکھتا سنتا جانتا ہے ہر شی کو اس کا علم محیط ہے حلف لیتے وقت جو یہ کہتے ہیں کہ خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہیں گے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے فعل کو خدا وند کریم دیکھتا ہے ہمارے قول کو سنتا ہے یہ معنی صحیح ہیں مگر بجاے حاضر و ناظر کے شہید و بصیر کہنا چاہیے۔)
٢ / آقا علیہ السلام کو حاضر و ناظر سمجھنا عقیدہ اہل سنت کے خلاف نہیں ہے بلکہ عین اہل سنت کے مطابق ہے البتہ اللہ کو حاضر و ناظر نہیں کہنا چاہئے منع ہے
حضور اقدسﷺ اللہ عز و جل کے محبوب بندے اور پیاری مخلوق ہیں ان کے لیے مکان و زمان ثابت ہے بے شک وہ حاضر و ناظر ہیں اور بلا شبہہ خدا وند کریم مکان و زمان سے پاک ہے اس کو اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں
وہی لا مکاں کے مکیں ہوئے سرِ عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں
اللہ عز وجل سمیع و بصیر، علیم و خبیر ہے ہر جگہ ہر مکان میں ہر شے کوہر وقت برابر دیکھتا سنتا جانتا ہے ہر شی کو اس کا علم محیط ہے حلف لیتے وقت جو یہ کہتے ہیں کہ خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہیں گے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے فعل کو خدا وند کریم دیکھتا ہے ہمارے قول کو سنتا ہے یہ معنی صحیح ہیں مگر بجاے حاضر و ناظر کے شہید و بصیر کہنا چاہیے۔)
(فتاویٰ حافظ ملت)
وقار الفتاوی میں ہے
حاضر و ناظر کے جو معنی لُغت میں ہیں ان معانی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی ذات پر ان الفاظ کا بولنا جائز نہیں ہے۔حاضِر کا معنی عربی لغت کی معروف و معتبر کتب المنجد اور مختار الصحاح وغیرہ میں یہ لکھے ہیں نزدیکی صحن حاضر ہونے کی جگہ جو چیز کھلم کھلا بےحجاب آنکھوں کے سامنے ہو اسے حاضر کہتے ہیں۔ اور ناظِر کے معنی مختار الصحاح میں آنکھ کے ڈھیلے کی سیاہی جبکہ نظر کے معنی کسی امر میں تفکّر و تدبّر کرنا، کسی چیز کا اندازہ کرنا اور آنکھ سے کسی چیز میں تامل کرنا لکھے ہیں۔ ان دونوں لفظوں کے لُغوی معنی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کو پاک سمجھنا واجب ہے۔ بغیر تاویل ان الفاظ کو اللہ تعالیٰ پر نہیں بولا جاسکتا۔ اسی لئے اَسماءِ حُسنیٰ میں حاضِر و ناظِر بطورِ اسم یا صفت شامل نہیں ہیں۔ قراٰن و حدیث میں یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لئے آئے ہیں اور نہ ہی صحابۂ کرام اور تابعین یا ائمۂ مجتہدین نے یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال کئے ہیں۔
وقار الفتاوی میں ہے
حاضر و ناظر کے جو معنی لُغت میں ہیں ان معانی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی ذات پر ان الفاظ کا بولنا جائز نہیں ہے۔حاضِر کا معنی عربی لغت کی معروف و معتبر کتب المنجد اور مختار الصحاح وغیرہ میں یہ لکھے ہیں نزدیکی صحن حاضر ہونے کی جگہ جو چیز کھلم کھلا بےحجاب آنکھوں کے سامنے ہو اسے حاضر کہتے ہیں۔ اور ناظِر کے معنی مختار الصحاح میں آنکھ کے ڈھیلے کی سیاہی جبکہ نظر کے معنی کسی امر میں تفکّر و تدبّر کرنا، کسی چیز کا اندازہ کرنا اور آنکھ سے کسی چیز میں تامل کرنا لکھے ہیں۔ ان دونوں لفظوں کے لُغوی معنی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کو پاک سمجھنا واجب ہے۔ بغیر تاویل ان الفاظ کو اللہ تعالیٰ پر نہیں بولا جاسکتا۔ اسی لئے اَسماءِ حُسنیٰ میں حاضِر و ناظِر بطورِ اسم یا صفت شامل نہیں ہیں۔ قراٰن و حدیث میں یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لئے آئے ہیں اور نہ ہی صحابۂ کرام اور تابعین یا ائمۂ مجتہدین نے یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال کئے ہیں۔
(وقار الفتاویٰ، 66/1)
فتاویٰ فیض الرّسول میں ہے
اگر حاضر و ناظر بہ معنی شہید و بصیر اعتقاد رکھتے ہیں یعنی ہر موجود اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے اور وہ ہر موجود کو دیکھتا ہے تو یہ عقیدہ حق ہے مگر اس عقیدے کی تعبیر لفظ حاضر و ناظر سے کرنا یعنی اللہ تعالیٰ کے بارے میں حاضر و ناظر کا لفظ استعمال کرنا نہیں چاہیے لیکن پھر بھی کوئی شخص اس لفظ کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بولے تو وہ کُفْر نہ ہوگا۔
فتاویٰ فیض الرّسول میں ہے
اگر حاضر و ناظر بہ معنی شہید و بصیر اعتقاد رکھتے ہیں یعنی ہر موجود اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے اور وہ ہر موجود کو دیکھتا ہے تو یہ عقیدہ حق ہے مگر اس عقیدے کی تعبیر لفظ حاضر و ناظر سے کرنا یعنی اللہ تعالیٰ کے بارے میں حاضر و ناظر کا لفظ استعمال کرنا نہیں چاہیے لیکن پھر بھی کوئی شخص اس لفظ کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بولے تو وہ کُفْر نہ ہوگا۔
(فتاویٰ فیض الرّسول،3/1)
اور مفتی شریفُ الحق امجدی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کو حاضر و ناظر کہنے والا کافر تو نہیں مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ کو حاضر و ناظر کہنا منع ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اَسما توقیفی ہیں یعنی شریعت نے جن اسما کا اطلاق باری تعالیٰ پر کیا ہے اسی کا اطلاق دُرست اور جن اَسما کا اطلاق نہیں فرمایا ان سے احتراز چاہیے (فتاویٰ شارحِ بخاری،305/1)
والله ورسوله اعلم بالصواب
اور مفتی شریفُ الحق امجدی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کو حاضر و ناظر کہنے والا کافر تو نہیں مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ کو حاضر و ناظر کہنا منع ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اَسما توقیفی ہیں یعنی شریعت نے جن اسما کا اطلاق باری تعالیٰ پر کیا ہے اسی کا اطلاق دُرست اور جن اَسما کا اطلاق نہیں فرمایا ان سے احتراز چاہیے (فتاویٰ شارحِ بخاری،305/1)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
07/11/2023
07/11/2023