(سوال نمبر 4834)
وہابی اور غیر مسلم کے ہوٹل میں کھانا کھانا کیسا ہے؟
........................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا وہابی اور غیر مسلم کے ہوٹل میں کھانا کھانا کیسا ہے؟
برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد انس رضا قادری گلبرگہ شریف کرناٹکا انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
وہابیہ و دیابنہ کے بابت جب تک تیقن سے معلوم نہ ہوجائے کہ وہ کسی ضروریات دینیہ یا ضروریات اہل سنت یا معمولات اہل سنت کا منکر ہیں یا عناصر اربعہ کے عقائد کفریہ کا معتقد ہے اگر یہ معلوم ہوجائے پھر اس کے ہوٹل سے گوشت کھانا حلال نہیں ہے۔ اور سادہ کھانے سے احتراز چاہیے جبکہ دیگر سنی کا ہوٹل موجود ہو ۔
اور اگر معلوم ہے کہ اس ہوٹل کا مالک سنی صحیح العقیدہ ہے اور اس کے کارندے بھی اسی طرح کے ہیں ان پر بد عقیدگی اور بدمذہبیت وغیرہ کی نشانیاں نہیں پائی جاتی ہیں تو ایسی صورت میں اس ہوٹل سے گوشت کھا سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ۔ فتوی جواز کا ہے مگر تقوی احتراز ہے ، (ایسا ہی فتاوی مسائل ورلڈ میں محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین رضوی مصباحی فرماتے ہیں)
وہابی کی ہوٹل میں گوشت کھانے کے بابت سوال ہو تو اپ فرماتے ہیں۔
اگر معلوم ہے کہ اس ہوٹل کا مالک سنی صحیح العقیدہ ہے اور اس کے کارندے بھی اسی طرح کے ہیں ان پر بد عقیدگی اور بدمذہبیت وغیرہ کی نشانیاں نہیں پائی جاتی ہیں تو ایسی صورت میں اس ہوٹل سے گوشت کھا سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ۔ فتوی جواز کا ہے مگر تقوی احتراز
کا ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔
(کتبـــــــــــــــہ : مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارکپور)
٢/ غیر مسلم کی ہوٹل میں سادہ کھانا کھا سکتے ہیں پر بچنا بہتر ہے اور غیر مسلم کے ہوٹل پہ بنی ہوئی مچھلی کھانا جائز ہے۔اس لئے کہ مچھلی میں ذبح شرط نہیں ،
فتاوی رضویہ میں سوال ہوا،جس شخص کے ہاتھ کا ذبح نا جائز ہے جیسے کہ ہنود، اس کے ہاتھ کی پکڑی مچھلی کھانا کیسا ہے؟ آپ علیہ الرحمہ نے جوابا ارشاد فرمایا”جائز ہے اگرچہ اسکے ہاتھ میں مر گئ یا اس نے مار ڈالی ہو کہ مچھلی میں ذبح شرط نہیں جسمیں مسلمان یا کتابی ہونا ضرور ہو۔(فتاوی رضویہ ،ج ٢٠،ص،٣٢٣،رضا فاؤنڈیشن لا ہور۔)
یاد رہے غیر مسلم کے ہوٹل میں گوشت کھانا جائز نہیں کہ ان کا ذبیحہ حرام ہے اور اگر حرام شیٔ کاملا ہونا معلوم نہ ہو تو غیر ذبیحہ کا کھانا جائز ہے مگر بچنا افضل ہے
فتاوی رضویہ میں ہے
ہندؤں کے یہاں کاگوشت حرام ہے جبتک وہ گوشت اس جانور کا نہ ہو جسے مسلمان نے ذبح کیا اور اس وقت تک مسلمان کی نظر سےغائب نہ ہوا باقی کھانے اگر ان میں وجہ حرمت نہ معلوم ہو تو حلال ہیں۔
(فتاوی رضویہ،ج،٢٣،ص،٩٦) دعوت اسلامی)
نیز فرماتے ہیں ہندو کے یہاں کا کھانا اگر گو شت ہے حرام ہے اور اسکے سوا اور چیزیں مباح ہیں، جب تک ان کی حرمت یا نجا ست تحقیق نہ ہو اور بچنا اولی ۔
وہابی اور غیر مسلم کے ہوٹل میں کھانا کھانا کیسا ہے؟
........................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا وہابی اور غیر مسلم کے ہوٹل میں کھانا کھانا کیسا ہے؟
برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد انس رضا قادری گلبرگہ شریف کرناٹکا انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
وہابیہ و دیابنہ کے بابت جب تک تیقن سے معلوم نہ ہوجائے کہ وہ کسی ضروریات دینیہ یا ضروریات اہل سنت یا معمولات اہل سنت کا منکر ہیں یا عناصر اربعہ کے عقائد کفریہ کا معتقد ہے اگر یہ معلوم ہوجائے پھر اس کے ہوٹل سے گوشت کھانا حلال نہیں ہے۔ اور سادہ کھانے سے احتراز چاہیے جبکہ دیگر سنی کا ہوٹل موجود ہو ۔
اور اگر معلوم ہے کہ اس ہوٹل کا مالک سنی صحیح العقیدہ ہے اور اس کے کارندے بھی اسی طرح کے ہیں ان پر بد عقیدگی اور بدمذہبیت وغیرہ کی نشانیاں نہیں پائی جاتی ہیں تو ایسی صورت میں اس ہوٹل سے گوشت کھا سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ۔ فتوی جواز کا ہے مگر تقوی احتراز ہے ، (ایسا ہی فتاوی مسائل ورلڈ میں محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین رضوی مصباحی فرماتے ہیں)
وہابی کی ہوٹل میں گوشت کھانے کے بابت سوال ہو تو اپ فرماتے ہیں۔
اگر معلوم ہے کہ اس ہوٹل کا مالک سنی صحیح العقیدہ ہے اور اس کے کارندے بھی اسی طرح کے ہیں ان پر بد عقیدگی اور بدمذہبیت وغیرہ کی نشانیاں نہیں پائی جاتی ہیں تو ایسی صورت میں اس ہوٹل سے گوشت کھا سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ۔ فتوی جواز کا ہے مگر تقوی احتراز
کا ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔
(کتبـــــــــــــــہ : مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارکپور)
٢/ غیر مسلم کی ہوٹل میں سادہ کھانا کھا سکتے ہیں پر بچنا بہتر ہے اور غیر مسلم کے ہوٹل پہ بنی ہوئی مچھلی کھانا جائز ہے۔اس لئے کہ مچھلی میں ذبح شرط نہیں ،
فتاوی رضویہ میں سوال ہوا،جس شخص کے ہاتھ کا ذبح نا جائز ہے جیسے کہ ہنود، اس کے ہاتھ کی پکڑی مچھلی کھانا کیسا ہے؟ آپ علیہ الرحمہ نے جوابا ارشاد فرمایا”جائز ہے اگرچہ اسکے ہاتھ میں مر گئ یا اس نے مار ڈالی ہو کہ مچھلی میں ذبح شرط نہیں جسمیں مسلمان یا کتابی ہونا ضرور ہو۔(فتاوی رضویہ ،ج ٢٠،ص،٣٢٣،رضا فاؤنڈیشن لا ہور۔)
یاد رہے غیر مسلم کے ہوٹل میں گوشت کھانا جائز نہیں کہ ان کا ذبیحہ حرام ہے اور اگر حرام شیٔ کاملا ہونا معلوم نہ ہو تو غیر ذبیحہ کا کھانا جائز ہے مگر بچنا افضل ہے
فتاوی رضویہ میں ہے
ہندؤں کے یہاں کاگوشت حرام ہے جبتک وہ گوشت اس جانور کا نہ ہو جسے مسلمان نے ذبح کیا اور اس وقت تک مسلمان کی نظر سےغائب نہ ہوا باقی کھانے اگر ان میں وجہ حرمت نہ معلوم ہو تو حلال ہیں۔
(فتاوی رضویہ،ج،٢٣،ص،٩٦) دعوت اسلامی)
نیز فرماتے ہیں ہندو کے یہاں کا کھانا اگر گو شت ہے حرام ہے اور اسکے سوا اور چیزیں مباح ہیں، جب تک ان کی حرمت یا نجا ست تحقیق نہ ہو اور بچنا اولی ۔
(فتاوی رضویہ ،ج ، ٢١،ص،٦٦٨،دعوت اسلامی )
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
30/10/2023
30/10/2023