(سوال نمبر 4845)
فاطمہ کا شوہر زید ایک حادثہ میں انتقال کر گیا ایک سال بعد فاطمہ دوسری شادی کی پھر زید واپس آگیا شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید اور فاطمہ کی شادی ہوئی اور تین ماہ تک دونوں ساتھ رہے پھر وہ لوگ کہیں جانے کی غرض سے اپنے گھر سے باہر نکلے جب وہ لوگ جا رہے تھے تو ان کے ساتھ ایک حادثہ ہوا ۔ حادثہ یہ تھا کہ ان کی گاڑی ندی میں گر گئی اور سب لوگ اس حادثے میں مارے گئے مگر فاطمہ بچ گئی سب لوگوں کی لاش ندی سے نکالی گئی مگر زید کی لاش نہیں ملی زید کی بیوی ایک سال تک اپنے شوہر کو ڈھونڈتی رہی مگر زید کا کچھ پتہ نہیں چلا پھر ایک سال کے بعد فاطمہ نے دوسری شادی کر لی جب فاطمہ کی دوسری شادی ہو گئی تو کچھ دنوں بعد زید واپس لوٹ ایا تو اب فاطمہ کو کیا کرنا چاہیے پہلے والے شوہر کے پاس یعنی زید کے پاس چلے جانا چاہیے یا جس کے ساتھ دوسری شادی کی اس کے ساتھ رہنا چاہیے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت کریں۔
سائل:- گلفام حسین رضوی مالیگاؤں، مہاراشٹرا، الھند۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت میں فاطمہ نے غلط کیا جب خود بچ گئی اور شوہر ندی میں بہ گیا اور بسیار جستجو کے بعد بھی ہاتھ نہ ایا پھر فاطمہ نکاح سے قبل اپنا کیس قاضی شرع کے پاس پیش کرتی یعنی فسخ نکاح کا دعویٰ کرتی وہ قاضی دعویٰ سن کر چار سال مدت مقرر کرتے۔
اس مدت میں شوہر کی موت وزندگی معلوم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی جب مدت گذر جاتی اور موت وزندگی کا حال معلوم نہ ہوتا تو اسی عالم کے پاس استغاثہ پیش کرتی وہ عالم اس وقت شوہر پر موت کا حکم کرےگا پھر عورت عدت وفات گذارکر جس سنی صحیح العقیدہ سے چاہے نکاح کرسکتی ہے اس سے پہلے اسکا نکاح کسی سے ہرگز جائز نہیں۔
یاد رہے یہ اس صورت میں ہے جب شوہر کی موت کا یقین نہ ہو
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ فاطمہ کا نکاح ہوا ہی نہیں اب جبکہ فاطمہ نے دوسری شادی کرلی ہے جو کہ نکاح فاسد ہے
پھر بھی شوہر اول کی بیوی ہے پہلے شوہر کے پاس جائے شوہر ثانی سے اگر ہمبستری نہیں ہوئی ہے تو شوہر اول سے جماع بھی جائز ہے اور اگر شوہر ثانی سے ہمبستری کرلی ہے ہھر عدت گزار کر شوہر اول سے جماع کرے۔
موطا امام مالک میں ہے ۔
عن سعید بن المسیب ان عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنه قال أیما إمراة فقدت زوجھا فلم تدر این ھو فإنھا تنتظر اربع سنین ثم اربعة اشھر وعشرا ثم تحل.
(موطا باب عدة التی تفتقد زوجھا وسبل السلام ج3ص207 ،208 ونیل الاوطار)
جناب سعید بن مسیب تابعی حضرت عمر بن خطاب سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جو عورت اپنے شوہر کو گم پائے اور اس کا کوئی پتہ نشان نہ ملے تو اس کو چاہیے کہ چار سال تک اس کا انتظار کرے بعد ازاں چار ماہ دس دن عدت وفات میں بیٹھے ،پھر نکاح کرالے ۔
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ ہمارے مذہب میں وہ نکاح نہیں کرسکتی جب تک شوہر کی عمر ستر سال گذر کر اس کی موت کا حکم نہ دیا جائے اس وقت وہ بعد عدت وفات نکاح کرسکے گی یہی مذہب امام احمد کا بھی ہے اور اسی طرف امام شافعی نے رجوع فرمائ ہے امام مالک نے چار سال مقرر فرماتے ہیں وہ اسکے گم ہونے کے دن سے نہیں بلکہ قاضی کے یہاں مرافعہ کے دن سے خود امام مالک نے مدونہ میں تصریح فرمائی ہے کہ مرافعہ سے پہلے اگر چہ بیس برس گذر چکے ہوں ان کا اعتبار نہیں۔
فاطمہ کا شوہر زید ایک حادثہ میں انتقال کر گیا ایک سال بعد فاطمہ دوسری شادی کی پھر زید واپس آگیا شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید اور فاطمہ کی شادی ہوئی اور تین ماہ تک دونوں ساتھ رہے پھر وہ لوگ کہیں جانے کی غرض سے اپنے گھر سے باہر نکلے جب وہ لوگ جا رہے تھے تو ان کے ساتھ ایک حادثہ ہوا ۔ حادثہ یہ تھا کہ ان کی گاڑی ندی میں گر گئی اور سب لوگ اس حادثے میں مارے گئے مگر فاطمہ بچ گئی سب لوگوں کی لاش ندی سے نکالی گئی مگر زید کی لاش نہیں ملی زید کی بیوی ایک سال تک اپنے شوہر کو ڈھونڈتی رہی مگر زید کا کچھ پتہ نہیں چلا پھر ایک سال کے بعد فاطمہ نے دوسری شادی کر لی جب فاطمہ کی دوسری شادی ہو گئی تو کچھ دنوں بعد زید واپس لوٹ ایا تو اب فاطمہ کو کیا کرنا چاہیے پہلے والے شوہر کے پاس یعنی زید کے پاس چلے جانا چاہیے یا جس کے ساتھ دوسری شادی کی اس کے ساتھ رہنا چاہیے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت کریں۔
سائل:- گلفام حسین رضوی مالیگاؤں، مہاراشٹرا، الھند۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت میں فاطمہ نے غلط کیا جب خود بچ گئی اور شوہر ندی میں بہ گیا اور بسیار جستجو کے بعد بھی ہاتھ نہ ایا پھر فاطمہ نکاح سے قبل اپنا کیس قاضی شرع کے پاس پیش کرتی یعنی فسخ نکاح کا دعویٰ کرتی وہ قاضی دعویٰ سن کر چار سال مدت مقرر کرتے۔
اس مدت میں شوہر کی موت وزندگی معلوم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی جب مدت گذر جاتی اور موت وزندگی کا حال معلوم نہ ہوتا تو اسی عالم کے پاس استغاثہ پیش کرتی وہ عالم اس وقت شوہر پر موت کا حکم کرےگا پھر عورت عدت وفات گذارکر جس سنی صحیح العقیدہ سے چاہے نکاح کرسکتی ہے اس سے پہلے اسکا نکاح کسی سے ہرگز جائز نہیں۔
یاد رہے یہ اس صورت میں ہے جب شوہر کی موت کا یقین نہ ہو
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ فاطمہ کا نکاح ہوا ہی نہیں اب جبکہ فاطمہ نے دوسری شادی کرلی ہے جو کہ نکاح فاسد ہے
پھر بھی شوہر اول کی بیوی ہے پہلے شوہر کے پاس جائے شوہر ثانی سے اگر ہمبستری نہیں ہوئی ہے تو شوہر اول سے جماع بھی جائز ہے اور اگر شوہر ثانی سے ہمبستری کرلی ہے ہھر عدت گزار کر شوہر اول سے جماع کرے۔
موطا امام مالک میں ہے ۔
عن سعید بن المسیب ان عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنه قال أیما إمراة فقدت زوجھا فلم تدر این ھو فإنھا تنتظر اربع سنین ثم اربعة اشھر وعشرا ثم تحل.
(موطا باب عدة التی تفتقد زوجھا وسبل السلام ج3ص207 ،208 ونیل الاوطار)
جناب سعید بن مسیب تابعی حضرت عمر بن خطاب سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جو عورت اپنے شوہر کو گم پائے اور اس کا کوئی پتہ نشان نہ ملے تو اس کو چاہیے کہ چار سال تک اس کا انتظار کرے بعد ازاں چار ماہ دس دن عدت وفات میں بیٹھے ،پھر نکاح کرالے ۔
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ ہمارے مذہب میں وہ نکاح نہیں کرسکتی جب تک شوہر کی عمر ستر سال گذر کر اس کی موت کا حکم نہ دیا جائے اس وقت وہ بعد عدت وفات نکاح کرسکے گی یہی مذہب امام احمد کا بھی ہے اور اسی طرف امام شافعی نے رجوع فرمائ ہے امام مالک نے چار سال مقرر فرماتے ہیں وہ اسکے گم ہونے کے دن سے نہیں بلکہ قاضی کے یہاں مرافعہ کے دن سے خود امام مالک نے مدونہ میں تصریح فرمائی ہے کہ مرافعہ سے پہلے اگر چہ بیس برس گذر چکے ہوں ان کا اعتبار نہیں۔
(فتاوی رضویہ ج 5 ۵۰۰)
اور جہاں سلطان اسلام وقاضی شرع نہ ہوں وہاں ضلع کا سب سے بڑا سنی صحیح العقیدہ عالم ہی اسکا قائم مقام ہے ۔
٢/ قاضی شرع نے فیصلہ کیا کہ چار سال کے بعد عدت وفات گزارے ہندہ نے ایسا ہی کیا پھر مفقود الزوج واپس اگئے اب مفقود الزوج کے آنے کے بعد ہندہ کا نکاح شوہر اول سے قائم اور بالیقین باقی ہے اس صورت میں شوہر ثانی کا نکاح خود بخود باطل ہوگیا اس لئے ضروری ہوگا کہ شوہر ثانی سے فی الفور الگ ہوجائے، اور اگر ہندہ کا شوہر ثانی کے ساتھ رخصتی بھی ہوگئی تھی اب شوہر اول کو اپنی بیوی سے ہمبستری اس وقت تک جائز نہیں جب تک ہندہ شوہر ثانی کی عدت پوری نہ کرلے ۔
کما فی المبسوط للسرخسی
وأما تخييره إياه بين أن يردها عليه وبين المهر فهو بناء على مذهب عمر رضي الله عنه في المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت وتزوجت ثم أتى الزوج الأول حياً أنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر، وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي رضي الله عنه، فإنه كان يقول: ترد إلى زوجها الأول، ويفرق بينها وبين الآخر، ولها المهر بما استحل من فرجها، ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر، وبهذا كان يأخذ إبراهيم رحمه الله فيقول: قول علي رضي الله عنه أحب إلي من قول عمر رضي الله عنه، وبه نأخذ أيضاً؛ لأنه تبين أنها تزوجت وهي منكوحة، ومنكوحة الغير ليست من المحللات، بل هي من المحرمات في حق سائر الناس"
(المبسوط للسرخسي ـ موافق للمطبوع (11/ 64)
والله ورسوله اعلم بالصواب
اور جہاں سلطان اسلام وقاضی شرع نہ ہوں وہاں ضلع کا سب سے بڑا سنی صحیح العقیدہ عالم ہی اسکا قائم مقام ہے ۔
٢/ قاضی شرع نے فیصلہ کیا کہ چار سال کے بعد عدت وفات گزارے ہندہ نے ایسا ہی کیا پھر مفقود الزوج واپس اگئے اب مفقود الزوج کے آنے کے بعد ہندہ کا نکاح شوہر اول سے قائم اور بالیقین باقی ہے اس صورت میں شوہر ثانی کا نکاح خود بخود باطل ہوگیا اس لئے ضروری ہوگا کہ شوہر ثانی سے فی الفور الگ ہوجائے، اور اگر ہندہ کا شوہر ثانی کے ساتھ رخصتی بھی ہوگئی تھی اب شوہر اول کو اپنی بیوی سے ہمبستری اس وقت تک جائز نہیں جب تک ہندہ شوہر ثانی کی عدت پوری نہ کرلے ۔
کما فی المبسوط للسرخسی
وأما تخييره إياه بين أن يردها عليه وبين المهر فهو بناء على مذهب عمر رضي الله عنه في المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت وتزوجت ثم أتى الزوج الأول حياً أنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر، وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي رضي الله عنه، فإنه كان يقول: ترد إلى زوجها الأول، ويفرق بينها وبين الآخر، ولها المهر بما استحل من فرجها، ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر، وبهذا كان يأخذ إبراهيم رحمه الله فيقول: قول علي رضي الله عنه أحب إلي من قول عمر رضي الله عنه، وبه نأخذ أيضاً؛ لأنه تبين أنها تزوجت وهي منكوحة، ومنكوحة الغير ليست من المحللات، بل هي من المحرمات في حق سائر الناس"
(المبسوط للسرخسي ـ موافق للمطبوع (11/ 64)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
15/10/2023
15/10/2023