(1) کیا سوال قبر سریانی زبان میں ہوگا یا عربی زبان میں یا کسی اور زبان میں۔ کی تحقیق (2) سریانی زبان میں سوال وجواب کے الفاظ۔
_________(❤️)_________
ازقلم:- شیخ طریقت رہبر راہ شریعت حضرت علامہ مولانا
مفتی محمد ثناءاللہ خان ثناء القادری المعروف بہ مفتی اعظم بہار
ناشر : -تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی
باہتمام: -دارالعلوم امجدیہ ثناء المصطفی مرپا شریف، ضلع سیتامڑھی بہار
باہتمام: -دارالعلوم امجدیہ ثناء المصطفی مرپا شریف، ضلع سیتامڑھی بہار
______________________________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
سوال نکیرین کس زبان میں ہوگا بعض کہتے ہیں کہ عربی میں ہوگا اور بعض کہتے ہیں سریانی میں ہوگا ان دونوں میں صحیح قول کون سا ہے؟
(2) اور سریانی زبان میں قبر کے سوال وجواب کے الفاظ کیا ہیں ؟
سوال نکیرین کس زبان میں ہوگا بعض کہتے ہیں کہ عربی میں ہوگا اور بعض کہتے ہیں سریانی میں ہوگا ان دونوں میں صحیح قول کون سا ہے؟
(2) اور سریانی زبان میں قبر کے سوال وجواب کے الفاظ کیا ہیں ؟
برائے کرم تحقیقی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:-محمد ریحان ممبئی انڈیا 17 اگست 2019
_________________________
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
صورت مسئولہ میں علماء کا اختلاف ہے
سوال نکیرین عربی میں ہوگا یا سریانی میں یا اپنی مادری زبان میں اس کے متعلق کوئی حدیث نہیں ہے اسی وجہ سے بعض علماء فرماتے ہیں کہ منکر نکیر کا سوال اور میت کا جواب عربی میں ہوگا اور بعض علمائے کرام جیسے شیخ الاسلام صالح بلقینی رضی اللہ تعالیٰ عنہ و حضرت سیدی عبد العزیز دباغ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدی سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ سوال نکیرین سریانی زبان میں ہوگا اور سرکار سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ نے شیخ عبد العزیز دباغ قدس سرہ کے قول پر فتویٰ دیا جیسا کہ الملفوظ میں ہے۔اور حضور فقیہ الہند شارح بخاری حضور مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا قادری بریلی شریف قدس سرہ کے اسی قول کو نقل فرماکر ترجیح دی
سوال نکیرین کس زبان میں ہوگا اس کے متعلق علمائے کرام کے تین اقوال ہیں
(1) پہلا قول یہ ہے کہ عربی زبان میں ہوگا.
(2) دوسرا قول یہ ہے کہ ہر میت سے ان کی اپنی زبان میں سوال نکیرین ہوگا
(3) تیسرا قول یہ ہے کہ سوال نکیرین سریانی زبان میں ہوگا
(4) اور حال ہی میں ایک قول یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ منکر نکیر کا سوال عربی میں ہوگا یا سریانی میں تو یہ مرنے کے بعد معلوم ہوگا ۔
فتاوی مرکز تربیت افتاء میں ہے کہ رہی بات کہ منکر نکیر کا سوال عربی میں ہوگا یا سریانی میں تو یہ مرنے کے بعد معلوم ہوگا۔
سائل:-محمد ریحان ممبئی انڈیا 17 اگست 2019
_________________________
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
صورت مسئولہ میں علماء کا اختلاف ہے
سوال نکیرین عربی میں ہوگا یا سریانی میں یا اپنی مادری زبان میں اس کے متعلق کوئی حدیث نہیں ہے اسی وجہ سے بعض علماء فرماتے ہیں کہ منکر نکیر کا سوال اور میت کا جواب عربی میں ہوگا اور بعض علمائے کرام جیسے شیخ الاسلام صالح بلقینی رضی اللہ تعالیٰ عنہ و حضرت سیدی عبد العزیز دباغ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدی سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ سوال نکیرین سریانی زبان میں ہوگا اور سرکار سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ نے شیخ عبد العزیز دباغ قدس سرہ کے قول پر فتویٰ دیا جیسا کہ الملفوظ میں ہے۔اور حضور فقیہ الہند شارح بخاری حضور مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا قادری بریلی شریف قدس سرہ کے اسی قول کو نقل فرماکر ترجیح دی
سوال نکیرین کس زبان میں ہوگا اس کے متعلق علمائے کرام کے تین اقوال ہیں
(1) پہلا قول یہ ہے کہ عربی زبان میں ہوگا.
(2) دوسرا قول یہ ہے کہ ہر میت سے ان کی اپنی زبان میں سوال نکیرین ہوگا
(3) تیسرا قول یہ ہے کہ سوال نکیرین سریانی زبان میں ہوگا
(4) اور حال ہی میں ایک قول یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ منکر نکیر کا سوال عربی میں ہوگا یا سریانی میں تو یہ مرنے کے بعد معلوم ہوگا ۔
فتاوی مرکز تربیت افتاء میں ہے کہ رہی بات کہ منکر نکیر کا سوال عربی میں ہوگا یا سریانی میں تو یہ مرنے کے بعد معلوم ہوگا۔
(فتاوی مرکز تربیت افتاء جلد اول ص 353 کتبہ محمد محسن المصباحی)
(1) پہلا قول کہ سوال نکیرین عربی زبان میں ہوگا اس کے دلائل حسب ذیل ہیں
(1) حضرت شیخ شہاب الدین بن حجر ہیتمی مکی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی حدیثیہ میں تحریر فرماتے ہیں:
والحاصل الاخذ بظاہر الاحادیث ھو ان السوال لسائر الناس بالعربیۃ یعنی ظاہر حدیث سے جو اخذ کیا گیا اس کا حاصل یہ ہے کہ تمام لوگوں سے عربی زبان میں سوال ہوگا ۔
(1) پہلا قول کہ سوال نکیرین عربی زبان میں ہوگا اس کے دلائل حسب ذیل ہیں
(1) حضرت شیخ شہاب الدین بن حجر ہیتمی مکی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی حدیثیہ میں تحریر فرماتے ہیں:
والحاصل الاخذ بظاہر الاحادیث ھو ان السوال لسائر الناس بالعربیۃ یعنی ظاہر حدیث سے جو اخذ کیا گیا اس کا حاصل یہ ہے کہ تمام لوگوں سے عربی زبان میں سوال ہوگا ۔
(فتاوی حدیثیہ ص 11)
(2) حضور حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
(1) سوالات قبر عربی میں ہی ہوتے ہیں
(2) تمام جنتیوں کی زبان عربی ہوگی۔
(3) قیامت میں سب لوگ اپنے نامہ اعمال پڑھ لیں گے جو عربی میں ہوں گے
(اسرارِ الاحکام بانوار القرآن ص 107)
(2) دوسرا قول کہ میت کی اپنی زبان میں سوال نکرین ہوتے ہیں اس کے دلائل حسب ذیل ہیں
کتاب ابریز میں ہے کہ علامہ ابن حجر سے اس کے متعلق سوال کیا گیا جو ہوتا ہے کہ قبر میں سوال و جواب عربی زبان میں ہوگا مگر اس کے باوجود ہو سکتا ہے کہ ہر شخص سے خطاب اس کی اپنی زبان میں ہو اور یہ بات معقول بھی ہے
( کتا الابریز شریف مترجم ص 288)
اس قول سے معلوم ہوا کہ حدیث کے ظاہری الفاظ اس بات کی دلیل ہے کہ سوال نکرین عربی زبان میں ہوگا اور یہی مشہور بھی ہے اور دوسری بات معلوم ہوئی کہ ہوسکتا ہے ہر میت سے اس کی اپنی زبان میں سوال نکرین ہوتے ہوں اور میت بھی اپنی زبان میں جواب دیتے ہوں گے۔ واللہ اعلم باالصواب
(3) تیسرا قول کہ سوال نکرین سریانی زبان میں ہوتا ہے ان کے دلائل حسب ذیل ہیں۔
(1) حضرت شیخ عبد العزیز دباغ قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ سوال قبر سریانی زبان میں ہوگا ( کتاب الابریز ص 288)
(2) سیدی سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت حضور مجدد اعظم سیدنا امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری بریلی قدس سے ایک سوال ہوا
*عرض ۔۔ عربی زبان مرنے کے وقت سے ہوجاتی ہے؟
۔۔۔ ارشاد اس کی بابت تو کچھ حدیث میں ارشاد نہیں ہوا ۔ حضرت سیدی عبد العزیز دباغ رضی اللہ عنہ صاحب کتاب الابریز کے شیخ فرماتے ہیں منکر نکیر کا سوال سریانی میں ہوگا اور کچھ لفظ بھی بتائے ہیں۔
(2) حضور حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
(1) سوالات قبر عربی میں ہی ہوتے ہیں
(2) تمام جنتیوں کی زبان عربی ہوگی۔
(3) قیامت میں سب لوگ اپنے نامہ اعمال پڑھ لیں گے جو عربی میں ہوں گے
(اسرارِ الاحکام بانوار القرآن ص 107)
(2) دوسرا قول کہ میت کی اپنی زبان میں سوال نکرین ہوتے ہیں اس کے دلائل حسب ذیل ہیں
کتاب ابریز میں ہے کہ علامہ ابن حجر سے اس کے متعلق سوال کیا گیا جو ہوتا ہے کہ قبر میں سوال و جواب عربی زبان میں ہوگا مگر اس کے باوجود ہو سکتا ہے کہ ہر شخص سے خطاب اس کی اپنی زبان میں ہو اور یہ بات معقول بھی ہے
( کتا الابریز شریف مترجم ص 288)
اس قول سے معلوم ہوا کہ حدیث کے ظاہری الفاظ اس بات کی دلیل ہے کہ سوال نکرین عربی زبان میں ہوگا اور یہی مشہور بھی ہے اور دوسری بات معلوم ہوئی کہ ہوسکتا ہے ہر میت سے اس کی اپنی زبان میں سوال نکرین ہوتے ہوں اور میت بھی اپنی زبان میں جواب دیتے ہوں گے۔ واللہ اعلم باالصواب
(3) تیسرا قول کہ سوال نکرین سریانی زبان میں ہوتا ہے ان کے دلائل حسب ذیل ہیں۔
(1) حضرت شیخ عبد العزیز دباغ قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ سوال قبر سریانی زبان میں ہوگا ( کتاب الابریز ص 288)
(2) سیدی سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت حضور مجدد اعظم سیدنا امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری بریلی قدس سے ایک سوال ہوا
*عرض ۔۔ عربی زبان مرنے کے وقت سے ہوجاتی ہے؟
۔۔۔ ارشاد اس کی بابت تو کچھ حدیث میں ارشاد نہیں ہوا ۔ حضرت سیدی عبد العزیز دباغ رضی اللہ عنہ صاحب کتاب الابریز کے شیخ فرماتے ہیں منکر نکیر کا سوال سریانی میں ہوگا اور کچھ لفظ بھی بتائے ہیں۔
(الملفوظات سیدی اعلی حضرت مصنف سرکار مفتی اعظم ہند قدس سرہ ہیں ج 4 ص 12)
اس سے صاف طور سے واضح ہوا کہ حدیث شریف میں اس کی بابت کچھ ذکر نہیں ہے کہ میت سے سوال نکیرین کس زبان میں ہوگا؟ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر میت سے سوال نکرین نہ عربی میں ہوگا اور نہ اس کی اپنی زبان میں بلکہ سریانی زبان میں ہوگا ہر میت کو اس کا علم ہوجائے گا رب قدیر کی قدرت سے کوئی چیز ناممکن نہیں ہے کہ سب میت سریانی زبان میں جواب دیں ۔
(3) سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اول جو آدم علیہ السلام نے بات کی تو سریانی زبان میں بات کی اور قیامت کے دن لوگوں سے حساب و کتاب بھی سریانی زبان میں کیا جائے گا
ہاں جس وقت جنت میں داخل ہوجائیں گے تو سیدنا محمد ﷺ کی زبان یعنی عربی میں باتیں کریں گے۔
اس سے صاف طور سے واضح ہوا کہ حدیث شریف میں اس کی بابت کچھ ذکر نہیں ہے کہ میت سے سوال نکیرین کس زبان میں ہوگا؟ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر میت سے سوال نکرین نہ عربی میں ہوگا اور نہ اس کی اپنی زبان میں بلکہ سریانی زبان میں ہوگا ہر میت کو اس کا علم ہوجائے گا رب قدیر کی قدرت سے کوئی چیز ناممکن نہیں ہے کہ سب میت سریانی زبان میں جواب دیں ۔
(3) سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اول جو آدم علیہ السلام نے بات کی تو سریانی زبان میں بات کی اور قیامت کے دن لوگوں سے حساب و کتاب بھی سریانی زبان میں کیا جائے گا
ہاں جس وقت جنت میں داخل ہوجائیں گے تو سیدنا محمد ﷺ کی زبان یعنی عربی میں باتیں کریں گے۔
( کتاب فیوض یزدانی ملفوظات غوث اعظم قدس سرہ العزیز صفحہ 437)
اس ملفوظات سرکار غوث اعظم سیدنا امام محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے واضح بیان معلوم ہوا کہ قیامت میں لوگوں کا حساب کتاب سریانی زبان میں ہوگا اور جنت میں عربی زبان ہوگی
اقول راقم الحروف:-
امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال نکرین کے متعلق ان تینوں اقوال میں سے نہ عربی زبان اورنہ میت کی اپنی زبان کا ذکر فرمایا بلکہ سریانی زبان کاقول اختیار فرمایا یہ اس بات پر دلالت ہے کہ سوال نکرین سریانی زبان میں ہوگا۔ چونکہ آپ امام اہل سنت ہیں آپ مجدد اعظم ہیں آپ محقق اعظم ہیں آپ کا ہر قول جامع اورتحقیقی ہوتا ہے آپ نے پوری زندگی میں ایک بار جو موقف لیا بہت تحقیق کے بعد لیا اس لئے کسی ایک بھی قول و تحقیق میں رجوع کرنے کا موقع نہیں ملا کیسے ملتا کہ آپ شیخ الاسلام والمسلمین ہیں اور آپ نے اس قول کو امام الکشف شیخ عبدالعزیز دباغ رحمۃ اللہ علیہ کے قول سے نقل فرمایا اور اپنے فتویٰ میں ثابت و برقرار رکھا ۔
(4) . علامہ احمد بن مبارک سلجماسی علیہ الرحمتہ والرضوان صاحب کتاب الابریز نے اپنے شیخ غوث وقت شیخ عبد العزیز دباغ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا؟
۔کیا سوال قبر سریانی زبان میں ہوگا یا کسی اور زبان میں ہوگا ؟
اس لئیے کہ حافظ السیوطی اپنے منظومہ میں فرماتے ہیں
و من غریبٍ ما تری العینان ۔۔۔۔ان سوال القبر با لسریان
(یعنی عجیب بات ہے کہ سوال قبر سریانی زبان میں ہوگا) اس کے شارح کہتا ہے کہ ناظم نے اپنی کتاب شرح الصدور باحوال الموتی والقبور میں شیخ الاسلام علم الدین البلقینی کے فتاوی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ میت سوالات کا جواب سریانی زبان میں دے گی
ناظم کا بیان ہے کہ مگر مجھے اس کی سند کہیں نہیں ملی
( اقول:- راقم الحروف اس قول کی تائید میں فتاوی تربیت افتاء سے اس کا جزیہ نقل کرتا ہے کہ شیخ الاسلام صالح بلقینی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد علامہ جلال الدین سیوطی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے ان کے علاؤہ کسی کو اس کا قائل نہ دیکھا جیسا کہ حضرت شیخ شہاب الدین بن حجر ہیثمی مکی رحمۃ اللہ علیہ اسے تفصیل سے فتاوی حدیثیہ میں تحریر فرماتے ہیں
ثم رایت شیخ الاسلام صالحا البلقینی افتی بان السوال فی القبر بالسریانی لکل میت و لعلہ اخذہ من الحدیث الذی ذکرتہ لکنک قد علمت مما قررتہ فیہ انہ لا دلالۃ فی الحدیث ومن ثم قال تلمیذہ الجلال السیوطی لم ار ذلک لغیرہ یعنی میں نے شیخ الاسلام صالح بلقینی کو دیکھا کہ انہوں نے تمام مردوں سے سریانی زبان میں سوال ہونے کا فتویٰ دیا اور شاید انہوں نے اسی حدیث سے اخذ کیا جو میں نے ذکر کی ۔لیکن آپ جانتے ہیں جو میں نے اس کے تعلق سے ثابت کیا کہ حدیث میں اس کی دلالت نہیں ہے اور اسی وجہ سے ان کے شاگرد جلال الدین سیوطی نے فرمایا میں نے ان کے علاؤہ کسی کو اس کا قائل نہ دیکھا۔(فتاوی تربیت افتاء جلد اول ص 353 بحوالہ فتاوی حدیثیہ ص 11)
اس ملفوظات سرکار غوث اعظم سیدنا امام محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے واضح بیان معلوم ہوا کہ قیامت میں لوگوں کا حساب کتاب سریانی زبان میں ہوگا اور جنت میں عربی زبان ہوگی
اقول راقم الحروف:-
امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال نکرین کے متعلق ان تینوں اقوال میں سے نہ عربی زبان اورنہ میت کی اپنی زبان کا ذکر فرمایا بلکہ سریانی زبان کاقول اختیار فرمایا یہ اس بات پر دلالت ہے کہ سوال نکرین سریانی زبان میں ہوگا۔ چونکہ آپ امام اہل سنت ہیں آپ مجدد اعظم ہیں آپ محقق اعظم ہیں آپ کا ہر قول جامع اورتحقیقی ہوتا ہے آپ نے پوری زندگی میں ایک بار جو موقف لیا بہت تحقیق کے بعد لیا اس لئے کسی ایک بھی قول و تحقیق میں رجوع کرنے کا موقع نہیں ملا کیسے ملتا کہ آپ شیخ الاسلام والمسلمین ہیں اور آپ نے اس قول کو امام الکشف شیخ عبدالعزیز دباغ رحمۃ اللہ علیہ کے قول سے نقل فرمایا اور اپنے فتویٰ میں ثابت و برقرار رکھا ۔
(4) . علامہ احمد بن مبارک سلجماسی علیہ الرحمتہ والرضوان صاحب کتاب الابریز نے اپنے شیخ غوث وقت شیخ عبد العزیز دباغ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا؟
۔کیا سوال قبر سریانی زبان میں ہوگا یا کسی اور زبان میں ہوگا ؟
اس لئیے کہ حافظ السیوطی اپنے منظومہ میں فرماتے ہیں
و من غریبٍ ما تری العینان ۔۔۔۔ان سوال القبر با لسریان
(یعنی عجیب بات ہے کہ سوال قبر سریانی زبان میں ہوگا) اس کے شارح کہتا ہے کہ ناظم نے اپنی کتاب شرح الصدور باحوال الموتی والقبور میں شیخ الاسلام علم الدین البلقینی کے فتاوی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ میت سوالات کا جواب سریانی زبان میں دے گی
ناظم کا بیان ہے کہ مگر مجھے اس کی سند کہیں نہیں ملی
( اقول:- راقم الحروف اس قول کی تائید میں فتاوی تربیت افتاء سے اس کا جزیہ نقل کرتا ہے کہ شیخ الاسلام صالح بلقینی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد علامہ جلال الدین سیوطی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے ان کے علاؤہ کسی کو اس کا قائل نہ دیکھا جیسا کہ حضرت شیخ شہاب الدین بن حجر ہیثمی مکی رحمۃ اللہ علیہ اسے تفصیل سے فتاوی حدیثیہ میں تحریر فرماتے ہیں
ثم رایت شیخ الاسلام صالحا البلقینی افتی بان السوال فی القبر بالسریانی لکل میت و لعلہ اخذہ من الحدیث الذی ذکرتہ لکنک قد علمت مما قررتہ فیہ انہ لا دلالۃ فی الحدیث ومن ثم قال تلمیذہ الجلال السیوطی لم ار ذلک لغیرہ یعنی میں نے شیخ الاسلام صالح بلقینی کو دیکھا کہ انہوں نے تمام مردوں سے سریانی زبان میں سوال ہونے کا فتویٰ دیا اور شاید انہوں نے اسی حدیث سے اخذ کیا جو میں نے ذکر کی ۔لیکن آپ جانتے ہیں جو میں نے اس کے تعلق سے ثابت کیا کہ حدیث میں اس کی دلالت نہیں ہے اور اسی وجہ سے ان کے شاگرد جلال الدین سیوطی نے فرمایا میں نے ان کے علاؤہ کسی کو اس کا قائل نہ دیکھا۔(فتاوی تربیت افتاء جلد اول ص 353 بحوالہ فتاوی حدیثیہ ص 11)
۔اس پر شیخ عبد العزیز دباغ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا سوال قبر سریانی زبان میں ہوگا۔ (کتاب الابریز ص 288)
پھر شیخ عبد العزیز دباغ قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ سوال قبر سریانی زبان میں ہوگا کیونکہ یہ زبان فرشتوں اور ارواح کی زبان ہے اور سوال کرنے والے فرشتے بھی انہی میں سے ہیں ۔پھر فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی ولی کو فتح کبیر ( یعنی مرتبہ غوثیت) عطا کرتا ہے تو وہ کسی سے سیکھے بغیر ہی اس زبان میں گفتگو کرسکتا ہے کیونکہ اس پر روح کا حکم غالب ہوتا ہے پھر مردے کا تو کیا پوچھنا لہذا اس کو سریانی میں بات کرنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے گی
(کتاب الابریز ص 288)
سوال
(الف) سریانی زبان میں کون الفاظ سے سوال نکرین ہوگا اس کا علم ہم لوگوں کو نہیں ہے؟
(ب) سرکار اعلی حضرت امام اہل سنت نے الملفوظ میں فرمایا کہ شیخ نے کچھ الفاظ بھی بتائے ہیں لھذا سریانی زبان کے کون الفاظ ہیں ملاحظہ فرمائیں؟
الجواب
۔۔ شیخ عبد العزیز دباغ رضی اللہ عنہ نے فرمایا منکر نکیر سریانی زبان میں میت کو (مرازھو) کہیں گے اس کا تلفظ یوں ہے
۔۔ مرازھو کہیں گے اس لفظ کا تلفظ یوں فرمایا : اول میم مفتوحہ پھر را ء مفتوحہ پھر الف پھر زاء ساکن اور آخر میں مضمومہ کے ساتھ واؤ خفیف سکون لیے ہوئے اور دل چاہے : ھ: پر وقف کرلو اور اس کے بعد ذرا کھینچوں کہ ہلکی سی واؤ پیدا ہو جائے
اس لفظ" مرازہو" کے متعلق فرمایا کہ سریانی زبان کا طریقہ ہے کہ بعض معانی کے لئے صرف ارادے پر اکتفا کی جاتی ہے اور ان کے لئے کوئی الفاظ وضع نہیں کئے جاتے ۔مثلا قسم ۔استفہام ۔و تمنی وغیرہ ۔چنانچہ یہاں استفہام مراد ہے حالانکہ اس پر دلالت کرنے والا کوئی حرف نہیں کیونکہ سوال کا قرینہ موجود ہے گویا یوں پوچھا گیا کہ تمام کائنات ۔انبیاء ۔ملائکہ ۔کتب سماویہ ۔جنت ۔تمام خیر و شر یعنی ہر شئی۔ کا خالق و مالک اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے یا۔کوئی اور ؟ ( یعنی تیرا رب کون ہے )
اس کے بعد شیخ نے فرمایا اگر میت مومن ہوگی تو وہ جواب میں۔
مرادأز یرھو کہے گی
اور اسے یوں ضبط کیا
مراد زیر ھو ۔۔۔یعنی میم مفتوح پھر ۔۔راء ۔۔مفتوح ۔پھر الف ۔۔۔ساکن پھر ۔۔دال ۔۔۔۔ ساکن, دال کے بعد ہمزہ ۔۔۔مفتوح پھر ۔۔زاء ٕٕ مکسور پھر ۔۔یاء ۔۔ساکن اور یا کے بعد ۔۔ رإ ء۔۔۔ساکن پھر ۔۔۔ھو ۔۔مضموم جس کے ساتھ ہلکے سے سکون والی ۔۔واؤ ۔۔ہے
اور ان حروف کے معانی یہ ہیں کہ پہلے حرف کا اشارہ جیسا کہ بیان کیا جا چکا تمام کائنات اور مخلوقات کی طرف ہے دوسرے حرف کا اشارہ نور محمدی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم اور ان کے تمام انوار کی طرف ہے جو آپ سے نکلے مثلا انوار ملائکہ ۔انوار انبیاء ۔مرسلین ۔انوار لوح و قلم اورنور برزخ گویا کہ میت جواب میں کہہ رہی ہے کہ ہاں سیدنا محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم برحق ہیں ۔تمام انبیاء برحق ہیں ۔تمام فرشتے برحق ہیں ان میں سے کسی میں بھی شک نہیں اور تمام وہ چیز برحق ہیں جو حرف سابق میں داخل ۔اور :ھو : جس میں ضمہ کے کھینچنے سے واؤ پیدا ہوگئی ہے اشارہ ہے ذات علیہ کی طرف بایں لحاظ کہ وہ خالق ہے ۔مالک ہے ۔متصرف ہے ۔قاہر ہے ۔پس حاصل جواب یہ ہوا کہ تمام کائنات کا سب کا پیدا کرنے والا اور مختار کل رب قدیر وہی اللہ سبحانہ وتعالی ہے جو ایک ہے جس کا کوئی مخالف اور نہ شریک ہے اور نہ کوئی اس کے حکم کو ٹالنے والا ہے ( یعنی من ربک ۔مادینک ۔ماتقول فی ھذا الرجل کے متعلق اسی طرف اشارہ ہے یعنی اس کا یہی معنی ہے )
پھر شیخ فرماتے ہیں کہ جب مردہ یہ صحیح۔جواب دے دیتا ہے
۔تو فرشتہ اس میت سے کہتے ہیں کہ ناصر
جس کا تلفظ یوں ہے ک ناصر بنون مفتوحہ
جس کے بعد الف ہے اور الف کے بعد ۔۔ص ۔ مکسورہ ہے اور ص کے بعد رإء ۔۔۔ساکن ہے
اور اس کا معنی و مفہوم حدیث نبوی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ان الفاظ کے قریب ہے
نم صالحا قد علمنا ان کنت لموقنا
یعنی اچھا اب آرام سے سوجاؤ ہمیں معلوم تھا کہ صاحب یقین و ایمان ہو
( کتاب الابریز اردو ترجمعہ ص 289 سے 290 )
اقول
سوال نکیرین میں تینوں اقوال اپنی دلائل پر ہیں اور حدیث پاک کے ظاہری الفاظ لیتے ہوۓ یہی بات درست ہے کہ سوال نکیرین عربی زبان میں ہوتا ہوگا۔ لیکن تیسرے قول کی دلیل اس لیے قوی ہے کہ اس قول کو امام اہل سنت حضور سیدنا امام احمد رضا قادری بریلی شریف قدس سرہ نے اپنے جواب میں ثابت رکھا اور مزید ملفوظات اعلی حضرت عظیم البرکت کے مصنف سرکار مفتی اعظم ہند قدس سرہ ہیں آپ مظہر غوث اعظم ہیں آپ متقیوں کے سردار ہیں اس دور میں آپ کے تقوی کا کوئی ثانی نہیں ہے اگر یہ قول پختہ نہ ہوتا تو ضرور آپ کچھ نہ کچھ حاشیہ میں تحریر فرماتے لیکن سرکار مفتی اعظم ہند قدس سرہ نے بھی اسے قبول فرمایا اور برقرار رکھا
(1)مجدد اعظم قدس سرہ
(2) مفتی اعظم قدس سرہ
(3) اور امام الکشف شیخ عبد العزیز دباغ قدس سرہ
(4) شیخ الاسلام صالح بلقینی رضی اللہ عنہ
(5) فقیہ الہند شارح بخاری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ
ان مشائخ کرام کا موقف ہے کہ سوال نکرین سریانی میں ہوتا ہے لیکن علامہ جلال الدین سیوطی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی سند نہیں ملی اور شیخ الاسلام صالح بلقینی قدس سرہ کے علاؤہ اس کا کوئی قائل نہیں ہے
لیکن سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ بھی سریانی زبان پر فتویٰ دیا یہ اس بات پر دلالت ہے کہ سوال نکرین سریانی زبان میں ہوتا ہے۔
سوال ۔سوال نکرین کس زبان میں ہوگا اس میں اختلاف کی وجہ کیا ہے کہ بعض نے عربی کا قول نقل کیا اور بعض نے سریانی کا قول نقل کیا ہے؟
الجواب
۔ چونکہ اس بات پر کوئی حدیث قطعی موجود نہیں ہے اور اس کے متعلق حضور ﷺ نے کچھ بھی نہیں فرمایا
1...۔جو حضرات عربی زبان کے قائل ہیں ان کی دلیل حدیث شریف کے ظاہری الفاظ ہیں چونکہ عربی میں
1 من ربک
2 مادینک
3 ما تقول فی ھذا الرجل
مذکور ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سوال نکرین عربی میں ہوتا ہے اور عام طور سے یہی مشہور و معروف ہے ظاہر حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ تمام لوگوں سے عربی زبان میں سوال قبر ہوتا ہے اور ملا قاری مرقاۃ میں فرماتے ہیں کہ سوال نکرین عربی میں ہوتا ہے
عربی زبان
عربی زبان بھی حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے ہے
۔وہ جنت میں عربی بولتے تھے ۔زمین پر تشریف لانے کے بعد سریانی بولنے لگے ۔پھر قبول توبہ کے بعد عربی بولنے لگے ۔سفیان نے فرمایا ۔ہر وحی آسمانی عربی میں ہی نازل ہوتی تھی ۔انبیاء کرام قوم کی زبان میں اس کا ترجمہ فرمادیا کرتے ھے ۔
لیکن عام طور پر یہی مشہور ہے کہ عربی زبان ۔حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ظاہر ہوئی ۔انہوں نے جرہم سے سیکھی تھی اس لئے ان کی اولاد کو مستعربہ کہا جاتا ہے ۔اسی سے معلوم ہوا کہ بنی جرہم میں یہ زبان پہلے سے رائج تھی ۔اسی لئے بنی جرہم کو :عاربہ: کہا جاتا ہے اس روایت کی بنا پر حضرت اسماعیل کو اس زبان کا موجد نہیں کہا جاسکتا ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ عربی زبان کو جو بقا حاصل ہے ۔یہ حضرت اسماعیل کی رہین منت ہے۔
پھر شیخ عبد العزیز دباغ قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ سوال قبر سریانی زبان میں ہوگا کیونکہ یہ زبان فرشتوں اور ارواح کی زبان ہے اور سوال کرنے والے فرشتے بھی انہی میں سے ہیں ۔پھر فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی ولی کو فتح کبیر ( یعنی مرتبہ غوثیت) عطا کرتا ہے تو وہ کسی سے سیکھے بغیر ہی اس زبان میں گفتگو کرسکتا ہے کیونکہ اس پر روح کا حکم غالب ہوتا ہے پھر مردے کا تو کیا پوچھنا لہذا اس کو سریانی میں بات کرنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے گی
(کتاب الابریز ص 288)
سوال
(الف) سریانی زبان میں کون الفاظ سے سوال نکرین ہوگا اس کا علم ہم لوگوں کو نہیں ہے؟
(ب) سرکار اعلی حضرت امام اہل سنت نے الملفوظ میں فرمایا کہ شیخ نے کچھ الفاظ بھی بتائے ہیں لھذا سریانی زبان کے کون الفاظ ہیں ملاحظہ فرمائیں؟
الجواب
۔۔ شیخ عبد العزیز دباغ رضی اللہ عنہ نے فرمایا منکر نکیر سریانی زبان میں میت کو (مرازھو) کہیں گے اس کا تلفظ یوں ہے
۔۔ مرازھو کہیں گے اس لفظ کا تلفظ یوں فرمایا : اول میم مفتوحہ پھر را ء مفتوحہ پھر الف پھر زاء ساکن اور آخر میں مضمومہ کے ساتھ واؤ خفیف سکون لیے ہوئے اور دل چاہے : ھ: پر وقف کرلو اور اس کے بعد ذرا کھینچوں کہ ہلکی سی واؤ پیدا ہو جائے
اس لفظ" مرازہو" کے متعلق فرمایا کہ سریانی زبان کا طریقہ ہے کہ بعض معانی کے لئے صرف ارادے پر اکتفا کی جاتی ہے اور ان کے لئے کوئی الفاظ وضع نہیں کئے جاتے ۔مثلا قسم ۔استفہام ۔و تمنی وغیرہ ۔چنانچہ یہاں استفہام مراد ہے حالانکہ اس پر دلالت کرنے والا کوئی حرف نہیں کیونکہ سوال کا قرینہ موجود ہے گویا یوں پوچھا گیا کہ تمام کائنات ۔انبیاء ۔ملائکہ ۔کتب سماویہ ۔جنت ۔تمام خیر و شر یعنی ہر شئی۔ کا خالق و مالک اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے یا۔کوئی اور ؟ ( یعنی تیرا رب کون ہے )
اس کے بعد شیخ نے فرمایا اگر میت مومن ہوگی تو وہ جواب میں۔
مرادأز یرھو کہے گی
اور اسے یوں ضبط کیا
مراد زیر ھو ۔۔۔یعنی میم مفتوح پھر ۔۔راء ۔۔مفتوح ۔پھر الف ۔۔۔ساکن پھر ۔۔دال ۔۔۔۔ ساکن, دال کے بعد ہمزہ ۔۔۔مفتوح پھر ۔۔زاء ٕٕ مکسور پھر ۔۔یاء ۔۔ساکن اور یا کے بعد ۔۔ رإ ء۔۔۔ساکن پھر ۔۔۔ھو ۔۔مضموم جس کے ساتھ ہلکے سے سکون والی ۔۔واؤ ۔۔ہے
اور ان حروف کے معانی یہ ہیں کہ پہلے حرف کا اشارہ جیسا کہ بیان کیا جا چکا تمام کائنات اور مخلوقات کی طرف ہے دوسرے حرف کا اشارہ نور محمدی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم اور ان کے تمام انوار کی طرف ہے جو آپ سے نکلے مثلا انوار ملائکہ ۔انوار انبیاء ۔مرسلین ۔انوار لوح و قلم اورنور برزخ گویا کہ میت جواب میں کہہ رہی ہے کہ ہاں سیدنا محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم برحق ہیں ۔تمام انبیاء برحق ہیں ۔تمام فرشتے برحق ہیں ان میں سے کسی میں بھی شک نہیں اور تمام وہ چیز برحق ہیں جو حرف سابق میں داخل ۔اور :ھو : جس میں ضمہ کے کھینچنے سے واؤ پیدا ہوگئی ہے اشارہ ہے ذات علیہ کی طرف بایں لحاظ کہ وہ خالق ہے ۔مالک ہے ۔متصرف ہے ۔قاہر ہے ۔پس حاصل جواب یہ ہوا کہ تمام کائنات کا سب کا پیدا کرنے والا اور مختار کل رب قدیر وہی اللہ سبحانہ وتعالی ہے جو ایک ہے جس کا کوئی مخالف اور نہ شریک ہے اور نہ کوئی اس کے حکم کو ٹالنے والا ہے ( یعنی من ربک ۔مادینک ۔ماتقول فی ھذا الرجل کے متعلق اسی طرف اشارہ ہے یعنی اس کا یہی معنی ہے )
پھر شیخ فرماتے ہیں کہ جب مردہ یہ صحیح۔جواب دے دیتا ہے
۔تو فرشتہ اس میت سے کہتے ہیں کہ ناصر
جس کا تلفظ یوں ہے ک ناصر بنون مفتوحہ
جس کے بعد الف ہے اور الف کے بعد ۔۔ص ۔ مکسورہ ہے اور ص کے بعد رإء ۔۔۔ساکن ہے
اور اس کا معنی و مفہوم حدیث نبوی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ان الفاظ کے قریب ہے
نم صالحا قد علمنا ان کنت لموقنا
یعنی اچھا اب آرام سے سوجاؤ ہمیں معلوم تھا کہ صاحب یقین و ایمان ہو
( کتاب الابریز اردو ترجمعہ ص 289 سے 290 )
اقول
سوال نکیرین میں تینوں اقوال اپنی دلائل پر ہیں اور حدیث پاک کے ظاہری الفاظ لیتے ہوۓ یہی بات درست ہے کہ سوال نکیرین عربی زبان میں ہوتا ہوگا۔ لیکن تیسرے قول کی دلیل اس لیے قوی ہے کہ اس قول کو امام اہل سنت حضور سیدنا امام احمد رضا قادری بریلی شریف قدس سرہ نے اپنے جواب میں ثابت رکھا اور مزید ملفوظات اعلی حضرت عظیم البرکت کے مصنف سرکار مفتی اعظم ہند قدس سرہ ہیں آپ مظہر غوث اعظم ہیں آپ متقیوں کے سردار ہیں اس دور میں آپ کے تقوی کا کوئی ثانی نہیں ہے اگر یہ قول پختہ نہ ہوتا تو ضرور آپ کچھ نہ کچھ حاشیہ میں تحریر فرماتے لیکن سرکار مفتی اعظم ہند قدس سرہ نے بھی اسے قبول فرمایا اور برقرار رکھا
(1)مجدد اعظم قدس سرہ
(2) مفتی اعظم قدس سرہ
(3) اور امام الکشف شیخ عبد العزیز دباغ قدس سرہ
(4) شیخ الاسلام صالح بلقینی رضی اللہ عنہ
(5) فقیہ الہند شارح بخاری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ
ان مشائخ کرام کا موقف ہے کہ سوال نکرین سریانی میں ہوتا ہے لیکن علامہ جلال الدین سیوطی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی سند نہیں ملی اور شیخ الاسلام صالح بلقینی قدس سرہ کے علاؤہ اس کا کوئی قائل نہیں ہے
لیکن سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ بھی سریانی زبان پر فتویٰ دیا یہ اس بات پر دلالت ہے کہ سوال نکرین سریانی زبان میں ہوتا ہے۔
سوال ۔سوال نکرین کس زبان میں ہوگا اس میں اختلاف کی وجہ کیا ہے کہ بعض نے عربی کا قول نقل کیا اور بعض نے سریانی کا قول نقل کیا ہے؟
الجواب
۔ چونکہ اس بات پر کوئی حدیث قطعی موجود نہیں ہے اور اس کے متعلق حضور ﷺ نے کچھ بھی نہیں فرمایا
1...۔جو حضرات عربی زبان کے قائل ہیں ان کی دلیل حدیث شریف کے ظاہری الفاظ ہیں چونکہ عربی میں
1 من ربک
2 مادینک
3 ما تقول فی ھذا الرجل
مذکور ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سوال نکرین عربی میں ہوتا ہے اور عام طور سے یہی مشہور و معروف ہے ظاہر حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ تمام لوگوں سے عربی زبان میں سوال قبر ہوتا ہے اور ملا قاری مرقاۃ میں فرماتے ہیں کہ سوال نکرین عربی میں ہوتا ہے
عربی زبان
عربی زبان بھی حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے ہے
۔وہ جنت میں عربی بولتے تھے ۔زمین پر تشریف لانے کے بعد سریانی بولنے لگے ۔پھر قبول توبہ کے بعد عربی بولنے لگے ۔سفیان نے فرمایا ۔ہر وحی آسمانی عربی میں ہی نازل ہوتی تھی ۔انبیاء کرام قوم کی زبان میں اس کا ترجمہ فرمادیا کرتے ھے ۔
لیکن عام طور پر یہی مشہور ہے کہ عربی زبان ۔حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ظاہر ہوئی ۔انہوں نے جرہم سے سیکھی تھی اس لئے ان کی اولاد کو مستعربہ کہا جاتا ہے ۔اسی سے معلوم ہوا کہ بنی جرہم میں یہ زبان پہلے سے رائج تھی ۔اسی لئے بنی جرہم کو :عاربہ: کہا جاتا ہے اس روایت کی بنا پر حضرت اسماعیل کو اس زبان کا موجد نہیں کہا جاسکتا ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ عربی زبان کو جو بقا حاصل ہے ۔یہ حضرت اسماعیل کی رہین منت ہے۔
(نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری شریف جلد 1ص 200)
2.... اور جو لوگ میت کی اپنی ہی زبان میں سوال قبر ہوگا ؛ کے قائل ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ بہت سے میت کو عربی نہیں آتی ہیں اور نہ سریانی اس لیے اس کے اپنی ہی مادری زبان میں سوال ہوگا
3... اور جو لوگ سریانی زبان کے قائل ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ فرشتوں اور ارواح کی زبان سریانی زبان ہے اسی لیے اللہ تعالی میت کو بھی یہ زبان عطا کردےگا جیسا کہ کتاب الابریز میں ہے
سریانی زبان
سریانی زبان حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے چلی آرہی ہے ۔ان کی اور ان کی اولاد اور جملہ انبیاء کی زبان سریانی تھی ۔اللہ عزوجل نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کا نام سریانی میں سکھایا تھا ۔لفظ سریانی : سر: سے بنا ہے
حضرت ابراہیم علیہ وسلم کی زبان سریانی تھی۔
2.... اور جو لوگ میت کی اپنی ہی زبان میں سوال قبر ہوگا ؛ کے قائل ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ بہت سے میت کو عربی نہیں آتی ہیں اور نہ سریانی اس لیے اس کے اپنی ہی مادری زبان میں سوال ہوگا
3... اور جو لوگ سریانی زبان کے قائل ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ فرشتوں اور ارواح کی زبان سریانی زبان ہے اسی لیے اللہ تعالی میت کو بھی یہ زبان عطا کردےگا جیسا کہ کتاب الابریز میں ہے
سریانی زبان
سریانی زبان حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے چلی آرہی ہے ۔ان کی اور ان کی اولاد اور جملہ انبیاء کی زبان سریانی تھی ۔اللہ عزوجل نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کا نام سریانی میں سکھایا تھا ۔لفظ سریانی : سر: سے بنا ہے
حضرت ابراہیم علیہ وسلم کی زبان سریانی تھی۔
(نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری شریف جلد اول ص 200)
توریت شریف سریانی زبان میں تھی
صورت مسئولہ میں اگرچہ تینوں اقوال قوت دلیل سے خالی نہیں ہے مگر سریانی زبان کو ترجیح حاصل ہے کیونکہ مجدد دین و ملت امام اہل سنت سرکار اعلی حضرت امام احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے شیخ عبد العزیز دباغ قدس سرہ کے قول سریانی زبان میں سوال نکیرین ہوگا ، اس قول کو نقل فرمایا اور ثابت و برقرار رکھا۔
اور یہ تمام دلائل اس بات پر دلالت ہے کہ سوال نکیرین سریانی زبان میں ہوگا ۔
سوال نکیرین
سوال نکیرین کس زبان میں ہوگا اس کے متعلق حضور فقیہ الہند حضرت شارح بخاری حضور مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
ظاہر حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ منکر نکیر دونوں سوال کریں گے تاکہ مردے بہت ہیت ہو ۔اور سوال و جواب عربی ہی میں ہوگا جیسا کہ مرقاۃ میں حضرت ملا علی قاری نے فرمایا۔قبر میں جاکر عربی ہوجائیں گے اگرچہ عجمی رہے ہوں ۔مگر اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے حضرت سیدی عبد العزیز دباغ قدس سرہ سے نقل فرمایا سریانی زبان میں ہوں گے اب یہ کہنا ضروری ہوگا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مخاطب سریانی نہیں جانتے تھے اس لئے ان کی عربی زبان میں فرمایا۔
توریت شریف سریانی زبان میں تھی
صورت مسئولہ میں اگرچہ تینوں اقوال قوت دلیل سے خالی نہیں ہے مگر سریانی زبان کو ترجیح حاصل ہے کیونکہ مجدد دین و ملت امام اہل سنت سرکار اعلی حضرت امام احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے شیخ عبد العزیز دباغ قدس سرہ کے قول سریانی زبان میں سوال نکیرین ہوگا ، اس قول کو نقل فرمایا اور ثابت و برقرار رکھا۔
اور یہ تمام دلائل اس بات پر دلالت ہے کہ سوال نکیرین سریانی زبان میں ہوگا ۔
سوال نکیرین
سوال نکیرین کس زبان میں ہوگا اس کے متعلق حضور فقیہ الہند حضرت شارح بخاری حضور مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
ظاہر حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ منکر نکیر دونوں سوال کریں گے تاکہ مردے بہت ہیت ہو ۔اور سوال و جواب عربی ہی میں ہوگا جیسا کہ مرقاۃ میں حضرت ملا علی قاری نے فرمایا۔قبر میں جاکر عربی ہوجائیں گے اگرچہ عجمی رہے ہوں ۔مگر اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے حضرت سیدی عبد العزیز دباغ قدس سرہ سے نقل فرمایا سریانی زبان میں ہوں گے اب یہ کہنا ضروری ہوگا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مخاطب سریانی نہیں جانتے تھے اس لئے ان کی عربی زبان میں فرمایا۔
(نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری شریف جلد چہارم ص 100)
اس سے معلوم ہوا کہ حضور فقیہ الہند شارح بخاری حضور مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک بھی سوال قبر سریانی میں ہوگا ۔
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
اس سے معلوم ہوا کہ حضور فقیہ الہند شارح بخاری حضور مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک بھی سوال قبر سریانی میں ہوگا ۔
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ النفس محقق دوراں مفتی اعظم بہارحضرت علامہ
مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
ناشر تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی
دار العلوم امجدیہ ثناء ٕ المصطفے مرپا شریف سیتامڑھی بہار 17 اگست 2019
ازقلم:- حضور مصباح ملت مفتی اعظم بہار حضرت مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی
ترسیل:-
محمد محب اللہ خاں ڈائریکٹر مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آزاد چوک سیتامڑھی
اراکین مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ۔
اور رکن تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی مرپا شریف
سرپرست حضور توصیف ملت حضور تاج السنہ شیخ طریقت حضرت علامہ مفتی محمد توصیف رضا خان صاحب قادری بریلوی مدظلہ العالی
صدر رکن اکیڈمی تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی
شیر مہاراشٹر مفسر قرآن قاضی اعظم مہاراشٹر حضرت علامہ مفتی محمد علاؤ الدین رضوی ثنائی صاحب میرا روڈ ممبئی
(2) رکن خصوصی
شیخ طریقت حضرت علامہ مفتی اہل سنت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شمس الحق رضوی ثنائی کھٹونہ نیپال
(3) رکن خصوصی
خطیب و مداح رسول ماہر درسیات ماہر علم و حکمت حضرت علامہ مفتی محمد نعمت اللہ قادری بریلوی شریف
(4)ناشر مسلک اعلیٰ حضرت عالم علم و حکمت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد قمر الزماں یار علوی ثنائی بانی دارالعلوم ملک العلماء گونڈی ممبئی
(5) حضرت سراج العلماء مفتی محمد سراج احمد مصباحی ممبئی
(6) رکن سراج ملت حضرت مفتی عبد الغفار خاں نوری مرپاوی سیتا مڑھی بہار
(7) پابند شرع متین حضرت علامہ مولانا مفتی محمد زین اللہ خاں ثنائی نیتاجی نگر گھاٹکرپر مشرق ممبئی 77 مہاراشٹر
(8) عالم نبیل فاضل جلیل حضرت علامہ محمد جیند عالم شارق مصباحی بیتاہی خطیب و امام جامع مسجد حضرتِ بلال رضی اللہ عنہ کوئیلی سیتامڑھی
(9) ناصر قوم حضرت علامہ مولانا محمد صلاح الدین مخلص اٹہروی کنہولی
(10) استاذ الحفاظ ممتاز القراء حضرت قاری غلام رسول نیر غزالی کچور
(11) حضرت مولانا محمد سلیم الدین ثنائی کوئیلی مدرس اکڈنڈی سیتامڑھی
(12) خطیب ہند و نیپال حضرت علامہ مولانا محمد توقیر رضا صاحب کھٹونوی نیپال.
( نوٹ) اگر کسی صاحب کو اس تحریر میں کوئی ٹائیپنگ غلطی نظر آئے یا کوئی کمی نظر آئے تو برائے مہربانی پرسنل پر اطلاع یا گفتگو کریں )
آج مورخہ 26 رمضان المبارک 1444
بمطابق 18 اپریل 2023
ناشر تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی
دار العلوم امجدیہ ثناء ٕ المصطفے مرپا شریف سیتامڑھی بہار 17 اگست 2019
ازقلم:- حضور مصباح ملت مفتی اعظم بہار حضرت مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی
ترسیل:-
محمد محب اللہ خاں ڈائریکٹر مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آزاد چوک سیتامڑھی
اراکین مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ۔
اور رکن تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی مرپا شریف
سرپرست حضور توصیف ملت حضور تاج السنہ شیخ طریقت حضرت علامہ مفتی محمد توصیف رضا خان صاحب قادری بریلوی مدظلہ العالی
صدر رکن اکیڈمی تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی
شیر مہاراشٹر مفسر قرآن قاضی اعظم مہاراشٹر حضرت علامہ مفتی محمد علاؤ الدین رضوی ثنائی صاحب میرا روڈ ممبئی
(2) رکن خصوصی
شیخ طریقت حضرت علامہ مفتی اہل سنت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شمس الحق رضوی ثنائی کھٹونہ نیپال
(3) رکن خصوصی
خطیب و مداح رسول ماہر درسیات ماہر علم و حکمت حضرت علامہ مفتی محمد نعمت اللہ قادری بریلوی شریف
(4)ناشر مسلک اعلیٰ حضرت عالم علم و حکمت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد قمر الزماں یار علوی ثنائی بانی دارالعلوم ملک العلماء گونڈی ممبئی
(5) حضرت سراج العلماء مفتی محمد سراج احمد مصباحی ممبئی
(6) رکن سراج ملت حضرت مفتی عبد الغفار خاں نوری مرپاوی سیتا مڑھی بہار
(7) پابند شرع متین حضرت علامہ مولانا مفتی محمد زین اللہ خاں ثنائی نیتاجی نگر گھاٹکرپر مشرق ممبئی 77 مہاراشٹر
(8) عالم نبیل فاضل جلیل حضرت علامہ محمد جیند عالم شارق مصباحی بیتاہی خطیب و امام جامع مسجد حضرتِ بلال رضی اللہ عنہ کوئیلی سیتامڑھی
(9) ناصر قوم حضرت علامہ مولانا محمد صلاح الدین مخلص اٹہروی کنہولی
(10) استاذ الحفاظ ممتاز القراء حضرت قاری غلام رسول نیر غزالی کچور
(11) حضرت مولانا محمد سلیم الدین ثنائی کوئیلی مدرس اکڈنڈی سیتامڑھی
(12) خطیب ہند و نیپال حضرت علامہ مولانا محمد توقیر رضا صاحب کھٹونوی نیپال.
( نوٹ) اگر کسی صاحب کو اس تحریر میں کوئی ٹائیپنگ غلطی نظر آئے یا کوئی کمی نظر آئے تو برائے مہربانی پرسنل پر اطلاع یا گفتگو کریں )
آج مورخہ 26 رمضان المبارک 1444
بمطابق 18 اپریل 2023