Type Here to Get Search Results !

نوراتری کے موقع سے جاب کرنے والے اپنے باس کی طرف سے ہوٹل میں کھانا کھا سکتے ہیں یا نہیں؟

 (سوال نمبر 4800)
نوراتری کے موقع سے جاب کرنے والے اپنے باس کی طرف سے ہوٹل میں کھانا کھا سکتے ہیں یا نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
زید جاب کرتا ہے اور اس کا باس ھندو ہے وہ اسکے تہوار نوراتر میں اپنے تمام ملازم کو ہوٹل لے جاکر کھانا کھلواتا ہے  تو اس کھانے کے کھانے والے مسلمان ملازم پر شریعت کا کیا حکم ہوگا ؟ ۔جواب ارسال فرمائیں بڑی نوازش ہوگی
سائلہ:- سعدیہ فاطمہ شہر ناگپور انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

مذکورہ صورت میں زید جہان جاب کرتا ہے تو اپنے باس کے کسی تہوار پر اسی دن اس کے گھر جاکر کھانا نہ کھائے مذکورہ صورت میں ہوٹل میں کھا سکتے ہیں جبکہ ہندو کا ذبیحہ نہ ہو اسی طرح ہدیہ میں پیسہ بھی لے سکتے ہیں 
اور نوراتری ہولی، دیوالی کے موقعہ پر اگر دیوی دیوتا کے نام کا کھانا بنا ہے تو اس کا نہ لینا اور نہ کھانا بہتر ہے اور تہوار کا کھانا سمجھ کر کھانا جائز نہیں مال مفت سمجھ کر کھانے میں حرج نہیں یعنی اگر کسی دیوی دیوتا کے نام نہیں ہے اور پورے یقین کے ساتھ معلوم ہے تو کھا سکتے ہیں۔
کفار جو اپنے تہواروں پر مٹھائی وغیرہ دیتے ہیں تو اس بارے میں عرض ہے کہ اس دن نہ لی جائے ہاں دوسرے دن لے سکتے ہیں لیکن تبرک سمجھ کر نہ لیں بلکہ مفت مال سمجھ کر لیں اور نہ لینا بہتر ہے 
فتاوی رضویہ میں ہے 
کافر اگر ہولی یا دیوالی کے دن مٹھائی دیں تو نہ لے ہاں اگر دوسرے روز دے تو لے لے مگر یہ نہ سمجھے کہ ان خبثاء کے تہوار کی مٹھائی ہے بلکہ مال موذی نصیب غازی سمجھے
 (ملفوظات اعلٰی حضرت ح ١ ص ٹ١٦٣)  
فتاویٰ شارح بخاری میں ہے
مٹھائی پرشاد سمجھ کر نہ لے نہ پرشاد سمجھ کر لینا جائز، نہ پرشاد سمجھ کر کھانا جائز، بلکہ جو اسے پرشاد سمجھے یعنی اسے تبرک جانے اس پر توبہ اور تجدید ایمان اور اگر بیوی رکھتا ہو تو تجدید نکاح لازم۔ ہاں بغیر پرشاد سمجھے اور روپیہ پیسہ مال موذی نصیب غازی سمجھ کر لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ لیکن ان کی پوجا کے دن نہ لے
(فتاویٰ شارح بخاری ج ٣ ص ١٣٩) 
فتاوٰی رضویہ میں سوال ہوا ہنود جو اپنے معبودان باطلہ کو ذبیحہ کے سوا اور قسم طعام وشیرنی وغیرہ چڑھاتے ہیں اور اسکا بھوگ یا پرشاد نام رکھتے ہیں اس کا کھانا شرعاً حلال ہے یا نہیں؟
اس کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں حلال ہے۔ مگر مسلمان کو احتراز چاہئے
 (فتاویٰ رضویہ ج ٩ص ٦) 
 فتاوی رضویہ میں ہے 
ہندو کے ساتھ کھانا کھانے کا سوال بے معنی ہے۔ہندو کب اس کے ساتھ کھائے گا۔اور ایسا ہو تو اسےنہ چاہئے۔حدیث میں ہے
لاتواکلوھم ولا تشاربواھم
نہ ان کے ساتھ کھانا کھاؤ نہ ان کے ساتھ پانی پیو۔ 
غیر مسلم چار قسم کے ہیں:-
1/ کتابی، 2/ مجوسی، 3/ مشرک، 4/ مرتد،
کتابی اگر کتابی ہو ملحد نہ ہوتو اس کا ذبیحۃ اور اس کے یہاں کا گوشت بھی حلال ہے اور باقیوں کے یہاں کا گوشت حرام۔اور مرتد ان میں سب سے خبیث تر ہے اس کے پاس نشست برخاست مطلقًا ناجائز ہے۔ اور ساتھ کھانا ہر کافر کے ساتھ برا ہے۔پھر اگر اس میں بد مذہبی کی تہمت ہو جیسے نصرانی کے ساتھ کھانا مسلمانوں کے لئے زیادہ باعث نفرت ہو تو اس کاحکم اور سخت تر ہوگا ورنہ اس اصل حکم میں کہ نہ ان کے ساتھ کھانا کھاؤ نہ پانی پیو سب برابر ہیں۔
(فتاویٰ رضویہ ج ٢١ ص ٦٧١. المدینۃ العلمیہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
25/10/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area