یوم ولادت باسعادت مبارک میں خوشی منانے کا شریعت میں کیا حکم ہے قسط دوم
••────────••⊰❤️⊱••───────••
(1) میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے پر انعام
(2)یوم ولادت باسعادت مبارک میں خوشی منانے کا شریعت میں حکم ہے اور یوم وصال جزع و فزع کرنے کا شریعت میں کوئی حکم نہیں ہے
(3)تو شرعی قانون کے لحاظ سے ماہ ربیع الاول شریف میں حضور محسن کائنات نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش پر اظہار تشکر ومسرت کرنا اچھا فعل ہےجب کہ حزن و ملال کا اظہار کرنا شریعت کو پسند نہیں۔
(1) حافظ شمس الدین بن ناصر الدین دمشقی اپنی کتاب مورد الصادی فی مولدالھادی میں تحریر فرماتے ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے کہ میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے ہر پیر (سوموار) کے روز ابولہب کے آگ کے عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے ۔
(1) امام القراء حافظ شمس الدین ابن الجزری نے اپنی کتاب عرف التعریف بالمولد الشریف میں لکھتے ہیں کہ
ابو لہب کے مرنے کے بعد کسی نے ابولہب کو خواب میں دیکھا تو پوچھا کیا حال ہے ؟ کہنے لگا آگ میں ہوں البتہ ہر پیر کے دن اس عذاب میں کمی ہوجاتی ہے اور اپنی ان انگلیوں کے درمیان سے کچھ پانی چوسنے کو مل جاتا ہے یہ کہتے ہوئے اس نے انگلیوں کے پوروں کی جانب اشارہ کیا اور کہا یہ اس وجہ سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کی خوشخبری دینے کی وجہ سے میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا اور اسے رضاعت کے لئے کہا تھا۔
فاذا کان ابولھب الکافر الذی نزل القرآن بذمہ جوزی فی النار یفرحہ لیلۃ مولد محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فما حال المسلم الموحد من امۃ محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یسر بمولدہ و یبذل ما تصل الیہ قدرتہ فی محبتہ : لعمری ! انما یکون جزاؤہ من اللہ الکریم ان یدخلہ بفضلہ العمیم جنات النعیم ( کتاب اذاقۃ الاثام لما نعیی عمل المولد والقیام ۔تصنیف رئیس المتکلمین علامہ مولانا مفتی نقی علی خان رضی اللہ تعالیٰ عنہ مع رشاقۃ الکلام فی حواشی اذاقۃ الاثام ۔تصنیف الشیخ الامام احمد رضا خان القادری قدس سرہ ص 186 بحوالہ المواھب میں جوزی فی النار کی عبارت ہے )
یعنی جب ابولہب جیسا کافر جس کی مذمت میں قرآن پاک کی ایک پوری سورت نازل ہوئی؛ فرحت شب میلاد نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر دوزخ میں اس رات تخفیف عذاب کا بدلہ پائے۔ تو کیا حال ہوگا اس مسلمان موحد امتی کا کہ جو حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر خوش ہو اور بقدر دسترس حضور کی محبت میں اپنا مال خرچ کرے! مجھے اپنی عمر کی قسم ! بے شک اس کا بدلہ رب کریم جل جلالہ سے یہی ہے کہ اپنے فضل کریم سے اسے جنات نعیم میں داخل فرمائے*. اور یہی عبارت . رسالہ حسن المقصد فی عمل المولد تصنیف شیخ الاسلام امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 911ھ میں ہے اور یہی عبارت انوار محمدیہ من مواہب لدنیہ صفحہ 28 پر ہے مگر اس میں جوزی فی النار نہیں ہے بلکہ جوزی بفرحہ لیلۃ مولد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے )
(3) جس جگہ میلاد پاک منعقد کی جاتی ہے وہاں پر سال بھر امن وامان رہتا ہے۔
امام حافظ استاذ القراء ابو الخیر محمد ابن الجزری فرماتے ہیں،:
من خواصہ انہ امان فی ذلک العام وبشری عاجلۃ بنیل البغیۃ والمرام۔
(1) میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے پر انعام
(2)یوم ولادت باسعادت مبارک میں خوشی منانے کا شریعت میں حکم ہے اور یوم وصال جزع و فزع کرنے کا شریعت میں کوئی حکم نہیں ہے
(3)تو شرعی قانون کے لحاظ سے ماہ ربیع الاول شریف میں حضور محسن کائنات نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش پر اظہار تشکر ومسرت کرنا اچھا فعل ہےجب کہ حزن و ملال کا اظہار کرنا شریعت کو پسند نہیں۔
(1) حافظ شمس الدین بن ناصر الدین دمشقی اپنی کتاب مورد الصادی فی مولدالھادی میں تحریر فرماتے ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے کہ میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے ہر پیر (سوموار) کے روز ابولہب کے آگ کے عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے ۔
(1) امام القراء حافظ شمس الدین ابن الجزری نے اپنی کتاب عرف التعریف بالمولد الشریف میں لکھتے ہیں کہ
ابو لہب کے مرنے کے بعد کسی نے ابولہب کو خواب میں دیکھا تو پوچھا کیا حال ہے ؟ کہنے لگا آگ میں ہوں البتہ ہر پیر کے دن اس عذاب میں کمی ہوجاتی ہے اور اپنی ان انگلیوں کے درمیان سے کچھ پانی چوسنے کو مل جاتا ہے یہ کہتے ہوئے اس نے انگلیوں کے پوروں کی جانب اشارہ کیا اور کہا یہ اس وجہ سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کی خوشخبری دینے کی وجہ سے میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا اور اسے رضاعت کے لئے کہا تھا۔
فاذا کان ابولھب الکافر الذی نزل القرآن بذمہ جوزی فی النار یفرحہ لیلۃ مولد محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فما حال المسلم الموحد من امۃ محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یسر بمولدہ و یبذل ما تصل الیہ قدرتہ فی محبتہ : لعمری ! انما یکون جزاؤہ من اللہ الکریم ان یدخلہ بفضلہ العمیم جنات النعیم ( کتاب اذاقۃ الاثام لما نعیی عمل المولد والقیام ۔تصنیف رئیس المتکلمین علامہ مولانا مفتی نقی علی خان رضی اللہ تعالیٰ عنہ مع رشاقۃ الکلام فی حواشی اذاقۃ الاثام ۔تصنیف الشیخ الامام احمد رضا خان القادری قدس سرہ ص 186 بحوالہ المواھب میں جوزی فی النار کی عبارت ہے )
یعنی جب ابولہب جیسا کافر جس کی مذمت میں قرآن پاک کی ایک پوری سورت نازل ہوئی؛ فرحت شب میلاد نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر دوزخ میں اس رات تخفیف عذاب کا بدلہ پائے۔ تو کیا حال ہوگا اس مسلمان موحد امتی کا کہ جو حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر خوش ہو اور بقدر دسترس حضور کی محبت میں اپنا مال خرچ کرے! مجھے اپنی عمر کی قسم ! بے شک اس کا بدلہ رب کریم جل جلالہ سے یہی ہے کہ اپنے فضل کریم سے اسے جنات نعیم میں داخل فرمائے*. اور یہی عبارت . رسالہ حسن المقصد فی عمل المولد تصنیف شیخ الاسلام امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 911ھ میں ہے اور یہی عبارت انوار محمدیہ من مواہب لدنیہ صفحہ 28 پر ہے مگر اس میں جوزی فی النار نہیں ہے بلکہ جوزی بفرحہ لیلۃ مولد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے )
(3) جس جگہ میلاد پاک منعقد کی جاتی ہے وہاں پر سال بھر امن وامان رہتا ہے۔
امام حافظ استاذ القراء ابو الخیر محمد ابن الجزری فرماتے ہیں،:
من خواصہ انہ امان فی ذلک العام وبشری عاجلۃ بنیل البغیۃ والمرام۔
یعنی اس مجلس شریف کے خواص سے ہے کہ وہ تمام سال کے لئے امن وامان ہے۔اور حصول مقصد کے ساتھ بشارت عاجلہ ۔ امام جزری کے کلام سے ثابت ہوا کہ میلاد پاک کرنے کی جگہ پر سال بھر وہ جگہ امن و امان میں رہتی ہے اور میلاد پاک منانے والے جس مقصد سے مناتے ہیں وہ پوری ہوتی ہے
میلاد شریف منانے والے پر فضل عظیم ہوتا ہے
(4) حافظ الحدیث امام ابو الخیر سخاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ویتصدقون فی لیالیہ بانواع الصدقات و یعتنون بقراءۃ مؤلدہ الکریم۔ ویظھر علیھم من برکاتہ فضل عظیم
میلاد شریف منانے والے پر فضل عظیم ہوتا ہے
(4) حافظ الحدیث امام ابو الخیر سخاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ویتصدقون فی لیالیہ بانواع الصدقات و یعتنون بقراءۃ مؤلدہ الکریم۔ ویظھر علیھم من برکاتہ فضل عظیم
اور ان راتوں میں ہر قسم کا صدقہ کرتے ہیں اور میلاد پاک کا اہتمام کرتے ہیں میلاد شریف کرنے کی برکت سے ان پر ہر قسم کا فضل عظیم ظاہر ہوتا ہے ۔
امام سخاوی کے کلام سے معلوم ہوا کہ شب ولادت باسعادت نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں وفات کا غم نہ مناکر بلکہ ولادت کی خوشی میں میلاد پاک کرتے ہیں ۔یہ ہر ملک و ہرشہر میں کیاجاتا ہے اور میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کرنے والوں پر فضل الٰہی نازل ہوتا ہے ۔
(5) محفل میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں اسماعیل دہلوی کے خاندان کے ایک بزرگ کا انوار دیکھنا
شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی اپنی کتاب فیوض الحرمین میں تحریر فرماتے ہیں کہ میں اس مجلس میں کہ مولد اقدس میں بروز ولادت شریف مکہ معظمہ میں منعقد تھی حاضر تھا بارہویں میں ربیع الاول کو اور ذکر ولادت پاک اور خوارق عادت وقت ولادت کا پڑھا جاتا تھا ۔لوگ درود پڑھتے تھے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر خیر کررہے تھے ناگاہ کچھ انوار اس مجلس سے ظاہر ہوئے ۔میں نہیں کہتا کہ میں نے انہیں بدون آنکھ سے دیکھا ۔نہ یہ کہوں کہ فقط روح کی بصر سے دیکھا ۔خدا کو معلوم ہے کہ کیا کیفیت تھی اس کی ۔اور اس کے درمیان میں نے ان انوار میں تامل کیا تو وہ انوار ان فرشتوں کی طرف سے پائے جو ایسی مجالس و مشاہد پر موکل ہیں اور انوار ملائکہ انوار رحمت الہی سے ملے ہوئے دکھے۔
امام سخاوی کے کلام سے معلوم ہوا کہ شب ولادت باسعادت نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں وفات کا غم نہ مناکر بلکہ ولادت کی خوشی میں میلاد پاک کرتے ہیں ۔یہ ہر ملک و ہرشہر میں کیاجاتا ہے اور میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کرنے والوں پر فضل الٰہی نازل ہوتا ہے ۔
(5) محفل میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں اسماعیل دہلوی کے خاندان کے ایک بزرگ کا انوار دیکھنا
شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی اپنی کتاب فیوض الحرمین میں تحریر فرماتے ہیں کہ میں اس مجلس میں کہ مولد اقدس میں بروز ولادت شریف مکہ معظمہ میں منعقد تھی حاضر تھا بارہویں میں ربیع الاول کو اور ذکر ولادت پاک اور خوارق عادت وقت ولادت کا پڑھا جاتا تھا ۔لوگ درود پڑھتے تھے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر خیر کررہے تھے ناگاہ کچھ انوار اس مجلس سے ظاہر ہوئے ۔میں نہیں کہتا کہ میں نے انہیں بدون آنکھ سے دیکھا ۔نہ یہ کہوں کہ فقط روح کی بصر سے دیکھا ۔خدا کو معلوم ہے کہ کیا کیفیت تھی اس کی ۔اور اس کے درمیان میں نے ان انوار میں تامل کیا تو وہ انوار ان فرشتوں کی طرف سے پائے جو ایسی مجالس و مشاہد پر موکل ہیں اور انوار ملائکہ انوار رحمت الہی سے ملے ہوئے دکھے۔
(تواریخ حبیب الہ ص 8)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ ہندوستان میں ایک مشہور و مقبول محدث تھے ۔تمام دیوبندیوں کی سندیں آپ تک پہنچتی ہیں ۔اب بتاؤ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بقول آپ لوگوں کے بدعتی ہیں ( معاذ اللہ) یا میلادالنبی منانے کو منع کرنے والے خود بدعتی ہوئے؟ یہ فیصلہ کرلو اور جواب دو ۔نیز معلوم ہوا کہ میلاد پاک کی محفل پر انوار رحمت برستے ہیں مگر منکرین ان انوار سے محروم ہیں اور بدعت بدعت کہ کر عین بدعت ہوگئے ہیں۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ ہندوستان میں ایک مشہور و مقبول محدث تھے ۔تمام دیوبندیوں کی سندیں آپ تک پہنچتی ہیں ۔اب بتاؤ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بقول آپ لوگوں کے بدعتی ہیں ( معاذ اللہ) یا میلادالنبی منانے کو منع کرنے والے خود بدعتی ہوئے؟ یہ فیصلہ کرلو اور جواب دو ۔نیز معلوم ہوا کہ میلاد پاک کی محفل پر انوار رحمت برستے ہیں مگر منکرین ان انوار سے محروم ہیں اور بدعت بدعت کہ کر عین بدعت ہوگئے ہیں۔
(مواعظ رضویہ ص 65)
(5) جو لوگ کہتے ہیں کہ بارہ ربیع الاول شریف کی رات ودن غم وفات منائیں نہ کہ خوشیٔ پیدائش ان کے لئے ایک یہ قول بھی قابل نصیحت ہے۔
مولوی عنایت احمد لکھتے ہیں کہ حرمین شریفین اور اکثر اسلام میں عادت ہے کہ ماہ ربیع الاول شریف میں محفل میلاد پاک کرتے ہیں ۔مسلمان کو جمع کرکے ذکر مولود پاک کرتے ہیں ۔بکثرت درود شریف پڑھتے ہیں اور بطور دعوت کھانا یا شیرینی تقسیم کرتے ہیں اس لئے یہ امر موجب برکات عظیمہ ہے نیز زیادت محبت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی معیت کا سبب ہے بارہ ربیع الاول کو مدینہ منورہ میں یہ محفل متبرک مسجد میں ہوتی ہے اور مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مکان ولادت باسعادت میں۔
(5) جو لوگ کہتے ہیں کہ بارہ ربیع الاول شریف کی رات ودن غم وفات منائیں نہ کہ خوشیٔ پیدائش ان کے لئے ایک یہ قول بھی قابل نصیحت ہے۔
مولوی عنایت احمد لکھتے ہیں کہ حرمین شریفین اور اکثر اسلام میں عادت ہے کہ ماہ ربیع الاول شریف میں محفل میلاد پاک کرتے ہیں ۔مسلمان کو جمع کرکے ذکر مولود پاک کرتے ہیں ۔بکثرت درود شریف پڑھتے ہیں اور بطور دعوت کھانا یا شیرینی تقسیم کرتے ہیں اس لئے یہ امر موجب برکات عظیمہ ہے نیز زیادت محبت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی معیت کا سبب ہے بارہ ربیع الاول کو مدینہ منورہ میں یہ محفل متبرک مسجد میں ہوتی ہے اور مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مکان ولادت باسعادت میں۔
(تواریخ حبیب الہ ص 8)
" کتاب تواریخ حبیب الہ" کا حوالہ بالخصوص اس لیے دیا گیا کہ منکرین بھی اس کتاب کو معتبر سمجھتے ہیں۔چنانچہ مولوی اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب "نشرالطیب" میں اس کو معتبر کتاب مانا الحاصل ماہ ربیع الاول شریف کے دنوں میں غم وفات نہ مناکر یوم ولادت کی خوشیاں منائیں اور میلاد شریف منعقد کریں کہ یہ امر موجب برکات عظیم ہے ۔
میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم منانے کا حکم خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دیا۔
(7) ہر مدرسہ میں میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے دن چھٹی رہتی ہے اس کی اصل یہ دلیل ہے۔
امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ کمال الدین اوفوی نے اپنی کتاب "الطالع السعید "میں لکھا ہے : ان کے قابل اعتماد دوست ناصر الدین محمود بن عماد نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابوطیب محمد بن ابراہیم سبتی مالکی جو کہ علمائے کاملین میں سے تھے" قوص" تشریف لائے اور میلادالنبی کے دن ایک مدرسے کے پاس سے گزرے تو فرمانے لگے :
اے فقیہ ! یہ خوشی کا دن ہے آج بچوں کو چھٹی دے دو ۔لہذا انہوں نے بچوں کو چھٹی دے دی تو یہ ان کے عدم انکار پر دلالت کرنے والا فعل ہے اور یہ مالکی عالم دین دار ۔فقیہ ۔ماہر فنون اور زاہد شخصیت کے حامل تھے ۔ان سے ابوحیان اور دیگر اکابر ائمہ نے اکتساب علم کیا اور ان کا وصال 694 ھ میں ہوا (حسن المقصد فی عمل المولد)
امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی اس عبارت سے صاف طور پر واضح بیان حاصل ہوا کہ یوم پیدائش نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم خوشی کا دن ہے غم کا دن نہیں ہے اگرچہ وصال بھی اسی دن ہوا اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہمارے لئے عظیم ترین نعمت ہے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہمارے لئے ایک بہت بڑا صدمہ ہے تو شریعت نے نعمتوں کا اظہار تشکر کے لئے ہمیں برانگیختہ کیا ہے اور مصائب و آلام کے موقع پر صبر وسکون اور پردہ پوشی کی تلقین کی ہے ۔اسی لئے شریعت مقدسہ نے ہمیں بچے کی ولادت کے وقت عقیقہ کرنے کا حکم دیا جو اظہار تشکر اور بچے کی آمد پر مسرت کا عکاس ہے لیکن شریعت نے ہمیں وفات پر جانور ذبح کرنے اور دیگر ایسے امور بجالانے کا حکم نہیں دیا بلکہ ہمیں اس پر ماتم اور جزع و فزع کرنے سے بھی منع کیا ہے۔
(8) یوسف حجار نے مصر میں بقدر اپنی وسعت کے لوگوں کو کھانا کھلاتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں انہیں اس عمل کی ترغیب و تحریص فرمائی
*ایک عالم صاحب کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے میلاد نہ کرنے پر تنبیہ فرمایا
(9) علامہ ممدوح شیخ یوسف بن علی زریق شامی سے نقل فرماتے ہیں:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا دست اقدس میں ایک چھڑی ہے ۔مجھ سے فرماتے ہیں : تجھے ماروں گا ۔میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ! کس لئے ؟ فرمایا :
حتی لاتبطل المولد ولا السنن
" کتاب تواریخ حبیب الہ" کا حوالہ بالخصوص اس لیے دیا گیا کہ منکرین بھی اس کتاب کو معتبر سمجھتے ہیں۔چنانچہ مولوی اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب "نشرالطیب" میں اس کو معتبر کتاب مانا الحاصل ماہ ربیع الاول شریف کے دنوں میں غم وفات نہ مناکر یوم ولادت کی خوشیاں منائیں اور میلاد شریف منعقد کریں کہ یہ امر موجب برکات عظیم ہے ۔
میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم منانے کا حکم خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دیا۔
(7) ہر مدرسہ میں میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے دن چھٹی رہتی ہے اس کی اصل یہ دلیل ہے۔
امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ کمال الدین اوفوی نے اپنی کتاب "الطالع السعید "میں لکھا ہے : ان کے قابل اعتماد دوست ناصر الدین محمود بن عماد نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابوطیب محمد بن ابراہیم سبتی مالکی جو کہ علمائے کاملین میں سے تھے" قوص" تشریف لائے اور میلادالنبی کے دن ایک مدرسے کے پاس سے گزرے تو فرمانے لگے :
اے فقیہ ! یہ خوشی کا دن ہے آج بچوں کو چھٹی دے دو ۔لہذا انہوں نے بچوں کو چھٹی دے دی تو یہ ان کے عدم انکار پر دلالت کرنے والا فعل ہے اور یہ مالکی عالم دین دار ۔فقیہ ۔ماہر فنون اور زاہد شخصیت کے حامل تھے ۔ان سے ابوحیان اور دیگر اکابر ائمہ نے اکتساب علم کیا اور ان کا وصال 694 ھ میں ہوا (حسن المقصد فی عمل المولد)
امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی اس عبارت سے صاف طور پر واضح بیان حاصل ہوا کہ یوم پیدائش نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم خوشی کا دن ہے غم کا دن نہیں ہے اگرچہ وصال بھی اسی دن ہوا اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہمارے لئے عظیم ترین نعمت ہے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہمارے لئے ایک بہت بڑا صدمہ ہے تو شریعت نے نعمتوں کا اظہار تشکر کے لئے ہمیں برانگیختہ کیا ہے اور مصائب و آلام کے موقع پر صبر وسکون اور پردہ پوشی کی تلقین کی ہے ۔اسی لئے شریعت مقدسہ نے ہمیں بچے کی ولادت کے وقت عقیقہ کرنے کا حکم دیا جو اظہار تشکر اور بچے کی آمد پر مسرت کا عکاس ہے لیکن شریعت نے ہمیں وفات پر جانور ذبح کرنے اور دیگر ایسے امور بجالانے کا حکم نہیں دیا بلکہ ہمیں اس پر ماتم اور جزع و فزع کرنے سے بھی منع کیا ہے۔
(8) یوسف حجار نے مصر میں بقدر اپنی وسعت کے لوگوں کو کھانا کھلاتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں انہیں اس عمل کی ترغیب و تحریص فرمائی
*ایک عالم صاحب کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے میلاد نہ کرنے پر تنبیہ فرمایا
(9) علامہ ممدوح شیخ یوسف بن علی زریق شامی سے نقل فرماتے ہیں:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا دست اقدس میں ایک چھڑی ہے ۔مجھ سے فرماتے ہیں : تجھے ماروں گا ۔میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ! کس لئے ؟ فرمایا :
حتی لاتبطل المولد ولا السنن
یعنی تاکہ تو مولد اور سنتوں کو ضائع نہ کرے ۔یوسف فرماتے ہیں:, جب سے بیس برس ہوئے آج تک میں اس عمل مبارک کو برابر کرتا ہوں
(10) اور منصور نشار سے نقل کرتے ہیں :
رایت النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ۔فی المنام یقول لی : قل: لا یبطلہ یعنی المولد ماعلیک ممن اکل و ممن لم یاکل۔
(10) اور منصور نشار سے نقل کرتے ہیں :
رایت النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ۔فی المنام یقول لی : قل: لا یبطلہ یعنی المولد ماعلیک ممن اکل و ممن لم یاکل۔
یعنی میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ فرماتے ہیں : اس سے کہ دے ! مولد ( یعنی یوم ولادت کی خوشیاں میں میلاد پاک منانا ) کو نہ چھوڑے تجھ پر کوئی الزام نہیں۔کوئی کھائے یا نہ کھائے
(11) اور یہ بھی علامہ موصوف نے نقل کیا کہ : حضور نے شیخ ابو موسی سے خواب می فرمایا :
من فرح بنا فرحنا بہ۔
(11) اور یہ بھی علامہ موصوف نے نقل کیا کہ : حضور نے شیخ ابو موسی سے خواب می فرمایا :
من فرح بنا فرحنا بہ۔
یعنی جو ہماری خوشی کرے گا ہم اس سے خوش ہوں گے۔
(سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد)
اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ شب ولادت یا روز ولادت یا تاریخ ولادت باسعادت میں خوشی ہی منائیں اور غم نہ منائیں حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ جو خوشی مناتا ہے اس سے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوتے ہیں وہ کم نصیب ہی ہوگا جو خوشی نہ مناکر غم منائے گا وہ خود غم میں رہے گا کیونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ جو اس دن غم منائیں اس سے میں خوش ہوں گا بلکہ فرمایا جو ہماری خوشی منائے گا ہم اس سے خوش ہوں گے سبحان اللہ اللھم صل علی سیدنا محمد النبی العربی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ۔
(12) میلاد شریف کرنے والے کے دل میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و تعظیم ہے۔
امام نووی کے استاد فرماتے ہیں کہ :
ومن احسن ما ابتدع فی زماننا کا یفعل کل عام فی الیوم الموافق کیوم مؤلدہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم من الصدقات والمعروف واظھار الزینۃ فان ذلک مع مافیہ من الاحسان للفقراء مشعر بمحبۃ النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم وتعظیمہ فی قلب فاعل ذلک وشکراللہ علی مامن بہ من ایجاد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم الذی ارسلہ رحمۃ للعالمین یعنی ہمارے زمانے کی اچھی ایجادوں میں وہ افعال ہیں جو مولد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے دن کیے جاتے ہیں۔یعنی صدقات ۔خیرات اور زینت وسرور کا اظہار ۔کیوں کہ اس میں فقراء کے ساتھ احسان کرنے کے علاؤہ اس بات کا شعار ہے کہ میلاد کرنے والے کے دل میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محبت وتعظیم ہے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے جو اس نے رحمۃ للعالمین کو پیدا فرماکر ہم پر احسان فرمایا۔
اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ شب ولادت یا روز ولادت یا تاریخ ولادت باسعادت میں خوشی ہی منائیں اور غم نہ منائیں حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ جو خوشی مناتا ہے اس سے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوتے ہیں وہ کم نصیب ہی ہوگا جو خوشی نہ مناکر غم منائے گا وہ خود غم میں رہے گا کیونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ جو اس دن غم منائیں اس سے میں خوش ہوں گا بلکہ فرمایا جو ہماری خوشی منائے گا ہم اس سے خوش ہوں گے سبحان اللہ اللھم صل علی سیدنا محمد النبی العربی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ۔
(12) میلاد شریف کرنے والے کے دل میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و تعظیم ہے۔
امام نووی کے استاد فرماتے ہیں کہ :
ومن احسن ما ابتدع فی زماننا کا یفعل کل عام فی الیوم الموافق کیوم مؤلدہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم من الصدقات والمعروف واظھار الزینۃ فان ذلک مع مافیہ من الاحسان للفقراء مشعر بمحبۃ النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم وتعظیمہ فی قلب فاعل ذلک وشکراللہ علی مامن بہ من ایجاد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم الذی ارسلہ رحمۃ للعالمین یعنی ہمارے زمانے کی اچھی ایجادوں میں وہ افعال ہیں جو مولد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے دن کیے جاتے ہیں۔یعنی صدقات ۔خیرات اور زینت وسرور کا اظہار ۔کیوں کہ اس میں فقراء کے ساتھ احسان کرنے کے علاؤہ اس بات کا شعار ہے کہ میلاد کرنے والے کے دل میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محبت وتعظیم ہے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے جو اس نے رحمۃ للعالمین کو پیدا فرماکر ہم پر احسان فرمایا۔
(مواعظ رضویہ ص 61 بحوالہ سیرت حلبی صفحہ 100 اور سیرت نبوی صفحہ 45)
اس عبارت سے واضح ہوا کہ یوم ولادت باسعادت مبارک کی رات ودن میں میلاد شریف کرنے والوں کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و تعظیم ہے اور اس میں خدا تعالیٰ کا شکر بھی ادا ہوجاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین کو پیدا فرماکر ہم لوگوں پر احسان عظیم فرمایا اور یہ بات بھی تازہ ہوجاتی ہے آج ہمارے شفیع المذنبین پیدا ہوئے ہیں اس عبارت سے یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ یوم ولادت باسعادت مبارک کے دن غم منایا جائے بلکہ خوشی کا اظہار کرنے کا واضح دلیل ہے اور مسرور ہونے کا دن ہے۔
اس عبارت سے واضح ہوا کہ یوم ولادت باسعادت مبارک کی رات ودن میں میلاد شریف کرنے والوں کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و تعظیم ہے اور اس میں خدا تعالیٰ کا شکر بھی ادا ہوجاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین کو پیدا فرماکر ہم لوگوں پر احسان عظیم فرمایا اور یہ بات بھی تازہ ہوجاتی ہے آج ہمارے شفیع المذنبین پیدا ہوئے ہیں اس عبارت سے یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ یوم ولادت باسعادت مبارک کے دن غم منایا جائے بلکہ خوشی کا اظہار کرنے کا واضح دلیل ہے اور مسرور ہونے کا دن ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
2 ربیع الاول شریف 1445
(مطابق 18 ستمبر 2023)
(مطابق 18 ستمبر 2023)