حضرت حسین منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ کے قول انا الحق اور حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے قول سبحانی ما اعظم شانی اور حضرت شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کے قول قم باذنی کے حوالے سے کچھ معلومات۔
••────────••⊰❤️⊱••───────••
حنظلہ خان مصباحی گونڈوی :- ۱۴/نومبر ۲۰۲۳ء
حنظلہ خان مصباحی گونڈوی :- ۱۴/نومبر ۲۰۲۳ء
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
چنانچہ امام اہل سنت سیدی سرکار اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے اس کے متعلق
سوال ہوا جسے راقم پیش کر رہا ہے ملاحظہ فرمائیں اور تفصیلی معلومات کے لیے فتاوی رضویہ ج، ج 29 کی طرف رجوع کریں۔امام اہل سنت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ کیا واقعی یہ کلمات (قم باذنی،اناالحق اور سبحانی مااعظم شانی) اوپر کے بزرگوں سے صادر ہوئے ہیں؟
جواب میں سب پہلے حضرت شمس تبریزی رحمۃ اللہ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ: قم باذنی یہ کلمہ ثابت نہیں اور ثابت ہوبھی تو معاذاللہ اسے ادعائے الوہیت سے کیا علاقہ! ایسی اضافات مجازیہ شائع ہیں۔( زبان کسی ولی کی ہو اور کلام اللہ کریم کا) اور آگے امام رحمۃ اللہ علیہ جواب ارشاد فرماتے ہوئے فرماتے کہ: حضرت حسین منصور حلاج انا الحق نہیں کہتے تھے بلکہ اَنَا الْأحَق ( میں ہی زیادہ حق دار ہوں) کہتے تھے، ابتلائے الہی کے لیے سامعین کے فہم کی غلطی تھی۔ امام رحمۃ اللہ علیہ انا الاحق کی وجہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت منصورحلاج کی بہن بہت بڑی ولیہ و عارفہ تھیں روزانہ اخیر شب میں جنگل تشریف لے جاتی تھیں ایک رات جناب منصور صاحب کو شیطانی شبہ ہوا تو یہ آخیر رات تک جگتے رہے جب بہن آخیر شب آنے پر جنگل کی طرف چلیں تو جناب منصور حلاج نے بھی چپکے سے پیچھے ہو لیاوہ جنگل میں پہنچ کر عبادت میں مشغول ہوگئیں قریب صبح آپ کی بہن کے واسطے آسمان سے سونے کی زنجیر میں یاقوت کا جام اترا اور وہ آپ کی بہن کے دہن کے پاس آگیا یہ پیڑ کے پیچھے سے سب دیکھ رہے تھے، جب آپ کی بہن اسے پینے لگیں تو یہ بے چین ہوکر چلا کر کہا کہ بہن! تمہیں خدا کی قسم تھوڑا میرے بھی چھوڑ دو۔صرف ایک جرعہ (گھونٹ) آپ کے لیے چھوڑا، جس کے پیتے ہی ان کو ہر شجر و حجر اور درو دیوار سے آواز آنے لگی کہ کون زیادہ احق ہے( حق دار) کہ ہماری راہ میں قتل کیا جائے؟ یہ اس کا جواب دیتے انا الاحق ( بے شک میں زیادہ حق دار ہوں) لوگوں نےکچھ سنا اور جو منظور تھا واقع ہوا۔
یہاں سے امام اہل سنت سیدی سرکار اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے فرمایاکہ:حضرت سیدی بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ نے اس سوال کا جواب دیا کہ میں نہیں کہتا: وہ فرماتا ہے جسے فرمانا زیبا ہے ( اللہ تعالیٰ) ۔لوگوں نے جب دلیل مانگی تو آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب میں سبحانی مااعظم شانی کہوں تو خنجر لےکر وار کرنا تو جب آپ نے کہا تو لوگوں نے خنجر سے وار کرنا شروع کیا تو لوگ خود ہی گھائل ہوگئے بعد افاقہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نےملاحظہ فرمایا کہ لوگ گھائل پڑے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نہ کہتا تھا کہ میں نہیں کہتا وہ کہتا ہے جس کا کہنا بجا ہے۔اسے اور واضح فرماتے ہوئے امام فرماتے ہیں کہ:
فَلَمَّاۤ اَتٰىهَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ اَنْ یّٰمُوْسٰۤى اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ(30)پھر جب آگ کے پاس حاضر ہوا ندا کی گئی میدان کے دہنے کنارے سے برکت والے مقام میں پیڑ سے کہ اے موسیٰ بیشک میں ہی ہوں الله رب سارے جہان کا۔
چنانچہ امام اہل سنت سیدی سرکار اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے اس کے متعلق
سوال ہوا جسے راقم پیش کر رہا ہے ملاحظہ فرمائیں اور تفصیلی معلومات کے لیے فتاوی رضویہ ج، ج 29 کی طرف رجوع کریں۔امام اہل سنت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ کیا واقعی یہ کلمات (قم باذنی،اناالحق اور سبحانی مااعظم شانی) اوپر کے بزرگوں سے صادر ہوئے ہیں؟
جواب میں سب پہلے حضرت شمس تبریزی رحمۃ اللہ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ: قم باذنی یہ کلمہ ثابت نہیں اور ثابت ہوبھی تو معاذاللہ اسے ادعائے الوہیت سے کیا علاقہ! ایسی اضافات مجازیہ شائع ہیں۔( زبان کسی ولی کی ہو اور کلام اللہ کریم کا) اور آگے امام رحمۃ اللہ علیہ جواب ارشاد فرماتے ہوئے فرماتے کہ: حضرت حسین منصور حلاج انا الحق نہیں کہتے تھے بلکہ اَنَا الْأحَق ( میں ہی زیادہ حق دار ہوں) کہتے تھے، ابتلائے الہی کے لیے سامعین کے فہم کی غلطی تھی۔ امام رحمۃ اللہ علیہ انا الاحق کی وجہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت منصورحلاج کی بہن بہت بڑی ولیہ و عارفہ تھیں روزانہ اخیر شب میں جنگل تشریف لے جاتی تھیں ایک رات جناب منصور صاحب کو شیطانی شبہ ہوا تو یہ آخیر رات تک جگتے رہے جب بہن آخیر شب آنے پر جنگل کی طرف چلیں تو جناب منصور حلاج نے بھی چپکے سے پیچھے ہو لیاوہ جنگل میں پہنچ کر عبادت میں مشغول ہوگئیں قریب صبح آپ کی بہن کے واسطے آسمان سے سونے کی زنجیر میں یاقوت کا جام اترا اور وہ آپ کی بہن کے دہن کے پاس آگیا یہ پیڑ کے پیچھے سے سب دیکھ رہے تھے، جب آپ کی بہن اسے پینے لگیں تو یہ بے چین ہوکر چلا کر کہا کہ بہن! تمہیں خدا کی قسم تھوڑا میرے بھی چھوڑ دو۔صرف ایک جرعہ (گھونٹ) آپ کے لیے چھوڑا، جس کے پیتے ہی ان کو ہر شجر و حجر اور درو دیوار سے آواز آنے لگی کہ کون زیادہ احق ہے( حق دار) کہ ہماری راہ میں قتل کیا جائے؟ یہ اس کا جواب دیتے انا الاحق ( بے شک میں زیادہ حق دار ہوں) لوگوں نےکچھ سنا اور جو منظور تھا واقع ہوا۔
یہاں سے امام اہل سنت سیدی سرکار اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے فرمایاکہ:حضرت سیدی بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ نے اس سوال کا جواب دیا کہ میں نہیں کہتا: وہ فرماتا ہے جسے فرمانا زیبا ہے ( اللہ تعالیٰ) ۔لوگوں نے جب دلیل مانگی تو آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب میں سبحانی مااعظم شانی کہوں تو خنجر لےکر وار کرنا تو جب آپ نے کہا تو لوگوں نے خنجر سے وار کرنا شروع کیا تو لوگ خود ہی گھائل ہوگئے بعد افاقہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نےملاحظہ فرمایا کہ لوگ گھائل پڑے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نہ کہتا تھا کہ میں نہیں کہتا وہ کہتا ہے جس کا کہنا بجا ہے۔اسے اور واضح فرماتے ہوئے امام فرماتے ہیں کہ:
فَلَمَّاۤ اَتٰىهَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ اَنْ یّٰمُوْسٰۤى اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ(30)پھر جب آگ کے پاس حاضر ہوا ندا کی گئی میدان کے دہنے کنارے سے برکت والے مقام میں پیڑ سے کہ اے موسیٰ بیشک میں ہی ہوں الله رب سارے جہان کا۔
(سورہ قصص آیت نمبر۳۰)
سیدنا موسی علیہ السلام نے درخت سے اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ کی آواز سنی ،جس سے یہی مفہوم ہوتا ہے کہ اسے درخت نے کہا لیکن اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے درخت پر تجلی فرمائی اور کلیم اللہ علیہ السلام کو اس سے آواز سنائی دی، جو اللہ درخت پر تجلی فرمائے تو درخت سےاِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ کی آواز آجائے تو وہی رب کیا بایزید بسطامی پر تجلی نہیں فرما سکتا جس کے باعث آپ رضی اللہ عنہ سبحانی مااعظم شانی(میں پاک ہوں اور کتنی عظیم میری شان ہے) فرمائیں ، اور آگے مثنوی شریف کے حوالے سے امام فرماتے ہیں کہ: ایک جن جس پر تسلط کرتا ہے اس کی زبان سے کلام کرتا ہے اس کے جوارح سے کام کرتا ہے کیا تمہارے نزدیک رب عزوجل ایسا نہیں کر سکتا کلام اس کا ہواور زبان بایزید کی، بایزید شجر موسی ہیں اور متکلم( کلام کرنے و الا) وہ جس نے فرمایا اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۔ (فتاویٰ رضویہ شریف ج ، ج 29 ،628،629،ناشر رضا اکیڈمی ممبئی)