Type Here to Get Search Results !

مدرسہ کے روپیہ سے قبرستان کے لئے راستہ خریدنا کیسا ہے؟


مدرسہ کے روپیہ سے قبرستان کے لئے راستہ خریدنا کیسا ہے؟
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ قبرستان میں جانے کیلئے راستہ نہیں ہے راستہ کیلئے زمین خریدنا ہے تو کیا مدرسہ کے روپیہ سے قبرستان میں جانے کیلئے زمین خرید سکتے ہیں یا نہیں مکمل جواب عنایت فرمائیں عین کرم ہوگا سائل:- محمد زبیر احمد قادری موجولیا بازار ضلع سیتا مڑھی بہار۔
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
  مدرسہ کے روپیہ سے قبرستان کا راستہ خریدنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس کا مالک چندہ دہندگان ہے اگر ناظم یا خزانچی مدرسہ کے رقم سے راستہ خریدا تو قوم کی امانت میں خیانت ہوئی اور خائن کے لئے گناہ و عذاب ہے اس لئے ایسا کرنے سے بچیں اور کرچکا ہے تو؛ توبہ کریں اور اپنے پاس سے تاوان ادا کریں ۔ 
حضور صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی رضوی قدس سرہ العزیز ارشاد فرماتے ہیں کہ جس خاص غرض کے لئے کیے گئے ہیں ( یعنی چندہ ) اس کے غیر میں صرف نہیں کئے جاسکتے ۔ اگر وہ غرض پوری ہوچکی ہو تو جس نے دیئے ہیں اس کو واپس کئے جائیں یا اس کی اجازت سے دوسرے کام میں خرچ کریں ۔بغیر اجازت خرچ کرنا ناجائز ہے۔
(فتاویٰ امجدیہ جلد سوم ص 39) 
ظاہر سی بات ہے کہ مدرسہ کا چندہ مدرسہ کے کام میں خرچ کرنے کے لئے لیا جاتا ہے نہ کہ قبرستان کے راستہ کے لئے یا کسی کو قرض دینے کے لئے یا مسجد کے کام میں خرچ کرنے کے لئے یا کسی کو کاروبار کرنے کے لئے یا مسجد کے امام کو تنخواہ دینے کے لئے لیا جاتا ہے لہذا جو چندہ جس مقصد کے لئے وصول کیا گیا یا کیا جاتا ہے یا کیا جارہا ہے اس کے غیر میں صرف کرنا جائز نہیں۔
یہ حکم بھی چندہ نافلہ کے متعلق ہے اور مدرسہ میں کئی جگہوں سے چندہ آتا ہے لہذا اس صورت میں اجازت لینی محال ہے اس لئے مدرسہ کے روپیہ سے قبرستان کے لئے راستہ خریدنا یا مدرسہ کا روپیہ کسی دوسرے کام میں لگانا ناجائز ہے ۔
حضور صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ چندہ جس کام کے لئے کیا گیا اس سے کچھ بچ رہا ہے اگر معلوم ہے کہ روپیہ فلاں کا ہے تو اسے واپس دیں یا اس کی اجازت سے جس کام میں چاہیں صرف کردیں۔
(فتاویٰ امجدیہ جلد سوم ص 263)
بلکہ ایک مدرسہ کا روپیہ دوسرے مدرسہ میں خرچ کرنا جائز نہیں فتاوی امجدیہ میں ہے کہ جب واقف نے روپیہ خاص اس مدرسہ میں صرف کرنے کے لئے دیا تو یہ دوسرے مدرسہ میں کیونکر صرف ہوسکتا ہے۔
(فتاویٰ امجدیہ جلد سوم ص 16)
جب ایک مدرسہ کا روپیہ دوسرے مدرسہ میں خرچ نہیں کرسکتے جبکہ دونوں کا مقصود دینی تعلیم ہے تو بھلا مدرسہ کے علاؤہ دوسرے کام میں خرچ کرنا اگرچہ نیک و جائز کام ہو کیونکر جائز ہوگا ؟ کبھی جائز نہیں ہوگا 
اگر متولی خرچ کرتا ہے تو اسے معزول کرنا واجب ہوگا 
اگر مدرسہ کے لئے چندہ دینے والا یعنی صدقہ نافلہ نہ کہ صدقات واجبہ چندہ نافلہ دیتے وقت ناظم یا متولی کو یہ کہہ دیا کہ اپنی رائے سے جس میں چاہیں خرچ کرسکتے ہیں تو اب جائز ہوگا۔
  فتاوی امجدیہ کی فہرست ص 393 پر ہے کہ 
چندہ دہندگان نے اگر متولی کو اختیار دے دیا تو خرچ کرنے میں متولی مختار ہوگا۔
حضور صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی قدس سرہ العزیز ارشاد فرماتے ہیں کہ
جبکہ موٹر لاری دینے والے نے اس کو یوں دیا ہو کہ اس آمدنی کے خرچ کرنے کی کوئی جہت مخصوص نہ کی ہو بلکہ متولیان کی رائے پر چھوڑا ہو کہ وہ مسجد یا مدرسہ یا قبرستان جس پر چاہیں صرف کریں۔ (فتاویٰ امجدیہ جلد سوم ص 42)
اب متولی جس میں چاہیں صرف کرسکتے ہیں.
حضرت مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ یہ
چندہ لینے والا چندہ دینے والے سے کہے کہ 
*آپ اجازت دیجئے کہ آپ کا چندہ یا کھال بیچ کر اس کی رقم دعوت اسلامی جہاں مناسب سمجھے وہاں نیک و جائز کام میں خرچ کرے دینے والا ہاں کہہ دے یا کسی طرح بھی آپ کی بات سے متفق ہوجائے تو کافی آسانی ہوجائے گی ورنہ اس کھال سے ملنے والی رقم یا چندہ کو دعوت اسلامی کے معروف طریق کار کے مطابق ہی خرچ کرنا ہوگا۔ اگر کسی اور نیک کام میں خرچ کردیا تو تاوان ادا کرنا ہوگا ۔یعنی جتنی رقم خرچ کی وہ اپنے پلے سے لوٹانی پڑے گی ۔بہتر یہ ہے کہ مذکور جملہ رسید پر لکھ دیا جائے اور جو چندہ یا کھال دے اس کو پڑھایا یا پڑھ کر سنا دیا جائے۔ (نماز کے احکام ص 258)
 مگر یہاں یہ صورت بھی مفید نہیں کیونکہ آج کل زکوۃ، فطرہ وصدقات واجبہ یا عوامی چندہ سب پر لفظ چندہ کا اطلاق ہوتا ہے اور زکوۃ ،فطرہ اور صدقات واجبہ خرچ کرنے میں حیلہ شرعی شرط ہے اور چندہ یعنی صدقہ نافلہ میں حیلہ شرعی شرط نہیں تو یہ صورت چندہ نافلہ میں مفید ہے مگر مدرسہ میں سب طرح کے رقوم آتے ہیں لہذا یہاں یہ صورت بھی مفید نہیں اس لئے اس رقم سے قبرستان کے لئے راستہ خریدنا جائز نہیں ہوگا 
ایک سوال کہ کسی نے خاص مدرسہ کے نام پر چندہ دیا کیا وہ دعوت اسلامی کے دیگر مدنی کاموں میں خرچ کرسکتے ہیں ؟
 اس سوال کے جواب میں شیخ طریقت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ نہیں کرسکتے اگر کیا تو تاوان دینا ہوگا کیونکہ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ جس مد (یعنی کام ) کے لئے چندہ لیا اسی میں خرچ کرنا ہوگا ۔حتی کہ اگر بچ گیا تو جس نے دیا اسی کو لوٹانا ہوگا ۔یا اس کی اجازت سے خرچ کرنا ہوگا۔
( نماز کے احکام ص 359) 
اس سے بھی واضح کہ مدرسہ کی رقم سے مدرسہ کے علاؤہ دوسرے کام میں مدرسہ کا روپیے خرچ نہیں کرسکتے ہاں اگر مدرسہ کو ضرورت نہیں ہے تو اب چندہ دہندگان کو واپس کردیں یا اس کی اجازت سے جس کام میں خرچ کرنے کا حکم دیں اسی میں خرچ کریں اور ظاہر سی بات ہے کہ مدرسہ کو ہمیشہ روپے کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ اس لئے روپیہ بچتا ہی نہیں کہ چندہ واپس کیا جائے 
زکوہ ،فطرہ اور صدقات واجبہ میں وکیل کو یا چندہ کرنے والے کو کلی اختیار لینے کی حاجت نہیں کیوں کہ اس میں کسی بھی مستحق کو یعنی فقیر مسکین غیر صاحب نصاب کو قبضہ میں دے کر مالک بنانا شرط ہے اگرچہ زکوہ ،فطرہ وغیرہا مدرسہ کو دیتے ہیں مگر یہاں بغیر حیلہ شرعی کے مدرسہ میں بھی خرچ کرنا ناجائز وحرام ہوگا ۔ 
ہاں چندہ دیتے یا حیلہ شرعی کے بعد رقم لوٹاتے وقت وہ دینے والا فقیر دوسرے کام یا کلی اختیار دینے کے لئے یہ کہے کہ یہ رقم آپ جہاں مناسب سمجھے خواہ مسجد مدرسہ قبرستان یا راستہ خریدنے یا ان کاموں کے لئے زمین خریدنے ہر جائز ونیک کام میں خرچ کرے اب وہ دوسرے جائز ونیک کام میں خرچ کرسکتا ہے ورنہ نہیں 
ہاں صدقات واجبہ کے علاؤہ جو چندہ دیا جاتا ہے وہ نفلی صدقہ کہلاتا ہے اس میں تملیک شرط نہیں اس چندہ کو لیتے وقت چندہ دہندہ سے اجازت اس طرح لیں کہ چندہ دہندہ کہے کہ آپ اراکین مدرسہ جہاں مناسب سمجھے وہاں نیک و جائز کام میں خرچ کرے اس طرح آپ کو صدقہ نافلہ خرچ کرنے کا اختیار ہوگیا۔ 
خلاصہ یہ کہ صدقات واجبہ میں حیلہ شرعی شرط ہے اور صدقہ نافلہ میں حیلہ شرعی شرط نہیں ہے لیکن چندہ جو صدقہ نافلہ ہے وہ بھی جس کام کے لئے لیا اسی میں خرچ کرے ہاں اجازت کے بعد دوسرے کام میں خرچ کرسکتے ہیں اور جو چندہ کا ماحول کہ دہلی ، ممبئی ، بیرون ملک ، قطر اور نیپال کئی جگہوں سے چندہ لایا جاتا ہے تو اس لحاظ سے اجازت بہت مشکل ہے اسی لئے اس کا آسان طریقہ ہے کہ رسید پر مذکور جملہ لکھ دیا جائے اور جب کوئی بندہ نافلہ دے تو اس کو وہ جملہ پڑھا دیا جائے یا پڑھ کر سنا دیا جائے اور اس سے اجازت لے لی جائے ورنہ دوسرے کام میں صرف کرنا ناجائز وحرام ہوگا
اور آج کل اس طریق کار سے چندہ نافلہ یا صدقہ واجبہ نہیں لیا جاتا ہے لہذا ابھی مدرسہ کے روپیے سے قبرستان کے لئے راستہ خریدنا ناجائز و حرام اور باطل ہے جو خریدےگا اسے توبہ کے ساتھ اتنے رقوم تاوان ادا کرنا ہوگا اور خدا تعالیٰ توبہ قبول فرماتا ہے۔ 
قبرستان کے راستے کے لئے عوامی چندہ صدقہ نافلہ لوگوں سے لیا جائے پھر وہ راستہ خریدا جائے یہی محتاط اور صحیح حکم ہے 
ہاں اس میں بھی جبرا چندہ نہیں لیا جائے کہ آپ کو اتنا روپیہ دینا ہوگا اگر نہیں دیا تو سماجک بائیکاٹ کردیا جائے گا  
حضور صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی رضوی رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
جبرا چندہ لینا حرام ہے
(فتاویٰ امجدیہ جلد چہارم ص 75)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق 
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
14 جمادی الاخرۃ 1445
28۔ دسمبر 2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area