کیا تالیف قلوب کے لئے کافر حربی کے ساتھ نیک سلوک یا قربانی کا گوشت دینا جائز ہے؟
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
کیا تالیف قلوب کے لئے کافر حربی کے ساتھ نیک سلوک یا قربانی کا گوشت دینا جائز ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
اس طرح فتویٰ دینا جائز نہیں کیونکہ جو چیز دینا ناجائز ہو وہ چیز تالیف قلب کی دینا جائز کیسے ہوسکتا ہے لہذا یہ قول کہ تالیف قلوب کے لئے قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا جائز ہے یہ غلط قول ہے اس سے بھی توبہ فرض ہے اولا اب تالیف قلب کا حکم مرتفع ہوچکا ۔حضور شارح بخآری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔
اولا اب تالیف قلب کا حکم مرتفع ہوچکا ہے
ثانیا تالیف قلب کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ محرمات کا ارتکاب کیا جائے
تالیف قلب کا مطلب صرف یہ تھا کہ ان سے ملو جلو ان کو داد دہیش کرو یہ حکم بھی زمانہ رسالت تک خاص تھا اب نہیں۔
تفسیر احمدیہ میں ہے ۔
بس یہ کہنا کہ تالیف قلب کے ایسا کرنا جائز ہے یہ غلط ہے انہوں نے غلط فتوی دیا اس سے توبہ فرض ہے
سقط ذلک باجماع الصحابۃ فی خلافۃ آبی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذ لما اعزاللہ الاسلام آغنی عنھم فارتفع سھمھم لان الحکم متی یثبت معقولا لمعنی خاص لپ یرتفع و ینتھی لذھاب ذلک المعنی مافی المدارک۔
اولا اب تالیف قلب کا حکم مرتفع ہوچکا ہے
ثانیا تالیف قلب کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ محرمات کا ارتکاب کیا جائے
تالیف قلب کا مطلب صرف یہ تھا کہ ان سے ملو جلو ان کو داد دہیش کرو یہ حکم بھی زمانہ رسالت تک خاص تھا اب نہیں۔
تفسیر احمدیہ میں ہے ۔
بس یہ کہنا کہ تالیف قلب کے ایسا کرنا جائز ہے یہ غلط ہے انہوں نے غلط فتوی دیا اس سے توبہ فرض ہے
سقط ذلک باجماع الصحابۃ فی خلافۃ آبی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذ لما اعزاللہ الاسلام آغنی عنھم فارتفع سھمھم لان الحکم متی یثبت معقولا لمعنی خاص لپ یرتفع و ینتھی لذھاب ذلک المعنی مافی المدارک۔
(فتاوی شارح بخاری جلد سوم ص 270 بحوالہ تفسیرات احمدیہ ص 305)
اب سوال اٹھتا ہے کہ آج کے زمانہ میں تالیف قلب کے لئے کافر حربی کے ساتھ نیک سلوک کرنا یا قربانی کا گوشت دینا یا اس کے مذہبی میلا میں جانا اس کے لئے دادو دہش دینا جائز کہنے والے پر کیا حکم ہوگا؟
الجواب:- انہیں اپنے ان اقوال پر توبہ فرض ہے کہ جو چیز شرعا منع اسے تالیف قلب کے جائز نہیں کہ سکتے اگر وہ کافر کو اہل ثواب جان کر ثواب کی نیت سے دینے کا فتویٰ دینے والے پر توبہ تجدید ایمان و تجدید نکاح تجدید بیعت سب فرض ہے
کیونکہ فقہاء کرام نے سختی سے منع فرمایا ہے جب کافر اہل ثواب نہیں تو پھر اسے صدقہ دینا کیوں کر مفید کہ جو کام ثواب نہیں وہ کام کرنا عقلمندی کی دلیل نہیں ہے
(3) کافر حربی ۔امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
ہمارے ائمہ کرام نے حربی کو صدقہ نافلہ دینے کی ممانعت سے ان کی عورتوں بچوں کسی کو مستثنی نہ فرمایا حکم عام دیا۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ آج کے زمانہ میں تالیف قلب کے لئے کافر حربی کے ساتھ نیک سلوک کرنا یا قربانی کا گوشت دینا یا اس کے مذہبی میلا میں جانا اس کے لئے دادو دہش دینا جائز کہنے والے پر کیا حکم ہوگا؟
الجواب:- انہیں اپنے ان اقوال پر توبہ فرض ہے کہ جو چیز شرعا منع اسے تالیف قلب کے جائز نہیں کہ سکتے اگر وہ کافر کو اہل ثواب جان کر ثواب کی نیت سے دینے کا فتویٰ دینے والے پر توبہ تجدید ایمان و تجدید نکاح تجدید بیعت سب فرض ہے
کیونکہ فقہاء کرام نے سختی سے منع فرمایا ہے جب کافر اہل ثواب نہیں تو پھر اسے صدقہ دینا کیوں کر مفید کہ جو کام ثواب نہیں وہ کام کرنا عقلمندی کی دلیل نہیں ہے
(3) کافر حربی ۔امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
ہمارے ائمہ کرام نے حربی کو صدقہ نافلہ دینے کی ممانعت سے ان کی عورتوں بچوں کسی کو مستثنی نہ فرمایا حکم عام دیا۔
جامع صغیر امام محمد و ہدایہ ودرر و عنایہ و کفایہ و جوہرہ ومستصفی پھر نیایہ و غایۃ البیان و فتح القدیر و بحر الرائق وکافی و تبین وتفسیر احمدی وفتح اللہ المبین و غنیہ ذوی الاحکام کتب معتمدہ میں ہے یہ کل سولہ (16) کتب معتمدہ سے ثابت ہے کہ کافر حربی کو صدقات نافلہ دینا جائز نہیں ہے
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت نے اپنے موقف کہ یہاں کسی کافر فقیر کو بھیک دینا بھی جائز نہیں کہ تائید میں ۔سولہ کتابوں سے دلیل نقل فرماکر پھر لکھتے ہیں کہ
معراج الدرایہ میں ہے
صلۃ لایکون برا شرعا ولذا لم یجز التطوع الیہ اس کا ترجمعہ میں فتاویٰ رضویہ میں اس طرح ہے کہ
حربی سے نیک سلوک شرعا کوئی نیکی نہیں اس لئے اسے نفل خیرات دینا حرام ہے۔
اب آپ ذرا غور سے پڑھیں کہ اس عبارت سے دو باتیں واضح ہوئیں
(1) کافر حربی سے نیک سلوک شرعا کوئی نیکی نہیں
(2) اس لئے اسے نفل خیرات دینا حرام ہے
یہاں نفل خیرات نہ دینے کی علت یہ ہے کہ کافر حربی کو خیرات دینے میں کوئی ثواب نہیں ہے اس لئے نفل صدقہ دینا حرام ہے یہاں لم یجز یعنی جائز نہیں اور جائز نہیں کو ترجمعہ میں حرام لکھا گیا
(کیا جائز نہیں حرام کے مقابل استعمال ہوتا ہے
اور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم پھر اس دلیل سے استدلال کرتے ہیں کہ
عنایہ امام اکمل میں ہے
التصدق علیھم مرحمۃ لھم و مواساۃ وھی منا فیۃ لمقتضی انہیں خیرات دینا ان پر ایک طرح کی مہربانی اور ان کی غمخواری ہے اور یہ حکم قرآن مجید کے خلاف ہے
اس سے صاف واضح ہوا کہ کافر حربی کے ساتھ مہربانی کرنا قرآن مجید کے خلاف ہے
پھر لکھتے ہیں کہ
لایجوز للمسلم بر الحربی
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت نے اپنے موقف کہ یہاں کسی کافر فقیر کو بھیک دینا بھی جائز نہیں کہ تائید میں ۔سولہ کتابوں سے دلیل نقل فرماکر پھر لکھتے ہیں کہ
معراج الدرایہ میں ہے
صلۃ لایکون برا شرعا ولذا لم یجز التطوع الیہ اس کا ترجمعہ میں فتاویٰ رضویہ میں اس طرح ہے کہ
حربی سے نیک سلوک شرعا کوئی نیکی نہیں اس لئے اسے نفل خیرات دینا حرام ہے۔
اب آپ ذرا غور سے پڑھیں کہ اس عبارت سے دو باتیں واضح ہوئیں
(1) کافر حربی سے نیک سلوک شرعا کوئی نیکی نہیں
(2) اس لئے اسے نفل خیرات دینا حرام ہے
یہاں نفل خیرات نہ دینے کی علت یہ ہے کہ کافر حربی کو خیرات دینے میں کوئی ثواب نہیں ہے اس لئے نفل صدقہ دینا حرام ہے یہاں لم یجز یعنی جائز نہیں اور جائز نہیں کو ترجمعہ میں حرام لکھا گیا
(کیا جائز نہیں حرام کے مقابل استعمال ہوتا ہے
اور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم پھر اس دلیل سے استدلال کرتے ہیں کہ
عنایہ امام اکمل میں ہے
التصدق علیھم مرحمۃ لھم و مواساۃ وھی منا فیۃ لمقتضی انہیں خیرات دینا ان پر ایک طرح کی مہربانی اور ان کی غمخواری ہے اور یہ حکم قرآن مجید کے خلاف ہے
اس سے صاف واضح ہوا کہ کافر حربی کے ساتھ مہربانی کرنا قرآن مجید کے خلاف ہے
پھر لکھتے ہیں کہ
لایجوز للمسلم بر الحربی
یعنی حربی کے ساتھ نیک سلوک حرام ہے
یہاں لایجوز کا معنی حرام کیا گیا ہے
ایک اشکال اور اس کا حل
اس عبارت میں لایجوز آیا ہے جس کا صحیح ترجمہ:جائز نہیں یونا چایئے جبکہ یہاں حرام ترجمہ کیا گیا ہے کیا لایجوز کا اطلاق. لایحل
پر ہوتا ہے.؟
الجواب :- فقہ میں کبھی لایجوز کا معنی لایحل کیا جاتا ہے ۔جیسے فتح القدیر و غنیہ و بحر الرائق وغیرہا کے حوالہ سے فتاوی رضویہ میں ہے کہ
یرار بعدم الجواز عدم الحل ای عدم حل ان یفعل وھو لاینا فی الصحۃ
یہاں لایجوز کا معنی حرام کیا گیا ہے
ایک اشکال اور اس کا حل
اس عبارت میں لایجوز آیا ہے جس کا صحیح ترجمہ:جائز نہیں یونا چایئے جبکہ یہاں حرام ترجمہ کیا گیا ہے کیا لایجوز کا اطلاق. لایحل
پر ہوتا ہے.؟
الجواب :- فقہ میں کبھی لایجوز کا معنی لایحل کیا جاتا ہے ۔جیسے فتح القدیر و غنیہ و بحر الرائق وغیرہا کے حوالہ سے فتاوی رضویہ میں ہے کہ
یرار بعدم الجواز عدم الحل ای عدم حل ان یفعل وھو لاینا فی الصحۃ
یعنی عدم جواز سے عدم حل یعنی حلال نہیں مراد لیا جاتا ہے یعنی اس کا کرنا حلال نہیں اور یہ صحیح کے منافی نہیں۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 11 ص 389)
اور جو حلال نہیں ہے وہ حرام ہی ہوتا ہے یعنی حرام ہے کیونکہ حلال کا ضد حرام ہے جائز کا ناجائز اور صحیح کا غیر صحیح ہوتا ہے
دوسری دلیل کہ
لما فی ردالمحتار قولہ ای تحریما لقول الکافی لا یجوز والمجمع لایباح یعنی ردالمحتار میں ہے وقولہ یکرہ یعنی تحریمی مراد ہے کیونکہ صاحب کافی نے کہا کہ لایجوز یعنی جائز نہیں ۔اور مجمع میں ہے یہ مباح نہیں۔
اور جو حلال نہیں ہے وہ حرام ہی ہوتا ہے یعنی حرام ہے کیونکہ حلال کا ضد حرام ہے جائز کا ناجائز اور صحیح کا غیر صحیح ہوتا ہے
دوسری دلیل کہ
لما فی ردالمحتار قولہ ای تحریما لقول الکافی لا یجوز والمجمع لایباح یعنی ردالمحتار میں ہے وقولہ یکرہ یعنی تحریمی مراد ہے کیونکہ صاحب کافی نے کہا کہ لایجوز یعنی جائز نہیں ۔اور مجمع میں ہے یہ مباح نہیں۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 7 ص 155 بحوالہ ردالمحتار باب السجود التلاوۃ جلد 1 ص 567)
یہاں لایجوز کا اطلاق مکروہ تحریمی ہر ہوا اور مکروہ تحریمی حرام کے قریب ہوتا ہے فقہاء اکثر حرام ہی کا استعمال کرتے ہیں اور امام محمد کے نزدیک مکروہ تحریمی حرام ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
یہاں لایجوز کا اطلاق مکروہ تحریمی ہر ہوا اور مکروہ تحریمی حرام کے قریب ہوتا ہے فقہاء اکثر حرام ہی کا استعمال کرتے ہیں اور امام محمد کے نزدیک مکروہ تحریمی حرام ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری
مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی