Type Here to Get Search Results !

جنگ بندی کے شرائط پر اختلاف برقرار


مبسملا وحامدا ومصلیا ومسلما
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
جنگ بندی کے شرائط پر اختلاف برقرار
••────────••⊰❤️⊱••───────••
(1)یہودی حکومت چاہتی ہے کہ سات دن کی جنگ بندی ہو،اور حماس چالیس یہودی قیدیوں کو چھوڑ دے۔سات دن کے بعد یہودی حکومت پھر بمباری کر کے عام شہریوں کا قتل عام کرے گی۔درمیان میں ایک بار سات دنوں کی جنگ بندی ہو چکی ہے۔اس کے بعد یہودیوں نے غزہ پٹی کے عام شہریوں پر بمباری کر کے دوبارہ قتل عام اور نسل کشی شروع کر دی ہے۔
دراصل یہودی حکومت پر ان یہودیوں کا دباؤ ہے جن کے لوگ حماس کی قید میں ہیں۔یہ لوگ اسرائیل میں سخت مظاہرے کر رہے ہیں،لہذا یہودی حکومت چاہتی ہے کہ یہودی قیدیوں کو حماس کی قید سے آزاد کرا لیا جائے،اس کے بعد فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام جاری رکھیں۔یہودیوں کا مقصد فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام اور فلسطینی علاقوں پر قبضہ ہے۔
مصر میں حماس کے لیڈر اسماعیل ہانیہ اور یہودی حکومت کے نمائندوں کے درمیان عارضی طور پر سات روزہ جنگ بندی کی بات چیت ہو رہی تھی۔خبر کے مطابق حماس نے عارضی جنگ بندی کو قبول نہیں کیا ہے۔فلسطینی مجاہدین مستقل جنگ بندی چاہتے ہیں،ورنہ سات دن کے بعد یہودی حکومت پھر قتل عام مچائے گی اور جنگ بندی کی مدت میں بھی یہودی فوج فلسطینی شہریوں کو قتل کرتی رہے گی،جیسا کہ چند دنوں قبل پہلی جنگ بندی کی مدت میں یہودی فوج عام شہریوں کو قتل کر رہی تھی۔جنگ بندی کی مدت میں صرف بمباری بند ہوئی تھی۔
(2) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی جنگ بندی کی قرار داد پیش کی گئی ہے۔19:دسمبر کو ووٹنگ ہونے والی تھی،لیکن امریکہ کی ہٹ دھرمی کے سبب تین دنوں سے ووٹنگ ملتوی ہو رہی ہے۔امریکہ جنگ بندی نہیں چاہتا ہے۔اس کا اعتراض ہے کہ اسرائیل کو حق دفاع حاصل ہے۔
حالاں کہ حق دفاع کے سبب عام شہریوں کو ہلاک نہیں کیا جاتا ہے۔حماس کے مجاہدین سرنگوں میں رہتے ہیں اور سرنگوں میں داخل ہوتے ہی یہودیوں کو ہلاک کر دیا جاتا ہے۔سرنگوں کو تباہ کرنے کے لئے امریکہ نے بنکر بسٹر بم اسرائیل کو دیا تھا،لیکن یہ بم سرنگوں کو تباہ کرنے کے قابل نہیں۔سرنگوں میں پانی بھی نہیں ڈالا جا سکا اور جن سرنگوں میں مجاہدین کے ٹھکانے ہیں،یہود ونصاری کو ان سرنگوں کے راستوں کا بھی پتہ نہیں۔مخالف فوج پر حملہ کے لئے جو سرنگ بنائے گئے ہیں،ان میں سے صرف چند سرنگوں کی جانکاری یہودیوں کے پاس ہیں۔
امریکہ نے صرف مسلم ممالک(عراق،شام،لیبیا،افغانستان)میں قریبا ایک کروڑ انسانوں کو ہلاک کیا ہے۔غزہ پٹی میں صرف 23:لاکھ مسلمان رہتے ہیں۔ان تمام فلسطینیوں کو ہلاک کرنا کون سا مشکل کام ہے۔امریکہ حالیہ جنگ کے دوران یہ بھی کہہ چکا ہے کہ جنگوں میں عام لوگوں کی بھی ہلاکت ہوتی ہے۔اس طرح امریکہ عام شہریوں کی ہلاکت کے لئے راستہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔
یہودیوں نے فلسطینی مسلمانوں کی زمین پر قبضہ کر کے ایک ملک بنا لیا ہے اور مسلمانوں کو ان کی سرزمین سے نکال دیا ہے۔اقوام متحدہ نے فلسطینیوں کو جو زمین دی تھی،اس پر بھی اسرائیل نے قبضہ کر لیا ہے اور باہر سے آنے والے غاصب یہودی ایک صدی سے مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھا رہے ہیں تو فلسطینی مسلمانوں کو بھی حق دفاع حاصل ہونا چاہیے۔وہ بھی اگر اپنی زمین سے یہودیوں کو بھگانے کے لئے کوئی اقدام کرتے ہیں تو اس اقدام کو صحیح قرار دینا چاہئے،حالاں کہ امریکہ حماس کو دہشت گرد گروپ اور حماس کی کاروائیوں کو دہشت گردی قرار دیتا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ امریکہ واسرائیل ہی دہشت گرد ہیں۔اب تو دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔امریکہ نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔
(3)غزہ پٹی میں مختلف ممالک کے یہود ونصاری اسرائیل کی طرف سے جنگ لڑ رہے ہیں اور امریکہ،برطانیہ،جرمنی ودیگر ممالک کی فوجیں بھی جنگ لڑ رہی ہیں۔حماس کے مجاہدین مخالف فوج کے بہت سے سپاہیوں کو ہلاک کر چکے ہیں۔
مہلوکین میں مختلف ممالک کی فوجی شامل ہیں۔جب اسرائیل اپنے فوجیوں کی ہلاکت کی صحیح تعداد نہیں بتاتا ہے تو دیگر ممالک کے فوجیوں کی ہلاکت کی تعداد کیسے بتا سکتا ہے۔
(4)بتایا جاتا ہے کہ حماس کے مجاہدین کی تعداد چالیس ہزار ہے اور اسرائیل نے غزہ پٹی کے پینتالیس ہزار عمارتوں پر بمباری کی ہے۔اسرائیل کہتا ہے کہ ہمارے جہاز انہیں عمارتوں پر بمباری کرتے پیں،جن میں حماس کے مجاہدین رہتے ہیں۔جب پینتالیس ہزار عمارتوں پر حملے ہو چکے ہیں تو حماس کے سارے مجاہدین ختم ہو چکے ہوں گے،کیوں کہ مجاہدین کی تعداد صرف چالیس ہزار ہے اور پینتالیس ہزار عمارتوں پر بمباری ہو چکی ہے۔
جب اسرائیل کو آج تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہودی قیدی کہاں ہیں تو اسرائیلی حکومت کو یہ کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ حماس کے مجاہدین کن عمارتوں میں ہیں۔یہ بات تو ساری دنیا میں مشہور ہے کہ حماس کے مجاہدین سرنگوں میں رہتے ہیں،پھر عام شہریوں کی عمارتوں پر بمباری کرنا اور عام شہریوں کو ہلاک کرنا یقینا بین الاقوامی جرم ہے۔اس سخت جرم پر اسرائیلی حکومت پر قتل عام اور نسل کشی کا مقدمہ ضرور ہونا چاہئے۔
••────────••⊰❤️⊱••───────••
کتبہ:- طارق انور مصباحی
جاری کردہ:21:دسمبر 2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area