Type Here to Get Search Results !

جہاں سنی مسجد نہ ہو وہاں پنچوقتی نماز یا جمعہ کہاں پڑھا جائے۔


 جہاں سنی مسجد نہ ہو وہاں پنچوقتی نماز یا جمعہ کہاں پڑھا جائے۔
_____________________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
ایک سنی صحیح العقیدہ ہے جو ہاسٹل میں پڑھتا ہے لیکن وہاں دیوبندی کا مسجد ہے سنی کا مسجد دس کلو مٹر کی دوری پہ ہے تو اس صورت میں شرع کا کیا حکم ہے ؟
 جمعہ کی نماز پڑھے گا یا پھر ظہر کی ؟ مدلل طور پر جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع دیں۔
  سائل:- محمد ذیشان رضا مہاراشٹر انڈیا
اس سوال کا جواب حضرت مفتی ابراہیم صاحب قبلہ نے صحیح دیا لیکن حوالہ نہ ہونے کی وجہ سے سائل لکھتا ہے کہ عالم کا قول ہی مدلل ہوتا ہے۔
________________________
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
جس گاؤں یا شہر یا ہوسٹل میں کوئی سنی مسجد یا امام نہ ہو وہ کچھ شرائط کے ساتھ تنہا نماز پڑھئے اسے مسجد کا ثواب ملے گا 
حضور بحر العلوم حضرت علامہ مولانا مفتی عبد المنان اعظمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ
پنچ وقتہ نماز کا اگر مسجد میں موقع ملے تو مسجد میں ہی ان سے علیحدہ اکیلے پڑھ لیجئے ۔اور مسجد میں فتنہ فساد کا ڈر ہوتو گھر میں ہی ایک پاک جگہ نماز کے لئے منتخب کرلیجئے ۔اور وہیں پانچوں وقت پڑھ لیجئے آپ کو مسجد کا ہی ثواب ملے گا ۔جمعہ اگر آس پاس میں سنی امام کے پیچھے ملنے کی توقع ہو تو وہیں جاکر پڑھ لیجئے ورنہ اس دن اپنے گھر میں ہی ظہر کی نماز پڑھئے نماز عید بھی اگر کہیں سنی امام کے پیچھے ملے تو سبحان اللہ ورنہ آپ سے معاف ہے جیسے دیہات والوں پر جمعہ وعید نہیں تراویح بھی آپ ان کے پیچھے نہیں پڑھ سکتے تنہا پڑھئے۔
(فتاوی بحر العلوم جلد اول ص 389)
اقول ۔اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ غیر سنی کی مسجد میں اس کی جماعت کے بعد تنہا نماز پڑھنے میں فتنہ وفساد کا اغلب امکان ہے لہذا تنہا ہی پڑھنے میں بھلائی ہے ہاں اگر فتنہ وفساد کا اغلب امکان نہیں تو یا اس کی جماعت سے پہلے یا بعد میں اکیلے پڑھئے یہ آپ پر منحصر ہے اور جواب وہی ہے جو اوپر منقول ہے 
جناب سائل صاحب آپ کا حوالہ کے ساتھ جواب دے دیا گیا ہے عمل کرے 
ایک اشکال اور اس کا حل:-
حدیث شریف میں ہے ک 
صلوا خلف کل بر وفاجر
یعنی ہر نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھو تو پھر بدمذہب گمراہ مرتد کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھا جائے گا ؟
الجواب ۔
یہ حکم حالت فتنہ وفساد ہونے کے اغلب گمان کی وجہ سے فاسق امام کی اقتداء کے لئے خاص ہے اس میں بدمذہب گمراہ ومرتد شامل نہیں ہے چونکہ زمانہ خلافت میں سلاطین خود امامت کرتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم تھا کہ ان میں فاسق وفاجر بھی ہوں گے اور نیکوں کے دل ان کی اقتداء سے تنفر کریں گے ۔اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بھی معلوم تھا کہ ان باشاہوں سے اختلاف فتنہ کی آگ بھڑکائے گا ۔اور فتنہ وفساد کا دفع کرنا اقتداء فاسق سے زیادہ اہم تھا اس لئے حکم دیاکہ صلوا خلف کل بر وفاجر 
لیکن بدمذہب گمراہ مرتد نہ نیک ہے نہ فاسق ہے بلکہ بدمذہب گمراہ مرتد ہر عرب وعجم کے علماء نے کفر کا فتوی دیا ہے اور کفر کرنے والے کے پیچھے اہل سنت وجماعت کی نماز نہیں ہوگی لیکن فاسق کی اقتداء میں نماز درست ہوجاتی ہے مگر اسے امام بنانا مکروہ تحریمی ہے کہ وہ قابل تعظیم نہیں مگر وہ ایمان والا اس کے پیچھے نماز درست ہوگی یعنی فرض گردن سے اتر جائے گا لیکن نماز ترک واجب سے واجب الاعادہ ہوگی 
اب اس میں کوئی اشکال باقی نہیں ہے اور بدمذہب گمراہ کافر مرتد مسلمان ہی نہیں اس لئے وہ اس حکم میں شامل نہیں ہے یہ حکم مسلم فاسق کے لئے خاص ہے پھر بھی فاسق معلن کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے  
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ النفس محقق دوراں مفتی اعظم بہارحضرت علامہ 
مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 
مورخہ 14 جمادی الاول 1445
29 نومبر 2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area