•┈┈┈┈•••✦﷽✦•••┈┈┈┈•
اسلام میں خرید و فروخت کے طریقہ کار
••────────••⊰❤️⊱••───────••
اللہ ربّ العزّت نے اپنے بندوں کو اپنی تمام نعمتوں سے مالامال فرمایا اور سب کی حاجتیں پوری فرمائی، جہاں عبادات کے طریقے بتاتا ہے وہیں معاملات کے متعلق بھی پوری روشنی ڈالتا ہے تاکہ زندگی کا کوئی شعبہ ادھورا اور نامکمل نہ رہے اور مسلمان کسی عمل میں احکام اسلام کے سوا کسی دوسرے کا محتاج نہ رہے۔
چنانچہ اللہ جل شانه و عما نواله اپنی کتاب قرآن میں فرماتا ہے : أَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبوا
چنانچہ اللہ جل شانه و عما نواله اپنی کتاب قرآن میں فرماتا ہے : أَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبوا
ترجمہ کنزالایمان: اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام فرمایا۔
اس آیت کریمہ سے خرید و فروخت کا ثبوت ملتا ہے اور سود کو حرام قرار دیا گیا نیز ناجائز طریقے پر مال حاصل کرنے کی بھی ممانعت فرمائی گئی چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے:
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اس آیت کریمہ سے خرید و فروخت کا ثبوت ملتا ہے اور سود کو حرام قرار دیا گیا نیز ناجائز طریقے پر مال حاصل کرنے کی بھی ممانعت فرمائی گئی چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے:
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
ترجمہ کنزالایمان: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر جان بوجھ کر کھالو۔
اور فرماتا ہے:
اور فرماتا ہے:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُوا۟ لَا تَأْكُلُوٓا۟ أَمْوَٰلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَٰطِلِ إِلَّآ أَن تَكُونَ تِجَٰرَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ
ترجمہ کنزالایمان:- اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ، ہاں اگر باہمی رضامندی سے تجارت ہو تو کوئی حرج نہیں۔
خرید و فروخت میں کم ناپ تول کرنا ناجائز و حرام ہے قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے مختلف مقامات پر اس عمل قبیح کی مذمت بیان فرمائی ہے اور اس پر سختی وعیدیں بھی سنائی ہے۔
خزائن العرفان میں ہے کہ جب حضور صلی الله علیہ وسلم مدینہ میں تشریف فرما ہوئے تو یہاں کے لوگ پیمانہ میں خیانت کرتے تھے بالخصوص ایک شخص ابو جہینہ ایسا تھا جو کہ وہ دو پیمانے رکھتا تھا لینے کا اور دینے کا چنانچہ ان لوگوں کے حق میں آیتیں نازل ہوئیں اور انھیں ناپ تول میں عدل کرنے کا حکم دیاگیا ارشاد باری تعالی ہے:
خرید و فروخت میں کم ناپ تول کرنا ناجائز و حرام ہے قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے مختلف مقامات پر اس عمل قبیح کی مذمت بیان فرمائی ہے اور اس پر سختی وعیدیں بھی سنائی ہے۔
خزائن العرفان میں ہے کہ جب حضور صلی الله علیہ وسلم مدینہ میں تشریف فرما ہوئے تو یہاں کے لوگ پیمانہ میں خیانت کرتے تھے بالخصوص ایک شخص ابو جہینہ ایسا تھا جو کہ وہ دو پیمانے رکھتا تھا لینے کا اور دینے کا چنانچہ ان لوگوں کے حق میں آیتیں نازل ہوئیں اور انھیں ناپ تول میں عدل کرنے کا حکم دیاگیا ارشاد باری تعالی ہے:
وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ •الَّذِیْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ• وَ اِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّ زَنُوْهُمْ یُخْسِرُوْنَ• اَلَا یَظُنُّ اُولٰٓىٕكَ اَنَّهُمْ مَّبْعُوْثُوْن• لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ• یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
ترجمہ کنزالایمان:- کم تولنے والوں کی خرابی ہے۔ وہ کہ جب اوروں سے ماپ لیں تو پورا لیں ۔اور جب انہیں ناپ یا تول کردیں تو کم کردیں ۔کیا ان لوگو کو گمان نہیں کہ انھیں اٹھنا ہےایک عظمت والے دن کے لئے۔ جس دن سب لوگ رَبُّ العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔
اور اسلام میں خرید وفروخت کے طریقۂ کار میں سے یہ بھی ہے کہ اس میں نرمی، سماحت، حسن سلوک اور درگزر ہونی چاہئے چوں کہ حدیث پاک کے ذریعے اس کی تائید ہوتی ہے۔
صحیح بخاری و سنن ابن ماجہ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اور اسلام میں خرید وفروخت کے طریقۂ کار میں سے یہ بھی ہے کہ اس میں نرمی، سماحت، حسن سلوک اور درگزر ہونی چاہئے چوں کہ حدیث پاک کے ذریعے اس کی تائید ہوتی ہے۔
صحیح بخاری و سنن ابن ماجہ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جو شخص خریدنے، بیچنے اور تقاضے میں نرمی کرے اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرماےگا اسی کے مثل ترمذی، حاکم و بیہقی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور احمد نسائی و بیہقی عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے (صحیح بخاری، کتاب البیوع، باب السماحة فی البیع، جلد ٣ الحدیث،٢٢٠٣، ص ٣٨)
صحیحین میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
صحیحین میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
” زمانۂ گزشتہ میں ایک شخص کی روح قبض کرنے جب فرشتہ آیا، اس سے کہا گیا کہ تجھے معلوم ہے کہ تونے کچھ اچھا کام کیا ہے اس نے کہا میرے علم میں کوئی اچھا کام نہیں ہے اس سے کہا گیا غور کر کے بتا اس نے کہا اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ میں دنیا میں لوگوں سے بیع کرتا تھا اور ان کے ساتھ اچھی طرح پیش آتا اگر مالدار بھی مہلت مانگتا تو اسے دے دیتا اور تنگ دست سے درگزر کرتا تھا یعنی معاف کردیتا تھا، اللہ تعالیٰ نے اسے جنت میں داخل فرما دیا۔
(صحیح البخاری، کتاب البیوع، باب السھولة والسماحة، جلد٢، ص١٢، حدیث نمبر٢٠٧٦، ماخوذ از بہار شریعت جلد دوم حصہ یازدہم)
اور صحیح مسلم کی ایک روایت عقبہ بن عامر و ابو یوسف انصاری رضی اللہ عنہما سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اور صحیح مسلم کی ایک روایت عقبہ بن عامر و ابو یوسف انصاری رضی اللہ عنہما سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
میں تجھ سے زیادہ معاف کرنے کا حقدار ہوں اے فرشتو! میرے اس بندے سے درگزر کرو۔
(صحیح مسلم، کتاب المساقات، باب فضل انظار المعسر، ص٢٩، حدیث ٨٤٤)
خریدو فروخت میں سماحت و نرمی کے ساتھ جھوٹ بولنے سے بھی احتراز کرنا چاہئے حدیث پاک میں تاجروں کے جھوٹ پر وعیدیں اور انھیں بدکار کہا گیااور راست گو تاجر کو شہدا کے ساتھ شمار کیا گیا۔
حدیث پاک میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تاجر راست گو و امانت دار انبیا و صدیقین و شہدا کے ساتھ ہوگا جھوٹ بولنے والے تاجر قیامت کے دن فجار اٹھاے جائیں گے مگر وہ تاجر جو متقی و پرہیزگار ہو اور لوگوں کے ساتھ احسان کرے اور سچ بولے
خریدو فروخت میں سماحت و نرمی کے ساتھ جھوٹ بولنے سے بھی احتراز کرنا چاہئے حدیث پاک میں تاجروں کے جھوٹ پر وعیدیں اور انھیں بدکار کہا گیااور راست گو تاجر کو شہدا کے ساتھ شمار کیا گیا۔
حدیث پاک میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تاجر راست گو و امانت دار انبیا و صدیقین و شہدا کے ساتھ ہوگا جھوٹ بولنے والے تاجر قیامت کے دن فجار اٹھاے جائیں گے مگر وہ تاجر جو متقی و پرہیزگار ہو اور لوگوں کے ساتھ احسان کرے اور سچ بولے
(جامع الترمذی، کتاب البیوع، باب ماجاء فی التجار)
جھوٹ بولنا اور بات بات پر جھوٹی قسمیں کھانا بالخصوص عقد بیع میں حلف کی کثرت بائع کی برکت کو ضائع کر دیتا ہے۔
صحیح مسلم میں ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیع میں حلف کی کثرت سے پرہیز کرو اگر چہ یہ چیز کو جلد بکوا دیتا ہے مگر برکت کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب المساقات،باب النھی عن الحلف فی البیع، الحدیث ١٣٣)
تجارت بہت عمدہ اور نفیس کام ہے مگر اکثر تاجر کذب بیانی سے کام لیتے ہیں یہاں تک کہ جھوٹی قسمیں کھا لیا کرتے ہیں اسی لئے قرآن و احادیث میں جہاں تجارت کاذکر آتا ہے ساتھ ہی ساتھ وہیں جھوٹ بولنے اور جھوٹی قسمیں کھانے کی ممانعت بھی آتی ہے جیسا کہ حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ اگر تاجر اپنے مال میں برکت دیکھنا چاہے تو ان قبیح باتوں اور جھوٹی قسموں سے اجتناب کرے۔
اب شریعت کی رو سے دیکھتے ہیں کہ بیع کیا ہے؟اور اس کے شرائط و احکام کیا ہیں؟
جھوٹ بولنا اور بات بات پر جھوٹی قسمیں کھانا بالخصوص عقد بیع میں حلف کی کثرت بائع کی برکت کو ضائع کر دیتا ہے۔
صحیح مسلم میں ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیع میں حلف کی کثرت سے پرہیز کرو اگر چہ یہ چیز کو جلد بکوا دیتا ہے مگر برکت کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب المساقات،باب النھی عن الحلف فی البیع، الحدیث ١٣٣)
تجارت بہت عمدہ اور نفیس کام ہے مگر اکثر تاجر کذب بیانی سے کام لیتے ہیں یہاں تک کہ جھوٹی قسمیں کھا لیا کرتے ہیں اسی لئے قرآن و احادیث میں جہاں تجارت کاذکر آتا ہے ساتھ ہی ساتھ وہیں جھوٹ بولنے اور جھوٹی قسمیں کھانے کی ممانعت بھی آتی ہے جیسا کہ حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ اگر تاجر اپنے مال میں برکت دیکھنا چاہے تو ان قبیح باتوں اور جھوٹی قسموں سے اجتناب کرے۔
اب شریعت کی رو سے دیکھتے ہیں کہ بیع کیا ہے؟اور اس کے شرائط و احکام کیا ہیں؟
اصطلاح شرع میں بیع کے معنے یہ ہیں کہ دو شخصوں کا باہم مال کو مال سے ایک مخصوص صورت کے ساتھ تبادلہ کرنا یعنی مبادلة المال بالمال
پھر بیع کبھی قولی ہوتی ہے اور کبھی فعلی اگر قول سے ہو تو اس کے ارکان ایجاب و قبول ہیں مثلاً ایک شخص نے کہا میں نے بیچا اور دوسرے نے کہا میں نے خریدا اور فعل سے ہو تو چیز کا لے لینا اور دے دینا اس کے ارکان ہیں اور یہ فعل ایجاب و قبول کے قائم مقام ہوجاتا ہے مثلأ ترکاری وغیرہ کی گڈیاں اکثر بائع متعین ریٹ پر رکھ دیتے ہیں اور مشتری اور بائع بغیر بولے لین دین کر لیتے ہیں ایسے بیع کو بیع تعاطی کہتے ہیں۔
پھر بیع کبھی قولی ہوتی ہے اور کبھی فعلی اگر قول سے ہو تو اس کے ارکان ایجاب و قبول ہیں مثلاً ایک شخص نے کہا میں نے بیچا اور دوسرے نے کہا میں نے خریدا اور فعل سے ہو تو چیز کا لے لینا اور دے دینا اس کے ارکان ہیں اور یہ فعل ایجاب و قبول کے قائم مقام ہوجاتا ہے مثلأ ترکاری وغیرہ کی گڈیاں اکثر بائع متعین ریٹ پر رکھ دیتے ہیں اور مشتری اور بائع بغیر بولے لین دین کر لیتے ہیں ایسے بیع کو بیع تعاطی کہتے ہیں۔
(بہار شریعت جلد ٢حصّہ یازدہم ص٦١٥/ ٦١٦)
صحت بیع کے لیئے چند باتوں کا پایا جانا بھی ضروری ہے
صحت بیع کے لیئے چند باتوں کا پایا جانا بھی ضروری ہے
جو اس کے شرائط سے ہیں۔
١ بائع اور مشتری کا عاقل ہونا یعنی پاگل، مجنوں، نہ سمجھ بچہ نہ ہو۔
٢ عاقد کا متعدد ہونا۔
٣ ایجاب و قبول میں موافقت ہونا۔
٤ ایجاب و قبول کا ایک مجلس میں ہونا۔
٥ ہر ایک کا دوسرے کے کلام کو سننا۔
٦ مبیع کا موجود ہونا مال متقوم ہونا، مملوک ہونا، مقدور التسلیم ہونا۔
٧ بیع موقت نہ ہو اگر موقت ہے مثلاً اتنے دنوں کے لئے بیچا تو بیع صحیح نہیں۔
٨ مبیع و ثمن دونوں اس طرح معلوم ہوں کہ نزاع پیدا نہ ہوسکے اگر مجہول ہوں کہ نزاع ہو سکتی ہو تو بیع صحیح نہیں (ایضاً)
بیع کا حکم یہ ہے کہ جب مشتری مبیع کا مالک ہوجائے اور بائع ثمن کا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بائع پر واجب ہے کہ مبیع کو مشتری کے حوالے کرے اور مشتری پر واجب کہ بائع کو ثمن دیدے۔
ایجاب و قبول کے طریقے:
ایجاب و قبول کے الفاظ اردو، عربی، فارسی وغیرہ ہر زبان کے ہو سکتے ہیں دونوں کے الفاظ ماضی ہوں جیسے خریدا، بیچا یا دونوں حال ہوں جیسے خریدتا ہوں، بیچتا ہوں یا ایک ماضی اور ایک حال ہو مثلاً ایک نے کہا بیچتا ہوں دوسرے نے کہا خریدا اور مستقبل کے صیغہ سے بیع نہیں ہو سکتی ہے دونوں کے لفظ مستقبل کے ہوں یا ایک کا مثلاً خریدو گا، بیچوں گا کہ مستقبل کا لفظ آئندہ عقد صادر کرنے کے ارادہ پر دلالت کرتا ہے فی الحال عقد کا اثبات نہی کرتا۔
(الدر المختار، کتاب البیوع، جلد ٧ ص ٢٣ و بہار شریعت، جلد ٢ خیریت و فروخت کا بیان، ص ٦١٨)
لہذا تمام تجار کو چاہئے کہ خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آئیں اور خرید و فروخت کے مسائل جانیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔
١ بائع اور مشتری کا عاقل ہونا یعنی پاگل، مجنوں، نہ سمجھ بچہ نہ ہو۔
٢ عاقد کا متعدد ہونا۔
٣ ایجاب و قبول میں موافقت ہونا۔
٤ ایجاب و قبول کا ایک مجلس میں ہونا۔
٥ ہر ایک کا دوسرے کے کلام کو سننا۔
٦ مبیع کا موجود ہونا مال متقوم ہونا، مملوک ہونا، مقدور التسلیم ہونا۔
٧ بیع موقت نہ ہو اگر موقت ہے مثلاً اتنے دنوں کے لئے بیچا تو بیع صحیح نہیں۔
٨ مبیع و ثمن دونوں اس طرح معلوم ہوں کہ نزاع پیدا نہ ہوسکے اگر مجہول ہوں کہ نزاع ہو سکتی ہو تو بیع صحیح نہیں (ایضاً)
بیع کا حکم یہ ہے کہ جب مشتری مبیع کا مالک ہوجائے اور بائع ثمن کا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بائع پر واجب ہے کہ مبیع کو مشتری کے حوالے کرے اور مشتری پر واجب کہ بائع کو ثمن دیدے۔
ایجاب و قبول کے طریقے:
ایجاب و قبول کے الفاظ اردو، عربی، فارسی وغیرہ ہر زبان کے ہو سکتے ہیں دونوں کے الفاظ ماضی ہوں جیسے خریدا، بیچا یا دونوں حال ہوں جیسے خریدتا ہوں، بیچتا ہوں یا ایک ماضی اور ایک حال ہو مثلاً ایک نے کہا بیچتا ہوں دوسرے نے کہا خریدا اور مستقبل کے صیغہ سے بیع نہیں ہو سکتی ہے دونوں کے لفظ مستقبل کے ہوں یا ایک کا مثلاً خریدو گا، بیچوں گا کہ مستقبل کا لفظ آئندہ عقد صادر کرنے کے ارادہ پر دلالت کرتا ہے فی الحال عقد کا اثبات نہی کرتا۔
(الدر المختار، کتاب البیوع، جلد ٧ ص ٢٣ و بہار شریعت، جلد ٢ خیریت و فروخت کا بیان، ص ٦١٨)
لہذا تمام تجار کو چاہئے کہ خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آئیں اور خرید و فروخت کے مسائل جانیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔
_________(❤️)_________
ازقلم✍️: محمد ارشد القادری
متعلم: جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، اعظم گڑھ [یوپی]
16 جمادی الاولی 1445ھ
مطابق 1دسمبر 2023ء بروز جمعہ
بعد نماز جمعہ 2:35pm
16 جمادی الاولی 1445ھ
مطابق 1دسمبر 2023ء بروز جمعہ
بعد نماز جمعہ 2:35pm