Type Here to Get Search Results !

علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن و حدیث کی روشنی میں


علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن و حدیث کی روشنی میں
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
اللہ عالم الغیب و الشھادہ نے اپنے پیارے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ و سلم کو یقیناً علم غیب عطا فرمایا ہے بلکہ نبی کا معنی ہی ہوتا ہے غیب کی خبریں دینے والا اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام غیب کی خبریں دینے کے لئے ہی تو آتے ہیں عرش، کرسی، لوح، قلم، جنت، دوزخ، حشر، نشر، پل صراط، ثواب، عذاب، فرشتے، جن۔ وغیرہ یہ سارے غیب نہیں تو اور کیا ہیں مگر ان کا یہ غیب اللہ پاک کی عطا سے ہے۔ لہذا یہ علم غیب عطائی ہوا اور پاک کا علم ذاتی ہے اور وہی اس کی صفت ہے، اس طرح کا علم غیب (عطائی) انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام بالخصوص نبی آخر الزماں خاتم الانبیاء علیہ التحیۃ والثناء کیلئے قرآن و حدیث کے بے شمار دلائل سے ثابت ہے۔یہاں فقط چند آیتیں پیش خدمت ہیں ملاحظہ فرمائیں:
(1)رب ارشاد فرماتا ہے:
"وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَیْبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ یَّشَآءُ ۪- فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖۚ-وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ"(۱۷۹) ترجَمۂ کنزالایمان:اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگو تمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولوں پر اور اگر ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرو تو تمہارے لئے بڑا ثواب ہے۔(پ 4،اٰل عمرٰن:179)
امام احمد بنِ حجر عسقلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نقل فرماتے ہیں:نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابَۂ کرام سے فرمایا: میری اُمّت مجھ پر ایسے پیش کی گئی جیسے حضرتِ آدم علیہ السَّلام پر پیش کی گئی تھی تو میں نے جان لیا کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرے گا۔ یہ بات جب منافقین تک پہنچی تو انہوں نے کہا: مَعَاذَاللہ محمد(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) گمان کرتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کون ان پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرےگا حالانکہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور وہ ہمیں نہیں جانتے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
(العجاب فی بیان الاسباب ،2/798)
امام بَغَوی، امام سراجُ الدّین عمر حنبلی، امام محمد بن احمد شِربِینی اور امام علاءُ الدّین علی بن محمد خازن رضوان اللہ تعالٰی علیہم اَجْمعین نے کچھ الفاظ کے اختلاف کے ساتھ مزید یوں بیان فرمایا ہے کہ:منافقوں کا اعتراض سُن کر ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم منبر پر کھڑے ہوئے، اللہ کریم کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:ان لوگوں کا کیا حال ہے جو میرے علم پر اعتراض کرتے ہیں:
"لَا تَسْألُونِي عَن شَيءٍ فِيما بَينَكُم وَبَينَ السَّاعَةِ اِلّا نَبَّاْ تُكُم بِهٖ"
یعنی تمہارے اور قیامت کے درمیان جو کچھ بھی ہے تم مجھ سے ان میں سے جس کسی چیز کے بارے میں سُوال کرو گے میں تمہیں اس کی خبر دوں گا۔ حضرتِ سیّدُنا عبد اللہ بن حُذَافہ سَہمی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کھڑے ہو کر کہا:
مَنْ اَبِيْ يَا رَسُولَ اللّٰه؟ یعنی يارسولَ اللّٰه! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا والد کون ہے؟ ارشاد فرمایا: حُذافہ (یعنی تمہارے والد کا نام حُذافہ ہے)۔الی آخر الحدیث۔
(خازن،پ4، اٰل عمرٰن، تحت الآیۃ:179،1/328)
(2)فرمان خداوندی 
"وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا"(۱۱۳) ترجَمۂ کنزالایمان: اورتمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے۔(پ:5، النساء:113)
اس آیتِ مبارکہ میں واضح بیان ہوا کہ اللہ کریم نے اپنے حبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور آپ کو دین کے اُمور، شریعت کے احکام اور غیب کے وہ تمام عُلوم عطا فرما دئیے جو آپ نہ جانتے تھے چنانچہ اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں امام ابوجعفر محمد بن جریر طَبَری علیہ رحمۃ اللہ القَوی لکھتے ہیں: 
"مِنْ خَبَرِ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِيْنَ، وَمَا كَانَ وَمَا هُوَ كَائِنٌ، فَكُلُّ ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِِ اللّٰه عَلَيْك"
یعنی اللہ پاک نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اوّلین و آخِرین کی خبریں دیں اور جو کچھ ہو چکا اور جو ہو گا اس سب کا علم عطا فرمادیا اور یہ سب کچھ آپ پر آپ کے ربّ کا فضل ہے۔(تفسیر طبری،4/275)
(3) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
"اَلرَّحْمٰنُۙ(۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَؕ(۲) خَلَقَ الْاِنْسَانَۙ(۳) عَلَّمَهُ الْبَیَانَ"(۴) ترجمۂ کنزالایمان: رحمٰن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا۔ انسانیت کی جان محمد کو پیدا کیا۔ "مَاکَانَ وَمَا یَکُوْن" کا بیان اُنہیں سکھایا۔(پ 27، الرحمٰن:1تا4)
اس آیت میں ’’انسان‘‘ اور’’بیان‘‘ کے مِصداق کے بارے میں مفسّرین کے مختلف قول ہیں،تفسیرِ خازن میں ایک قول اس طرح ہے: "اَرَادَ بِالإنسانِ مُحَمَّدًا صلّى اللّٰهُ عَلَيه وَسَلَّم"یہاں انسان سے مراد محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں: 
"عَلَّمَهُ الْبَيَان يَعني بَيَان مَا يَكُونُ وَمَا كَان لِأَنّه صلّى اللّٰه عَلَيهِ وَسَلَّم يُنبِئُ عَن خَبْرِ الأوَّلِينَ وَالآخِرِينَ وَعَن يَومِ الدِّين"
یعنی ”بیان“سے’’مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ‘‘یعنی جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ آئندہ ہو گا، کا بیان مراد ہے کیونکہ نبِیِّ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اَوّلین و آخِرین اور قیامت کے دن کی خبریں دیتے تھے۔(خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ:3-4،4/208)
امام حسین بن مسعود بَغَوی نے تفسیر معالمُ التنزیل، 4/243 پر، امام عبدالرّحمٰن ابنِ جوزی نے تفسیر زاد المسیر،جز اوّل، 4/304 پر، علامہ ثناء اللہ نقشبندی نے تفسیرِ مَظہری، 9/123 پر، علامہ احمد صاوی نے تفسیرِ صاوی، 6/2074 پر اسی آیت کے تحت ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے علمِ ما کان و ما یکون کا قول ذکر فرمایا ہے۔
(4) اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:
"عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٗ یَسْلُكُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًاۙ"(۲۷)
ترجَمۂ کنزالایمان: غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلّط نہیں کرتا۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے کہ ان کے آگے پیچھے پہرا مقرّر کر دیتا ہے۔ (پ 29، الجن:26-27)
(5) اللہ پاک فرماتا ہے:"وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍۚ"(۲۴)
ترجَمۂ کنزالایمان:اوریہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں۔
(پ 30، التکویر:24)
اب علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چند احادیث طیبہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
حدیث (01)بخاری شریف میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: 
"قام فینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقاما فاخبرنا عن بدء الخلق حتی دخل اھل الجنۃ منازلھم واھل النار منازلھم حفظ ذالک من حفظ و نسیہ من نسیہ"* حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری مجلس میں قیام فرما کر ابتداء آفرینش سے اہل جنت اور اہل نار کے اپنی اپنی منزلوں میں داخل ہونے کی خبر دی جسے یاد رہا یاد رہا اور جو بھول گیا بھول گیا۔
حدیث(02) بخاری و مسلم میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
"قام فینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقاما ما ترک شیئا یکون فی مقامہ ذالک الی قیام الساعۃ الاحدث بہ"
یعنی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری مجلس میں قیام فرمایا اور قیامت تک ہونے والی کوئی چیز نہ چھوڑی جن کا بیان نہ فرمایا ہو۔
حدیث(03) مسلم شریف میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
"قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ زوی لی الارض فرایت مشارقھا ومغاربھا"
ترجمہ: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کو سمیٹا پس میں نے اس کے مشارق و مغارب کو دیکھا۔ یعنی تمام زمین کو ملاحظہ فرمایا۔
مرقاۃ المفاتیح میں اس حدیث کی شرح میں فرمایا: 
"معناہ ان الارض زویت لی جملتھا مرۃ واحدۃ فرایت مشارقھا و مغاربھا"
ترجمہ: میرے لئے تمام زمین یکبارگی سمیٹی گئی پس میں نے اس کے مشارق و مغارب کو دیکھا۔
حدیث(04)مواہب لدنیہ میں طبرانی سے بروایت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے:
"قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ تعالٰی قد رفع لی الدنیا فانا اانظر الیھا والی ماھو کائن فیھا الی یوم القیٰمۃ کانھا انظر الی کفی ھٰذہ"
ترجمہ: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے دنیا اٹھائی میں نے اس کو اور اس میں جو کچھ قیامت تک ہونے والے ہیں سب کو ایسا ملاحظہ فرمایا جیسا اپنے اس کف دست کو۔
حدیث(05) امام احمد و ترمذی نے ایک حدیث روایت کی اور اس کو حسن و صحیح بتایا‘ اور ترمذی نے کہا: میں نے امام بخاری سے اس حدیث کو دریافت کیا انہوں نے فرمایا:صحیح ہے اس حدیث میں ہے:
"فتجلی لی کل شی و عرفت"
پس مجھے ہر چیز روشن ہو گئں اور میں نے پہچان لی۔
ان آیات و احادیث سے خوب ظاہر و روشن ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جمیع اشیاء کے علوم عطا فرمائے اور کائنات کا کوئی ذرہ اور قیامت تک ہونے والا کوئی واقعہ حادثہ ایسا نہ رہا جس کا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو علم نہ دیا گیا ہو۔
اعلی حضرت سیدنا امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ اللہ المنان فرماتے ہیں:
اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا،
جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں درود۔
••────────••⊰❤️⊱••───────••
ازقلم:- اسیر حضور تاج الشریعہ، تلمیذ حضور محدث کبیر، احقر العباد نور محمد قادری امجدی دیناجپوری۔

خادم التدریس:- مرکز اہلسنت سکندرآباد، دارالعلوم نور الاسلام حشمت پیٹ سکندرآباد تلنگانہ۔
رابطہ نمبر:- 8004734923

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area