Type Here to Get Search Results !

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مابین جنگ صفین و جنگ جمل کیوں ہوئی؟


(سوال نمبر 4787)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مابین جنگ صفین و جنگ جمل کیوں ہوئی؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللّه و برکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
اماں عائشہ رضی اللّه عنھا اور حضرت علی کرم اللّه وجہہ الکریم کےمابین ہونے والی جنگ کی وجہ کیا تھی ؟ کسی غلط فہمی کے تحت یا اس میں کسی اسلام دشمن کی سازش شامل تھی؟ برائے کرم مفصل جواب عنایت فرمائیں بیحد مشکور ہونگا
سائل:- محمدعلی عطاری ٹنڈوآدم سندھ پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل
 
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مابین جنگ جمل و صفین ہونے کا خاص سبب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر قصاص لینے کے بابت ہوئی۔ پہلا فتنہ شہادت عثمان غنی جو ۳۵ھ میں ہوا دوسرا فتنہ
جنگ جمل جو ۳۶ھ میں ہوا تیسرا فتنہ جنگ صفین جو ۳۷ھ میں ہوا۔
(7/245 المرات)
حضرت عثمان کی شہادت کے بعد قصاص لینے کے سلسلے میں شروع ہوئیں اور جنگ جمل و صفین و معرکہ کربلا کی شکل میں ظاہر ہوئی
جنگ جمل وصفین میں حضرات صحابہ کرام کے تین گروہ ہوگئے بعض حضرات علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے بعض ان کے مقابل ہعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ رہے بعض حضرات غیر جانب دار۔یہ وہ ہی حضرات تھے جنہیں پتہ نہ لگا کہ حق پر کون ہے لہذا تینوں جماعتیں اللہ کی مقبول ہیں۔ (7/242 المرأة )
اب مکمل تفصیلات ملاحظہ کریں 
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی رضی اللہ عنہا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلاف کی حقیقت جنگ جمل کا واقعہ نصف جمادی الاولیٰ یا عند البعض جمادی الثانی 36 ھ میں پیش آیا تھا۔
شہادت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا گیا اور بیعت کی گئی تو اس میں حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ، دیگر اکابر صحابہ اور اہل مدینہ نے بھی بیعت کی۔
 جب بیعت ہوچکی تو اس وقت حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور دیگر اکابر صحابہ کرام حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مطالبہ پیش کیا کہ آپ مسند خلافت پر تشریف فرماچکے ہیں اب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کے متعلق انتظام فرمادیں کیونکہ اگر ہم شہید مظلوم کا انتقام نہ لیں اور فسادیوں کا قلع قمع نہ کریں تو اللہ تعالیٰ کے عتاب و غضب کے مستحق ٹھہریں گے تو اس مطالبہ کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ عذر پیش کیا کہ
ان ھولاء لہم مدد واعوان انہ لا یمکنہ ذلک یومہ ھذا
(البدایہ لابن کثیر ج7ص229 تحت ذکر بیعت خلافت علوی)
ان لوگوں کو مدد گار اور حمایتی میسر ہیں اس لیے یہ کام اس وقت نہیں ہوسکتا حالات کے سازگار ہونے کے بعد یہ ہوسکے گا۔
بہرحال اس جواب پر ان حضرات کو تشفی نہ ہوئی کیونکہ قاتلان حضرت عثمان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر کے پناہ لی تھی۔ 
جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے
وقاتلان بجز آنکہ پناہی بحضرت مرتضیٰ بردند با او بیعت کنند علامے نیافشند وکیف ماکان عقد بیعت واقع
تو ان دو حضرات حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما نے عمرہ کی غرض سے مکہ کا سفر شروع کیا جب مکہ پہنچے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ اور امہات المومنین بھی عمرہ کی غرض سے مکہ پہنچ چکی تھیں۔ بعد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر حضرات مکہ تشریف لے گئے۔ یوں مکہ میں صحابہ کرام، امہات المومنین اور دیگر حضرات کا اجتماع ہوا، ان تمام کا مقصد ایک ہی تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خون ناحق اور ظلما گرا دیا گیا ہے اس لیے ان کے قصاص کا مسئلہ سب سے پہلے طے ہونا چاہیے اور مجرموں کو جلد سے جلد سزا ملنی چاہیے۔ اس سلسلے میں مختلف آراء سامنے آئیں۔
 بالآخر طے ہوا کہ اس سلسلے میں بصرہ پہنچنا چاہیے۔ 
منشاء یہ تھا کہ مسلمانوں کی ایک کثیر جماعت اگر مطالبہ پر جمع ہوجائے تو امید ہے کہ فریق ثانی بھی اس کی طرف توجہ کرے گا اور باہمی موافقت کی صورت پیدا ہوجائے گی۔ اس سفر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی شامل رہنے کی درخواست کی گئی تاکہ اصلاح کی کوئی صورت پیدا ہوجائے۔
چنانچہ علامہ آلوسی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں
فسارت معہم بقصد الاصلاح وانتظام الامور۔
(تفسیر روح المعانی ج22ص10 تحت آیت وقرن فی بیوتکن)
اس کے بعد بہت سارے حضرات ان اکابر (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم وغیرہ) کے ساتھ شریک ہوگئے اور بصرہ کی طرف سفر شروع کیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب اطلاع ملی تو انہوں نے بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بصرہ کی طرف سفر شروع کیا۔ بصرہ کے قریب جب دونوں جماعتیں اپنے اپنے مقام پر پہنچیں تو بعض معتمد حضرات کے ذریعے مصالحت کی گفتگو جاری ہوئی۔ اسی موقعہ پر حضرت قعقاع بن عمرالتمیمی رضی اللہ تعالی عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ 
عنہا اور ان کی جماعت کے پاس آئے اور عرض کیا
ای اُمُّہ ما اشخصک وما اقدمک ھذہ البلدۃ قالت: ای بنی! اصلاح بین الناس .
(روح المعانی ج22ص9، 10 وقرن فی بیوتکن)
 حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ فرمانے لگےاے ام المومنین
 اس شہر میں آپ کا تشریف لے آنا کسی مقصد کے لیے ہے؟ تو ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے بیٹے لوگوں کے درمیان اصلاح کی صورت پیدا کرنے کے لیے۔
اس پر حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کریں تاکہ مسلمانوں میں انتشار کی یہ فضا ختم ہوجائے اور اتفاق پیدا ہوجائے تاکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینا آسان ہوجائے۔افہام و تفہیم کے اس بیان کے بعد حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم نے ارشاد فرمایا
اصبت واحسنت فارجع الخ
یعنی آپ کی بات درست ہے ہم اس پر آمادہ ہیں۔ آپ جائیں (اور فریق ثانی کو اطلاع دیں)
فرجع الی علی فاخبرہ فاعجبہ ذالک واشرف القوم علی الصلح کرہ ذالک من کرہہ ورضیہ من رضیہ وارسلت عائشۃ الی علی تعلمہ انہا انما جاءت للصلح ففرح ھولاء وھولاء۔
(البدایہ لابن کثیر ج7ص239 روح المعانی ج22 ص9، 10)
مختصر یہ کہ جب یہ اطلاع حضرت علی کو ملی تو بہت خوش ہوئے اور باقی لوگ بھی صلح پر متوجہ ہوئے۔ البتہ بعض لوگوں کو یہ چیز ناگوار گزری اور بعض کو پسند آئی۔ بہرحال فریقین نے صلح ومصالحت پر اتفاق ظاہر کیا۔
اس موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک تاریخی خطبہ دیا اور اس میں یہ بھی اعلان فرمایا کہ
 الا وانی راحل غدا فارتحلوا الا ولا یرتحلن غدا احد اعان علی عثمان بشئی فی شئی من امور الناس۔
(الفتنۃ وقعۃ الجمل لسیف بن عمر الضی ص147 البدایہ لابن کثیر ج7ص237)
ہم کل یہاں سے روانہ ہوں گے (اور دوسرے فریق کے پاس جائیں گے) اور خبردار جس نے بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل پر اعانت کی ہے وہ ہم سے الگ ہوجائے، ہمارے ساتھ نہ رہے۔جب یہ اعلان ہوا تو فتنہ انگیز سبائی شیعہ پارٹی کے سربراہ شریح بن اوفیٰ، علباء بن الہیثم، سالم بن ثعلبہ العبسی، عبداللہ بن سبا المعروف با بن السوداء وغیرہ سخت پریشان ہوئے اور انہیں اپنا انجام تاریک نظر آنے لگا۔
 قابل غور بات یہ تھی کہ اس پارٹی میں ایک بھی صحابی نہ تھا۔
 علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں
 ولیس فیہم صحابی وللہ الحمد
(البدایہ لابن کثیر ج7ص238)
اس پارٹی نے ایک خفیہ مشورہ کے تحت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن باہم اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام رہا۔
 چنانچہ شیخ عبدالوہاب شعرانی رحمتہ اللہ لکھتے ہیں:
فان بعضہم کان عزم علی الخروج علی الامام علی رضی اللہ عنہ وعلی قتلہ لما نادیٰ یوم الجمل بان یخرج عن قتلۃ عثمان الخ۔
(کتاب الیواقیت والجواہر ج2ص77)
بہرحال یہ دشمن تو اپنے اس مذموم عمل میں نا کام رہے، ادھر دونوں جماعتیں دو مقام پر جمع ہوئیں۔ 
 حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ زابوقہ کے مقام پر پہنچے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی جماعت کے ساتھ ذاقار کے مقام پر تشریف لائے۔ قعقاع کے میدان میں فریقین کی صلح ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ قاتلین کو شرعی سزا دینے پر راضی ہوگئے اور دوسری جماعت ( حضرت طلحہ وغیرہ) بیعت پر راضی ہوگئے اور اس صلح پر کوئی شک نہ رہا۔وہم لا یشکون فی الصلح
(الفتنۃ وقعۃ الجمل ص155 روح المعانی ج22ص9، 10)
ان حالات میں تمام حضرات نے خیر اور سلامتی سے رات گذاری لیکن مفسدین اور قاتلین عثمان پوری رات فتنہ کھڑا کرنے کی تدابیر میں مصروف رہے آخر کار تاریکی میں دفعۃ لڑائی کرا دینے پر ان کا اتفاق ہوگیا۔اس واقعہ جمل کو علامہ قرطبی رحمتہ اللہ نے اپنی مشہور تفسیر احکام القرآن میں سورۃ الحجرات کی آیات کے تحت اس طرح بیان فرمایا ہے: قلت : فهذا قول في سبب الحرب الواقع بينهم. وقال جلة من أهل العلم : إن الوقعة بالبصرة بينهم كانت على غير عزيمة منهم على الحرب بل فجأة ، وعلى سبيل دفع كل واحد من الفريقين عن أنفسهم لظنه أن الفريق الآخر قد غدر به ، لأن الأمر كان قد انتظم بينهم ، وتم الصلح والتفرق على الرضا. فخاف قتلة عثمان رضي الله عنه من التمكين منهم والإحاطة بهم ، فاجتمعوا وتشاوروا واختلفوا ، ثم أتفقت آراؤهم على أن يفترقوا فريقين ، ويبدأوا بالحرب سحرة في العسكرين ، وتختلف السهام بينهم ، ويصيح الفريق الذي في عسكر علي : غدر طلحة والزبير. والفريق الذي في عسكر طلحة والزبير : غدر علي. فتم لهم ذلك على ما دبروه ، ونشبت الحرب ، فكان كل فريق دافعا لمكرته عند نفسه ، ومانعا من الإشاطة بدمه. وهذا صواب من الفريقين وطاعة لله تعالى ، إذ وقع القتال والامتناع منهما على هذه السبيل. وهذا هوالصحيح المشهور. والله أعلم.
(تفسیر قرطبی ج16ص318، 319)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ بصرہ میں جنگ جمل کا جو واقعہ پیش آیا تھا وہ قتال کے ارادہ سے وقوع پذیر نہیں ہوا تھا بلکہ یہ صورتحال اچانک قائم کر دی گئی تھی،
 ایک فریق یہ گمان کرتے ہوئے کہ دوسرے فریق نے بد عہدی کی ہے اپنے دفاع کے لیے قتال کررہا تھا کیونکہ ان کے درمیان صلح کی بات تو ہوچکی تھی وہ اپنی اپنی جگہ باہمی اعتماد اور رضا مندی سے ٹھہرے ہوئے تھے لیکن قاتلین عثمان کو خوف لاحق ہوا کہ یہ صلح ہوگئی تو ہماری خیر نہیں لہذا وہ جمع ہوئے اور مشورہ کرنے لگے، پہلے ان کا کچھ آپس میں اختلاف ہوا لیکن بعد میں اس امر پر متفق ہوگئے کہ ہم دو جماعتوں میں تقسیم ہوجائیں کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت میں شامل ہوجائیں اور کچھ دوسرے فریق میں گھس جائیں اور علی الصباح دونوں لشکروں میں لڑائی کی ابتداء کریں، ایک فریق کی جانب سے دوسرے فریق پر تیر اندازی کریں اور جو فریق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں پہنچے وہ فریاد کرے کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ والوں نے عہد شکنی کی ہے اور جو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ والوں کے لشکر میں ہوں وہ فریاد کریں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ والوں نے عہد شکنی کی ہے۔ مختصر یہ ہے کہ یہ قتال اور دفاع دونوں فریق کی طرف سے مذکورہ نوعیت میں واقع ہوا تھا۔ یہی بات درست اور صحیح ہے۔اس کو جنگ جمل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آخر کار اس لڑائی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت غالب آگئی اور دوسرے فریق کے اکابر حضرت زبیر اور حضرت طلحہ وغیرہم شہید ہو گئے اور یہ فریق مغلوب ہوگیا۔
 اس کے بعد امیر المومنین رضی اللہ عنہ یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حفاظتی انتظام کے ساتھ لایا گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سلام عرض کیے اور خیریت دریافت کی، حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں بخیریت ہوں، اس کے بعد چند ایام بصرہ میں گذارنے کے بعد جب حجاز کی طرف سفر کا ارادہ فرمایا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ضروریات سفر مہیا کر کے بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ روانہ فرمایا۔ چونکہ یہ واقعہ دشمنوں کی ناپاک حرکتوں کی وجہ سے سرزد ہوا اس لیے اس واقعہ پر دونوں فریقین کی طرف سے اظہارِ افسوس روایات بھی منقول ہیں۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
24/10/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area