ہاروت ماروت کے حوالے سے پھیلی بے اصل روایت کی تحقیق فتاوی رضویہ کی روشنی میں
_____________________
ہاروت ماروت کون ہیں؟
ہاروت ماروت کون ہیں؟
کیوں دنیا میں بھیجے گئے ابتدائی طالب علمی کے زمانے میں بہت کچھ سننے کو ملا، سننے میں یہاں تک آیا کہ انہوں شراب پی اور بدکاری کی معاذاللہ صد بار معاذاللہ۔ بہت ساری باتیں سننے میں آئیں لیکن جب ان کے حوالے سے کتابوں تک رسائی ہوئی تو پتہ چلا کہ ساری باتیں بے اصل اور یہودیوں کی گڑھی ہوئی ہیں چنانچہ امام اہل سنت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ: ہاروت و ماروت جو چاہ بابل میں قید ہیں فرشتے ہیں یا جن یا انسان؟ اگر ان کو فرشتہ مانا جائے تو عصمت فرشتوں کی کس دلیل سے ثابت کی جائے؟ اور اگر جن و انس کہا جائے تو درازی عمر کے واسطے کیا حجت پیش کی جائے؟ اور جلال الدین رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے جو تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ آسمان میں ایک دروازہ پیدا ہوا اور ایک فرشتہ طوق و زنجیر پہنے ہوئے وسط میں حاضر ہوا اور منادی نے ندا کی کہ اس فرشتے نے خدا کی نافرمانی کی اور اس کی یہ سزا ملی۔ کہاں تک صحیح ہے؟
جواب ملاحظہ فرمائیں: جناب من! قصہ ہاروت و ماروت جس طرح عام میں شائع ہے ائمہ کرام کو اس پر سخت انکار شدید ہے جس کی تفسیر شفا شریف اور اس کی شروح میں ہے یہاں تک کہ امام اجل قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا هذه الاخبار من كتب اليهود و افترااتهم یہ خبریں یہودیوں کی کتابوں اور ان کی افتراؤں سے ہیں۔
(الشفا بتعریف حقوق المصطفی فصل فی القول فی عصمۃ الملائکہ)
امام اہل سنت آگے فرماتے ہیں کہ ان کو جن یا انس مانا جائے جب بھی درازی عمر مستبعد نہیں۔ کیوں کہ سیدنا خضر وسیدنا الیاس وسیدنا عیسی صلوات اللہ تعالی سلام علیہم انس ہیں اور ابلیس جن ہے۔ اور راجح یہی ہے کہ ہاروت و ماروت دو فرشتے ہیں جن کو رب عزوجل نے ابتلائے خلق کے لیے مقرر فرمایا کہ جو سحر سیکھنا چاہے اسے نصیحت کریں کہ انما نحن فتنۃ فلا تکفر۔ ہم تو آزمائش ہی کے لیے مقرر ہوئے ہیں تو کفر نہ کر اور جو نہ مانے اپنے پاؤں جہنم میں جائے اسے تعلیم کریں تو وہ اطاعت میں ہیں نہ کہ معصیت میں۔ بہ قال اکثر المفسرین علی ماعزا الیہم فی الشفا شریف اکثر مفسرین نے یہی کہا ہے جیسا کہ شفا شریف میں ان کی طرف منسوب ہے۔ اور یہ روایت کہ تاریخ الخلفاء کی طرف نسبت کی قطعا باطل اور بے اصل محض ہے نہ اس وقت تاریخ الخلفاء میں اس کا ہونا یاد فقیر میں ہے واللہ تعالی اعلم۔
(الشفاء، فصل فی القول فی عصمۃ الملائکۃ، ص۱۷۵-۱۷۶، الجزء الثانی، فتاوی رضویہ، کتاب الشتی، ۲۶ / ۳۹۷)۔ اور تفسیر خازن شریف میں آیت نمبر ۱۰۲ کے تحت ہے کہ: هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ: ہاروت اور ماروت۔}
جواب ملاحظہ فرمائیں: جناب من! قصہ ہاروت و ماروت جس طرح عام میں شائع ہے ائمہ کرام کو اس پر سخت انکار شدید ہے جس کی تفسیر شفا شریف اور اس کی شروح میں ہے یہاں تک کہ امام اجل قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا هذه الاخبار من كتب اليهود و افترااتهم یہ خبریں یہودیوں کی کتابوں اور ان کی افتراؤں سے ہیں۔
(الشفا بتعریف حقوق المصطفی فصل فی القول فی عصمۃ الملائکہ)
امام اہل سنت آگے فرماتے ہیں کہ ان کو جن یا انس مانا جائے جب بھی درازی عمر مستبعد نہیں۔ کیوں کہ سیدنا خضر وسیدنا الیاس وسیدنا عیسی صلوات اللہ تعالی سلام علیہم انس ہیں اور ابلیس جن ہے۔ اور راجح یہی ہے کہ ہاروت و ماروت دو فرشتے ہیں جن کو رب عزوجل نے ابتلائے خلق کے لیے مقرر فرمایا کہ جو سحر سیکھنا چاہے اسے نصیحت کریں کہ انما نحن فتنۃ فلا تکفر۔ ہم تو آزمائش ہی کے لیے مقرر ہوئے ہیں تو کفر نہ کر اور جو نہ مانے اپنے پاؤں جہنم میں جائے اسے تعلیم کریں تو وہ اطاعت میں ہیں نہ کہ معصیت میں۔ بہ قال اکثر المفسرین علی ماعزا الیہم فی الشفا شریف اکثر مفسرین نے یہی کہا ہے جیسا کہ شفا شریف میں ان کی طرف منسوب ہے۔ اور یہ روایت کہ تاریخ الخلفاء کی طرف نسبت کی قطعا باطل اور بے اصل محض ہے نہ اس وقت تاریخ الخلفاء میں اس کا ہونا یاد فقیر میں ہے واللہ تعالی اعلم۔
(الشفاء، فصل فی القول فی عصمۃ الملائکۃ، ص۱۷۵-۱۷۶، الجزء الثانی، فتاوی رضویہ، کتاب الشتی، ۲۶ / ۳۹۷)۔ اور تفسیر خازن شریف میں آیت نمبر ۱۰۲ کے تحت ہے کہ: هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ: ہاروت اور ماروت۔}
ہاروت، ماروت دو فرشتے ہیں جنہیں بنی اسرائیل کی آزمائش کیلئے اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا۔ ان کے بارے میں غلط قصے بہت مشہور ہیں اور وہ سب باطل ہیں۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۱ / ۷۵)
تفصیل کے لیے تفسیر قرآن ملاحظہ فرمائیں
تفصیل کے لیے تفسیر قرآن ملاحظہ فرمائیں
_________(❤️)_________
✍️حنظلہ خان مصباحی گونڈوی
۴ دسمبر ۲۰۲۳ء