Type Here to Get Search Results !

حرام مال سے قربانی یا عقیقہ کے لیے جانور خریدنا کیسا ہے ؟

حرام مال سے قربانی یا عقیقہ کے لیے جانور خریدنا کیسا ہے ؟
حرام مال سے قربانی یا عقیقہ کے لیے جانور خریدنا کیسا ہے ؟
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
 السلام وعلیکم ورحمتہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان متین اس مسئلہ میں کہ مال حرام سے ( یعنی مسلم کے ہاتھ سے شراب بیچ کر یا سود ۔غصب،چوری،جوا، رشوت، لوٹری، یا ڈیلر وغیرہ سے حاصل شدہ رقم سے ) قربانی کا جانور یا کوئی سامان خریدنا کیسا ہے؛ جائز یا ناجائز ؟
سائل:- مولانا سلیم الدین ثنائی کوئیلی سیتا مڑھی بہار 
ــــــــــــــــــــــ❣⚜❣ـــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
بعینہ مال حرام سے قربانی کا جانور یا کوئی سامان خریدنا ناجائز ہے اور کچھ صورتوں میں جائز بھی ہے قربانی واجب ہے اس واجب کی ادائیگی میں ثواب ہے اور بعینہ حرام روپیہ سے بنیت ثواب خیرات کرنا کفر ہے 
 فتاوی رضویہ میں ہے کہ جو مال اس نے بعینہ چوری یا جوئے سے حاصل کیا اس پر ختم و فاتحہ پڑھنا حرام ہے اور اس کا کھانا حرام ہے 
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23 ص 112)
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ عالمگیری کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں کہ
"اگر کسی محتاج پر حرام مال میں سے کچھ خیرات کرے اور ثواب کی امید رکھے تو کافر ہو جائے گا ۔اگر محتاج کو اس مال کے حرام ہونے کا علم ہو پھر اسے مال دینے کے لئے کوئی بلائے اور وہ اس کے لئے دعا کرے اور دینے والا آمین کہے تو دونوں کافر ہوئے محیط میں یہی مذکور ہے" 
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23 ص 112)
 حضور صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی رضوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ ظاہر یہ ہے کہ حرام مال کے خرچ کرنے پر امید ثواب رکھنا کفر ہے۔
(فتاویٰ امجدیہ جلد چہارم ص 290)
 لیکن جائز اور ناجائز ہونے کی مختلف صورتیں ہیں  
(1)وہ جانور بعینہ حرام ہو یعنی جو مال یا جانور یا اجناس وغیرہ رشوت ۔ چوری کرکے حاصل کیا ۔یا رشوت میں وہی جانور ملا۔ سود می جیں وہی جانور دیا گیا بعینہ اسی جانور کی قربانی جائز نہیں جس سے لیا ہے اسے واپس کرنا واجب ہے اگر نہیں کیا تو گنہگار ہوگا کسی کام میں اس مال کا لگانا حرام قطعی ہے ۔
(2) حرام روپیہ سے وہ جانور خریدا گیا اس کی قربانی بلا کراہت جائز ہے ۔جس کی تفصیل آگے منقول ہے 
(3) اجارہ فاسدہ سے وہ جانور ملا یعنی کسی نے ایک بکری کسی کو پوسنے کے لئے دیا کہ اسے چراؤ اور جتنے بچے پیدا ہوں گے ان میں نصف میرا اور نصف پوسنے والے کا تو جو بچہ پوسنے والے کو اجرت میں ملا اس جانور کو پوسنے والا قربانی نہیں کرسکتا کہ وہ اس کی ملکیت نہیں ہے اور قربانی میں ملکیت ہونا ضروری ہے جس کی بکری ہے تمام بچے پر اسی کی ملکیت ہے پوسنے والے کو اسے واپس کرنا واجب ہے اگر نہیں کیا تو وہ گنہگار ہوگا۔اور پوسنے والے مثل اجرت کا حقدار ہوگا 
(4) بیع فاسدہ سے وہ جانور خریدا تو اس کی قربانی ہوسکتی ہے خیال رہے کہ بیع فاسدہ س اور اجرت فاسدہ میں فرق ہے اور اجرت فاسدہ سے حاصل شدہ جانور کی قربانی جائز نہیں ہے جیسے بٹائی پر پوسنے والے کو اجرت میں جانور کا بچہ ملا اس کی قربانی جائز نہیں۔
 تفصیل مع دلائل ملاحظہ فرمائیں  
حرام مال سے قربانی کا جانور یا کوئی بھی جانور خواہ پوسنے کے لئے یا خرید و فروخت کے لئے خریدنا گناہ ہے مثلا وہ روپیہ سود سے یا شراب ۔رشوت ۔غصب ۔چوری اور لوٹری ڈیلر کا صلہ بلیک وغیرہ کے ذریعہ حاصل کیا ہو
حرام مال جن لوگوں سے ان طریقوں کے ذریعہ حاصل کیا انہیں واپس کرنا ضروری ہے اگر نہیں کیا تو وہ گنہگار ہوگا سود کھانا ۔مسلم کے ہاتھ سے شراب بیچنا ۔رشوت لینا ۔غصب کرنا ۔چوری کرنا اجارہ فاسدہ سے جانور اجرت میں لینا یہ سب ناجائز ہے اسے ثواب سمجھ کر خیرات میں دینا حرام ہے اور بعض صورتوں میں کفر ہے اس سے سامان خریدنا بھی حرام ہے لیکن فقہاء کرام کے نزدیک حرام مال سے کچھ خریدے تو اس کی پانچ صورتیں ہیں جن میں صورت اول و دوم کے ذریعہ مال کھانا جائز نہیں اور اس ذریعہ سے قربانی کے لئے جانور خریدنا بھی جائز نہیں ہے ۔اور باقی تین صورتوں میں اختلاف علماء کے باوجود بھی امام کرخی کے قول پر جائز ہے اور اس طریقہ سے جانور خرید کر قربانی بھی جائز ہے جیسا کہ ردالمحتار میں ہے کہ ۔فی التتارخانیہ رجل اکتسب مالا من حرام ۔ثم اشتری فھذا علی خمسۃ اوجہ ۔اما ان دفع تلک الدراھم الی البائع اولا ثم اشتری منھما ۔اواشتری قبل الدفع بھاؤ دفع غیرھا۔اواشتری مطلقا و دفع تلک الدراھم ۔اواشتری بدراھم اخروٹ دفع تلک الدراھم یعنی تاتارخانیہ میں ہے کہ ۔کسی نے حرام مال کمایا پھر اس سے کچھ خریدا تو اس کی پانچ صورتیں ہیں۔
پہلی یہ کہ یہ حرام دراھم بائع کو دیا پھر اس کے عوض کچھ خریدا۔
(2) دوئم یہ کہ دینے سے قبل خریدا اور عوض میں وہی بعینہ وہی حرام روپیہ دیا۔
سوم یہ کہ حرام مال دینے سے قبل خریدا اور عوض میں اور مال دیا۔
چہارم یہ کہ مطلقا خریداری کی اور ادائیگی میں یہ مال دیا۔
نجم یہ کہ دوسرے دراھم سے خریدا اور ادائیگی میں یہ دراھم دیئے۔
قال ابونصر:یطیب کہ ولایجب لہ ان یتصدق الا فی الوجہ الاول ۔والیہ ۔ذھب الفقیہ ابو اللیث لکن ھذا خلاف ظاہر الروایۃ فانہ نص فی الجامع الصغیر ۔اذا غضب الفافاشتری بھا جاریۃ و باعھا بالیقین تصدق بالربح ۔یعنی ابونصر نے کہا ۔پہلی صورت کے بغیر تمام صورتوں میں خریدا ہوا مال طیب ہے اور صدقہ کرنا بھی واجب نہیں اسی کو ابواللیث نے اختیار کیا ہے لیکن یہ ظاہر روایت کے خلاف ہے کیونکہ جامع صغیر میں نص ہے کہ اگر کسی نے ہزار غضب کیا اور اس کے عوض لونڈی خریدی اور دو ہزار میں فروخت کی تو نفع صدقہ کرے۔
وقال الکرخی فی الوجہ والثانی لایطیب ۔و فی الثلاث آلا خیرۃ یطیب ۔یعنی امام کرخی نے فرمایا کہ اول و ثانی میں طیب نہ ہوگا اور آخری تین صورتوں میں طیب ہے ۔
وقال ابوالبکر ۔لایطیب فی الکل یعنی اور ابو بکر نے فرمایا تمام صورتوں میں طیب نہیں۔
لیکن الفتوی الآن علی قول الکرخی دفعا للحرج عن الناس یعنی لیکن آج کل فتویٰ امام کرخی کے قول پر ہے تاکہ لوگوں سے حرج کا ازالہ ہوسکے ،(ردالمحتار )
 امام اہل سنت مجدد اعظم سرکار امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔حرام مال مثل زر غضب ۔ورشوت وسرقہ واجرت معاصی وغیرہ سے جو چیز خریدی جائے اس کی چند صورتیں ہیں
مال حرام سے خرید کردہ چیز کی چند صورتیں اور ان کے احکام
(1) مثلا غلہ فروش کے سامنے (حرام ) روپیہ ڈال دیا کہ اس کے گیہوں دےدےاس نے دے دیئے یا بزاز کو روپیہ پہلے دیا (یعنی بعینہ مال حرام ) کہ اس کا کپڑا دے یہ گیہوں و کپڑا حرام ہے۔
(اس طریقہ سے قربانی کا جانور یا کوئی بھی سامان خریدنا حرام ہے)
(2) دوسرے یہ کہ روپیہ پہلے تو نہیں دیا مگر عقد ونقد دونوں اس پر جمع کئے یعنی خاص اس روپیے کی تعین سے اس کے عوض خریدا اور یہی روپیہ (یعنی مال حرام ) قیمت میں ادا کیا ' جنمثلا غلہ فروش کو یہ حرام روپیہ دکھا کر کہا اس روپیہ کے گیہوں دے دے اس نے دے دیا ۔اس نے یہی روپیہ (حرام ) اسے دے دیا ۔اس صورت میں گیہوں حرام ہے۔
( اس صورت سے بھی قربانی کا جانور یا کوئی بھی سامان خواہ کھانے پینے کا یا سیمنٹ بالو ۔برتن وغیرہ خریدنا حرام ہے)۔
(3) تیسرے یہ کہ نہ روپیہ پہلے دیا نہ اس پر عقد و نقد جمع کئے اس کی بھی تین شکلیں ہیں۔
(1) اول یہ کہ اس سے کہا ( یعنی دوکاندار سے ) کہ ایک روپیہ کا گیہوں دے دے ۔کچھ روپیہ کی تخصیص نہ کی کہ اس کے بدلے دے ۔جب اس نے تول دیئے اس نے زر ثمن میں جو بعوض گندم اس کے ذمہ واجب ہوا تھا ۔یہ حرام روپیہ دے دیا ۔مگر عقد کسی خاص روپیہ پر نہ ہوا۔
(2) دوم یہ کہ پہلے اسے حلال روپیہ دکھا کر اس کے بدلے گیہوں لیئے ۔جب اس نے دے دیئے اس نے وہ روپیہ حلال اٹھا لیا اور قیمت میں زر حرام دے دیا ۔اس صورت میں عقد زر حلال پر ہوا ۔اور نقد حرام کا۔
(3)‌ سوم یہ کہ اس کا عکس یعنی پہلے اس حرام روپیہ دکھا کر کہا ۔اس کے گیہوں دے دے ۔پھر دیتے وقت حلال روپیہ دیا ۔اس صورت میں عقد زر حرام پر ہوا اور نقد حلال پر ۔
بہر حال تینوں صورتوں میں عقد و نقد زر حرام پر جمع نہ ہوئے نہ پہلے سے زر حرام دے کر چیز خریدی کہ حقیقۃ یہ بھی اجتماع عقد و نقد کی صورت تھی ۔ان تینوں صورتوں میں بھی بڑا قوی مذہب ہمارے ائمہ کا یہ ہے کہ وہ گیہوں حرام ہوں گے ۔مگر زمانہ کا حال دیکھ کر ائمہ متاخرین نے امام کرخی کا قول اختیار کیا کہ ان شکلوں میں وہ چیز حرام نہ ہوگی ۔اور اس کا کھانا پہنا ۔تصرف میں لانا جائز ہوگا ۔اس آسان فتویٰ کی بنا پر ان حرام روپیہ والوں کے یہاں کا کھانا یا پان وغیرہ کھانا یینا مسلمانوں کو روا ہے کہ وجہ حرام سے ان لوگوں کا بعینہ کھانا نہیں آتا ۔بلکہ روپیہ آتا ہے ۔یہ اس کے عوض اشیاء خرید کر کھانا تیار کراتے ہیں۔اور خریداری میں عام طریقہ شائعہ کے طور پر عقد و نقد کا اجتماع نہیں ہوتا بلکہ غالب بیع و شرا صورت ثالثہ کی شکل اول پر واقع ہوتی ہے۔
(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد پنجم ص318)
پھر جن صورتوں میں وہ کھانا ان دونوں مذہب پر حرام ہے ۔یعنی دو صورت پیشیں ۔ ان میں اگر بسم اللّٰہ کہ کر کھایا برا کیا ۔مگر کافر ہر گز نہیں کہا جائے گا ۔اس کی حرمت ضروریات دین سے ہونا درکنار اجماع بھی نہیں 
اور حرام مال کو صدقہ کرکے امید ثواب رکھنی بھی مطلقا کفر نہیں ۔اگر وہ چیز عین حرام نہ ہو بلکہ زر حرام کے معاوضہ میں خریدی جب تو ظاہر کہ اس کی حرمت مجمع علیہ بھی نہیں ۔اور اگر عین حرام ہے اور اسے مالک تک نہیں پہونچا سکتا خواہ اس وجہ سے کہ اسے مالک یاد نہ رہا یا سرے سے مالک کو جانتا ہی نہیں یا مالک مرگیا اور کوئی وارث نہیں رہا ۔تو ان سب صورتوں میں شرع مطہر اسے تصدق کا حکم دیتی ہے ۔جب اس نے صدقہ کیا تو حکم بجا لایا ۔اور فرمانبرداری پر امید ثواب رکھنا محذور نہیں۔
(تلخیص فتاوی رضویہ جلد پنجم ص 318)
  یہ کھانا اور اس سے قربانی کے لئے جانور خریدنا حرام نہیں ہے جب حرام نہیں تو وہ قربانی بھی ہوگئی ویسے ظاہر میں یہ سب کام کرنے والے کے یہاں کھانا نہیں کھانا چائیے
الحاصل:-
 مال حرام کے بدلے قربانی کا جانور خرید کر قربانی کرنے سے بلا کراہت قربانی ہوجائے گی اور اگر اس جانور میں دوسرے لوگ بھی حصہ لیں گے تو ان لوگوں کی بھی قربانی ادا ہو جائے گی کیونکہ آج کل خریداری میں مال حرام پہلے دے کر خریداری نہیں کی جاتی ہے بلکہ قیمت طئے ہوجانے کے بعد روپیہ دیا جاتا ہے اس صورت کو امام کرخی رحمۃ اللہ علیہ نے جائز قرار دیا اور آج کل دفع حرج کی بنا پر اسی قول پر فتویٰ دیا جاتا ہے کیونکہ اس خریداری میں عقد و نقد دونوں جمع نہ ہوئے ہاں اگر بعینہ جانور سود یا رشوت یا غضب یا چوری سے حاصل ہوا تو اس جانور کی قربانی کرنے سے بھی قربانی ہوجائے گی مگر اس پر ثواب حاصل نہیں ہوگا جیسے مال حرام سے حج کرنا جائز نہیں ہاں فرض حج ذمہ سے ادا ہو جائے گا مگر یہ کام خلاف حکم شرع و موجب گناہ ہوگا اسی طرح حرام مال سے کچھ خریدنا اگرچہ پہلے قیمت نہ دی گئی ہو پھر بھی خلاف شرع و موجب گناہ ہوگا لیکن امام کرخی رحمتہ اللہ علیہ کے قول کی بناء پر وہ سامان پاک ہے 
 مگر حج قبول نہیں ہوگا اور جب قبول نہیں تو اس پر ثواب بھی نہیں ملے گا حضور امام اہل سنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ فان القبول شئی آخر غیر سقوط الفرض و کان کمن صلی فی ارض مغصوبۃ
 یعنی کیونکہ کسی شئ کا قبول ہونا اور ساقط ہوجانا دونوں ایک نہیں بلکہ الگ الگ چیزیں ہیں یعنی قبولیت شئ اور چیز ہے اور سقوط فرض اور چیز ہے ۔جیسا کہ کوئی شخص ناجائز مقبوضہ زمین پر نماز پڑھے تو اگرچہ فرض ساقط ہو جائے گا مگر نماز مقبول نہ ہوں گی۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23 ص 542)
حضور بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس چیز کا بعینہ مال حرام ہونا معلوم ہو اس کو خریدنا۔اجرت میں لینا یا ہدیہ قبول کرنا یا دعوت کی تو کھانا ناجائز وہ حرام ہے (جلد پنجم ص 388)
حرام مال کا اصل حکم وہی ہے کہ وہ مال اپنے اصل مالکوں کو لوٹا دیا جائے ۔یہ نہ ہو تو اس کی طرف سے محتاج کو دیا جائے
حضور صدرالشریعہ مفتی امجد علی رضوی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ؛اگر وہ چیز بعینہ چوری کی ہے یا کسی وجہ سے حرام سے اسے حاصل کیا ہے تو جس شخص کو اس کا علم ہے اسے کھانا حرام اور اگر وہ چیز بعینہ حرام نہ ہو بلکہ حرام مال کے بدلے میں اسے خریدا ہے تو صحیح یہ ہے کہ جب تک عقد و نقد اس حرام پر مجتمع نہ ہو وہ چیز حرام نہ ہوگی ۔عقد و نقد کے مجتمع ہونے کی یہ صورت ہے کہ حرام روپیہ دکھا کر کہا کہ اس کے بدلے میں مجھے یہ چیز دے اس نے دے دی تو یہ عقد حرام پر ہوا ۔اگر اس صورت سے خریدی جائے تو وہ چیز بھی حرام ہوگی ورنہ نہیں اور بچنا اولی و بہتر ہے۔
 (فتاوی امجدیہ جلد چہارم ص 148.149)
اگر مال حرام بعینہ نیک کام میں خرچ نہ کرے بلکہ اس مال حرام سے کوئی شئ مثلا غلہ یا کپڑا یا جانور یا سیمنٹ یا بالو یا چٹائی یعنی کوئی بھی جائز چیز خرید کر نیک کام میں دینا چاہے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔
(1) صورت اول:-
اول یہ کہ خریدنے میں نقد و عقد دونوں اس مال حرام پر جمع نہ ہوئے یعنی اپنا حرام روپیہ پہلے دوکان دار یا جس سے کوئی چیز مثلا اجناس ۔جانور یا کوئی چیز خریدے اس کو دے دے اور کہے کہ اس روپیہ سے فلاں فلاں سامان دے دے ۔اس نے دے دی ۔ تو یہ چیز حرام ہوگی یا اس کو حرام روپیہ نہ دے کر صرف حرام روپیہ دکھا کر کہے کہ اس کے بدلے فلاں فلاں سامان دے دے ۔اس نے دے دی ۔اور خرید دار پھر وہی روپیہ اس کو قیمت میں دے یا اس صورت میں بھی جو خریدا وہ بھی مثل اس روپے کے حرام رہا ۔اس سامان کو نیک کام میں خرچ کرنا حرام ہے 
(2) دوسری صورت:-
دوم یہ کہ نقد و عقد کا زر حرام پر اجتماع نہ ہو کوئی خریدار نے سامان والے کو سامان خریدنے سے پہلے روپیہ نہ دیا یعنی حرام مال اور نہ سامان والے کو وہ مال حرام پہلے دکھایا بلکہ یونہی کہا کہ دس روپیہ کی یہ چیز دے یا کہا کہ فلاں فلاں سامان دیجئے اس نے دے دی ۔وہ خریدار سامان لینے کے بعد قیمت میں وہی حرام روپے دیا تو اس صورت میں وہ تمام سامان حلال ہے اسے نیک کام میں خرچ کرنا جائز ہے یا ایک صورت یہ بھی ہے کہ خریدار نے اپنے پاس سے حلال روپیہ دکھا کر کہا کہ فلاں فلاں اس روپیہ کا سامان دے ۔جب سامان والے وہ چیز دے دی اب سامان لینے کے بعد خریدار نے قیمت میں حلال روپے نہ دے کر حرام روپیہ دیا تو اس صورت میں بھی وہ سامان حلال ہے یا پھر حرام دکھاکر سامان خریدا پھر دیا حلال ان تمام صورتوں میں یہ خریدی ہوئی چیز نہ اس کے حق میں حرام کہی جائے گی نہ اس لینے والے کے حق میں کہ آج کے زمانے میں امام کرخی کے قول پر فتویٰ ہے دفع حرج کے لئے کثرت حرام کی وجہ سے
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ سود کے روپیہ سے جو کار نیک کیا جائے اس میں استحقاق ثواب نہیں ۔حدیث شریف میں ہے جو مال حرام لے کر حج کو جاتا ہے جب لبیک کہتا ہے ہاتف غیب سے جواب دیتا ہے
 لالبیک ولاسعدیک وحجک مردود علیک حتی ترد مافی یدیک
یعنی نہ تیری لبیک قبول ۔نہ خدمت پذیر ۔اور تیرا حج تیرے منہ پر مردود ہے یہاں تک کہ تو یہ مال حرام کہ تیرے قبضہ میں ہے اس کے مستحقوں کو واپس دے 
حدیث شریف میں ہے
ان اللہ طیب لایقبل الاالطیب
یعنی بے شک اللہ عزوجل پاک ہے پاک چیزوں کو قبول فرماتا ہے۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 23 ص 541)
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس عبارت سے واضح ہوا کہ اگر کوئی حرام مال سے حج کیا تالاب بنایا مسجد بنایا تو اسے کوئی ثواب نہیں اور حج مقبول نہیں مگر ذمہ سے فرض ادا ہو جائے گا اور اس تالاب سے وضو کرنا جائز ہے اور اس مسجد میں نماز جائز ہے اسی پر قیاس کرکے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حرام روپیہ سے قربانی کا جانور خریدنا حرام ہے اور اگر کسی نے خرید کر قربانی کی قربانی ہو جائے گی مگر قربانی مقبول نہ ہوگی
ہمارے جمہور ائمہ متاخرین نے امام کرخی کے قول پر فتوی دیا ہے مسلمانوں کی آسانی کے پیش نظر اس زمانے پر نظر رکھتے ہوئے کہ جس میں حرام زیادہ ہے
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
اگر کوئی چیز اس نے حرام کاری یا قمار بازی سے حاصل کی بعینہ اسی شئ پر نیاز دلائی مثلا جوئے میں چاول جیتے تھے انھیں کا پلاؤ پکایا ۔زانیہ کو اس کے آشنا نے گوشت بھیجا اسی پر فاتحہ دلائی جب تو وہ نیاز و فاتحہ یقینی مردود اور اس کا کھانا حرام ۔اور فاتحہ دینے والے کو اگر معلوم تھا کہ بعینہ یہ وہی شئ ہے تو وہ بھی سخت عظیم شدید گناہ میں گرفتار۔یہاں تک کہ فاتحہ دینے دلانے والے دونوں پر معاذ اللہ خوف کفر ہے دونوں پر لازم کہ کلمہ اسلام نئے سرے سے پڑھیں اور نکاح کی تجدید کریں۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23 ص 531)
فی الھندیۃ عن المحیط ولو تصدق علی فقیر بشئی من مال الحرام ویرجوالثواب یکفر ولو علم الفقیر بذلک فدعا لہ وامن المعطی فقد کفرا 
یعنی فتاوی عالمگیری میں محیط کے حوالے سے مذکور ہے ۔اگر کسی محتاج پر حرام مال میں سے کچھ خیرات کی جائے اور ثواب کی امید رکھے تو کافر ہو جائے گا ۔اگر فقیر محتاج کو یہ بات معلوم ہے کہ وہ مال حرام دے رہا ہے اور اس کے باوجود وہ اسے دعا دے اور وہ آمین کہے تو دونوں کافر ہو جائیں گے۔
(فتاویٰ ہندیہ جلد دوم ص 272)
حدیث حسن میں ہے کہ
طلب الحلال واجب علی کل مسلم
یعنی رزق حلال کی طلب ہر مسلمان پر واجب ہے (امام طبرانی نے اس کو الاوسط میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سند سے روایت کیا ہے) اس لئے رزق حلال تلاش کریں اور حرام کام سے دور رہے 
ایک اشکال اور اس کا حل:-
حضرت آپ نے فتویٰ رضویہ اور فتاوی امجدیہ اور عالمگیری۔ کے حوالہ سے لکھا کہ مال حرام کو ثواب کی امید سے کسی فقیر کو دیا تو یہ کفر ہوگا پھر فتاوی رضویہ کے حوالہ سے لکھا کہ متعلق کفر نہیں ہے تو اس میں الجھن پیدا ہورہی ہے کہ کون صحیح ہے ؟ اس میں تطبیق کی کیا صورت بن سکتی ہے ؟
الجواب ۔اس کی اصل تحقیق یہ ہے کہ اگر کسی نے اس مال حرام کو اپنی ملک خاص جان کر بطور تبرع تصدق کیا جیسے مسلمان اپنے پاکیزہ مال کو بہ نیت نفل و تطوع تقربا الی اللہ صدقہ کرتا ہے اور اس پر اپنے رب کریم سے امید ثواب رکھتا ہے کہ بے ایجاب شرع اس نے اپنی خوشی سے اپنے پاک مال کا حصہ اپنے رب کی رضا کے لیے صرف کیا جب تو یہ تصرف حکم شرع سے جدا ۔اور یہ خیال شرع مظہر کے خلاف ہے ۔اور اس پر ہر گز اس کے لئے ثواب نہیں ۔اسی کی بعض صورتوں میں فقہاء نے حکم تکفیر کیا ۔(یعنی مال حرام کو اپنا پاکیزہ مال سمجھ کر صدقہ کیا تو یہ کفر ہے) 
اگر یوں نہ تھا بلکہ اس مال خبیث و ناپاک ہی جانا اور اپنے گناہ پر نادم ہوکر تائب ہوا اور بحکم شرع اپنے تصرف میں لانا ناجائز سمجھا ۔اور اپنے نفس کو اس میں تصرف سے روکا اور ازاں جاکہ اس کے ارباب معلوم نہ رہے بجا آوری حکم شرع کے لیے اسے تصدق کیا اور اسی بجاآوری فرمان پر امیدوار ثواب ہوا ۔تو بےشک اس میں حرج نہیں ۔بلکہ اسی کا اسے شرع حکم تھا ۔اور اس تصدق پر اگرچہ ثواب صدقہ نغ۔مگر اس امتثال حکم کا ثواب بے شک ہے ۔بلکہ یہ فعل اس کی توبہ کا تتمہ ہے ۔اور توبہ قطعا موجب رضا الہی و ثواب اخروی ہے ۔پھر جس عمل پر آدمی خود ثواب پائے اس ثواب کو دوسرے مسلمان کو بھی پہنچا سکتا ہے ۔تو اس توبہ و بجاآوری حکم کا ثواب اگر نذر بزرگاں کریں کچھ مضائقہ نہیں ۔
(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد پنجم ص 319)
قربانی کا جانور یا کوئی سامان خریدنے میں اگر عقد و نقد دونوں جمع نہ ہوئے مثلا مطلقا خریداری کی کہ فلاں چیز دے دے پھر دام میں وہ حرام روپیہ دیا یا حرام روپیہ دکھا کر خریدی مگر قیمت دیتے وقت دوسرا روپیہ دیا تو ان دونوں صورتوں میں وہ خرید کردہ شئے پاک ہے ۔
اس کی ایک جائز صورت یہ بھی ہے کہ کسی سے قرض لے کر اپنے خرچ میں لائے ۔خواہ حج و تصدق وقربانی و نذر ونیاز و تعمیر مسجد و مدرسہ وغیرہا میں اٹھائے اور قرض اس ناپاک مال سے ادا کرے اگرچہ یہ صورت ان 2تصرفات کے جائز ہونے میں بکار آمد ہے کہ اب یہ روپیہ جو ان کاموں میں اٹھا رہا ہے ناپاک نہیں ۔مگر اس حیلہ سے نہ وہ گناہ اس سے زائل نہ اس ناپاک مال کا وبال سر سے اترے نہ اس سے فرق ادا کرنا روا بلکہ یہ دوسرا گناہ ہوا کہ حکم شرع تو اصحاب حقوق کو واپس دینا یا تصدق کرنا تھا ۔اس نے کچھ نہ کیا بلکہ اپنی ادائے قرض میں لگا دیا ۔تو ثابت ہوا کہ خبیث مال والوں کو یہ حیلہ نافع نہیں بلکہ مضر و موجب گناہ ہے۔
(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد پنجم ص 319)
ثم الحاصل:-
مال حرام دکھائے بغیر جانور یا کوئی سامان خرید لیا پھر اس کے عوض میں وہی حرام روپیہ دے دیا تو اس صورت میں حرمت سےنہیں اس جانور کی قربانی جائز اور وہ کھانا درست ہے اور آج کل دفع حرج کی وجہ سے اسی پر فتویٰ دیا جاتا ہے۔
لیکن سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ پھر بھی اس سے احتراز بہتر۔
درمختار میں ہے
لمحل خلاف العلماء فقد قال فی الدرمختار انہ لایحل مطلقا کذا فی المتقی وللتوفی عن التھم والزجر علی المرتکب واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم
کیونکہ یہ صورت علماء کے اختلاف کا محل ہے چنانچہ درمختار میں فرمایا گیا کہ پسندیدہ قول یہ ہے کہ مطلقا حلال نہیں یونہی المتقی میں ہے اور اس لئے یہ بات ہے کہ آدمی تہمت اور ارتکاب جرم کی سرزتش سے بچ جائ۔
 (فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23 ص 533 بحوالہ درمختار جلد دوم ص 206) 
اقول (محمد ثناءاللہ خان ثنا ءالقادری مرپاوی)
فتویٰ اگرچہ حلال پر ہے کہ وہ شئے پاک ہے لیکن ان آٹھ وجہوں سے بچنا بہتر ہے
(1) تقوی کی وجہ سے اور جنت متقیوں کے لئے ہے 
(2) دیانت کی وجہ سے کہ دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے پرہیز کرے 
(3) اختلاف علماء سے بچنے کی وجہ سے 
(4) آدمی کی اپنی بدنامی اور رسوائی سے بچنے کی وجہ سے 
(5) دین کے معاملے میں یہ زیادہ پسند ہے کہ وہ مال حرام سے خریداری نہ کرے
جس سے مال لیا ہے اسے فورا واپس کردے
(6) ارباب حقوق ( مثلا جس سے سود کیا یا جس کا سامان چوری کیا یا رشوت یا ڈیلر جس شخص کا غلہ تھا اس کو نہ دیا یا غصب سے حاصل کیا وغیرہ کا مال اس کو واپس نہ کیا ) اس گناہ سے بچنے کی وجہ سے 
(7)شرع کے خلاف کام کرکے گناہگار ہونے سے
ا(8) اگرچہ امام کرخی قدس سرہ کے قول پر وہ سامان پاک ہے لیکن حرام مال سے خریدنا جائز نہیں ہے۔
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ النفس محقق دوراں مفتی اعظم بہارحضرت علامہ 
مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 
29 ذوالقعدہ 1443
مطابق 30جون 2022

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area