(سوال نمبر 4824)
قنوت دعا، اور قنوت نازلہ میں کیا فرق ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ دعا قنوت اور قنوت نازلہ کے بارے میں سوال ہے کہ آج کل یہ کہا جا رہا ہے ہم لوگ جو وتر میں دعائے قنوت پڑھتے ہیں وہ اصل میں قنوت نازلہ ہے اور دعا قنوت اور ہے ؟ مہربانی ہوگی آپکی رہنمائی فرما دیں
سائلہ:- ارم شہر میانوالی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
قنوت دعا اور قنوت نازلہ میں فرق ہے قنوت دعا تو روزانہ وتر کی تیسری رکعات میں پڑھتے ہیں مگر قنوت نازلہ بوقت مصیبت صرف فجر نماز میں اب بھی مشروع یے ۔
حدیث شریف میں ہے
حضرت انس سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ قنوت پڑھی پھر چھوڑ دی (ابوداؤد)
قنوت، دعا کو کہتے ہیں اور نازلة کے معنی مصیبت کے ہیں جب مسلمانوں پر کوئی عام مصیبت آجائے مثلا: کفار کی طرف سے مسلمانوں پر عمومی طور پر ظلم و ستم ہونے لگے تو ایسے موقع پر قنوت نازلہ کا پڑھنا صحیح اور معتبر روایات سے ثابت ہے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوت نازلہ میں ظالموں کے نام لے کر کے بد دعا فرمائی اور مظلوموں کے نام لے کر دعا فرمائی
بیر معونہ کے موقع پر جب ستر صحابہ کو دھوکہ دے کر شہید کر دیا گیا، تو اس وقت ایک مہینہ تک مسلسل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوت نازلہ پڑھی۔
قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نمازِ فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد سَمِعَ اللّٰہ ُ لِمَنْ حَمِدَہ کہہ کر ہاتھ اٹھائے بغیر امام کھڑا ہو جائے اور قیام کی حالت میں دعائے قنوت پڑھے اور مقتدی اس کی دعا پرآہستہ آواز سے آمین کہتے رہیں، پھر دعا سے فارغ ہو کر اللہ اکبرکہتے ہوئے سجدے میں چلے جائیں بقیہ نماز امام کی اقتداء میں اپنے معمول کے مطابق ادا کریں
اقا علیہ السلام دعا قنوت نازلہ ساری نمازوں میں تر ک کردی۔
شوافع کے ہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ فجر کے سوا باقی چار نمازوں میں چھوڑ دی۔چار نمازوں میں قنوت نازلہ بالاتفاق منسوخ ہے اور فجر میں اختلاف ہے ہمارے ہاں منسوخ ہے،شوافع کے ہاں نہیں اس لیئے اگر کوئی ان چارنمازوں میں قنوت نازلہ پڑھ لے تو بالاتفاق نماز فاسد ہوگی۔
المرات میں ہے
عربی میں قنوت کے معنی اطاعت،خاموشی،دعا،نماز کا قیام ہیں،یہاں اس سے خاص دعا مراد ہے۔قنوتین دو ہیں:وتر کے قنوت جو ہمیشہ وتر کی تیسری رکعت میں رکوع سے پہلے پڑھے جاتے ہیں اورقنوت نازلہ جوکسی خاص مصیبت میں،وبائی امراض اور کفار سے جہاد کے موقعہ پر فجر کی نماز میں دوسری رکعت کے رکوع کے بعد آہستہ پڑھے جاتے ہیں،اس باب میں دونوں قنوتوں کا ذکر آئے گا۔احناف کے ہاں وتر کی دعائے قنوت مقرر ہے "اَللّٰھُمَّ اِنَّانَسْتَعِیْنُكَ"الخ جیسا کہ طبرانی وغیرہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اولًا نماز میں قبیلہ مضر پر بددعا کرتے تھے تو جبریل امین نے عرض کیا کہ رب نے آپ کو دعا کرنے کے لیئے پیدا کیا اور پھر یہ دعا سکھائی "اَللّٰھُمَّ اِنَّانَسْتَعِیْنُكَ"الخ۔یہ روایت جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب "عمل الیوم واللیلہ" میں بھی نقل کی ہے،نیز فتح القدیر نے ابوداؤد سے بھی روایت کی۔
حدیث میں ہے
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی پر بددعا یادعا کرنے کا ارادہ کرتے تو رکوع کے بعد قنوت پڑھتے بار ہا جب "سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہ رَبَّنَالَكَ الْحَمْد"کہتے تو کہتے الٰہی ولید ابن ولید سلمہ ابن ہشام عیاش ابن ربیعہ کو نجات دے الٰہی سخت پامالی ڈال مضر پر اور اسے یوسف علیہ السلام کی قحط سالیوں کی طرح قحط سالی بنا یہ بآواز بلند کہتے اور اپنی بعض نمازوں میں فرماتے الٰہی فلاں فلاں عربی قبیلوں پر لعنت کر ۵؎ حتی کہ رب نے یہ آیت نازل فرمائی "لَیۡسَ لَکَ مِنَ الۡاَمْرِ شَیۡءٌ (مسلم،بخاری)
قنوت نازلہ جو فجر کے دوسرے رکوع کے بعد کسی خاص مصیبت کے موقع پر پڑھی جاتی ہے احناف بھی اسے ضرورۃً جائز کہتے ہیں
قنوت نازلہ منسوخ ہوگئی۔معلوم ہوا کہ قرآن شریف سے حدیث منسوخ ہوسکتی ہے۔خیال رہے کہ قنوت نازلہ کا یا تو جہر منسوخ ہے یا ہمیشہ پڑھنا منسوخ،ورنہ ضرورت پر اب بھی آہستہ پڑھی جاسکتی ہے
قنوت دعا، اور قنوت نازلہ میں کیا فرق ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ دعا قنوت اور قنوت نازلہ کے بارے میں سوال ہے کہ آج کل یہ کہا جا رہا ہے ہم لوگ جو وتر میں دعائے قنوت پڑھتے ہیں وہ اصل میں قنوت نازلہ ہے اور دعا قنوت اور ہے ؟ مہربانی ہوگی آپکی رہنمائی فرما دیں
سائلہ:- ارم شہر میانوالی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
قنوت دعا اور قنوت نازلہ میں فرق ہے قنوت دعا تو روزانہ وتر کی تیسری رکعات میں پڑھتے ہیں مگر قنوت نازلہ بوقت مصیبت صرف فجر نماز میں اب بھی مشروع یے ۔
حدیث شریف میں ہے
حضرت انس سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ قنوت پڑھی پھر چھوڑ دی (ابوداؤد)
قنوت، دعا کو کہتے ہیں اور نازلة کے معنی مصیبت کے ہیں جب مسلمانوں پر کوئی عام مصیبت آجائے مثلا: کفار کی طرف سے مسلمانوں پر عمومی طور پر ظلم و ستم ہونے لگے تو ایسے موقع پر قنوت نازلہ کا پڑھنا صحیح اور معتبر روایات سے ثابت ہے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوت نازلہ میں ظالموں کے نام لے کر کے بد دعا فرمائی اور مظلوموں کے نام لے کر دعا فرمائی
بیر معونہ کے موقع پر جب ستر صحابہ کو دھوکہ دے کر شہید کر دیا گیا، تو اس وقت ایک مہینہ تک مسلسل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوت نازلہ پڑھی۔
قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نمازِ فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد سَمِعَ اللّٰہ ُ لِمَنْ حَمِدَہ کہہ کر ہاتھ اٹھائے بغیر امام کھڑا ہو جائے اور قیام کی حالت میں دعائے قنوت پڑھے اور مقتدی اس کی دعا پرآہستہ آواز سے آمین کہتے رہیں، پھر دعا سے فارغ ہو کر اللہ اکبرکہتے ہوئے سجدے میں چلے جائیں بقیہ نماز امام کی اقتداء میں اپنے معمول کے مطابق ادا کریں
اقا علیہ السلام دعا قنوت نازلہ ساری نمازوں میں تر ک کردی۔
شوافع کے ہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ فجر کے سوا باقی چار نمازوں میں چھوڑ دی۔چار نمازوں میں قنوت نازلہ بالاتفاق منسوخ ہے اور فجر میں اختلاف ہے ہمارے ہاں منسوخ ہے،شوافع کے ہاں نہیں اس لیئے اگر کوئی ان چارنمازوں میں قنوت نازلہ پڑھ لے تو بالاتفاق نماز فاسد ہوگی۔
المرات میں ہے
عربی میں قنوت کے معنی اطاعت،خاموشی،دعا،نماز کا قیام ہیں،یہاں اس سے خاص دعا مراد ہے۔قنوتین دو ہیں:وتر کے قنوت جو ہمیشہ وتر کی تیسری رکعت میں رکوع سے پہلے پڑھے جاتے ہیں اورقنوت نازلہ جوکسی خاص مصیبت میں،وبائی امراض اور کفار سے جہاد کے موقعہ پر فجر کی نماز میں دوسری رکعت کے رکوع کے بعد آہستہ پڑھے جاتے ہیں،اس باب میں دونوں قنوتوں کا ذکر آئے گا۔احناف کے ہاں وتر کی دعائے قنوت مقرر ہے "اَللّٰھُمَّ اِنَّانَسْتَعِیْنُكَ"الخ جیسا کہ طبرانی وغیرہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اولًا نماز میں قبیلہ مضر پر بددعا کرتے تھے تو جبریل امین نے عرض کیا کہ رب نے آپ کو دعا کرنے کے لیئے پیدا کیا اور پھر یہ دعا سکھائی "اَللّٰھُمَّ اِنَّانَسْتَعِیْنُكَ"الخ۔یہ روایت جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب "عمل الیوم واللیلہ" میں بھی نقل کی ہے،نیز فتح القدیر نے ابوداؤد سے بھی روایت کی۔
حدیث میں ہے
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی پر بددعا یادعا کرنے کا ارادہ کرتے تو رکوع کے بعد قنوت پڑھتے بار ہا جب "سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہ رَبَّنَالَكَ الْحَمْد"کہتے تو کہتے الٰہی ولید ابن ولید سلمہ ابن ہشام عیاش ابن ربیعہ کو نجات دے الٰہی سخت پامالی ڈال مضر پر اور اسے یوسف علیہ السلام کی قحط سالیوں کی طرح قحط سالی بنا یہ بآواز بلند کہتے اور اپنی بعض نمازوں میں فرماتے الٰہی فلاں فلاں عربی قبیلوں پر لعنت کر ۵؎ حتی کہ رب نے یہ آیت نازل فرمائی "لَیۡسَ لَکَ مِنَ الۡاَمْرِ شَیۡءٌ (مسلم،بخاری)
قنوت نازلہ جو فجر کے دوسرے رکوع کے بعد کسی خاص مصیبت کے موقع پر پڑھی جاتی ہے احناف بھی اسے ضرورۃً جائز کہتے ہیں
قنوت نازلہ منسوخ ہوگئی۔معلوم ہوا کہ قرآن شریف سے حدیث منسوخ ہوسکتی ہے۔خیال رہے کہ قنوت نازلہ کا یا تو جہر منسوخ ہے یا ہمیشہ پڑھنا منسوخ،ورنہ ضرورت پر اب بھی آہستہ پڑھی جاسکتی ہے
( المرات 2/524 المکتة المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
27/10/2023
۔
27/10/2023
۔