(سوال نمبر 4880)
اگر صحابہ کرام وصال کے بعد زندہ ہوتے تو ان کی بیویاں دوسری شادی نہیں کرتی ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان کرام شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں ایک وہابی کا اعتراض ہے کہ صحابہ کرام کی بیوی نے صحابہ کے انتقال کے بعد انکی عورتیں نکاح بھی کی ہے لہٰذا صحابہ کرام مردہ ہے زندہ نہیں ہے تبھی تو اسکی بیوی نے نکاح کیا ورنہ اگر وہ زندہ ہوتے تو تو انکی بیویاں نکاح نہیں کرتی
اس سوال کا جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنايت فرمائیں
سائل:- محمد اعظم نواز برکاتی بھاگلپور بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیوہ زوجہ کا نکاح کرنا صحابہ کی موت پر دلیل ہے یہ قیاس ،قیاس مع الفارق ہے۔
صرف آقا علیہ السلام کی بیوی کسی سے نکاح نہیں کرسکتی ہیں چونکہ سورہ احزاب میں ہے اور نبی کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔لہذا ماں سے نکاح نہیں باقی ہر بیوہ نکاح کر سکتی ہیں۔
انبیاء کرام علیہم السلام کے بارے میں تو صریح حدیث ہے کہ ان کے اجسام کو زمین نہیں کھا سکتی ہے۔
اسی طرح شہدا و اولیاء کے اجسام کو زمین نہیں کھاتی۔
بلکہ کوئی عام انسان بھی مرکر مٹی میں نہیں مل جاتا بایں طور کہ کوئی ہڈی بھی باقی نہ رہے۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے
انسان کبھی خاک نہیں ہوتا بدن خاک ہوجاتا ہے، اور وہ بھی کُل نہیں کچھ اجزائے اصلیہ دقیقہ جن کو عُجُبُ الذَّنْب کہتے ہیں، وہ نہ جلتے ہیں نہ گلتے ہیں ہمیشہ باقی رہتے ہیں اُنھیں پر روز ِقیامت ترکیب ِجسم ہوگی۔ (فتاوی رضویہ، ۹ / ۶۵۸)
انبیاء،شہداء اور اولیاء اپنے اَجسام اور کفنوں کے ساتھ زندہ ہیں
یاد رہے کہ بعض عام مومنین اور دیگر انتقال کر جانے والوں کے اَجسام قبر میں اگرچہ سلامت نہیں رہتے البتہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، شہداء اور اولیاء ِعظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے مبارک جسم قبروں میں سلامت رہتے ہیں۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے
اہلِسنَّت کے نزدیک انبیاء وشہداء عَلَیْہِمُ التَّحِیَّۃُ وَ الثَّنَاء اپنے اَبدانِ شریفہ سے زندہ ہیں بلکہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ابدانِ لطیفہ زمین پر حرام کئے گئے ہیں کہ وہ ان کو کھائے، اسی طرح شہداء و اولیاء عَلَیْہِمُ الرَّحْمَۃُ وَ الثَّنَاء کے اَبدان وکفن بھی قبور میں صحیح و سلامت رہتے ہیں وہ حضرات روزی ورزق دئیے جاتے ہیں ۔
شفاء السقام میں ہے
شہداء کی زندگی بہت اعلیٰ ہے، زندگی اور رزق کی یہ قسم ان لوگوں کو حاصل نہیں ہوتی جوان کے ہم مرتبہ نہیں اور انبیاء کی زندگی سب سے اعلیٰ ہے اس لیے کہ وہ جسم وروح دونوں کے ساتھ ہے جیسی کہ دنیا میں تھی اور ہمیشہ رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان کرام شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں ایک وہابی کا اعتراض ہے کہ صحابہ کرام کی بیوی نے صحابہ کے انتقال کے بعد انکی عورتیں نکاح بھی کی ہے لہٰذا صحابہ کرام مردہ ہے زندہ نہیں ہے تبھی تو اسکی بیوی نے نکاح کیا ورنہ اگر وہ زندہ ہوتے تو تو انکی بیویاں نکاح نہیں کرتی
اس سوال کا جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنايت فرمائیں
سائل:- محمد اعظم نواز برکاتی بھاگلپور بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیوہ زوجہ کا نکاح کرنا صحابہ کی موت پر دلیل ہے یہ قیاس ،قیاس مع الفارق ہے۔
صرف آقا علیہ السلام کی بیوی کسی سے نکاح نہیں کرسکتی ہیں چونکہ سورہ احزاب میں ہے اور نبی کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔لہذا ماں سے نکاح نہیں باقی ہر بیوہ نکاح کر سکتی ہیں۔
انبیاء کرام علیہم السلام کے بارے میں تو صریح حدیث ہے کہ ان کے اجسام کو زمین نہیں کھا سکتی ہے۔
اسی طرح شہدا و اولیاء کے اجسام کو زمین نہیں کھاتی۔
بلکہ کوئی عام انسان بھی مرکر مٹی میں نہیں مل جاتا بایں طور کہ کوئی ہڈی بھی باقی نہ رہے۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے
انسان کبھی خاک نہیں ہوتا بدن خاک ہوجاتا ہے، اور وہ بھی کُل نہیں کچھ اجزائے اصلیہ دقیقہ جن کو عُجُبُ الذَّنْب کہتے ہیں، وہ نہ جلتے ہیں نہ گلتے ہیں ہمیشہ باقی رہتے ہیں اُنھیں پر روز ِقیامت ترکیب ِجسم ہوگی۔ (فتاوی رضویہ، ۹ / ۶۵۸)
انبیاء،شہداء اور اولیاء اپنے اَجسام اور کفنوں کے ساتھ زندہ ہیں
یاد رہے کہ بعض عام مومنین اور دیگر انتقال کر جانے والوں کے اَجسام قبر میں اگرچہ سلامت نہیں رہتے البتہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، شہداء اور اولیاء ِعظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے مبارک جسم قبروں میں سلامت رہتے ہیں۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے
اہلِسنَّت کے نزدیک انبیاء وشہداء عَلَیْہِمُ التَّحِیَّۃُ وَ الثَّنَاء اپنے اَبدانِ شریفہ سے زندہ ہیں بلکہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ابدانِ لطیفہ زمین پر حرام کئے گئے ہیں کہ وہ ان کو کھائے، اسی طرح شہداء و اولیاء عَلَیْہِمُ الرَّحْمَۃُ وَ الثَّنَاء کے اَبدان وکفن بھی قبور میں صحیح و سلامت رہتے ہیں وہ حضرات روزی ورزق دئیے جاتے ہیں ۔
شفاء السقام میں ہے
شہداء کی زندگی بہت اعلیٰ ہے، زندگی اور رزق کی یہ قسم ان لوگوں کو حاصل نہیں ہوتی جوان کے ہم مرتبہ نہیں اور انبیاء کی زندگی سب سے اعلیٰ ہے اس لیے کہ وہ جسم وروح دونوں کے ساتھ ہے جیسی کہ دنیا میں تھی اور ہمیشہ رہے گی۔
(شفاء السقام، الباب التاسع فی حیاۃ الانبیاء علیہم الصلاۃ والسلام، الفصل الرابع، ص۴۳۱)
اور قاضی ثناءُاللہ صاحب پانی پتی تذکرۃُ الموتٰی میں لکھتے ہیں
اَولِیاءُاللہ کا فرمان ہے کہ ہماری روحیں ہمارے جسم ہیں
یعنی ان کی اَرواح جسموں کا کام دیا کرتی ہیں اور کبھی اَجسام انتہائی لطافت کی وجہ سے ارواح کی طرح ظاہر ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا سایہ نہ تھا۔ ان کی ارواح زمین آسمان اور جنت میں جہاں بھی چاہیں آتی جاتی ہیں ، اس لیے قبروں کی مٹی ان کے جسموں کو نہیں کھاتی ہے بلکہ کفن بھی سلامت رہتا ہے۔
ابنِ ابی الدنیا نے مالک سے روایت کی ہے کہ مومنین کی ارواح جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی ہیں مومنین سے مراد کاملین ہیں حق تعالیٰ ان کے جسموں کو روحوں کی قوت عطا فرماتا ہے تو وہ قبروں میں نماز ادا کرتے اور ذکر کرتے ہیں اور قرآنِ کریم پڑھتے ہیں۔(تذکرۃ الموتیٰ والقبور اردو، ص۷۵)
اور شیخُ الہند محدّثِ دہلوی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں
اللہ تعالیٰ کے اولیاء اس دارِفانی سے دارِ بقا کی طرف ُکوچ کرگئے ہیں اور اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں انھیں رزق دیا جاتاہے، وہ خوش حال ہیں اور لوگوں کو اس کا شعور نہیں۔
اور قاضی ثناءُاللہ صاحب پانی پتی تذکرۃُ الموتٰی میں لکھتے ہیں
اَولِیاءُاللہ کا فرمان ہے کہ ہماری روحیں ہمارے جسم ہیں
یعنی ان کی اَرواح جسموں کا کام دیا کرتی ہیں اور کبھی اَجسام انتہائی لطافت کی وجہ سے ارواح کی طرح ظاہر ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا سایہ نہ تھا۔ ان کی ارواح زمین آسمان اور جنت میں جہاں بھی چاہیں آتی جاتی ہیں ، اس لیے قبروں کی مٹی ان کے جسموں کو نہیں کھاتی ہے بلکہ کفن بھی سلامت رہتا ہے۔
ابنِ ابی الدنیا نے مالک سے روایت کی ہے کہ مومنین کی ارواح جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی ہیں مومنین سے مراد کاملین ہیں حق تعالیٰ ان کے جسموں کو روحوں کی قوت عطا فرماتا ہے تو وہ قبروں میں نماز ادا کرتے اور ذکر کرتے ہیں اور قرآنِ کریم پڑھتے ہیں۔(تذکرۃ الموتیٰ والقبور اردو، ص۷۵)
اور شیخُ الہند محدّثِ دہلوی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں
اللہ تعالیٰ کے اولیاء اس دارِفانی سے دارِ بقا کی طرف ُکوچ کرگئے ہیں اور اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں انھیں رزق دیا جاتاہے، وہ خوش حال ہیں اور لوگوں کو اس کا شعور نہیں۔
(اشعۃ اللمعات، کتاب الجہاد، باب حکم الاسرائ، ۳ / ۴۲۳-۴۲۴)
اور علامہ علی قاری شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں
اَولِیائُ اللہ کی دونوں حالتوں (حیات ومَمات) میں اصلاً فرق نہیں اسی لیے کہا گیا ہے کہ وہ مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر میں تشریف لے جاتے ہیں (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، الفصل الثالث، ۳ / ۴۵۹-۴۶۰، تحت الحدیث: ۱۳۶۶)۔( فتاوی رضویہ، ۹ / ۴۳۱-۴۳۳)
والله ورسوله اعلم بالصواب
اَولِیائُ اللہ کی دونوں حالتوں (حیات ومَمات) میں اصلاً فرق نہیں اسی لیے کہا گیا ہے کہ وہ مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر میں تشریف لے جاتے ہیں (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، الفصل الثالث، ۳ / ۴۵۹-۴۶۰، تحت الحدیث: ۱۳۶۶)۔( فتاوی رضویہ، ۹ / ۴۳۱-۴۳۳)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
04/11/2023
04/11/2023