بارہ سال کی ڈوبی ہوئی کشتی اور غوث پاک کا عزرائیل علیہ السلام کو تھپڑ مارنے والے کی تحقیق فتاویٰ رضویہ کی روشنی میں۔
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
کتبہ:-محمد حنظلہ خان مصباحی دیناری کرنیل گنج گونڈہ ۲۰/ اکتوبر ۲۰۲۳ء
کتبہ:-محمد حنظلہ خان مصباحی دیناری کرنیل گنج گونڈہ ۲۰/ اکتوبر ۲۰۲۳ء
••────────••⊰❤️⊱••───────••
امام اہل سنت علیہ الرحمہ سے دو سوال ہوئے پہلا سوال ڈوبی کشتی سے متعلق تھا اور دوسرا سوال حضرت عزرائیل علیہ السلام کو غوث پاک رضی اللہ عنہ کا تھپڑ مارنے سے متعلق تھا
پہلے سوال کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
کیا فرماتے ہیں علماء کرام مفتیان دین مشائخ کرام اور اولیاء کرام اس مسئلہ میں کی حضرت بڑے پیر رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی چند مشہور کرامتیں جو کہ مولود شریف و وعظ وغیرہ میں بیان کی جاتی ہیں منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ ایک بڑھیا لب دریا بیٹھی رو رہی تھی، اتفاقا حضرت کا اس طرف گزر ہوا۔حضرت نے فرمایا اس قدر کیوں روتی ہو؟ بڑھیا نے عرض کیا:حضرت! میرے لڑکے کی ۱۲ برس ہوئے یہاں دریا میں مع سامان کے بارات ڈوبی ہے میں یہاں آکر روزانہ روتی ہوں،آپ نے دعا فرمائی آپ کی دعا کی برکت سے ۱۲ برس کی ڈوبی ہوئی بارات مع کل سامان کے صحیح و سالم نکل آئی،اور بڑھیا خوش و خرم اپنے مکان کو چلی گئی۔
دوسرے سوال کی عبارت:
دوسرے یہ کہ حضرت کے ایک مرید کا انتقال ہوگیا موتی (مرنے والے) کا لڑکا حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت سے عرض کیا کہ میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس پر لڑکا زیادہ رویا پیٹا اور اڑ گیا۔تو اپ کو رحم آیااورآپ نے وعدہ فرمایا، اور لڑکے کی تسکین کی،بعدہ حضرت عزرائیل علیہ السلام کو مراقب ہو کر روکا جب حضرت عزرائیل علیہ السلام رکے تو آپ نے دریافت کیا کہ ہمارے مرید کی روح تم نے قبض کی ہے؟ جواب دیا کہ ہاں! اس پر آپ نے فرمایا روح ہمارے مرید کی چھوڑ دو،عزرائیل علیہ السلام نے فرمایا میں نے بحکم رب العالمین روح قبض کی ہے، بغیر حکم نہیں چھوڑ سکتا، اس پرجھگڑا ہوا اور آپ نے تھپڑ مارا آپ کے تھپڑ سے عزرائیل علیہ السلام کی ایک آنکھ نکل پڑی اور آپ نے ان سے زنبیل (ٹوکری) چھین کر اس روز کی تمام روحیں جو قبض کی تھی انہیں چھوڑ دیں، اس پر حضرت عزرائیل علیہ السلام نے رب العالمین سے عرض کیا۔وہاں سے حکم ہوا کہ ہمارے محبوب نے ایک روح چھوڑنے کے لیے کہا تھا تم نے کیوں نہیں چھوڑی ہم کو ان کے خاطر منظور ہے، اگر انہوں نے تمام روحیں چھوڑ دی تو کوئی مضائقہ نہیں۔شرعاً ان روایتوں کا بیان کرنا مجلس مولود شریف یا وعظ وغیرہ میں درست ہے یا نہیں؟ بحوالہ کتب معتبر تحریر فرمائیے بینوا وتوجروا۔
اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ نے پہلے سوال کا جواب یوں ارشاد فرمایا کہ:
"پہلی روایت اگرچہ نظر سے کسی کتاب میں نہ گزری مگر زبان پر مشہور ہے، اور اس میں کوئی امر خلاف شرع نہیں،اس کا انکار نہ کیاجائے۔"
اس حوالے سے مزید معلومات کے لئے امام الاولیا نامی کتاب کی جانب رجوع کریں جو واقعی لائق مطالعہ ہے۔
اور دوسرے سوال کے جواب ملاحظہ فرمائیں:
اور دوسری روایت ابلیس کی گھڑی ہوئی ہے،اوراس کا پڑھنا سننا دونوں حرام۔ احمق جاھل بے ادب نے یہ جانا کہ کہ وہ اس میں حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی تعظیم کرتا ہے حالانکہ وہ حضور کی سخت توہین کر رہا ہے، کسی عالم مسلمان کی اس سے زیادہ کیا توہین ہوگی کہ معاذ اللہ اسے کفر کی طرف نسبت کیاجائےنہ کہ محبوبان الہی،
سیدنا عزرائیل علیہ السلام مرسلین ملائکہ میں سے ہیں، اور مرسلین ملائکہ بالإجماع تمام غیر انبیا سے افضل ہیں، کسی رسول کے ساتھ ایسی حرکت کرنا توہین رسول کے سبب معاذ اللہ اس کے لئے باعث کفر ہے،اللہ تعالیٰ جہالت و ضلالت سے پناہ دے واللہ تعالیٰ اعلم
(فتاوی رضویہ شریف جلد ٢٩ صفحہ نمبر ٦٣٠ /٦٣١ رضا فاؤنڈیشن)
لہذا ایسا واقعہ اگر کہیں بیان ہو تو ضروری ہے کہ فورا اصلاح کریں تاکہ لوگوں تک روایات صحیحہ پہنچانے کا رواج بنے۔
امام اہل سنت علیہ الرحمہ سے دو سوال ہوئے پہلا سوال ڈوبی کشتی سے متعلق تھا اور دوسرا سوال حضرت عزرائیل علیہ السلام کو غوث پاک رضی اللہ عنہ کا تھپڑ مارنے سے متعلق تھا
پہلے سوال کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
کیا فرماتے ہیں علماء کرام مفتیان دین مشائخ کرام اور اولیاء کرام اس مسئلہ میں کی حضرت بڑے پیر رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی چند مشہور کرامتیں جو کہ مولود شریف و وعظ وغیرہ میں بیان کی جاتی ہیں منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ ایک بڑھیا لب دریا بیٹھی رو رہی تھی، اتفاقا حضرت کا اس طرف گزر ہوا۔حضرت نے فرمایا اس قدر کیوں روتی ہو؟ بڑھیا نے عرض کیا:حضرت! میرے لڑکے کی ۱۲ برس ہوئے یہاں دریا میں مع سامان کے بارات ڈوبی ہے میں یہاں آکر روزانہ روتی ہوں،آپ نے دعا فرمائی آپ کی دعا کی برکت سے ۱۲ برس کی ڈوبی ہوئی بارات مع کل سامان کے صحیح و سالم نکل آئی،اور بڑھیا خوش و خرم اپنے مکان کو چلی گئی۔
دوسرے سوال کی عبارت:
دوسرے یہ کہ حضرت کے ایک مرید کا انتقال ہوگیا موتی (مرنے والے) کا لڑکا حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت سے عرض کیا کہ میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس پر لڑکا زیادہ رویا پیٹا اور اڑ گیا۔تو اپ کو رحم آیااورآپ نے وعدہ فرمایا، اور لڑکے کی تسکین کی،بعدہ حضرت عزرائیل علیہ السلام کو مراقب ہو کر روکا جب حضرت عزرائیل علیہ السلام رکے تو آپ نے دریافت کیا کہ ہمارے مرید کی روح تم نے قبض کی ہے؟ جواب دیا کہ ہاں! اس پر آپ نے فرمایا روح ہمارے مرید کی چھوڑ دو،عزرائیل علیہ السلام نے فرمایا میں نے بحکم رب العالمین روح قبض کی ہے، بغیر حکم نہیں چھوڑ سکتا، اس پرجھگڑا ہوا اور آپ نے تھپڑ مارا آپ کے تھپڑ سے عزرائیل علیہ السلام کی ایک آنکھ نکل پڑی اور آپ نے ان سے زنبیل (ٹوکری) چھین کر اس روز کی تمام روحیں جو قبض کی تھی انہیں چھوڑ دیں، اس پر حضرت عزرائیل علیہ السلام نے رب العالمین سے عرض کیا۔وہاں سے حکم ہوا کہ ہمارے محبوب نے ایک روح چھوڑنے کے لیے کہا تھا تم نے کیوں نہیں چھوڑی ہم کو ان کے خاطر منظور ہے، اگر انہوں نے تمام روحیں چھوڑ دی تو کوئی مضائقہ نہیں۔شرعاً ان روایتوں کا بیان کرنا مجلس مولود شریف یا وعظ وغیرہ میں درست ہے یا نہیں؟ بحوالہ کتب معتبر تحریر فرمائیے بینوا وتوجروا۔
اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ نے پہلے سوال کا جواب یوں ارشاد فرمایا کہ:
"پہلی روایت اگرچہ نظر سے کسی کتاب میں نہ گزری مگر زبان پر مشہور ہے، اور اس میں کوئی امر خلاف شرع نہیں،اس کا انکار نہ کیاجائے۔"
اس حوالے سے مزید معلومات کے لئے امام الاولیا نامی کتاب کی جانب رجوع کریں جو واقعی لائق مطالعہ ہے۔
اور دوسرے سوال کے جواب ملاحظہ فرمائیں:
اور دوسری روایت ابلیس کی گھڑی ہوئی ہے،اوراس کا پڑھنا سننا دونوں حرام۔ احمق جاھل بے ادب نے یہ جانا کہ کہ وہ اس میں حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی تعظیم کرتا ہے حالانکہ وہ حضور کی سخت توہین کر رہا ہے، کسی عالم مسلمان کی اس سے زیادہ کیا توہین ہوگی کہ معاذ اللہ اسے کفر کی طرف نسبت کیاجائےنہ کہ محبوبان الہی،
سیدنا عزرائیل علیہ السلام مرسلین ملائکہ میں سے ہیں، اور مرسلین ملائکہ بالإجماع تمام غیر انبیا سے افضل ہیں، کسی رسول کے ساتھ ایسی حرکت کرنا توہین رسول کے سبب معاذ اللہ اس کے لئے باعث کفر ہے،اللہ تعالیٰ جہالت و ضلالت سے پناہ دے واللہ تعالیٰ اعلم
(فتاوی رضویہ شریف جلد ٢٩ صفحہ نمبر ٦٣٠ /٦٣١ رضا فاؤنڈیشن)
لہذا ایسا واقعہ اگر کہیں بیان ہو تو ضروری ہے کہ فورا اصلاح کریں تاکہ لوگوں تک روایات صحیحہ پہنچانے کا رواج بنے۔