بارہ ربیع الاول شریف کو بارہ وفات کہنا کیسا ہے؟ قسط اول
••────────••⊰❤️⊱••───────••
حضور مفتی اعظم بہار نے فرمایا
کہ بارہ ربیع الاول شریف کو بارہ وفات کہنا مناسب نہیں ہے
بلکہ یوم ولادت باسعادت مبارک کہنا باعث برکت و رحمت ہے
ترسیل:- حضرت علامہ مولانا محمد جنید عالم شارق مصباحی
ترسیل:- حضرت علامہ مولانا محمد جنید عالم شارق مصباحی
خلیفہ حضور مفتی اعظم بہار
••────────••⊰❤️⊱••───────••
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ ولادت اور تاریخ وفات دونوں ایک ہی ہے یعنی بارہ ربیع الاول شریف، تو اس پر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بارہ ربیع النور کو خوشی نہ مناکر غم منایا جائے۔ تو سوال یہ ہے کہ اس تاریخ کو خوشیاں منائی جائیں یا غمگین رہ کر غم منایا جائے؟
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
(1) اکثر وہاٹس ایپ کے گروپ میں اور اخبارات میں ایک بات بار بار آرہی تھی کہ ماہ ربیع الاول حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش اور وفات دونوں کا دن ہے تو اس مہینہ میں خوشی نہ منایا جائے بلکہ غم منانا زیادہ بہتر ہے۔
الجواب :- ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو بارہ وفات کہنا درست نہیں ہے
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارک اور وفات ایک ہی دن ہے اور جمہور علماء کے نزدیک بارہ ربیع الاول شریف بروز پیر ہے اس کی وجہ سے کچھ لوگ اس دن کو بارہ وفات کہتے ہیں اور کچھ لوگ اس دن عید مناتے ہیں ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ بارہ تاریخ کو بارہ وفات کہنا درست نہیں ہے بلکہ یوم ولادت کہنا چاہیے کہ آپ کی ولادت مخلوق الہیٰ کے لئے نعمت عظمی ہے۔
سب سے پہلے میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا خلاف کرنے والے عالم
متاخرین مالکی علمائے کرام میں سے شیخ تاج الدین عمر بن علی لخمی سکندری المشہور فاکہانی نے کہا کہ '
میلاد النبی منانا قابل مذمت بدعت ہے اور انہوں نے اس بارے میں ایک کتاب بنام المورد فی الکلام علی عمل المولد بھی لکھی
اس سے واضح ہوا کہ اس زمانے میں اور اس سے پہلے مسلمان میلاد مناتے تھے
اس کتاب کے رد میں جو کتاب اس وقت لکھی گئی وہ یہ ہے۔
اس وقت امت کو اس قول سے بچانے اور اس قول پر عمل نہ کرنے کے لئے سرکار امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ میدان میں آئے اور اس کا رد بلیغ فرمایا اور میلاد شریف کی حلت یعنی جائز و درست ہونے پر ایک کتاب بنام حسن المقصد فی عمل المولد تصنیف فرمائی جو عاشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعہ کے لئے بہترین رسالہ ہے۔ میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر 500 سو سالہ سے پہلے کی قدیم تالیف ہے یہ کتاب( 19,) انیس کتابوں سے ماخذ و مراجع ہے ۔جس میں بخاری سے لے کر المدخل تک کی کتابوں سے حوالہ دیا گیا ہے۔ اسی طرح آج کے دور میں کچھ لوگ میلاد شریف منانے کو بدعت کہتے ہیں اسی قول کے رد میں راقم الحروف کا یہ قسط وار مضامین میں سے ہے جو آپ حضرات کی خدمت میں پیش ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ماہ ربیع الاول شریف ولادت اور وفات دونوں کا مہینہ ہے جیسا کہ جمہور علمائے اہل سنت کے اقوال سے ثابت ہے۔
(1) ولادت کے دن خوشی منانا مثلا انبیا علیہم السلام کا ذکر کریں، میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم منائیں۔
(2) وفات کے دن غمگین رہنے کا بھی رواج ہے کیونکہ موت یقینا مصائب و آلام میں سے ہے اس لئے غمگین ہونا بہتر ہے لیکن حصور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم زندہ ہیں اس لئے غم نہ منا کر خوشیاں بنائیں اور میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم منعقد کریں نیک کام کرکے ایصال ثواب کریں ۔
اس تاریخ کو یا ہر رات دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے رہیں ۔ خوشیاں منانا کیوں جائز ہے؟
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ مصطفی جان رحمت باعث تخلیق کائنات حضور پُرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش امت محمدیہ خواہ امت اجابت ہو یا امت دعوت دونوں کے لئے عظیم ترین نعمت ہے۔ مصنف دلائل الخیرات شریف نے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اسماء مبارک میں ایک نام نعمت اللہ لکھا ہے اور قرآن میں ہے کہ نعمت اللہ کا خوب چرچا کرو ۔اسی لئے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ہم چرچا کرتے ہیں۔
علماء فرماتے ہیں کہ وجود باوجود سراپا رحمت حضور مصطفی جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور اس جناب کی ولادت باسعادت ہمارے حق میں بڑی نعمت ہے تو حضور کی پیدائش و ولادت کہ باعث تخلیق آدم و عالم ہے نعمت عظمی ہونے میں کیا شک ہے؟ اور خدا تعالیٰ کا قول:
واما بنعمۃ ربک فحدث تو یہ آیت مبارکہ اس بات کی دلیل ہے کہ نعمت کا خوب چرچا کیا جائے تو تحدیث و تذکرۂ نعمت؛ شکر ہے ۔اور اس کا ترک ناشکری ہے اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ میلاد مبارک میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہی ہوتا ہے ۔جو مامور بہ ہے ۔
عبد الرزاق :جامع : میں قتادہ سے مرسلا راوی : رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ
من شکر النعمۃ افشاوھا
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
(1) اکثر وہاٹس ایپ کے گروپ میں اور اخبارات میں ایک بات بار بار آرہی تھی کہ ماہ ربیع الاول حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش اور وفات دونوں کا دن ہے تو اس مہینہ میں خوشی نہ منایا جائے بلکہ غم منانا زیادہ بہتر ہے۔
الجواب :- ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو بارہ وفات کہنا درست نہیں ہے
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارک اور وفات ایک ہی دن ہے اور جمہور علماء کے نزدیک بارہ ربیع الاول شریف بروز پیر ہے اس کی وجہ سے کچھ لوگ اس دن کو بارہ وفات کہتے ہیں اور کچھ لوگ اس دن عید مناتے ہیں ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ بارہ تاریخ کو بارہ وفات کہنا درست نہیں ہے بلکہ یوم ولادت کہنا چاہیے کہ آپ کی ولادت مخلوق الہیٰ کے لئے نعمت عظمی ہے۔
سب سے پہلے میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا خلاف کرنے والے عالم
متاخرین مالکی علمائے کرام میں سے شیخ تاج الدین عمر بن علی لخمی سکندری المشہور فاکہانی نے کہا کہ '
میلاد النبی منانا قابل مذمت بدعت ہے اور انہوں نے اس بارے میں ایک کتاب بنام المورد فی الکلام علی عمل المولد بھی لکھی
اس سے واضح ہوا کہ اس زمانے میں اور اس سے پہلے مسلمان میلاد مناتے تھے
اس کتاب کے رد میں جو کتاب اس وقت لکھی گئی وہ یہ ہے۔
اس وقت امت کو اس قول سے بچانے اور اس قول پر عمل نہ کرنے کے لئے سرکار امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ میدان میں آئے اور اس کا رد بلیغ فرمایا اور میلاد شریف کی حلت یعنی جائز و درست ہونے پر ایک کتاب بنام حسن المقصد فی عمل المولد تصنیف فرمائی جو عاشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعہ کے لئے بہترین رسالہ ہے۔ میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر 500 سو سالہ سے پہلے کی قدیم تالیف ہے یہ کتاب( 19,) انیس کتابوں سے ماخذ و مراجع ہے ۔جس میں بخاری سے لے کر المدخل تک کی کتابوں سے حوالہ دیا گیا ہے۔ اسی طرح آج کے دور میں کچھ لوگ میلاد شریف منانے کو بدعت کہتے ہیں اسی قول کے رد میں راقم الحروف کا یہ قسط وار مضامین میں سے ہے جو آپ حضرات کی خدمت میں پیش ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ماہ ربیع الاول شریف ولادت اور وفات دونوں کا مہینہ ہے جیسا کہ جمہور علمائے اہل سنت کے اقوال سے ثابت ہے۔
(1) ولادت کے دن خوشی منانا مثلا انبیا علیہم السلام کا ذکر کریں، میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم منائیں۔
(2) وفات کے دن غمگین رہنے کا بھی رواج ہے کیونکہ موت یقینا مصائب و آلام میں سے ہے اس لئے غمگین ہونا بہتر ہے لیکن حصور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم زندہ ہیں اس لئے غم نہ منا کر خوشیاں بنائیں اور میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم منعقد کریں نیک کام کرکے ایصال ثواب کریں ۔
اس تاریخ کو یا ہر رات دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے رہیں ۔ خوشیاں منانا کیوں جائز ہے؟
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ مصطفی جان رحمت باعث تخلیق کائنات حضور پُرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش امت محمدیہ خواہ امت اجابت ہو یا امت دعوت دونوں کے لئے عظیم ترین نعمت ہے۔ مصنف دلائل الخیرات شریف نے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اسماء مبارک میں ایک نام نعمت اللہ لکھا ہے اور قرآن میں ہے کہ نعمت اللہ کا خوب چرچا کرو ۔اسی لئے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ہم چرچا کرتے ہیں۔
علماء فرماتے ہیں کہ وجود باوجود سراپا رحمت حضور مصطفی جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور اس جناب کی ولادت باسعادت ہمارے حق میں بڑی نعمت ہے تو حضور کی پیدائش و ولادت کہ باعث تخلیق آدم و عالم ہے نعمت عظمی ہونے میں کیا شک ہے؟ اور خدا تعالیٰ کا قول:
واما بنعمۃ ربک فحدث تو یہ آیت مبارکہ اس بات کی دلیل ہے کہ نعمت کا خوب چرچا کیا جائے تو تحدیث و تذکرۂ نعمت؛ شکر ہے ۔اور اس کا ترک ناشکری ہے اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ میلاد مبارک میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہی ہوتا ہے ۔جو مامور بہ ہے ۔
عبد الرزاق :جامع : میں قتادہ سے مرسلا راوی : رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ
من شکر النعمۃ افشاوھا
یعنی نعمت کے شکر سے ہے اس کا خوب مشہور کرنا۔
(المصنف ۔رقم 19580 جلد 10 ص 425)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے راوی : رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جسے کوئی نعمت دی گئی اس نے اس کا خوب چرچا کیا تو شکر ادا کیا ۔اور چھپایا تو ناشکرا رہا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے راوی : رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جسے کوئی نعمت دی گئی اس نے اس کا خوب چرچا کیا تو شکر ادا کیا ۔اور چھپایا تو ناشکرا رہا۔
(ابوداؤد ۔کتاب الادب ۔رقم 6433. جلد 3 ص 105)
ان تمام دلائل صحیحہ سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا وجود مبارک ان کی ذات پاک اور یوم ولادت باسعادت بندۂ الہی کے لئے نعمت عظمی ہے یہ سب خداوند قدیر کے احسانات ہیں جو ہم پر ہوئے ۔مانند ولادت و ہجرت وغیرہما کے ۔اور تحدیث انعامات الٰہیہ عین شکر الہی ہے اسی لئے ہم سب ہمیشہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد مناتے ہیں اور ان کا ذکر ولادت ، سیرت ، اخلاق ، معجزات وغیرہم کرتے ہیں اور خصوصا شب بارہویں کو شان وشوکت کے ساتھ کرتے ہیں اور صبح میں جلوس محمدی نکال کر خوب ان کی آمد کا چرچا لوگوں تک پہنچاتے ہیں یہ سب کام شرعا، عقلا، نقلا جائز اور باعث رحمت و برکت ہے اور اس کا مخالفت کرنا ناشکری ہے۔
آپ کا ایک اسم مبارک ذکر اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے اس کا یہ مطلب ہوا کہ جو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر خیر کرے اس نے خدا کا ذکر کیا جیسا کہ کتاب الشفا بتعریف حقوق المصطفی میں ہے اور یہ کتاب سب کے نزدیک معتبر و مستند ہے جو نہیں مانے اس میں شفا نہیں بلکہ مرض ہے
حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ذکر اللہ ہے یعنی رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر الله تعالیٰ کا ذکر ہے جیسا کہ ارشاد ہوا
جعلنک ذکرا من ذکری فمن ذکرک ذکرنی
ان تمام دلائل صحیحہ سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا وجود مبارک ان کی ذات پاک اور یوم ولادت باسعادت بندۂ الہی کے لئے نعمت عظمی ہے یہ سب خداوند قدیر کے احسانات ہیں جو ہم پر ہوئے ۔مانند ولادت و ہجرت وغیرہما کے ۔اور تحدیث انعامات الٰہیہ عین شکر الہی ہے اسی لئے ہم سب ہمیشہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد مناتے ہیں اور ان کا ذکر ولادت ، سیرت ، اخلاق ، معجزات وغیرہم کرتے ہیں اور خصوصا شب بارہویں کو شان وشوکت کے ساتھ کرتے ہیں اور صبح میں جلوس محمدی نکال کر خوب ان کی آمد کا چرچا لوگوں تک پہنچاتے ہیں یہ سب کام شرعا، عقلا، نقلا جائز اور باعث رحمت و برکت ہے اور اس کا مخالفت کرنا ناشکری ہے۔
آپ کا ایک اسم مبارک ذکر اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے اس کا یہ مطلب ہوا کہ جو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر خیر کرے اس نے خدا کا ذکر کیا جیسا کہ کتاب الشفا بتعریف حقوق المصطفی میں ہے اور یہ کتاب سب کے نزدیک معتبر و مستند ہے جو نہیں مانے اس میں شفا نہیں بلکہ مرض ہے
حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ذکر اللہ ہے یعنی رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر الله تعالیٰ کا ذکر ہے جیسا کہ ارشاد ہوا
جعلنک ذکرا من ذکری فمن ذکرک ذکرنی
یعنی اے محبوب ! میں نے تجھے اپنا ذکر کیا ہے ۔جو تیرا ذکر کرے وہ میرا ذکر کرتا ہے ۔اور امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ
لایذکرک احد بالرسالۃ الا ذکرنی بالربوبیۃ
لایذکرک احد بالرسالۃ الا ذکرنی بالربوبیۃ
یعنی کوئی تمہیں رسالت کے ساتھ ذکر نہ کرے گا مگر مجھے ربوبیت کے ساتھ ذکر کرے گا۔ (الشفا بتعریف حقوق المصطفی)
قاضی ابو الفضل عیاض مالکی رحمہ اللہ کتاب شفا
قاضی ابو الفضل عیاض مالکی رحمہ اللہ کتاب شفا
میں ابن عطا سے نقل کرتے ہیں
جعلت تمام الایمان بذکری معک حاصل یہ ہے کہ رب عزوجل اپنے حبیب اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے :
کسی کا ایمان تمام نہیں ہوتا جب تک تمہیں میرے ساتھ ذکر نہ کرے ۔
ذکر انبیاء باعث رحمت ہے۔
جس دن کسی ملک کو آزادی ملی اس تاریخ کو وہاں کے باشندے جھنڈا لگاکر خوشی مناتے ہیں اسے کوئی عالم منع نہیں کرتا بلکہ مدرسہ دارالعلوم میں بھی جھنڈا لگایا جاتا ہے وہاں جائز ہوگیا ہر اسکولی بچہ جھنڈا کے ساتھ راستے پر آزادی کی خوشیاں مناتا ہے ۔ اسے کوئی منع نہیں کرتا اور ہم عشق رسول میں سرور دوعالم کی پیدائش کی خوشیاں ، محفل میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور جلوس عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خوشی مناتے ہیں تو ہم پر اعتراض کیا جاتا ہے اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ وہ لوگ حضور مجدد اعظم سرکار سیدی امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز کی کتابوں اور ان سے پہلے کے علمائے اہل سنت کی کتابوں کے مطالعہ سے دور ہیں اور قریب کے چند مخصوص لوگوں کی غیر مستند کتابوں اور نفسانی ضد کی وجہ سے اعتراض کرنے پر مجبور ہیں تعجب ہے ایسی امت محمدیہ پر جو اپنے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی میلاد شریف منعقد کرنے پر اعتراض کرتے ہیں آپ ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ یوم پیدائش کے دن ذکر الہی اور ذکر انبیاء ہی کیا جاتا ہے اور مرحبا آمد سرکار کا نعرہ لگایا جاتا ہے کہ آج حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کا دن ہے ۔ آج شفیع المذنبین ۔رحمت اللعلمین کی پیدائش جا دن ہے ۔ آج سید المرسلین کی پیدائش کا دن ہے آج ہم گنہگاروں کو بخشوانے والے شفیع المذنںین کی پیدائش کا دن ہے ۔ کاشف الغمۃ کی پیدائش کا دن ہے۔ اسی لئے ہم ان کی آمد کا ذکر خیر اور استقبال کرتے ہیں جسے نہ کرنا ہے وہ نہ کریں مگر اپنے اس فعل کو احادیث کی روشنی میں دیکھیں کہ معترضین کس قدر بھلائیوں سے دور ہورہے ہیں۔
دیلمی "مسند الفردوس" میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ذکر الانبیاء من العبادات و ذکر الصالحین کفارہ
جعلت تمام الایمان بذکری معک حاصل یہ ہے کہ رب عزوجل اپنے حبیب اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے :
کسی کا ایمان تمام نہیں ہوتا جب تک تمہیں میرے ساتھ ذکر نہ کرے ۔
ذکر انبیاء باعث رحمت ہے۔
جس دن کسی ملک کو آزادی ملی اس تاریخ کو وہاں کے باشندے جھنڈا لگاکر خوشی مناتے ہیں اسے کوئی عالم منع نہیں کرتا بلکہ مدرسہ دارالعلوم میں بھی جھنڈا لگایا جاتا ہے وہاں جائز ہوگیا ہر اسکولی بچہ جھنڈا کے ساتھ راستے پر آزادی کی خوشیاں مناتا ہے ۔ اسے کوئی منع نہیں کرتا اور ہم عشق رسول میں سرور دوعالم کی پیدائش کی خوشیاں ، محفل میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور جلوس عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خوشی مناتے ہیں تو ہم پر اعتراض کیا جاتا ہے اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ وہ لوگ حضور مجدد اعظم سرکار سیدی امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز کی کتابوں اور ان سے پہلے کے علمائے اہل سنت کی کتابوں کے مطالعہ سے دور ہیں اور قریب کے چند مخصوص لوگوں کی غیر مستند کتابوں اور نفسانی ضد کی وجہ سے اعتراض کرنے پر مجبور ہیں تعجب ہے ایسی امت محمدیہ پر جو اپنے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی میلاد شریف منعقد کرنے پر اعتراض کرتے ہیں آپ ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ یوم پیدائش کے دن ذکر الہی اور ذکر انبیاء ہی کیا جاتا ہے اور مرحبا آمد سرکار کا نعرہ لگایا جاتا ہے کہ آج حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کا دن ہے ۔ آج شفیع المذنبین ۔رحمت اللعلمین کی پیدائش جا دن ہے ۔ آج سید المرسلین کی پیدائش کا دن ہے آج ہم گنہگاروں کو بخشوانے والے شفیع المذنںین کی پیدائش کا دن ہے ۔ کاشف الغمۃ کی پیدائش کا دن ہے۔ اسی لئے ہم ان کی آمد کا ذکر خیر اور استقبال کرتے ہیں جسے نہ کرنا ہے وہ نہ کریں مگر اپنے اس فعل کو احادیث کی روشنی میں دیکھیں کہ معترضین کس قدر بھلائیوں سے دور ہورہے ہیں۔
دیلمی "مسند الفردوس" میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ذکر الانبیاء من العبادات و ذکر الصالحین کفارہ
یعنی انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام کا ذکر عبادت ہے اور اولیاء کا ذکر کفارہ (یعنی گناہوں کا ) ہے۔
(کشف الخفاء ومزیل اللباس ۔حرف الذال ۔تحت رقم 1340 ۔جلد 1 ۔467)
بلکہ وہی حضرت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ذکر علی عبادۃ یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ذکر کرنا عبادت ہے۔
بلکہ وہی حضرت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ذکر علی عبادۃ یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ذکر کرنا عبادت ہے۔
(الفردوس بما ثور الخطاب ۔رقم 3101 ۔جلد دوم 244)
جب حدیث رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اولیاء کا ذکر کرنا عبادت اور گناہوں کا کفارہ ہے تو شفیع المذنبین رحمۃ اللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرنا اجل عبادات سے ہے اور عبادت الٰہی ہے اور آپ کا ذکر خیر ذکر الہیٰ ہے ۔
لوگ اپنے گھر کے بزرگوں کا ذکر کرتے ہیں گاؤں یا شہر کا ذکر کرتے ہیں دوستوں کا ذکر کرتے ہیں تو جائز لیکن میلاد مبارک منائیں اس میں قیام کریں کھڑے ہوکر سلام پڑھیں اور جلوس عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم نکالیں تو بدعت جب کہ" یہ شفاء" ہے اور " لوگوں کا ذکر "کرنا مرض ہے۔
شعب الایمان میں مکحول سے مرسلا راوی ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ان ذکر اللہ تعالیٰ شفاء و ان ذکر الناس داء
جب حدیث رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اولیاء کا ذکر کرنا عبادت اور گناہوں کا کفارہ ہے تو شفیع المذنبین رحمۃ اللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرنا اجل عبادات سے ہے اور عبادت الٰہی ہے اور آپ کا ذکر خیر ذکر الہیٰ ہے ۔
لوگ اپنے گھر کے بزرگوں کا ذکر کرتے ہیں گاؤں یا شہر کا ذکر کرتے ہیں دوستوں کا ذکر کرتے ہیں تو جائز لیکن میلاد مبارک منائیں اس میں قیام کریں کھڑے ہوکر سلام پڑھیں اور جلوس عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم نکالیں تو بدعت جب کہ" یہ شفاء" ہے اور " لوگوں کا ذکر "کرنا مرض ہے۔
شعب الایمان میں مکحول سے مرسلا راوی ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ان ذکر اللہ تعالیٰ شفاء و ان ذکر الناس داء
یعنی بے شک اللہ کا ذکر شفا ہے اور بے شک آدمیوں کا ذکر بیماری ہے۔
(شعب الایمان باب فی محبۃ اللہ عزوجل ۔الفصل الثانی فی ذکر آثار واخبار ووردت فی ذکر اللہ عزوجل رقم 616 ۔جلد 1 ص 399.400)
بلکہ حدیث شریف میں لوگوں کے ذکر کرنے سے ممانعت ہے اکثر لوگ اپنا یا اپنے بچے کا یوم پیدائش birth day مناتے ہیں تو یہ جائز اور میلاد مبارک ناجائز جبکہ لوگوں کا ذکر کرنا مرض قلب ہے ۔
ابن ابی الدنیا امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد روایت کرتے ہیں
لاتشغلوا انفسکم بذکر الناس فانہ بلاء وعلیکم بذکر اللہ۔
بلکہ حدیث شریف میں لوگوں کے ذکر کرنے سے ممانعت ہے اکثر لوگ اپنا یا اپنے بچے کا یوم پیدائش birth day مناتے ہیں تو یہ جائز اور میلاد مبارک ناجائز جبکہ لوگوں کا ذکر کرنا مرض قلب ہے ۔
ابن ابی الدنیا امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد روایت کرتے ہیں
لاتشغلوا انفسکم بذکر الناس فانہ بلاء وعلیکم بذکر اللہ۔
یعنی لوگوں کے ذکر میں مشغول نہ ہو کہ وہ بلا ہے ۔ذکر خدا میں لگے رہو۔
دیکھا کہ لوگوں کا ذکر کرنا اپنے آپ کو کسی بلا میں ڈالنا ہے لیکن نیک لوگوں کا ذکر کرنا کفارۂ گناہ ہے بلکہ ایک حدیث شریف میں ہے کہ جہاں پر جس جگہ پر نیک لوگوں کا ذکر خیر ہوتا ہے وہاں رحمت اترتی ہے حدیث شریف میں ہے:
عند ذکر الصالحین تنزل الرحمۃ
دیکھا کہ لوگوں کا ذکر کرنا اپنے آپ کو کسی بلا میں ڈالنا ہے لیکن نیک لوگوں کا ذکر کرنا کفارۂ گناہ ہے بلکہ ایک حدیث شریف میں ہے کہ جہاں پر جس جگہ پر نیک لوگوں کا ذکر خیر ہوتا ہے وہاں رحمت اترتی ہے حدیث شریف میں ہے:
عند ذکر الصالحین تنزل الرحمۃ
یعنی نیک لوگوں کے ذکر کرتے وقت رحمت الٰہی نازل ہوتی ہے۔
(کشف الخفاء ۔رقم 1662 جلد دوم ص81)
اور یقینا میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یا جلوس عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ذکر شفیع المذنبین رحمتہ اللعالمین ہی ہوتا ہے جو رحمت ہی رحمت ہے۔
ایک بھی حدیث نہیں ہے کہ عام لوگوں کا ذکر کرتے وقت رحمت الہی اترتی ہے اور لوگ ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہتے ہیں اور جس کام پر ثواب ملتا ہے رحمت نازل ہوتی ہے گناہوں کا کفارہ ہے اس کام کو نہ کرتے ہیں بلکہ لوگوں کو منع کرتے ہیں کہ صحابہ کرام نہیں کیا اور اعتراض کرتے ہیں کہ وفات نہ مناکر جلوس نکالتے ہیں یہ سب بدعت ہے بلکہ اس طرح کی باتیں خود بدعت ہیں ۔
(2) اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وفات امت محمدیہ کے لئے باعث مصائب و آلام ہے ۔
(3) لیکن شریعت اسلامیہ میں نعمتوں کے اظہار تشکر کا حکم ہے اور یوم وفات کے دن صبر و سکون اور پردہ پوشی کا دن اور حکم ہے۔
اس کی دلیل ملاحظہ فرمائیں:
جب کسی کے گھر بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس دن اس گھر میں خوشی ہی خوشی رہتی ہے ہر طرف خوشی کی لہریں چھائیں رہتی ہیں گھر والے روپیہ پیسہ اناج غلا بانٹ دیتے ہیں اور غلاموں کو انعام و اکرام دیتے ہیں اور شریعت مقدسہ نے ہمیں بچے کی ولادت کی خوشی میں عقیقہ کرنے کا بھی حکم دیا ہے اور اس گوشت کو خود کھانے اور دوستوں کو کھلانے کا حکم دیا یعنی خوشی کا اظہار کرنے کا حکم دیا لیکن شریعت نے وفات پر عقیقہ کرنے کا حکم نہیں دیا۔
لہذا شرعی قانون کے لحاظ سے ماہ ربیع الاول شریف میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش پر اظہار تشکر و مسرت کرنا اچھا فعل ہے۔
دیکھو ! ہر گھر میں بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی پیدائش کے بعد وہ بچہ خوب روتا ہے چلاتا ہے لیکن حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذرا پیدائش کی حالت دیکھیں۔
علماء فرماتے ہیں کہ
بعض روایات میں ہے جیسا کہ قسطلانی اور ابو نعیم روایت کرتے ہیں کہ بعد ولادت کے آپ نے خدا کا سجدہ کیا اور انگشت مبارک آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا : لاالہ الااللہ انی رسول اللہ یعنی خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں بے شک میں خدا کا رسول ہوں ۔بعض روایت میں ہے کہ : جناب الہی میں عرض کیا
یارب ھب لی امتی یعنی خدایا میری امت مجھے بخش دے خطاب الہی ہوا :
وھبتک امتک باعلی ھمتک
اور یقینا میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یا جلوس عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ذکر شفیع المذنبین رحمتہ اللعالمین ہی ہوتا ہے جو رحمت ہی رحمت ہے۔
ایک بھی حدیث نہیں ہے کہ عام لوگوں کا ذکر کرتے وقت رحمت الہی اترتی ہے اور لوگ ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہتے ہیں اور جس کام پر ثواب ملتا ہے رحمت نازل ہوتی ہے گناہوں کا کفارہ ہے اس کام کو نہ کرتے ہیں بلکہ لوگوں کو منع کرتے ہیں کہ صحابہ کرام نہیں کیا اور اعتراض کرتے ہیں کہ وفات نہ مناکر جلوس نکالتے ہیں یہ سب بدعت ہے بلکہ اس طرح کی باتیں خود بدعت ہیں ۔
(2) اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وفات امت محمدیہ کے لئے باعث مصائب و آلام ہے ۔
(3) لیکن شریعت اسلامیہ میں نعمتوں کے اظہار تشکر کا حکم ہے اور یوم وفات کے دن صبر و سکون اور پردہ پوشی کا دن اور حکم ہے۔
اس کی دلیل ملاحظہ فرمائیں:
جب کسی کے گھر بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس دن اس گھر میں خوشی ہی خوشی رہتی ہے ہر طرف خوشی کی لہریں چھائیں رہتی ہیں گھر والے روپیہ پیسہ اناج غلا بانٹ دیتے ہیں اور غلاموں کو انعام و اکرام دیتے ہیں اور شریعت مقدسہ نے ہمیں بچے کی ولادت کی خوشی میں عقیقہ کرنے کا بھی حکم دیا ہے اور اس گوشت کو خود کھانے اور دوستوں کو کھلانے کا حکم دیا یعنی خوشی کا اظہار کرنے کا حکم دیا لیکن شریعت نے وفات پر عقیقہ کرنے کا حکم نہیں دیا۔
لہذا شرعی قانون کے لحاظ سے ماہ ربیع الاول شریف میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش پر اظہار تشکر و مسرت کرنا اچھا فعل ہے۔
دیکھو ! ہر گھر میں بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی پیدائش کے بعد وہ بچہ خوب روتا ہے چلاتا ہے لیکن حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذرا پیدائش کی حالت دیکھیں۔
علماء فرماتے ہیں کہ
بعض روایات میں ہے جیسا کہ قسطلانی اور ابو نعیم روایت کرتے ہیں کہ بعد ولادت کے آپ نے خدا کا سجدہ کیا اور انگشت مبارک آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا : لاالہ الااللہ انی رسول اللہ یعنی خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں بے شک میں خدا کا رسول ہوں ۔بعض روایت میں ہے کہ : جناب الہی میں عرض کیا
یارب ھب لی امتی یعنی خدایا میری امت مجھے بخش دے خطاب الہی ہوا :
وھبتک امتک باعلی ھمتک
یعنی میں نے تیری امت بسبب تیری بلند ہمت کے تجھے بخش دی۔
پھر فرشتوں سے ارشاد ہوا
اشھدوا یا ملائکتی ان حبیبی لا ینسی امتہ عند الولادۃ فکیف ینساھا یوم القیامۃ۔
اشھدوا یا ملائکتی ان حبیبی لا ینسی امتہ عند الولادۃ فکیف ینساھا یوم القیامۃ۔
عنی اے میرے فرشتوں ! گواہ رہو کہ میرا حبیب اپنی امت کو وقت ولادت نہیں بھولا تو قیامت کے دن کب بھولے گا۔
مسلمانوں ! جو نبی مکرم محسن کائنات شفیع المذنبین رحمتہ اللعالمین وقت ولادت اپنی امت کو نہیں بھولے بلکہ خدا تعالیٰ سے ہماری بخشش کی دعا مانگی تو ہم امت ان کی ولادت کے دن کیسے بھول جائیں ؟ ہم خوشی کیوں نہ منائیں؟ نئے کپڑے کیوں نہ پہنیں ؟ میلادالنبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کیوں نہ منائیں؟ ان کا ذکر خیر کیوں نہ کریں؟ جلوس عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم نکال کر ان کا چرچا کیوں نہ کریں؟ کیا یہ سب باتیں شرعا محمود نہیں ہیں ؟ کیا یہ سب کام امت کے لئے خیر نہیں ہیں؟ جبکہ کسی کے گھر بیٹا پیدا ہوتا ہے تو وہ خوشی سے جھوم اٹھتا ہے سب سے کہتا پھرتا ہے انعام بانٹتا ہے ۔پھر ہم خوشیاں کیوں نہ منائیں ؟ !
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز کے پیدائش کے پہلے کے علمائے اہل سنت کی کتابوں کا مطالعہ کریں آپ پائیں گے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کی گیارہویں تاریخ کی رات کو فرشتے تسبیح وتقدیس میں مشغول رہے بارھویں شب منادی نے ندا کی اے آمنہ تجھے اس مولود کے ساتھ بشارت ہو جو آج تیرے یہاں پیدا ہوگا ۔وہ آفتاب فلاح ہدایت ہے ۔اس کا نام محمد رکھنا اس رات انوار زمین و آسمان میں تاباں اور ستارے زمین کی جانب مائل تھے ۔
اور ساتوں آسمان کے فرشتے زمین پر اترے ۔اور جبریل و اسرافیل مولد شریف میں حاظر ہوئے ۔عرش ذوق و شوق میں ہلتا تھا ( اج عشاق رسول جلوس عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم میں چلتے ہیں) زمین طرح طرح سے ناز کرتی تھی ۔بت اوندھے اور شیاطین زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے ۔دریا ساوہ خشک اور وادی سماوہ میں دریا جاری ہوا محل بادشاہ ایران کا شق ہوا اور چودہ برج گر پڑے ۔ایک علم (یعنی جھنڈا) مشرق ۔دوسرا جھنڈا مغرب اور تیسرا جھنڈا بام کعبہ پر نصب ہوا ( جلوس عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دلیل ہے ) اکناف عالم میں شور تھا وحش و طیور دھوم مچا رہے تھے ( آج جلوس عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے سارے عالم میں یوم ولادت باسعادت مبارک مشہور ہے اور عشاق دھوم مچاتے ہیں ) اور فرشتے قدوم والا کے منتظر کہ وہ آفتاب عالم تاب ہزاروں جاہ وجلال کے ساتھ مسند ظہور پر جلوہ افروز ہوا اور تمام عالم کو کہ ظلمت کفر وشرک میں مبتلا تھا جمال منور سے روشن کیا۔
مسلمانوں ! بتاؤں کس شان و شوکت اور اعجاز وعزت کے ساتھ استقبال ولادت باسعادت حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا کیا گیا اور آج امت محمدیہ ؛ میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم منائیں تو آپ روکیں اور جلوس نکالیں تو آپ روکیں ہم تو یوم ولادت باسعادت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے خوش ہوکر ان کا ذکر خیر کرتے ہیں اور آپ کے لئے مناسب ہے کہ وفات غم میں روئیں سینہ پیٹے کھانا پینا ترک کردیں دن بھر غمگین حالت بناکر رکھیں یہ آپ کو مبارک ہو ہمیں شریعت نے غم منانے کا حکم نہیں دیا بلکہ صبر وسکون کے ساتھ گزارنے کا حکم دیا۔ لیکن جو لوگ جلوس عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں نکالتے ہیں وہ کم سے کم ذکر میلادالنبی ضرور کریں تلاوت قرآن درود شریف کی کثرت خوب کریں نعت شریف خوب پڑھیں اور ان کا خوب چرچا کریں اور یہ کام نہ کرکے اپنے دنیاوی کاموں میں مشغول رہیں کیا یہی طریقہ یوم ولادت نعمت عظمی کو یاد کرنے کا ہے اور جو جلوس عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم نکال کر ان کی آمد کا استقبال کریں ان کا خوب چرچا کریں ان پر طعنہ کشی نہ کریں یہ کسی طرح سے صحیح بات نہیں ہے ۔
جبکہ وفات جو حزن و ملال کا دن اس کے لئے حزن و ملال منانے کا حکم نہیں دیا بلکہ صبر و سکون کا حکم دیا اور صبر میں رونے پیٹنے کا حکم نہیں بلکہ اگر وفات کا غم ہے تو رونا سینہ پیٹنا ناجائز ہے چلو جس کو یوم وفات کہنے کی ضد ہے وہ وفات کے نام پر غم منائے لیکن اپنے علماء سے پوچھیں کہ کیا حضرت ہمارے پیارے نبی کی وفات کا ہم غم کیسے منائیں؟ یقینا وہ علما اختلاف کے بغیر بھی آپ کو غم منانے کے لے یہ حکم نہیں دیں گے کہ سر پھوڑ کر غم مناؤ سینہ چیڑ کر غم مناؤ دونوں ہاتھوں سے یا لاٹھی سے بدن کو خون سے آلودہ کرکے غم مناؤ جیسا کہ شیعہ لوگ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یوم وفات۔ میں غم کا اظہار کرتے ہیں کہیں آگ سے کہیں بھلا سے کہیں تلوار سے کہی سینہ پر حملہ اور تلوار سے حملہ کرکے خون سے کپڑا آلودہ کرکے اور کافی شدت کی چوٹ کھاکر غم منائے جیسا کہ شیعہ لوگ کرتے ہیں خیال رہے کہ ہم سنی مسلمان ہیں ہم حنفی مذہب کے ماننے والے غم نہ مناکر ذکر انبیاء و ذکر خلفاء اور ذکر اولیاء کرتے ہیں اور یہ سب باعث رحمت و برکت و مغفرت ہے۔
اب رہی بات وفات کا غم منانا تو اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یا کسی کا سوگ منانا جائز ہے مثلا شریعت میں عورت جس کا شوہر انتقال کرگیا ہو اس کے علاؤہ کسی کے انتقال و وفات پر تین دن سے زیادہ غم منانا جائز نہیں ہے ہاں اس دن ایصال ثواب کے لئے تلاوت قرآن پاک ۔کثرت درودشریف ۔ذکر کلمہ شریف ۔حمد الہی ۔نعت خوانی منقبت خیر خیرات کھانا وغیرہ کا انتظام کریں اور سب کا ثواب تمام مسلمانوں کی ارواح کو بھیجیں ۔اس کے علاؤہ رونا پیٹنا جائز نہیں ہے اور ہمارے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم زندہ ہیں اس لئے بارہ وفات کی وجہ سے غم منانا جائز نہیں ہے اور بارہ وفات کہنا بھی مناسب نہیں۔
(باقی قسط دوم )
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
مسلمانوں ! جو نبی مکرم محسن کائنات شفیع المذنبین رحمتہ اللعالمین وقت ولادت اپنی امت کو نہیں بھولے بلکہ خدا تعالیٰ سے ہماری بخشش کی دعا مانگی تو ہم امت ان کی ولادت کے دن کیسے بھول جائیں ؟ ہم خوشی کیوں نہ منائیں؟ نئے کپڑے کیوں نہ پہنیں ؟ میلادالنبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کیوں نہ منائیں؟ ان کا ذکر خیر کیوں نہ کریں؟ جلوس عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم نکال کر ان کا چرچا کیوں نہ کریں؟ کیا یہ سب باتیں شرعا محمود نہیں ہیں ؟ کیا یہ سب کام امت کے لئے خیر نہیں ہیں؟ جبکہ کسی کے گھر بیٹا پیدا ہوتا ہے تو وہ خوشی سے جھوم اٹھتا ہے سب سے کہتا پھرتا ہے انعام بانٹتا ہے ۔پھر ہم خوشیاں کیوں نہ منائیں ؟ !
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز کے پیدائش کے پہلے کے علمائے اہل سنت کی کتابوں کا مطالعہ کریں آپ پائیں گے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کی گیارہویں تاریخ کی رات کو فرشتے تسبیح وتقدیس میں مشغول رہے بارھویں شب منادی نے ندا کی اے آمنہ تجھے اس مولود کے ساتھ بشارت ہو جو آج تیرے یہاں پیدا ہوگا ۔وہ آفتاب فلاح ہدایت ہے ۔اس کا نام محمد رکھنا اس رات انوار زمین و آسمان میں تاباں اور ستارے زمین کی جانب مائل تھے ۔
اور ساتوں آسمان کے فرشتے زمین پر اترے ۔اور جبریل و اسرافیل مولد شریف میں حاظر ہوئے ۔عرش ذوق و شوق میں ہلتا تھا ( اج عشاق رسول جلوس عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم میں چلتے ہیں) زمین طرح طرح سے ناز کرتی تھی ۔بت اوندھے اور شیاطین زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے ۔دریا ساوہ خشک اور وادی سماوہ میں دریا جاری ہوا محل بادشاہ ایران کا شق ہوا اور چودہ برج گر پڑے ۔ایک علم (یعنی جھنڈا) مشرق ۔دوسرا جھنڈا مغرب اور تیسرا جھنڈا بام کعبہ پر نصب ہوا ( جلوس عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دلیل ہے ) اکناف عالم میں شور تھا وحش و طیور دھوم مچا رہے تھے ( آج جلوس عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے سارے عالم میں یوم ولادت باسعادت مبارک مشہور ہے اور عشاق دھوم مچاتے ہیں ) اور فرشتے قدوم والا کے منتظر کہ وہ آفتاب عالم تاب ہزاروں جاہ وجلال کے ساتھ مسند ظہور پر جلوہ افروز ہوا اور تمام عالم کو کہ ظلمت کفر وشرک میں مبتلا تھا جمال منور سے روشن کیا۔
مسلمانوں ! بتاؤں کس شان و شوکت اور اعجاز وعزت کے ساتھ استقبال ولادت باسعادت حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا کیا گیا اور آج امت محمدیہ ؛ میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم منائیں تو آپ روکیں اور جلوس نکالیں تو آپ روکیں ہم تو یوم ولادت باسعادت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے خوش ہوکر ان کا ذکر خیر کرتے ہیں اور آپ کے لئے مناسب ہے کہ وفات غم میں روئیں سینہ پیٹے کھانا پینا ترک کردیں دن بھر غمگین حالت بناکر رکھیں یہ آپ کو مبارک ہو ہمیں شریعت نے غم منانے کا حکم نہیں دیا بلکہ صبر وسکون کے ساتھ گزارنے کا حکم دیا۔ لیکن جو لوگ جلوس عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں نکالتے ہیں وہ کم سے کم ذکر میلادالنبی ضرور کریں تلاوت قرآن درود شریف کی کثرت خوب کریں نعت شریف خوب پڑھیں اور ان کا خوب چرچا کریں اور یہ کام نہ کرکے اپنے دنیاوی کاموں میں مشغول رہیں کیا یہی طریقہ یوم ولادت نعمت عظمی کو یاد کرنے کا ہے اور جو جلوس عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم نکال کر ان کی آمد کا استقبال کریں ان کا خوب چرچا کریں ان پر طعنہ کشی نہ کریں یہ کسی طرح سے صحیح بات نہیں ہے ۔
جبکہ وفات جو حزن و ملال کا دن اس کے لئے حزن و ملال منانے کا حکم نہیں دیا بلکہ صبر و سکون کا حکم دیا اور صبر میں رونے پیٹنے کا حکم نہیں بلکہ اگر وفات کا غم ہے تو رونا سینہ پیٹنا ناجائز ہے چلو جس کو یوم وفات کہنے کی ضد ہے وہ وفات کے نام پر غم منائے لیکن اپنے علماء سے پوچھیں کہ کیا حضرت ہمارے پیارے نبی کی وفات کا ہم غم کیسے منائیں؟ یقینا وہ علما اختلاف کے بغیر بھی آپ کو غم منانے کے لے یہ حکم نہیں دیں گے کہ سر پھوڑ کر غم مناؤ سینہ چیڑ کر غم مناؤ دونوں ہاتھوں سے یا لاٹھی سے بدن کو خون سے آلودہ کرکے غم مناؤ جیسا کہ شیعہ لوگ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یوم وفات۔ میں غم کا اظہار کرتے ہیں کہیں آگ سے کہیں بھلا سے کہیں تلوار سے کہی سینہ پر حملہ اور تلوار سے حملہ کرکے خون سے کپڑا آلودہ کرکے اور کافی شدت کی چوٹ کھاکر غم منائے جیسا کہ شیعہ لوگ کرتے ہیں خیال رہے کہ ہم سنی مسلمان ہیں ہم حنفی مذہب کے ماننے والے غم نہ مناکر ذکر انبیاء و ذکر خلفاء اور ذکر اولیاء کرتے ہیں اور یہ سب باعث رحمت و برکت و مغفرت ہے۔
اب رہی بات وفات کا غم منانا تو اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یا کسی کا سوگ منانا جائز ہے مثلا شریعت میں عورت جس کا شوہر انتقال کرگیا ہو اس کے علاؤہ کسی کے انتقال و وفات پر تین دن سے زیادہ غم منانا جائز نہیں ہے ہاں اس دن ایصال ثواب کے لئے تلاوت قرآن پاک ۔کثرت درودشریف ۔ذکر کلمہ شریف ۔حمد الہی ۔نعت خوانی منقبت خیر خیرات کھانا وغیرہ کا انتظام کریں اور سب کا ثواب تمام مسلمانوں کی ارواح کو بھیجیں ۔اس کے علاؤہ رونا پیٹنا جائز نہیں ہے اور ہمارے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم زندہ ہیں اس لئے بارہ وفات کی وجہ سے غم منانا جائز نہیں ہے اور بارہ وفات کہنا بھی مناسب نہیں۔
(باقی قسط دوم )
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
مورخہ 14 ربیع الاول شریف 1444
11اکتوبر 2022
آج یکم ربیع الشریف 1455
11اکتوبر 2022
آج یکم ربیع الشریف 1455