Type Here to Get Search Results !

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے بچوں کے زندہ ہونے کی تحقیق

  •┈┈┈┈•••✦✦•••┈┈┈┈•
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے بچوں کے زندہ ہونے کی تحقیق:-
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
 خندق کھودنے کے دوران حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا دعوت کرنا اور تھوڑا سا کھانا بہت سارے صحابہ کو کفایت کرجانا یہ واقعہ بخاری کے ساتھ تمام کتب میں موجود ہے اور یہ واقعہ جو کہ صحیح بھی ہے اس لیے اس پر تو کلام بنتا نہیں،
 لیکن اس کے ساتھ ایک واقعہ اور جوڑا جاتا ہے اور بہت سے لوگ تو یہاں تک بول دیتے ہیں یہ بھی بخاری میں ہے بلکہ وہ جو اپنے کو عالم کہلاتے ہیں لیکن ان کا مطالعہ مضبوط نہیں ہوتا وہ بھی کہہ دیتے ہیں یہ بخاری میں ہے میں نے جب اس واقعہ کی تحقیق کی اور اپنے احباب کو ان واقعات کی تحقیقات بتائی تو انہوں نے 2 عالموں سے اس بارے میں معلوم کیا تو عالم صاحب نے کہا یہ تحقیق غلط ہے کیونکہ یہ واقعہ بخاری میں موجود ہے اور وہ دونوں عالم اپنے آپ کو مفتی کہلاتے ہیں،۔ خیر اس کی تحقیق کیا ہے جانتے ہیں جیسے کہ ہم بتا چکے ہیں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی دعوت کا واقعہ صحیح ہے بخاری سمیت کئیں کتابوں میں یہ موجود ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے بچوں کا زندہ ہونے کے واقعے کی طرف آتے ہیں۔ حضرت جابر نے بکری ذبح کی تو آپ کے دو بچے تھے انہوں نے بکری ذبحہ ہوتے دیکھی تو آپ کے بڑے لڑکے نے چھوٹے لڑکے کو ذبحہ کر دیا آپ کی زوجہ محترمہ چھت پر آئی اور یہ منظر دیکھا تو اپنے بڑے لڑکے کی طرف بڑھی تو وہ ڈر گیا اور وہاں سے بھاگا چھت سے نیچے گرکر فوت ہوگیا آپکو بہت صدمہ ہوا پر یہ بات آپ نے کسی کو نہیں بتائی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں کھانے کے لئے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جابر کے بچوں کو بلائیں آپ ان کے ساتھ کھانا کھائیں پھر حضرت جابر رضی اللہ کی زوجہ پورا واقعہ بیان کرتی ہیں پھر نبی کریم ان کے بچوں کو زندہ کر دیتے ہیں۔،
 یہ واقعہ غیر معتبر اور بے سند کچھ کتابوں میں ذکر ہے لیکن یہ واقعہ صحیح نہیں ہے غیر معتبر ہے بلکہ موضوع ہے میں نے اس واقعے کے لئے کافی کتابیں دیکھی بالآخر یہ واقعہ موضوع معلوم ہوا اس واقعہ کو شواہد النبوہ میں علامہ جامی نے ذکر کیا ہے لیکن کوئی حوالہ کوئی سند ذکر نہیں کی اور ان ہی کے حوالے سے مدارج النبوتہ میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے بھی لکھا ہے اس میں بھی کوئی سند کوئی حوالہ ذکر نہیں کیا یہ واقعہ تاریخ خمیس میں بھی لکھا ہے لیکن انہوں نے ساتھ ہی فرما دیا جس کے آخری الفاظ یہ ہیں 
لکنھا لم تشھر اشتھارا کے اس کو مشہور نہ کیا جائے یہ مشہور نہیں اس کا ثبوت نہیں ہے (تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیس مؤلف حسین بن دیار بکر صفحہ 500)
دوسرا یہ واقعہ اس وجہ سے موضوع ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا انتقال احد کی جنگ میں ہوا تھا جیسے کی خود حضرت جابر نے بتایا بخاری میں روایت موجود ہے اور جنگ احد تین ہجری شوال کے مہینے میں ہوئی جنگ میں حضرت جابر کے والد شہید ہوئے جنگ خندق سن پانچ ہجری ذیقعدہ میں ہوئی حضرت جابر کے بچوں کا واقعہ بھی پانچ ہجری کا ہے کیونکہ جنگ احد کے بعد حضرت جابر نے ایک بیوہ عورت سے اس لئے شادی کر لی تھی آپ کی سات بہن تھیں جو کی چھوٹی تھیں اور ایک روایت میں نو بہنوں کا بھی ذکر ہے ان کی دیکھ بھال کی وجہ سے بیوہ عورت سے نکاح کیا تھا آپ کا نکاح تین ہجری کے آخر میں ہوا یا پھر چار ہجری کے شروع میں اور جنگ خندق ہوئی پانچ ہجری میں جنگ احد اور جنگ خندق کے درمیان تقریبا 25 مہینوں کا فاصلہ ہے ان 25 مہینوں میں حضرت جابر نے نکاح بھی کیا ہے اور اولاد بھی ہوئ جب کہ عام طور پر 9 ماہ میں بچہ کی ولادت ہوتی ہے اگر ہم 25 میں سے 9 کم کردیں تو بچتے ہیں 16 اب آپ خود اندازہ لگا لے اتنے مہینے کے درمیان میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے نکاح بھی کر لیا اور آپ کے اسی درمیان میں شادی بھی ہوئی اور دو اولاد بھی ہو گئی ہو اور وہ بھی اتنی بڑی ہو گئی ہو ایک بچہ دوسرے کو لٹا کر چھوری لے کر ہاتھ میں اور پھر اس کی گردن پر بھی چلا دی ہو کیا یہ سب ممکن ہے 25 ماہ کے عرصے میں ہرگز ممکن نہیں کیوں کی اتنا وقت تو 2 بچوں کی ولادت میں لگتا ہے اگر ہم یہ مان بھی لے ایک بچہ کی ولادت میں 9 ماہ لگے تو دو بچوں کی ولادت میں 18 ماہ ہو گۓ اب بچتے ہیں 7 ماہ تو 7 ماہ کا بچہ ایسا کام ہر گز نہیں کر سکتا یہ 7 ماہ بھی اس طور پر بچتے ہیں ہم نے حضرت جابر کا نکاح 3 ھجری میں فرض کیا ہے اگر یہ فرض نہ کیا جاۓ تو یہ ماہ بھی ختم ہو جائیں گے
اگر ہم اولاد کو ہونا تسلیم کریں تو اس حساب سے آپ کا ایک ہی بچہ ہونا تسلیم ہوتا ہے لہذا مذکورہ واقعے کی حقیقت کیا رہ گئی اب آپ با خوبی سمجھ گئے ہوں گے اصول حدیث میں ہے جب کوئی روایت عقل اور شواہد کے خلاف ہو تو پھر اس روایت پر محدثین وضع کا حکم لگاتے ہیں اور مذکورہ واقعہ بھی عقل اور شواہد کے خلاف ہے محض چند مہینوں میں اتنا سب کچھ ہونا ممکن نہیں
میری اس تحقیق کے بعد کچھ لوگوں نے کہا جس میں اہل علم بھی شامل ہیں اس واقعہ کا موضوع ہونا تاریخ سے ثابت کیا گیا ہے لہذا تاریخ سے کوئی واقعہ موضوع نہیں ہو سکتا  
ایک مفتی صاحب نے جب یہ سنا حدیث عقل شواہد کے خلاف ہو تو وہ موضوع ہوتی ہے تو انہوں نے جواب دیا کی معجزہ بھی تو عقل کے خلاف ہوتا ہے تو کیا معجزہ کو بھی موضوع اور من گھڑت کہا جائے گا اب میں مفتی صاحب کے اس اعتراض کے بارے میں صرف یہ کہوں گا اللہ کریم ہمیں صحیح فہم عطا فرماۓ 
ایسے حضرات کے علم میں اضافے کے لئے ہم یہ بتا دیں محدثین تاریخ کے اعتبار سے بھی روایات پر موضوع ہونے کا حکم لگاتے ہیں۔
امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اذا راءیت الحدیث یباین المعقول او یخالف منقول او بناقض الاصول فعلم انہ موضوع 
اگر آپ کو کوئی ایسی حدیث ملے جو عقل کے خلاف ہو یا قرآن و حدیث کے نقل کے خلاف ہو یا دین کے اصولوں کے متضاد ہو تو جان لو کہ یہ حدیث موضوع ہے 
( تدریب الراوی موضوع حدیث کی بحث)  
امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں۔
 ان من جملتہ دلائل الوضع ان یکون مخالفا للعقل بحیث لا یقبل التاویل 
حدیث کے جعلی موضوع ہونے کے دلائل میں سے یہ بات شامل ہے یہ عقل کی اس طرح خلاف ہو کے اس کی توجیہ ممکن ہی نہ ہو
 (تیسیر مصطلح الحدیث المقصد الثالث المردود بسبب طعن فی الراوی)
  میں ہے
 او ما یتنزل منزلتہ اقرارہ
 کان یتحدث عن شیخ فی
 فیسأل عن مولدہ ھو فیذکر تاریخا تکون وفاتہ ذالک الشیخ قلبل مولدہ 
راوی ایسی بات کرے جو اقرار کے قائم مقام ہو جیسے کسی شیخ سے حدیث بیان کریں جب اس شیخ کی ولادت کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ ایسی تاریخ ذکر کرے جو اس شیخ کی تاریخ وفات کے بعد ہو
راوی ایسے شیخ سے روایت کرے جس سے اس کی ملاقات ثابت نہ ہو یا اس کی وفات کے بعد پیدا ہو یا جس جگہ سے سماع کا دعوی کر رہا ہوں وہاں کبھی گیا ہی نہ ہو جیسے ماموں بن احمد ہروی نے دعوی کیا کے اس نے ہشام بن عمار سے سنا حافظ ابن حبان نے اس سے پوچھا تم شام میں کب داخل ہوئے تو اس نے کہا ڈھائی سو 250 ھجری میں اس پر حافظ ابن حبان نے فرمایا ہشام جس سے تم روایت کر رہے ہو اس کا انتقال تو 245 ھ میں ہو چکا ہے 
 اسی طرح عبداللہ بن اسحاق کرمانی نے محمد بن ابی یعقوب سے حدیث روایت کی حافظ ابوعلی نشاپوری اس کے پاس آئے اور اس کا سن ولادت معلوم کیا تو اس نے 251 بتایا حافظ ابو علی نے کہا کہ محمد بن یعقوب تو تمہاری ولادت کے 9 سال پہلے وفات پا چکے تھے اسی طرح محمد بن حاتم کشی نے عبد بن حمید کے واسطے سے حدیث بیان کی تو حاکم ابو عبداللہ نے کہا کہ اس شیخ نےعبد بن حمید کی وفات کے تیرہ سال بعد حدیث اس سے سنی ہے 
( تدریب الراوی )(میزان الاعتدال)
(جب روایت تاریخی حقائق کے خلاف کوئی روایت ہو)
اس کی مثال وہ معادہ ہے جو خیبر کے یہودیوں نے اس دعوے کے ساتھ پیش کیا کہ یہ معاہدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کیا غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ معاہدہ جعلی تھا کیونکہ اس پر سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے دستخط بطور گواہ موجود تھے جو جنگ خیبر سے دو سال پہلے جنگ خندق میں شہید ہوچکے تھے اس معاہدے میں یہ لکھا ہوا تھا اسے تحریر کرنے والے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہے جو جنگ خیبر کے ایک سال بعد ایمان لائے
(حدیث میں حسی مشاہدے کے خلاف بات کہی گئی ہو)
 اس کی مثال یہ حدیث ہے بینگن میں ہر بیماری سے شفا ہے یہ بات خلاف حقیقت ہے اور کسی احمق قسم کے حکیم یا شاید بینگن کے کسی تاجر نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا ہے
دیکھا آپ نے ہمارے محدثین تاریخ کے اعتبار سے بھی حدیث کے موضوع ہونے کا حکم لگاتے ہیں اور ہم نے اصول حدیث کی روشنی میں یہ بھی بیان کیا کی حدیث عقل کے خلاف ہو مشاہدے کے خلاف ہو اور اس میں تاویل نہ ہو سکے تو وہ حدیث موضوع ہے تو یہ کہنا غلط ہوگا کی تاریخ کے اعتبار سے حدیث موضوع نہیں ہوتی 
 تاریخ کے اعتبار سے حدیث پر موضوع ہونے کا حکم محدثین لگاتے ہیں ہم نے اس کی چند مثالیں پیش کی اب ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں تاریخ کے اعتبار سے مزید بحث کریں گے تو گفتگو طویل ہوجائے گی
 اب میں ایک اشکال کا جواب اور عرض کرتا ہوں وہ اشکال یہ ہے جو اہل علم نے کیا ہے 
 شواہدالنبوة علامہ جامی کی بہت معتبر کتاب ہے معتبر کتاب میں واقعہ موجود ہے تو صحیح ہوگا
جواب۔ میں علامہ جامی کی ذات پر تو کلام نہیں کروں گا ان کی ذات متنازعہ ہے شیعہ اور سنی کے درمیان اس پر اگر بحث کرو تو گفتگو طویل ہو جائے گی اگر کسی کو اس بارے میں جاننا ہو تو میزان الکتب کا مطالعہ کرے رہی موصوف کی کتاب تو ان کی یہ کتاب شواہد النبوۃ اہل سنت کے نزدیک غیر معتبر ہے کیوں کہ اس میں بعض روایات ایسی ہیں جو کی موضوع اور من گھڑت ہیں جس میں پہلی روایت یہ ہے شواہدالنبوة میں علامہ جامی نے لکھا ہے یہ مشہور ہے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو زہر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کہ کہنے پر ان کی بیوی جعدہ نے زہر دیا تھا موصوف کی یہ عبارت ہوبہو وہی ہے جو شیعہ حضرات ہم پر بطور اعتراض پیش کرتے ہیں اور اس روایت کا جواب ہمارے علماء نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے  
علامہ جامی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ مشہور ہے اب یہ مشہور ہونا صحیح ہے یا غلط ظاہر سی بات ہے کہ یہ شہرت غلط ہے موضوع اور من گھڑت ہیں
جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ہی زہر دینے والے کا نام نہیں بتایا اور نہ آپ کو زہر دینے والے کا نام یقینی معلوم ہے جس پر شک تھا اس کا نام بھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے نہیں بتایا تو اس کی نسبت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف کرنا یہ بالکل سراسر غلط ہے اور اس سے یہ بات اور ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہٗ اہل بیت سے دشمنی اور عداوت رکھتے تھے معاذاللہ 
 شواہدالنبوة کی دوسری عبارت یہ ہے
ایک روز حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے یہ آگاہ ہوجائے حاضرین مجلس نے کہا ہم تو ایسے کسی طریقے سے آشنا نہیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں اس طریقہ کو علی رضی اللہ عنہ سے معلوم کر سکتا ہوں کیونکہ وہ جو بھی کہتے ہیں سچ ثابت ہوتا ہے چنانچہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے تین باعتبار اشخاص کو بلایا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ ایک دوسرے کے بعد اکیلے اکیلے کوفہ جائیں اور میری موت کی خبر مشہور کر دیں لیکن یہ عمل ضروری ہے کہ تم میری بیماری یوم وفات وقت اجل جگہ قبر اور جنازہ پڑھانے والے کے تذکرہ میں باہم متفق رہو یہ سن کر وہ روانہ ہوئے کوفہ کے نزدیک پہنچے تو پہلے روز ایک آدمی کوفہ میں داخل ہوا اہل کوفہ نے پوچھا کہاں سے آئے ہو کہنے لگا شام سے انہوں نے کہا شام کے حالات کیسے ہیں جواب دیا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ وفات پا گئے ہیں اہل کوفہ نے جناب مولا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آکر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر سنائی آپ نے اس طرف توجہ نہ فرمائی تیسرے روز ایک اور آدمی آیا اور اس نے بھی ان کو اسی طرح حضرت معاویہ کی وفات کی خبر سنائی حضرت علی کے متوسلین کہنے لگے کہ اب یہ خبر پائے تحقیق و صحت کو پہنچ چکی ہے آج ایک شخص پھر آیا جس نے پہلوں کی طرح امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر دی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی داڑھی مبارک اور سر جس پر خضاب لگا ہوا تھا کہ طرف اشارہ کرکے فرمایا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ وفات پا جائے کلیجہ چبانے والی کا بیٹا جب تک کہ میری داڑھی اور سر رنگین نہ ہو جائیں وفات نہیں پا سکتا
یہ ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے وہ یہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ہندہ نے یہ حصرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ان کا کلیجہ چبایا لیکن وہ کلیجہ چبانے والے کا بیٹا ایسے الفاظ اور پھر اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرنا کتنی بڑی جسارت ہے علاوہ ازیں ھندہ نے یہ کام قبل از ایمان کیا تھا بعد میں مشرف با اسلام ہوئی اسلام گزشتہ دور کے گناہ مٹا دیتا ہے اسلام کے بعد انکا شمار فقہا صحابیات میں ہوتا ہے اس واقعہ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر جھوٹ باندھا گیا ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف گھٹیا بات منسوب کی گئی اور ہندہ کے قبل اسلام کے فعل کو اچھالا گیا یہ سب باتیں شیعوں کی ہیں اور انکی کتابوں میں موجود ہیں
 موصوف کی کتاب کی یہ روایت بھی جھوٹی اور من گھڑت ہے کہ اس میں ایک صحابی کی طرف جھوٹ کی طرف نسبت کی گئی ہے اور وہ جھوٹ یہ کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری جھوٹی موت کی خبر سنانا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف گھٹیا الفاظ منسوب کئے گئے قارئین کرام ان روایات سے بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ کتاب شواہد النبوۃ اہل سنت کے نزدیک غیر معتبر ہے اس میں صحابہ کی طرف جھوٹ منسوب ہے ہم نے صرف دو روایات ذکر کی ہیں اگر ہمیں اس گفتگو کہ طویل ہو جانے کا خیال نہ ہوتا اور موضوع سے ہٹ جانے کا خیال نہ ہوتا تو ہم علامہ جامی کی ذات پر بھی کلام کرتے اور جو ان کے دیوان کلام ہے ان اشعار پر بھی کلام کرتے اور ان کے نظریات بھی بیان کرتے واضح رہے ہماری اس گفتگو سے کوئ یہ گمان نہ کرے کہ ہم موصوف کو شیعہ کہہ رہے ہیں علامہ جامی کا تعلق ایک ایسے شہر سے تھا جس کو شیعوں کا شہر کہا جاتا ہے تو ممکن ہے ان کے کلام اور ان کی اس کتاب میں شیعوں نے ردوبدل کیا ہو
 ہمارے اکابر علماء نے اور ہمارے بزرگوں نے علامہ جامی کو بڑے بڑے اچھے القابات سے یاد کیا ہے مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ پیر مہر علی شاہ رحمة الله علیہ جیسے اکابر اچھے القابات سے یاد کیا ہے۔ قارئین حضرات اب آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ شواہد النبوۃ اہل سنت کے نزدیک غیر معتبر ہے لہذا اس گفتگو کو اب ہم یہی ختم کرتے ہیں
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر محقق دورہ
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی قادری
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 
ہلدوانی نینیتال
9917420179

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area