Type Here to Get Search Results !

کیا کراما کاتبین ہر بات لکھتے ہیں؟ قسط اول


•┈┈┈┈•••✦✦•••┈┈┈┈•
قسط اول:-
♦•••••••••••••••••••••••••♦
کیا کراما کاتبین ہر بات لکھتے ہیں؟
ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے رات کے ہوتے ہیں اور دو دن کو ۔اسی لئے ان کے لئے قرآن مجید میں جمع کا صیغہ لایا گیا 
کراما ( معزز) کریم کی جمع ہ۔ے یعنی وہ ہمارے معزز اس لئے ہیں کہ وہ ہماری اطاعت کے پابند اور ادائے امانت میں بے مثال ہیں ۔اور کراما کریم کی جمع ہے کریم خائن نہیں ہوتا ہے وہ وہی اعمال لکھتے ہیں جو ہم کرتے ہیں 
بعض نے فرمایا کہ وہ کراما اس معنی پر ہے کہ حسنات کے لکھنے میں جلدی اور برائیوں کے لکھنے میں توقف کرتے ہیں اس امید پر کہ وہ گنہگار اپنی گناہوں سے جلدی توبہ کرے تاکہ اس کے گناہ اور توبہ یکجا لکھیں   
زھرۃ الریاض نامی کتاب میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا نام کراما اسلئے فرمایا:
جب کوئی بندہ نیکی کرتے ہیں تو اسے فورا بارگاہ رب العزت میں لے جاتے ہیں اور حضوری کے بعد گواہی دیتے ہیں کہ اے اللہ جل جلالہ ؛ تیرے فلاں بندے نے نیکی کی ہے لیکن برائی سے خاموش ہوکر عرض کرتے ہیں:
 الہی ! تو ستار العیوب ہے یہ تیرے فلاں فلاں بندے روزانہ تیری کتاب پڑھتے اور مدح کرتے ہیں ہم ان کی پردہ دری نہیں کرنا چاہتے تو اس میں تعطف مہربانی کا معنی ہے
جو انسان کے دائیں کندھے پر فرشتہ ہے وہ بائیں کی شہادت کے بغیر نیکیاں لکھتا ۔اور جو بائین کندھے پر ہے وہ دائیں کندھے والے کی شہادت کے بغیر (گناہ) نہیں لکھتا ۔جب انسان چکرا ہے تو ان میں سے ایک اس کے آگے ہوتا ہے اور ایک اس کے پیچھے اور اگر وہ انسان بیٹھتا ہے تو ان میں سے ایک اس کے دائیں ہوتا ہے اور ایک اس کے بائیں اور اگر وہ انسان سوتا ہے تو ان میں سے ایک اس کے سر کے پاس ہوتا ہے اور دوسرا اس کے پاؤں کے جانب
کراما کاتبین انسان کی ہر بات اور چھوٹا بڑا عمل لکھتے ہیں:
اس ضمن میں تین اقوال ہیں:
(1) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔نیکی یا بدی کی جو بات بھی کوئی انسان کہتا ہے اسے لکھا جاتا ہے حتی کہ اس کی یہ بات کہ 
میں نے کھایا ۔پیا ۔گیا ۔ایا۔دیکھا بھی لکھا جاتا ہے
جب جمعرات کا دن ہوتا ہے تو اس کا قول و عمل سب پیش کیا جاتا ہے تو جو کچھ نیکی و بدی سے متعلق ہوتا ہے اس کو برقرار رکھا جاتا ہے اور باقی سب کچھ مٹا دیا جاتا ہے۔(فرشتے ہی فرشتے ص 320.تفسیر در منشور جلد 13.ص 621.تفسیر ابن حاتم جلد 10 ص 3308.رقم الحدیث 18632.الحیایک فی اخبار الملائک ص 92 رقم الحدیث 324)
اس قول سے معلوم ہوا کہ ہر بات نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہے مگر جمعرات کے دن نیکی اور بدی والے اعمال کے علاؤہ تمام باتوں کو مٹا دیا جاتا ہے ۔
(2) دوسرا قول بھی حضرت ابن عباس ہی سے ہے کہ ۔نیکی اور گناہ لکھتے جاتے ہیں ۔لیکن اے غلام گھوڑے پر زین کس دے .اے غلام پانی پلادے( وغیرہ گفتگو) نہیں لکھی جاتی ہے۔
(فرشتے ہی فرشتے ص 320 بحوالہ تفسیر ابن حاتم جلد 10 ص 3307.رقم الحدیث 18633.الحبائک فی اخبار الملائک ص 92.رقم الحدیث 325)
اس قول سے واضح ہوا کہ نیکی اور بدی کی باتیں لکھی جاتی ہیں اور باقی اعمال یعنی ادھر او یا کھانا کھاؤ وغیرہ کو نہیں لکھا جاتا ہے ۔
(3) تیسرا قول کہ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں:, جس عمل پر کوئی اجر دیا جائے گا یا سزا دی جائے گی صرف وہی ( نامہ اعمال میں) لکھا جاتا ہے۔
( فرشتے ہی فرشتے ص 321 بحوالہ تفسیر در منثور جلد 13 ص 621 ۔الحبائک فی اخبار الملائک ص 92 رقم الحدیث 326)
اس قول سے روشن ہوا کہ جس عمل پر یا جس بات پر کوئی اجر دیا جائے گا یا سزا دی جائے گی صرف وہی لکھا جاتا ہے باقی کچھ نہیں لکھا جاتا ہے ۔اگر ہر عمل لکھا جاتا ہے تو ان سب کو جمعرات کے دن مٹا دیا جاتا ہے صرف وہ عمل جس پر سزا یا اجر دیا جائے گا وہی باقی رہ جاتا ہے ۔
حضرت حجاج بن دینار فرماتے ہیں:
میں نے حضرت ابو معشر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کی :اللہ تعالیٰ کا جو ذکر انسان دل میں کرتا ہے اسے فرشتے کس طرح لکھتے ہیں ؟ فرمایا : اس کی خوشبو پاکر لکھتے ہیں۔(الحبائک فی اخبار الملائک ص 96 رقم الحدیث 348) 
غم و اندوہ کے وقت گناہ نہیں لکھے جاتے
حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:
یوحی الی الحفظۃ لاتکتبوا علی عبدی عند ضحرۃ شیئا
 یعنی اللہ تعالیٰ کراما کاتبین کی طرف وحی فرماتا ہے کہ میرے بندے کے اعمالنامہ میں غم و اندوہ کے وقت کوئی اعمال نہ لکھو۔
(الحبائک فی اخبار الملائک ص 96 رقم الحدیث 344)۔ 
بیمار کا مرتبہ:-
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : 
ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھے کہ آپ نے تبسم فرمایا تو ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آپ نے کیوں تبسم فرمایا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 
عجبت للمؤمنین و جزعہ من السقم و لو یعلم ما فی السقم احب ان یکون سقیما حتی یلقی اللہ
 یعنی میں مومن سے اور اس کی بیماری میں گھبراہٹ سے حیران ہوں ۔اگر یہ بیماری کا اجر و ثواب جان لے تو پسند کرے کہ وہ بیمار پڑ جائے ۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے جاملے
مریض کو اجر ثواب کے انعامات:-
  اگرکوئی کسی بیماری یا عذر شرعی کی بنا پر کسی نیک عمل کرنے سے رہ جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور رحمت سے امید ہے کہ وہ اب بھی اپنے بندوں پر ایسی کرم نوازی کرتا ہے کہ اسے اسی بیماری کی مشقت وکلفت کے اجر و ثواب کے علاؤہ وہ نیکیاں بھی بدستور عطا فرماتا ہے جو بحالت صحت میں کرتا تھا۔
حدیث شریف میں ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے :
روزانہ کوئی عمل ایسا نہیں جس کو تمام کرکے مومن بیمار ہوجایے تو فرشتے عرض کرتے ہیں ۔اے ہمارے پروردگار تو نے اسے بے بس کردیا ہے ( یعنی بیماری میں مبتلا کردیا ہے ) تو اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے جس طرح کا اس نے عمل کیا تھا تم اس کے عمل بھی ( یعنی روزانہ کا عمل ) اسی طرح کا تحریر کردو یہاں تک کہ یہ نجات پالے یا اسے موت اجائے۔
( کنز العمال جلد تین ص 124 رقم الحدیث 6663)
گناہ کے اعمال فورا نہیں لکھے جاتے ہیں۔
حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نیکیاں لکھنے والا فرشتہ انسان کے داہنے طرف ہے جو اس کی نیکیاں تحریر کرتا ہے اور گناہ لکھنے والا اس کے بائیں ہے ۔جب انسان کوئی نیک عمل کرتا ہے تو اسے داہنی طرف والا دس نیکیاں لکھ دیتا ہے اور جب انسان برائی کرتا ہے تو داہنی طرف والا بائیں والے سے کہتا ہے ۔اسے مہلت دو ۔کہ یہ تسبیح پڑھ لے یا استغفار کرلے ( اور ان کی وجہ سے اس کا گناہ مٹ جائے ) لیکن جب جمعرات کا دن آتا ہے تو اس کے نیک و بد سب اعمال لکھ دیئے جاتے ہیں نیکی اور بدی کے علاؤہ کے سب اعمال مٹادیئے جاتے ہیں پھر اس اعمال نامہ کو ام الکتاب پر پیش کیا جاتا ہے تو جو کچھ اعمال نامہ میں ہوتا ہے وہ سب ام الکتاب میں موجود ملتا ہے۔
 (الحبائک فی اخبار الملائک ص 92 رقم الحدیث 327)
ارشاد باری تعالیٰ ( عن الیمین و عن الشمال قعید ) کی تفسیر میں حضرت احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: 
قال صاحب الیمین : یکتب الخیر وھو امیر علی صاحب الشمال فان اصاب العبد خطیئۃ قال : امسک فان استغفرُللہ تعالیٰ نھاہ ان یکتبھا وان ابی الا ان یصر کتبھا یعنی دائیں طرف والا فرشتہ نیکیاں لکھتا ہے اور بائیں طرف والے کا امیر (بھی )ہے اگر انسان گناہ کرے تو یہ کہتا ہے ٹھہر جاؤ ۔اگر یہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی معافی مانگ لے تو اسے یہ گناہ لکھنے سے منع کردیتا ہے اوراگر انسان گناہ نہ چھوڑے اور اس پر ڈٹا رہے تو وہ اس گناہ کو لکھوادیتا ہے
(1) کراما کاتبین کو قلم اور سیاہی کی ضرورت نہیں ۔ انسان کی زبان فرشتے کا قلم ہے اور اور اس کا لعاب ان کی سیاہی ہے کتابت صرف اقوال سے مخصوص نہیں کیونکہ یہ افعال ۔اعتقادات اور نیتیں بھی لکھتے ہیں 
(2).مومن کا اعمالِ نامہ زعفران کے پتے کا ہوگا اور کافر کا اعمال نامہ بیری کے پتے کا ہوگا (فرشتے ہی فرشتے ص 357)
کراما کاتبین کس وقت انسان سے جدا ہوتے ہیں:-
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
اللہ تعالیٰ تمہیں بے پردگی سے منع فرماتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے ان فرشتوں کراما کاتبین سے حیا کرو جو تمہارے ساتھ رہتے ہیں ۔جو تم سے علیحدہ نہیں ہوتے مگر تین ضرورتوں کے وقت 
(1) قضائے حاجت کے وقت 
(2) جمع کے وقت  
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: تم میں سے جب کوئی اپنی بیوی کے پاس جائے تو اسے چایئے کہ پردہ کرلے اگر وہ پردہ نہیں رکھے گا تو فرشتے حیا کرتے ہیں اور نکل جاتے ہیں پھر شیطان آموجود ہوتا ہے پس اگر ان دونوں کے لئے کوئی اولاد لکھی ہے تو شیطان کا اس میں ایک حصہ شامل ہوتا ہے یعنی اثرات شیطان کا کچھ حصہ شامل ہوتا ہے۔
( کنز العمال: جلد 16 : ص 146:رقم الحدیث 44827)
(3) اور غسل کرتے وقت
کیونکہ اکثر ان اوقات میں لوگ ننگ ہوتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو ان تین اوقات کی حالت میں اپنی شرافت کی لاج رکھنا چائیے اور کراما کاتبین کا احترام کرنا چاہیے اگر ایسا نہ کرے گا تو ان فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے ۔ مذکورہ تینوں حالتوں میں انسان جتنا کوشش کرسکے اپنا ننگ ڈھاپے ۔اور ڈھاپنے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ جماع کے وقت میاں بیوی اپنے اوپر چادر یا لحاف اوڑھ کیا کریں اور غسل کے وقت کوئی پاک کپڑا باندھ لیا کریں ۔
حضرت ام المومنین ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بیت الخلاء میں داخل ہونے کا ارادہ کرتے تو اپنی چادر بچھا دیتے اور فرماتے اے محافظ فرشتو ! یہاں اس پر تشریف رکھو کیونکہ میں نے اللہ تعالیٰ سے معاہدہ کیا ہے کہ بیت الخلاء میں کوئی بات نہیں کرونگا (فرشتے ہی فرشتے ص 355.346)
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ النفس محقق دوراں مفتی اعظم بہارحضرت علامہ 
مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 
مورخہ 27 شوال المکرم 1444
مطابق 18 مئی 2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area