Type Here to Get Search Results !

کیا احکام شرح تمام مسلمانوں کے لئے یکساں ہیں یا حسب و نسب کے اعتبار سے فرق ہے؟

 (سوال نمبر 4723)
کیا احکام شرح تمام مسلمانوں کے لئے یکساں ہیں یا حسب و نسب کے اعتبار سے فرق ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس چند سوالات کے بارے میں کہ
1,احکام شرح تمام مسلمانوں کے لئے یکساں ہیں یا حسب و نسب کے اعتبار سے فرق ہے
2,زید مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور قرآن و حدیث کو نہیں مانتا تو کیا حکم ہے
3,زید مسلمان ہونے کا دعویٰ ہے اور خلفائے راشدین کے ساتھ بغض،کینہ،عداوت رکھتا ہے تو اس کے لیے کیا حکم ہے،
درجات کے بارے میں ارشاد فرمادیں
1,حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ،
2,آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ،
3,صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا درجہ،
4, صحابہ کرام میں الگ الگ کتنے درجات ہیں،
5, تابعین کے درجات،
6,تبع تابعین کے درجات،
اولیاء اللہ کے درجات،
حضور مفتی صاحب قبلہ ان تمام سوالات کے جوابات جلد عنایت فرمادیں کرم ہو گا
سائل:- اشرف بھائی مسی ویر پور ہمت نگر گجرات انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

١/ احکام شرع تمام مسلمانوں پر یکساں ہیں حسب و نسب سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
آقا علیہ السلام نے فرمایا 
قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد(ﷺ) کی جان ہے اگر ( بالفرض) فاطمہ بنت محمد (ﷺ) چوری کرتی تو میں اس کا بھی اپنے ہاتھ سےکاٹ دیتا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ۔ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ لیکن اس کے بعد اس نے بہت اچھی توبہ کرلی (سنن نسائی)
سوائے انبیاء کرام کے کہ ان کے لئے کچھ خصوصیات ہیں ۔
٢/ اگر کوئی مسلم قران و حدیث کا منکر ہے تو وہ خارج از اسلام کافر و مرتد ہے۔
٣/ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و عناد تیرا یے ایسا شخص رافضی ہے ۔
بہارشریعت میں ہے 
 اِن میں سے کسی کی شان میں گستاخی، تبرّا ہے اور اِس کا قائل رافضی،اگرچہ حضراتِ شیخین رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کی توہین کے مثل نہیں ہوسکتی کہ ان کی توہین، بلکہ ان کی خلافت سے انکار ہی فقہائے کرام کے نزدیک کفر ہے۔۔
(بہار شریعت ح ١ ص ٢٥٥ مكتبة المدينة)
کلی فضیلت باعتبار درجات خلیفہ اول پھر دوم پھر سوم پھر چہارم 
البتہ جزوی فضیلت میں ہر ایک دوسرے سے الگ ہو سکتے ہیں
 ٤/ اقا علیہ السلام کا درجہ تمام مخلوق میں افضل و اعلی ہے یعنی اللہ کے بعد مالک کل ہیں۔
٥/ جو ال نبی اصحاب بھی ہیں ان تمام میں خلفاء راشدین افضل ہیں۔ اور ال نبی میں پنجہ تن پاک ۔
٦ /تمام اصحاب میں سب سے افضل خلفاء راشدین پھر عشرہ مبشرہ ۔
٧/ تمام مخلوق میں اصحاب رسول اللہ علیہ وسلم کا درجہ ہے ہھر تابعین کا پھر تبع تابعین کا 
٨/ اولیاءُ اللہ کی اقسام
 اولیاءُ اللہ دو قسم کے ہیں
 (1) تَشْریعی ولی
 اور (2) تَکْوِیْنی ولی۔ 
(1) تَشْریعی ولی یعنی اللہ سے قُرب رکھنے والے اولیاء حضور کی اُمّت میں بے شُمار ہیں جہاں چالیس صالح مسلمان جمع ہوں وہاں ایک دو ولی ضَرور ہوتے ہیں۔ 
(2) تَکْوِیْنی ولی وہ کہ جنہیں عالَم میں تَصرُّف کا اختیار دیا گیا ہو، ان کی مخصوص جماعت ہے جیسے غوث، قُطْب، اَبْدال وغیرہ ان کی مختلف اقسام ہیں اور یہ تمام قِیامت کے ڈَر اور رَنج سے یا دنیا کے مُضِر خوف و غم سے محفوظ ہیں
(مراٰۃ المناجیح،8/517، نور العرفان ،پ11،یونس:تحت الایۃ :62 ملخصاً)
عُلَمائے کرام نے تکوینی اولیائے کرام کی مختلف اقسام و تعداد بیان کی ہے۔ حصولِ برکت کے لئے ان میں سے آٹھ کا مختصر ذِکر ملاحَظہ فرمائیے
١/ قُطْب اس سے مراد وہ عظیم انسان ہے جو زمانہ بھر میں صرف ایک ہی ہو، اسی کو غوث بھی کہتے ہیں۔ قطْب اللہ پاک کا نہایت مُقرّب اور اپنے زمانے کے تمام اولیا کا آقا ہوتا ہے۔
٢/ اَئِمّہ یہ ہر دور میں صرف دو ہوتے ہیں۔ ایک کا صفاتی نام عبدُالرّب اور دوسرے کا صفاتی نام عبدالمِلک ہوتا ہے۔ یہ دونوں قُطْب کے وزیر ہوتے ہیں اور یہی اس کے انتقال کے بعد اس کے خلیفہ ہوتے ہیں۔ 
٣/ اَوْتاد یہ ہر دَور میں صرف چار حضرات ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے اللہ پاک مشرق، مغرب، شمال اور جنوب کی حفاظت فرماتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی ولایت ایک جہت میں ہوتی ہے۔ ان کے صفاتی نام یہ ہیں عبدالحیّ، عبدالعلیم، عبدالقادر اور عبدالمرید۔
 ٤/ اَبْدال یہ سات سے کم و بیش نہیں ہوتے۔ اللہ پاک نے انہیں اَقالیمِ سبعہ کی حفاظت کی ذمّہ داری عطا فرمائی ہے۔
ہر بُدَل کی ایک اِقْلِیم ہوتی ہے جہاں اس کی وِلایت کا سِکّہ چلتا ہے
٥ / نُقَبَا ہر دور میں 12نقیب ہوتے ہیں ان میں سے ہر نقیب آسمان کے 12 بُرجوں میں سے ایک ایک بُرج کی خاصیتوں کا عالم ہوتاہے۔ شیطان اور اس کے ان پوشیدہ مُعامَلات کو بھی جانتے ہیں جن کو شیطان خود نہیں جانتا۔ اللہ پاک نے انہیں یہ شان عطا فرمائی ہے کہ کسی شخص کے زمین پر لگے پاؤں کے نشان ہی کو دیکھ کر انہیں اس کےبد بخت اور خوش بخت ہونے کا علم ہوجاتا ہے۔
 ٦ / نُجَبَا ہر دور میں آٹھ سے کم یا زیادہ نہیں ہوتے۔ ان حضرات کے احوال سے ہی قبولیت کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ حال کا ان پر غلبہ ہوتا ہے اور اس غلبہ کو صرف وہ اولیاءِ عُظّام پہچان سکتے ہیں جو مرتبہ میں ان سے اوپر ہوتے ہیں۔
 ٧ / رِجالُ الغیب یہ حضرات 10سے کم و بیش(یعنی کم اور زیادہ) نہیں ہوتے۔ ہمیشہ ان کے احوال پَر انوارِ الٰہی کا نُزول رہتا ہے لہٰذا یہ اہلِ خشوع ہوتے ہیں اور سرگوشی میں بات کرتے ہیں۔ یہ مَسْتُوْر (یعنی نظروں سے اوجھل) رہتے ہیں۔ اَہْلُ اللہ جب بھی لفظ رجالُ الغیب استعمال فرماتے ہیں تو ان کا مطلب یہی حضرات ہوتے ہیں۔ کبھی اس لفظ سے نگاہوں سے اوجھل انسان اور کبھی مومن جنّ بھی مراد لئے جاتے ہیں نیز کبھی اُن لوگوں کو بھی رجالُ الغیب کہہ دیا جاتا ہے جنہیں علم اور رزق خزانۂ غیب سے عطا ہوتا ہے۔ 
٨ / رَجَبِی یہ ہر دور میں 40 ہوتے ہیں۔ انہیں رجبی اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس مقام کا حال صرف ماہِ رجب کی پہلی تاریخ سے آخری تاریخ تک طاری ہوتا ہے۔ البتّہ! بعضوں پر اس کیفیت کا کچھ اثر پورے سال رہتا ہے۔
(جامع کرامات اولیا، 1/69تا74ملخصاً)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
16/10/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area