Type Here to Get Search Results !

کیا فرض عمل چھوڑ کر نفل قبول نہیں ہوتی؟

 (سوال نمبر 4770)
کیا فرض عمل چھوڑ کر نفل قبول نہیں ہوتی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السَّلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کوئی فرائص چھوڑ کر نوافل ادا کرے جیسے فرض نماز رمضان کا روز حج زکوٰۃ وغیرہ ادا نہ کرے مگر رجب محرم پر نفلی روزہ اور نفلی نماز اسی طرح زکات چھوڑ کر نفلی صدقہ مسجد مدرسہ میں دے وغیرہ وغیرہ کیا یہ سب نوافل اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوگی یا نہیں؟ شرعی رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ خیرا 
سائلہ:- بلقیس فاطمہ شہر بھیرہ لاہور پاکستان 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 
فرائص ادا کرنا ضروری ہے ترک فرائض گناہ کبیرہ ہے قیامت میں سخت باز پرس ہوگی ترک نوافل پر کچھ نہیں۔ اب رہی بات نوافل قبول ہوتی ہے یا نہیں تو ترک فرائض پر نوافل قبول نہیں ہوتی اجر و ثواب نہیں ملتا البتہ نوافل صحیح ہوجاتی یے جبکہ اس کے لوازم کے ساتھ ادا کی جائی صحیح ہونا اور یے اور بارگاہ ایزدی میں قبول ہونا اور اس پر اجر و ثواب ملنا اور ہے ۔
حضور پر نور سید نا غوث اعظم مولائے اکرم حضرت شیخ محی الملۃ والدین ابو محمد عبد القادر جیلانی رضی اﷲتعالی عنہ نے اپنی کتاب مستطاب فتوح الغیب شریف میں کیا کیا جگر شگاف مثالیں ایسے شخص کے لیے ارشاد فرمائی ہیں جوفرض چھوڑ کر نفل بجالائے۔ فرماتے ہیں اس کی کہاوت ایسی ہے جیسے کسی شخص کو بادشاہ اپنی خدمت کے لیے بلائے یہ وہاں تو حاضر نہ ہوا اور اس کے غلام کی خدمتگاری میں موجود رہے پھر حضرت امیرالمومنین مولی المسلمین سید نا مولی علی مرتضی کرم اﷲ تعالی وجہہ سے اس کی مثال نقل فرمائی کہ جناب ارشاد فرماتے ہیں ایسے شخص کا حال اس عورت کی طرح ہے جسے حمل رہا جب بچہ ہونے کے دن قریب آئے اسقاط ہوگیا اب وہ نہ حا ملہ ہے نہ بچہ والی۔ یعنی جب پورے دنوں پر اگر اسقاط ہو تو محنت تو پوری اٹھائی اور نتیجہ خاک نہیں کہ اگر بچہ ہوتا تو ثمرہ خود موجود تھا حمل باقی رہتا تو آگے امید لگی تھی اب نہ حمل نہ بچہ نہ امید نہ ثمرہ اور تکلیف وہی جھیلی جو بچہ والی کو ہوتی ایسے ہی اس نفل خیرات دینے والے کے پاس روپیہ تو اٹھا مگر جبکہ فرض چھوڑا یہ نفل بھی قبول نہ ہوا تو خرچ کا خرچ ہوا اور حاصل کچھ نہی۔ اسی کتاب مبارک میں حضور مولی رضی ﷲتعالی عنہ نے فرمایا ہے کہ
فان اشتغل بالسنن والنوافل قبل الفرائض لم یقبل منہ واھین۔
یعنی فرض چھوڑ کر سنت و نفل میں مشغول ہوگا یہ قبول نہ ہوں گے اور خوار کیا جائے گا۔
(فتوح الغیب مع شرح عبدالحق الدہلوی المقالۃ الثامنۃوالا ربعون منشی نولکشور لکھنؤ ص ۲۷۳)
یوں ہی شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ، نے اس کی شرح میں فرمایا کہ
ترک آنچہ لازم و ضروری ست واہتمام بآنچہ نہ ضروری است از فائدہ عقل و خرد وراست چہ دفع ضرر اہم ست برعاقل از جلب نفع بلکہ بحقیقت نفع دریں صورت منتقی است۔ 
لازم اور ضروری چیز کا ترک اور جو ضروری نہیں اس کا
اہتمام عقل وخرد میں فائدہ سے دور ہے کیونکہ عاقل کے ہاں حصول نفع سے دفع ضرر اہم ہے بلکہ اس صورت میں نفع منتفی ہے۔
(فتوح الغیب مع شرح عبدالحق الدہلوی المقالۃ الثامنۃوالا ربعون منشی نولکشور لکھنؤ ص ۲۷۳)
حضرت شیخ الشیوخ امام شہاب الملۃ والدین سہروردی قدس سرہ العزیز عوارف شریف کے باب الثامن والثلثین میں حضرت خواص رضی ﷲتعالی عنہ سے نقل فرماتے ہیں
بلغنا ان اﷲلایقبل نافلۃحتی یؤدی فریضۃ یقول اﷲتعالی مثلکم کمثل العبد السوء بداء بالھدایۃ قبل قضاء الدین۔ 
ہمیں خبر پہنچی کہ ﷲعزوجل کوئی نفل قبول نہیں فرماتا یہاں تک کہ فرض ادا کیا جائے، ﷲتعالی ایسے لوگوں سے فرماتاہے کہاوت تمھاری بد بندہ کی مانند ہے جو قرض ادا کرنے سے پہلے تحفہ پیش کرے۔
(عوارف المعارف ملحق باحیاء العلوم باب ۳۸ فی ذکر آداب الصلوۃالخ مکتبہ ومطبعہ المشہد الحسینی قاہرہ ص ۱۶۸)
خود حدیث میں ہے:
حضور پر نور سید عالم صلی اﷲتعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں
اربع فرضھن اﷲفی الا سلام فمن جاء بثلث لم یغنین عنہ شیئا حتی یاتی بھن جمیعا الصلوۃوالزکوۃ وصیام رمضان وحج البیت۔ رواہ الامام احمد فی مسندہ بسند حسن عن عمارۃ بن حزم رضی اﷲتعالی عنہ۔
چار چیزیں ﷲتعالی نے اسلام میں فرض کی ہیں جوان میں سے تین ادا کرے وہ اسے کچھ کام نہ دیں جب تک پوری چاروں نہ بجا لائے نماز ، زکوۃ، روزہ رمضان، حج کعبہ(اسے امام احمد نے اپنی مسند میں سند حسن کے ساتھ حضرت عمارہ بن حزم رضی ﷲتعالے عنہ سے روایت کیا۔)(مسند احمد بن حنبل حدیث زیاد بن نعیم دارالفکربیروت ۴ /۲۰۱)(کنزالعمال بحوالہ ھب عن عمارہ بن حزم حدیث ۳۳ موسسۃالرسالہ بیروت ۱ /۳۰)
سید نا عبداﷲبن مسعود رضی اﷲتعالی عنہ فرماتے ہیں
امرنا باقام الصلوۃ وایتاء الزکوۃ ومن لم یزک فلا صلوۃ لہ۔ ۲؎ رواہ الطبرانی فی الکبیر بسند صحیح۔
ہمیں حکم دیا گیا کہ نماز پڑھیں اور زکوۃ دیں اور جو زکوۃ نہ دے اس کی نماز قبول نہیں (اسے طبرانی نے المعجم الکبیر میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔)
(مجمع الزوائد بحوالہ المعجم الکبیر باب فرض الزکوۃ دارالکتاب العربی بیروت ۳/۶۲)
سبحان ﷲ! جب زکوۃ نہ دینے والے کی نماز، روزے،حج تک مقبول نہیں تو اس نفل خیرات نام کی کائنات سے کیا امید ہے بلکہ انہی سے اصبہانی کی روایت میں آیا کہ فرماتے ہیں:
من اقام الصلوۃ ولم یؤت الزکوۃ فلیس بمسلم ینفعہ۔
جو نماز ادا کرے اور زکوۃ نہ دے وہ مسلمان نہیں کہ اسے اس کا عمل کام آئے۔
(الترغیب والترھیب بحوالہ اصبہانی الترھیب من منع الزکوۃ مصطفی البابی مصر ۱ /۵۴۰)
الہی !مسلمان کو ہدایت فرما آمین! با لجملہ اس شخص ن
 اج تک جس قدر خیرات کی ،مسجد بنا ئی ،گاؤں وقف کیا ،یہ سب امور صحیح و لازم تو ہو گئے کہ اب نہ دی ہو ئی خیرات فقیر سے واپس کر سکتا ہے نہ کئے ہوئے وقف کو پھیر لینے کا اختیا ر رکھتا ہے نہ اس گاؤں کی توفیر ادائے زکوۃ ،خواہ اپنے اور کسی کام میں صرف کر سکتا ہے کہ وقف بعد تمامی لازم و حتمی ہو جاتا ہے جس کے ابطال کا ہر گز اختیا ر نہیں رہتا ۔
فی الدرالمختار الوقف عند ھما ھو حبسھا علی ملک اﷲتعالی فیلزم فلا یجوزلہ ابطالہ ولا یورث عنہ وعلیہ الفتوی، ملخصا۔
درمختار میں ہے کہ وقف صاحبین کے نزدیک اﷲ تعالی کی ملکیت میں چلے جانے کی وجہ سے لازم ہوجاتا ہے لہذا اس کا ابطال جائز نہیں، اور نہ ہی اس کا کوئی وارث ہوسکتا ہے، اسی پر فتویٰ ہے۔
(درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۷۷)
مگر با ایں ہمہ جب تک زکوۃ پوری پوری نہ ادا کرے ان افعال پر امید ثواب و قبول نہیں کہ کسی فعل کا صحیح ہوجانا اور بات ہے اور اس پر ثواب ملنا مقبول بارگاہ ہونا اور بات ہے، مثلااگر کوئی شخص دکھا وے کے لیے نماز پڑھے نماز صحیح تو ہوگئی فرض اتر گیا، پر نہ قبول ہوگی نہ ثواب پائے گا، بلکہ الٹا گناہگار ہوگا، یہی حال اس شخص کا ہے ۔ اے عزیز!اب شیطان لعین کہ انسان کا عدومبین ہے بالکل ہلاک کر دینے اور یہ ذرا سا ڈورا جو قصد خیرات کا لگا رہ گیا ہے جس سے فقراء کو تو نفع ہے اسے بھی کاٹ دینے کے لیے یوں فقرہ سجھائے گا کہ جو خیرات قبول نہیں تو کرنے سے کیا فائدہ، چلو اسے بھی دور کرو، اور شیطان کی پوری بندگی بجا لاؤ، مگر ﷲعزوجل کو تیری بھلائی اور عذاب شدید سے رہائی منظور ہے، وہ تیرے دل میں ڈالے گاکہ اس حکم شرعی کا جواب یہ نہ تھا جو اس دشمن ایمان نے تجھے سکھایا اور رہا سہابالکل ہی متمرد وسرکش بنایا بلکہ تجھے تو فکر کرنے تھی جس کے باعث عذاب سلطانی سےبھی نجات ملتی اور آج تک کہ یہ وقف ومسجد و خیرات بھی سب قبول ہوجا نے کی امید پڑتی، بھلا غور کرو وہ بات بہتر کہ بگڑتے ہوئے کام پھر بن جائیں، اکارت جاتی محنتیں از سر نو ثمرہ لائیں یا معاذﷲ یہ بہتر کہ رہی سہی نام کو جو صورت بندگی باقی ہے اسے بھی سلام کیجئے اور کھلے ہوئے سرکشوں، اشتہاری باغیوں میں نام لکھالیجئے، وہ نیک تدبیر یہی ہے کہ زکوۃ نہ دینے سے توبہ کیجئے ،آج تک جتنی زکوۃ گردن پر ہے فورا دل کی خوشی کے ساتھ اپنے رب کا حکم ماننے اور اسے راضی کرنے کو ادا کر دیجئے کہ شہنشاہ بے نیاز کی درگاہ میں باغی غلاموں کی فہرست سے نام کٹ کر فرماں بردار بندوں کے دفتر میں چہرہ لکھا جائے۔ مہر بان مولا جس نے جان عطا کی، اعضادئے، مال دیا، کروڑوں نعمتیں بخشیں، اس کے حضور منہ اجالا ہونے کی صورت نظر آئے اورمژدہ ہو ،بشارت ہو، نوید ہو، تہنیت ہو کہ ایسا کرتے ہی اب تک جس قدر خیرات دی ہے وقف کیا ہے، مسجد بنائی ہے، ان سب کی بھی مقبولی کی امید ہوگی کہ جس جرم کے باعث یہ قابل قبول نہ تھے جب وہ زائل ہوگیا انھیں بھی باذن اﷲتعالی شرف قبول حاصل ہوگیا۔ چارہ کار تو یہ ہے آگے ہر شخص اپنی بھلائی برائی کا اختیار رکھتا ہے، مدت دراز گزرنے کے باعث اگر زکوۃ کا تحقیقی حساب نہ معلوم ہوسکے تو عاقبت پاک کرنے کے لیے بڑی سے بڑی رقم جہاں تک خیال میں آسکے فرض کر لے کہ زیادہ جائے گا تو ضائع نہ جائے گا ،بلکہ تیرے رب مہر بان کے پاس تیری بڑی حاجت کے وقت کے لیے جمع رہے گا وہ اس کا کامل اجر جو تیرے حوصلہ و کمان سے باہر ہے عطا فرمائے گا، اور کم کیا تو بادشاہ قہار کا مطالبہ جیسا ہزار روپیہ کا ویسا ہی ایک پیسے کا۔ اگر بدیں وجہ کہ مال کثیر اور قرنوں کی زکوۃ ہے یہ رقم وافر دیتے ہوئے نفس کو درد پہنچے گا، تو اول تو یہ ہی خیال کر لیجئے کہ قصور اپنا ہے سال بہ سال دیتے رہتے تو یہ گٹھڑی کیوں بندھ جاتی، پھر خدائے کریم عزو جل، کی مہربانی دیکھئے، اس نے یہ حکم نہ دیا کہ غیروں ہی کو دیجئے بلکہ اپنوں کو دینے میں دونا ثواب رکھا ہے، ایک تصدق کا، ایک صلہ رحم کا۔ تو جو اپنے گھر سے پیارے،دل کے عزیز ہوں جیسے بھائی، بھتیجے، بھانجے، انھیں دے دیجئے کہ ان کا دینا چنداں ناگوار نہ ہوگا، بس اتنا لحاظ کر لیجئے کہ نہ وہ غنی ہو نہ غنی باپ زندہ کہ نا بالغ بچے، نہ ان سے علاقہ زوجیت یا ولادت ہو یعنی نہ وہ اپنی اولاد میں نہ آپ انکی اولاد میں۔ پھر اگر رقم ایسی ہی فراواں ہے کہ گویا ہاتھ بالکل خالی ہوا جاتا ہے تو دئے بغیر تو چھٹکارا نہیں، خدا کے وہ سخت عذاب ہزاروں برس تک جھیلنے بہت دشوار ہیں، دنیا کی یہ چند سانسیں تو جیسے بنے گزر ہی جائیں گی، تاہم اگر چہ یہ شخص اپنے ان عزیزوں کو بہ نیت زکوۃ دے کر قبضہ دلائے پھر وہ ترس کھا کر بغیر اس کے جبر و اکراہ کے اپنی خوشی سے بطور ہبہ جس قدر چاہیں واپس کردیں تو سب کے لیے سراسر فائدہ ہے، اس کے لیے یہ کہ خدا کے عذاب سے چھوٹا اﷲ تعالی کا قرض و فرض ادا ہوااور مال بھی حلال وپا کیزہ ہو کر واپس ملا، جو رہا وہ اپنے جگر پاروں کے پاس رہا، ان کے لیے یہ فائدہ ہیں کہ دنیا میں مال ملا عقبے میں اپنے عزیز مسلمان بھائی پر ترس کھانے اور اسے ہبہ کرنے اور اس کے ادائے زکوۃ میں مدد دینے سے ثواب پایا، پھر اگر ان پر پورا اطمینان ہو تو زکوۃ سالہا سال حساب لگانے کی بھی حاجت نہ رہے گی، اپنا کل مال بطور تصدق انھیں دے کر قبضہ دلادے پھر وہ جس قدر چاہیں اسے اپنی طرف سے ہبہ کردیں،کتنی ہی زکوۃ اس پر تھی سب ادا ہوگئی اور سب مطلب بر آئے اور فریقین نے ہر قسم کے دینی و دنیوی نفع پائے، مولی عزوجل اپنے کرم سے توفیق عطا فرمائے آمین آمین یا رب العالمین۔ (فتاوی رضویہ 10/30 المکتة المدینہ)
والله ورسوله أعلم بالصواب 
*كتبه محمد مجیب قادري لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال*
22/10/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area