•┈┈┈┈•••✦﷽✦•••┈┈┈┈•
کرایہ کا مکان خالی کرنے کے عوض ٢٦ لاکھ لینا کیسا ؟
کرایہ کے مکان میں وراثت جاری نہیں ہوتی۔
_________(❤️)_________
کرایہ کا مکان خالی کرنے کے عوض ٢٦ لاکھ لینا کیسا ؟
کرایہ کے مکان میں وراثت جاری نہیں ہوتی۔
_________(❤️)_________
مفتی محمد صدام حسین برکاتی فیضی۔
فتاویٰ کو پی ڈی ایف فائل میں پڑھنے کے لئے
اس لنک پر کلک کریں 👇👇
♦•••••••••••••••••••••••••♦
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
ہمارے ابا کے نام سے ایک کرائے کا مکان تھا جس کا اب بلڈر ٢٦ لاکھ دے رہا ہے مکان خالی کرنے کا اور وارث ہم چار بھائی اور دو بہنیں ہیں دونوں بہنوں کا انتقال ہوگیا ہے بڑی بہن کا انتقال ابا کی حیات میں ہوا ہے اور چھوٹی بہن کے انتقال کو دو سال ہوگئے اس رقم کو شریعت کی رو سے کیسے تقسیم کریں مزید معلوم ہو کہ مکان مالک ہم اور وہ بلڈر جو پیسہ دے رہا ہے سب سنی صحیح العقیدہ ہیں کافی دنوں سے دو بھائی اس روم کو چھوڑ کر الگ رہ رہے ہیں اس تفصیل کی روشنی میں جو کچھ حکم شرع ہو اس سے آگاہ فرمائیں۔
♦•••••••••••••••••••••••••♦
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
صورت مسئولہ میں کراۓ کے مکان پر سے قبضہ چھوڑ نے کے عوض رقم لینا جائز نہیں۔ کہ دوامی اجارہ فاسد ہے اور آپ کے والد نے طویل مدت تک کا اجارہ کیا ہو تو وہ بھی ان کے انتقال سے ختم ہوگیا اب اگر موجودہ کرایہ داروں نے پھر سے کسی متعین مدت تک کے لئے اجارہ نہیں کیا اور مکان میں رہتے رہے اور مالک مکان بھی خاموش رہا تو دونوں کے درمیان ہرمہینے کے شروع میں ایک مہینے کا اجارہ ہوتا رہا جو مہینے کے ختم ہوتے ہی ختم ہوجاتا اب مالک مکان مہینے کے اختتام پر خالی کرنے کا مطالبہ کرے تو کرایہ داروں کو اس میں رہنے کا حق نہیں لہذا کرایہ داروں پر لازم ہے کہ بلا عوض لئے مکان کو خالی کردیں عوض لینا حرام ہے۔
بہار شریعت میں ہے:
آج کل بعض لوگ دوامی اجارہ کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اجارہ موجر و مستاجر کے ورثہ میں منتقل ہوتارہے گا موت سے بھی وہ فسخ نہ ہوگا یہ اجارہ فاسد ہے " اھ (ج٣، حصہ١٤ ، ص١٧٥، اجارہ فسخ کرنے کا بیان، مکتبۃ المدینہ کراچی)
اسی میں ہے:
" جن دو شخصوں نے عقد اجارہ کیا ان میں ایک کی موت سے اجارہ فسخ ہوجاتا ہے " اھ (بہار شریعت ، ج٣، حصہ١٤ ، ص١٧٤، اجارہ فسخ کرنے کا بیان، مکتبۃ المدینہ کراچی)
اسی میں ہے:
"مالک کے مرنے کے بعد کرایہ دار مکان میں رہتا رہا تو جب تک وارث مکان خالی کرنے کے لیے نہ کہے گایادوسری اُجرت کا مطالبہ نہ کریگا اجارہ کافسخ ہونا ظاہر نہ ہوگا" اھ (بہار شریعت ج٣، حصہ١٤ ، ص١٧٥، اجارہ فسخ کرنے کا بیان، مکتبۃ المدینہ کراچی)
در مختار میں ہے:
اجر حانوتا کل شھر بکذا صح فی واحد فقط وفسد فی الباقی لجھالتھا والاصل انہ متی دخل کل فیما لا یعرف منتہاہ تعین ادناہ واذا مضی الشھر فلکل فسخھا بشرط حضور الآخر لانتھاء العقد الصحیح " اھ (الدر المختار مع رد المحتار ، ج٩، ص٦٨، ٦٩ کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ، مطبوعہ دار عالم الکتب الریاض)
کسی دوکان کو ماہانہ متعینہ اجرت پر لیا (لیکن مدت کا ذکر نہیں کیا) تو صرف ایک مہینے کے لئے اجارہ صحیح ہوا اور باقی میں فاسد ان کے مجہول ہونے کی وجہ سے اور قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی ایسی چیز شروع ہو جس کی انتہا معلوم نہ ہو تو اس کا ادنی متعین ہوجاتا ہے اور جب مہینہ پورا ہوجائے تو ہر ایک کو فسخ کرنے کا اختیار ہے اس شرط کے ساتھ کہ دوسرا حاضر ہو عقد صحیح کے منتہی ہوجانے کی وجہ سے۔
بہار شریعت میں ہے:
آج کل بعض لوگ دوامی اجارہ کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اجارہ موجر و مستاجر کے ورثہ میں منتقل ہوتارہے گا موت سے بھی وہ فسخ نہ ہوگا یہ اجارہ فاسد ہے " اھ (ج٣، حصہ١٤ ، ص١٧٥، اجارہ فسخ کرنے کا بیان، مکتبۃ المدینہ کراچی)
اسی میں ہے:
" جن دو شخصوں نے عقد اجارہ کیا ان میں ایک کی موت سے اجارہ فسخ ہوجاتا ہے " اھ (بہار شریعت ، ج٣، حصہ١٤ ، ص١٧٤، اجارہ فسخ کرنے کا بیان، مکتبۃ المدینہ کراچی)
اسی میں ہے:
"مالک کے مرنے کے بعد کرایہ دار مکان میں رہتا رہا تو جب تک وارث مکان خالی کرنے کے لیے نہ کہے گایادوسری اُجرت کا مطالبہ نہ کریگا اجارہ کافسخ ہونا ظاہر نہ ہوگا" اھ (بہار شریعت ج٣، حصہ١٤ ، ص١٧٥، اجارہ فسخ کرنے کا بیان، مکتبۃ المدینہ کراچی)
در مختار میں ہے:
اجر حانوتا کل شھر بکذا صح فی واحد فقط وفسد فی الباقی لجھالتھا والاصل انہ متی دخل کل فیما لا یعرف منتہاہ تعین ادناہ واذا مضی الشھر فلکل فسخھا بشرط حضور الآخر لانتھاء العقد الصحیح " اھ (الدر المختار مع رد المحتار ، ج٩، ص٦٨، ٦٩ کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ، مطبوعہ دار عالم الکتب الریاض)
کسی دوکان کو ماہانہ متعینہ اجرت پر لیا (لیکن مدت کا ذکر نہیں کیا) تو صرف ایک مہینے کے لئے اجارہ صحیح ہوا اور باقی میں فاسد ان کے مجہول ہونے کی وجہ سے اور قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی ایسی چیز شروع ہو جس کی انتہا معلوم نہ ہو تو اس کا ادنی متعین ہوجاتا ہے اور جب مہینہ پورا ہوجائے تو ہر ایک کو فسخ کرنے کا اختیار ہے اس شرط کے ساتھ کہ دوسرا حاضر ہو عقد صحیح کے منتہی ہوجانے کی وجہ سے۔
واللہ تعالیٰ ورسولہﷺ اعلم بالصواب۔
_________(❤️)_________
کتبہ: حضرت علامہ مولانا مفتی محمد صدام حسین برکاتی فیضی۔
١٥ ربیع الغوث ١٤٤٥ھ مطابق ٣١ اکتوبر ٢٠٢٣ء
کتبہ: حضرت علامہ مولانا مفتی محمد صدام حسین برکاتی فیضی۔
١٥ ربیع الغوث ١٤٤٥ھ مطابق ٣١ اکتوبر ٢٠٢٣ء