افضلیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قطعی اجماعی عقیدہ ہے حصّہ دوم
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : انبیاء کرام علیہم السّلام کے بعد ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) سے افضل کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ ایک روایت میں ہے کہ انبیاء و رسل علیہم السّلام کے بعد ابوبکر اور عمر سے زیادہ افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ حضرت جابر رضی ﷲ عنہ کی حدیث میں بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں فرمایا ﷲ کی قسم آپ سے افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔
(مسند عبد بن حمید حدیث 212 صفحہ 101 ابو نعیم طبرانی)
حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :
حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :
ما طلعت الشمس ولاغربت علی احدبعدالنبیین والمرسلین أفضل من أبی بکر ۔
ترجمہ : کسی بھی ایسے شخص پرآفتاب طلوع وغروب نہیں ہوا ، جو ابوبکر سے افضل ہو سوائے انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے ۔
ترجمہ : کسی بھی ایسے شخص پرآفتاب طلوع وغروب نہیں ہوا ، جو ابوبکر سے افضل ہو سوائے انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے ۔
(کنزالعمال رقم الحدیث 32619 جلد نمبر 11 صفحہ نمبر 254 دارالکتب العلمیہ بیروت)
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم رؤوف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ابوبکر خیرالناس الاان یکون نبی ۔
ترجمہ :ابوبکرسب لوگوں سے افضل ہیں سوائے نبی علیہ السلام کے ۔
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم رؤوف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ابوبکر خیرالناس الاان یکون نبی ۔
ترجمہ :ابوبکرسب لوگوں سے افضل ہیں سوائے نبی علیہ السلام کے ۔
(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی،رقم الحدیث1412جلد 06 صفحہ 484 دارالکتب العلمیہ،بیروت)
حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان روح القدس جبریل اخبرنی ان خیرأمتک بعدک أبوبکر ۔
ترجمہ : بیشک روح القدس جبریل امین علیہ السلام نے مجھے خبردی کہ آپ کے بعد آپ کی امت میں سب سے بہتر ابوبکر ہیں ۔
حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان روح القدس جبریل اخبرنی ان خیرأمتک بعدک أبوبکر ۔
ترجمہ : بیشک روح القدس جبریل امین علیہ السلام نے مجھے خبردی کہ آپ کے بعد آپ کی امت میں سب سے بہتر ابوبکر ہیں ۔
(المعجم الاوسط رقم الحدیث 6448 جلد 5 صفحہ18 دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی)
انبیائے کرام علیہم الصلاة و والسلام کے بعد لوگوں میں حضرت ابوبکر ، پھر حضرت عمر پھرحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے افضل ہونے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں : قال کنا نخیر بین الناس فی زمان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ، فنخیر ابا بکر ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان ۔
ترجمہ : ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں : ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے میں آپس میں فضیلت دیتےتھے ، تو ہم سب سے افضل ابو بکر صدیق ، پھر عمر بن خطاب ،پھر عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو فضیلت دیا کرتےتھے ۔
انبیائے کرام علیہم الصلاة و والسلام کے بعد لوگوں میں حضرت ابوبکر ، پھر حضرت عمر پھرحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے افضل ہونے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں : قال کنا نخیر بین الناس فی زمان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ، فنخیر ابا بکر ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان ۔
ترجمہ : ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں : ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے میں آپس میں فضیلت دیتےتھے ، تو ہم سب سے افضل ابو بکر صدیق ، پھر عمر بن خطاب ،پھر عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو فضیلت دیا کرتےتھے ۔
(صحیح البخاری،باب فضل ابی بکر بعدالنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ، جلد 01 ، صفحہ 516 ، مطبوعہ کراچی)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ : کنا نقول و رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حی افضل ھذہ الامة بعد نبیھا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔ ابوبکر و عمر و عثمان و فیسمع ذلک رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فلاینکرہ ۔
ترجمہ : ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں کہا کرتے تھے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعداس امت میں حضرت ابوبکر ، پھر حضرت عمر ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین افضل ہیں، پس یہ بات رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سنتے اور آپ انکار نہ فرماتے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ : کنا نقول و رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حی افضل ھذہ الامة بعد نبیھا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔ ابوبکر و عمر و عثمان و فیسمع ذلک رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فلاینکرہ ۔
ترجمہ : ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں کہا کرتے تھے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعداس امت میں حضرت ابوبکر ، پھر حضرت عمر ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین افضل ہیں، پس یہ بات رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سنتے اور آپ انکار نہ فرماتے ۔
(المعجم الکبیر،رقم الحدیث13132، جلد 12 صفحہ 221، داراحیاء التراث العربی ، بیروت،چشتی)
حضرت محمد بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کابیان ہے : قلت لابی ای الناس خیربعدالنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ؟ قال : ابوبکرقلت ثم من ؟ قال : عمر ۔
ترجمہ : میں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھاکہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل کون ہے ؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں ۔ میں نے کہا پھر کون افضل ہیں؟ تو آپ نے جواب دیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ افضل ہیں ۔
حضرت محمد بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کابیان ہے : قلت لابی ای الناس خیربعدالنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ؟ قال : ابوبکرقلت ثم من ؟ قال : عمر ۔
ترجمہ : میں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھاکہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل کون ہے ؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں ۔ میں نے کہا پھر کون افضل ہیں؟ تو آپ نے جواب دیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ افضل ہیں ۔
(صحیح البخاری،باب فضل ابی بکر جلد 01 صفحہ 518 مطبوعہ کراچی)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ : كُنَّا نُخَيِّرُ بَيْنَ النَّاسِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنُخَيِّرُ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، ثُمَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ : كُنَّا نُخَيِّرُ بَيْنَ النَّاسِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنُخَيِّرُ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، ثُمَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ۔
(صحیح البخاری،ج:5،ص:4،كِتَابٌ : فَضَائِلُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ، بَابُ فَضْلِ أَبِي بَكْرٍ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں : ہم گروہ صحابہ زمانۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ابوبکر ، پھر عمر ، پھر عثمان کے برابر کسی کو نہ گنتے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كُنَّا مَعْشَرَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ مُتَوَافِرُونَ نَقُولُ: «أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ عُثْمَانُ ثُمَّ نَسْكُتُ ۔ (مسندالحارث،ج:2،ص:888،رقم:959 مرکزخدمۃالسنۃ والسیرۃ المدینۃالمنورۃ،چشتی)
ترجمہ : ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں : ہم گروہ صحابہ زمانۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ابوبکر ، پھر عمر ، پھر عثمان کے برابر کسی کو نہ گنتے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كُنَّا مَعْشَرَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ مُتَوَافِرُونَ نَقُولُ: «أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ عُثْمَانُ ثُمَّ نَسْكُتُ ۔ (مسندالحارث،ج:2،ص:888،رقم:959 مرکزخدمۃالسنۃ والسیرۃ المدینۃالمنورۃ،چشتی)
ترجمہ : ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :
ہم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اکثر و بیشتر کہا کرتے :
افضل امت بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ابو بکر صدیق ہیں ،پھرعمر فاروق ۔
السنۃ لابی بکر بن الخلال میں ہے : قَالَ : قُلْتُ لِمَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ: أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ عِنْدَكَ أَفْضَلُ أَوْ عَلِيٌّ ؟ قَالَ : فَارْتَعَدَ حَتَّى سَقَطَتْ عَصَاهُ مِنْ يَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: «مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنِّي أَبْقَى إِلَى زَمَانٍ يَعْدِلُ بَيْنَهُمَا، إِنَّهُمَا كَانَا رَأْسَ الْإِسْلَامِ، وَرَأْسَ الْجَمَاعَةِ ۔
السنۃ لابی بکر بن الخلال میں ہے : قَالَ : قُلْتُ لِمَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ: أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ عِنْدَكَ أَفْضَلُ أَوْ عَلِيٌّ ؟ قَالَ : فَارْتَعَدَ حَتَّى سَقَطَتْ عَصَاهُ مِنْ يَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: «مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنِّي أَبْقَى إِلَى زَمَانٍ يَعْدِلُ بَيْنَهُمَا، إِنَّهُمَا كَانَا رَأْسَ الْإِسْلَامِ، وَرَأْسَ الْجَمَاعَةِ ۔
(السنۃ لابی بکر بن الخلال،ج:2،ص:379،رقم:529 دارالریۃ ریاض)
ترجمہ : حضرت میمون بن مہران سے سوال ہوا : شیخین افضل یا علی ؟ ، اس کلمہ کے سنتے ہی ان کے بدن پر لرزہ پڑا ، یہاں تک کہ عصا دست مبارک سے گر گیا ، اور فرمایا : مجھے گمان نہ تھا کہ اس زمانے تک زندہ رہوں گا ، جس میں لوگ لوگ ابو بکر و عمر کے برابر کسی کو بتائیں گے ۔
ان احادیث و روایات سے ظاہر ہوا کہ : زمانہ صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم میں تفضیلِ شیخین رضی اللہ عنہما پر اجماع تھا ، اور اور اس کے خلاف سے ان کے کان بھی آشنا نہ تھے ۔
بلکہ امام شافعی علیہ الرحمہ اکابر ائمہ نے اس عقیدہ پرصحابہ کرام وتابعین عظام رضی اللہ عنہم کا اجماع نقل کیا ہے ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ : ما اختلف أحد من الصحابة والتابعين في تفضيل أبي بكر وعمر و تقديمها على جميع الصحابة ۔
ترجمہ : حضرت میمون بن مہران سے سوال ہوا : شیخین افضل یا علی ؟ ، اس کلمہ کے سنتے ہی ان کے بدن پر لرزہ پڑا ، یہاں تک کہ عصا دست مبارک سے گر گیا ، اور فرمایا : مجھے گمان نہ تھا کہ اس زمانے تک زندہ رہوں گا ، جس میں لوگ لوگ ابو بکر و عمر کے برابر کسی کو بتائیں گے ۔
ان احادیث و روایات سے ظاہر ہوا کہ : زمانہ صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم میں تفضیلِ شیخین رضی اللہ عنہما پر اجماع تھا ، اور اور اس کے خلاف سے ان کے کان بھی آشنا نہ تھے ۔
بلکہ امام شافعی علیہ الرحمہ اکابر ائمہ نے اس عقیدہ پرصحابہ کرام وتابعین عظام رضی اللہ عنہم کا اجماع نقل کیا ہے ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ : ما اختلف أحد من الصحابة والتابعين في تفضيل أبي بكر وعمر و تقديمها على جميع الصحابة ۔
(الاعتقاد والھدایۃ الی سبیل الرشاد،ص:369،دارالافاق الجدیدۃ،بیروت،چشتی)
ترجمہ : صحابہ کرام اور تابعین میں سے کسی نے بھی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہم کے افضل ہونے اور باقی تمام صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے مقدم ہونے کے لحاظ سے اختلاف نہیں کیا ۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
ترجمہ : صحابہ کرام اور تابعین میں سے کسی نے بھی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہم کے افضل ہونے اور باقی تمام صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے مقدم ہونے کے لحاظ سے اختلاف نہیں کیا ۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
افضل النا س بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان ثم علی بن ابی طالب رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ، پھر عمر بن خطاب ، پھرعثمان بن عفان، پھرعلی بن ابی طالب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین افضل ہیں ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ، پھر عمر بن خطاب ، پھرعثمان بن عفان، پھرعلی بن ابی طالب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین افضل ہیں ۔
(شرح فقہ اکبر صفحہ نمبر 61 مطبوعہ کراچی،چشتی)
امام احمد بن محمد خطیب قسطلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتےہیں :
امام احمد بن محمد خطیب قسطلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتےہیں :
الافضل بعدالانبیاء علیھم الصلوة والسلام ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ وقداطبق السلف علی انہ افضل الامة ۔ حکی الشافعی وغیرہ اجماع الصحابة والتابعین علی ذلک ۔
ترجمہ : انبیائے کرام علیہم الصلوة والسلام کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ افضل ہیں اور سلف نے ان کے افضل الامت ہونے پر اتفاق کیا ۔ امام شافعی وغیرہ نے اس مسئلہ پر صحابہ اورتابعین کااجماع نقل کیا ۔
ترجمہ : انبیائے کرام علیہم الصلوة والسلام کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ افضل ہیں اور سلف نے ان کے افضل الامت ہونے پر اتفاق کیا ۔ امام شافعی وغیرہ نے اس مسئلہ پر صحابہ اورتابعین کااجماع نقل کیا ۔
(ارشاد الساری باب فضل ابی بکر بعدالنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ،جلد08،صفحہ147، دارالکتب العلمیہ،بیروت،چشتی)
امام ملا علی قاری حنفی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
امام ملا علی قاری حنفی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
وتفضیل أبی بکروعمررضی اللہ عنھمامتفق علیہ بین اھل السنۃ ، وھذا الترتیب بین عثمان وعلی رضی اللہ تعالی عنھما ھو ما علیہ أکثرأھل السنة .... والصحیح ما علیہ جمھور أھل السنة ۔
ترجمہ : اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا افضل ہونا اہلسنت کے درمیان متفق ہے اور یہی ترتیب (حضرت عثمان حضرت علی سے افضل ہیں) عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کےدرمیان ہے ۔ اس مؤقف کے مطابق جس پر جمہور اہلسنت ہیں اور صحیح وہی ہے ، جس پر جمہور اہلسنت ہیں۔
ترجمہ : اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا افضل ہونا اہلسنت کے درمیان متفق ہے اور یہی ترتیب (حضرت عثمان حضرت علی سے افضل ہیں) عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کےدرمیان ہے ۔ اس مؤقف کے مطابق جس پر جمہور اہلسنت ہیں اور صحیح وہی ہے ، جس پر جمہور اہلسنت ہیں۔
(شرح فقہ اکبر،صفحہ63 ،مطبوعہ کراچی)
حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر فضیلت دینے والے شخص کے بدعتی ہونے کے بارے میں خلاصۃ الفتاوی ، فتح القدیر ، بحرالرائق ، مجمع الانہر ، الاشباہ والنظائر ، ردالمحتار اور غنیۃ المستملی میں ہے : واللفظ لردالمحتار : ان کان یفضل علی اکرم اللہ تعالی وجھہ علیھما فھو مبتدع ۔
ترجمہ : اگر کوئی شخص حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کوحضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دے ، وہ بدعتی ہے ۔
حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر فضیلت دینے والے شخص کے بدعتی ہونے کے بارے میں خلاصۃ الفتاوی ، فتح القدیر ، بحرالرائق ، مجمع الانہر ، الاشباہ والنظائر ، ردالمحتار اور غنیۃ المستملی میں ہے : واللفظ لردالمحتار : ان کان یفضل علی اکرم اللہ تعالی وجھہ علیھما فھو مبتدع ۔
ترجمہ : اگر کوئی شخص حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کوحضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دے ، وہ بدعتی ہے ۔
(ردالمحتار مع درمختار جلد 6 صفحہ 363 مطبوعہ کوئٹہ،چشتی)
عامہ کتب اصول میں اس مسئلہ پر صراحتاً اجماع منقول ہے ، یا کم از کم بلا ذکرِ خلاف اسے مذہب اہل سنت قرار دیا گیا ہے ۔
امام نووی علیہ الرحمہ شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں : اتفق اهل السنة على أن افضلهم ابو بكر، ثم عمر ۔ (شرح صحیح مسلم للنووی،ج:15،ص:148،کتاب فضائل الصحابہ)
ترجمہ : اہل سنت کا اتفاق ہے کہ افضل صحابہ ابوبکر ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہم ۔
ابو منصور بغدادی علیہ الرحمہ "اصول الدین" میں فرماتے ہیں : أصحابنا مجمعون على أن أفضلهم ، الخلفاء الاربعة على الترتيب المذكور ۔ (اصول الدین لابی منصور،ص:304،چشتی)
تجمہ : ہمارے اصحاب اجماع کیے ہوئے ہیں کہ افضل صحابہ خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم ہیں ترتیبِ مذکور پر ۔
تہذیب الاسماء واللغات للنووی میں ہے : أجمع أهل السنة على أن أفضلهم على الاطلاق أبو بكر، ثم عمر ۔ (تہذیب الاسماء واللغات للنووی،ج 1،ص 28،فصل فی حقیقۃ الصحابی)
ترجمہ : اہل سنت نے اجماع کیا کہ مطلقاً سب صحابہ سے افضل ابوبکر ہیں ، پھر عمر رضی اللہ عنہم ۔
امام قسطلانی علیہ الرحمہ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں : الأفضل بعد الانبياء عليهم الصلاة والسلام أبو بكر رضي الله تعالى عنه وقد اطبق السلف على أنه أفضل الأمة. حكى الشافعي وغيره إجماع الصحابة والتابعين على ذلك
عامہ کتب اصول میں اس مسئلہ پر صراحتاً اجماع منقول ہے ، یا کم از کم بلا ذکرِ خلاف اسے مذہب اہل سنت قرار دیا گیا ہے ۔
امام نووی علیہ الرحمہ شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں : اتفق اهل السنة على أن افضلهم ابو بكر، ثم عمر ۔ (شرح صحیح مسلم للنووی،ج:15،ص:148،کتاب فضائل الصحابہ)
ترجمہ : اہل سنت کا اتفاق ہے کہ افضل صحابہ ابوبکر ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہم ۔
ابو منصور بغدادی علیہ الرحمہ "اصول الدین" میں فرماتے ہیں : أصحابنا مجمعون على أن أفضلهم ، الخلفاء الاربعة على الترتيب المذكور ۔ (اصول الدین لابی منصور،ص:304،چشتی)
تجمہ : ہمارے اصحاب اجماع کیے ہوئے ہیں کہ افضل صحابہ خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم ہیں ترتیبِ مذکور پر ۔
تہذیب الاسماء واللغات للنووی میں ہے : أجمع أهل السنة على أن أفضلهم على الاطلاق أبو بكر، ثم عمر ۔ (تہذیب الاسماء واللغات للنووی،ج 1،ص 28،فصل فی حقیقۃ الصحابی)
ترجمہ : اہل سنت نے اجماع کیا کہ مطلقاً سب صحابہ سے افضل ابوبکر ہیں ، پھر عمر رضی اللہ عنہم ۔
امام قسطلانی علیہ الرحمہ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں : الأفضل بعد الانبياء عليهم الصلاة والسلام أبو بكر رضي الله تعالى عنه وقد اطبق السلف على أنه أفضل الأمة. حكى الشافعي وغيره إجماع الصحابة والتابعين على ذلك
(ارشاد الساری،ج 6،ص 430، رقم 3655،فضل أبی بکر بعد النبی)
تجمہ : انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد افضل البشر ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اور تحقیق سلف صالح نے ان کے افضل امت ہونے پر اتفاق کیا ۔ اور امام شافعی علیہ الرحمہ وغیرہ اس امر پر اجماع صحابہ وتابعین نقل کرتے ہیں ۔
مواہب اللدنیہ میں ہے : أفضلهم عند أهل السنة إجماعا أبو بكر، ثم عمر ۔
تجمہ : انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد افضل البشر ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اور تحقیق سلف صالح نے ان کے افضل امت ہونے پر اتفاق کیا ۔ اور امام شافعی علیہ الرحمہ وغیرہ اس امر پر اجماع صحابہ وتابعین نقل کرتے ہیں ۔
مواہب اللدنیہ میں ہے : أفضلهم عند أهل السنة إجماعا أبو بكر، ثم عمر ۔
(المواہب اللدنیۃ،ج 2 ص 545 الفصل الثالث،ذکر محبۃ أصحابہ)
ترجمہ : اہل سنت کے نزدیک بالاجماع افضل الصحابہ ابو بکر ہیں ، پھر عمر رضی اللہ عنہم ۔
الصواعق المحرقہ میں ہے : أن مالكا رحمه الله سئل أي الناس أفضل بعد نبيهم ؟ فقال : ابو بكر ،ثم عمر . ثم قال : أو في ذلك شك ؟ ۔ (الصواعق المحرقۃ صفحہ 86،چشتی)
ترجمہ : امام مالک علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کے بعد سب سے افضل کون ہیں ، تو آپ نے جواب دیا کہ ابوبکر صدیق اور ان کے بعد عمر فاروق ۔ پھر ارشاد فرمایا:کیا اس بارے میں کوئی شک ہے؟
اور شرح عقائد نسفی میں ہے : أفضل البشر بعد نبينا ، أبو بكر الصديق ، ثم عمر الفاروق ۔ (شرح العقائد للنسفی،ص 321,322،مبحث أفضل البشر بعد نبینا ابو بکر،مکتبۃ المدینۃ،دعوت اسلامی)
ترجمہ : ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کے بعد افضل بشر حضرت ابوبکر صدیق،پھر عمر فاروق ہیں۔
حضرت شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں : جمہور ائمہ دریں باب اجماع نقل کنند (تکمیل الایمان،ص 104،باب فضل الصحابہ)
ترجمہ : جمہور ائمہ اس باب (افضلیت صدیق) میں اجماع نقل کرتے ہیں ۔
امام احمد رضا خان قادری ماتریدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : اہل سنت و جماعت نصرہم اللہ تعالی کا اجماع ہے کہ مرسلین ملائکۃ و رسل وانبیائے بشر صلوات اللہ تعالی و تسلیماتہ علیہم کے بعد حضرات خلفائے اربعہ رضوان اللہ تعالی علیہم تمام مخلوق ِالہٰی سے افضل ہیں ، تمام امم اولین و آخرین میں کوئی شخص ان کی بزرگی و عظمت وعزت و وجاہت و قبول و کرامت و قرب و ولایت کو نہیں پہنچتا ۔ (وَ اَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ) ، فضل اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے عطا فرمائے ، اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔ پھر ان میں باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر ، پھر فاروق اعظم ، پھر عثمان غنی ، پھر مولی علی صلی اللہ تعالی علی سیدھم ، و مولا ھم وآلہ و علیھم و بارک وسلم ۔(فتاوی رضویۃ جلد 28 صفحہ 478 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : (حضرت صدیق و عمر کی افضلیت پر) جب اجماعِ قطعی ہوا تو اس کے مفاد یعنی تفضیلِ شیخین کی قطعیت میں کیا کلام رہا ؟ ہمارا اور ہمارے مشائخِ طریقت و شریعت کا یہی مذہب ہے ۔
ترجمہ : اہل سنت کے نزدیک بالاجماع افضل الصحابہ ابو بکر ہیں ، پھر عمر رضی اللہ عنہم ۔
الصواعق المحرقہ میں ہے : أن مالكا رحمه الله سئل أي الناس أفضل بعد نبيهم ؟ فقال : ابو بكر ،ثم عمر . ثم قال : أو في ذلك شك ؟ ۔ (الصواعق المحرقۃ صفحہ 86،چشتی)
ترجمہ : امام مالک علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کے بعد سب سے افضل کون ہیں ، تو آپ نے جواب دیا کہ ابوبکر صدیق اور ان کے بعد عمر فاروق ۔ پھر ارشاد فرمایا:کیا اس بارے میں کوئی شک ہے؟
اور شرح عقائد نسفی میں ہے : أفضل البشر بعد نبينا ، أبو بكر الصديق ، ثم عمر الفاروق ۔ (شرح العقائد للنسفی،ص 321,322،مبحث أفضل البشر بعد نبینا ابو بکر،مکتبۃ المدینۃ،دعوت اسلامی)
ترجمہ : ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کے بعد افضل بشر حضرت ابوبکر صدیق،پھر عمر فاروق ہیں۔
حضرت شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں : جمہور ائمہ دریں باب اجماع نقل کنند (تکمیل الایمان،ص 104،باب فضل الصحابہ)
ترجمہ : جمہور ائمہ اس باب (افضلیت صدیق) میں اجماع نقل کرتے ہیں ۔
امام احمد رضا خان قادری ماتریدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : اہل سنت و جماعت نصرہم اللہ تعالی کا اجماع ہے کہ مرسلین ملائکۃ و رسل وانبیائے بشر صلوات اللہ تعالی و تسلیماتہ علیہم کے بعد حضرات خلفائے اربعہ رضوان اللہ تعالی علیہم تمام مخلوق ِالہٰی سے افضل ہیں ، تمام امم اولین و آخرین میں کوئی شخص ان کی بزرگی و عظمت وعزت و وجاہت و قبول و کرامت و قرب و ولایت کو نہیں پہنچتا ۔ (وَ اَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ) ، فضل اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے عطا فرمائے ، اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔ پھر ان میں باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر ، پھر فاروق اعظم ، پھر عثمان غنی ، پھر مولی علی صلی اللہ تعالی علی سیدھم ، و مولا ھم وآلہ و علیھم و بارک وسلم ۔(فتاوی رضویۃ جلد 28 صفحہ 478 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : (حضرت صدیق و عمر کی افضلیت پر) جب اجماعِ قطعی ہوا تو اس کے مفاد یعنی تفضیلِ شیخین کی قطعیت میں کیا کلام رہا ؟ ہمارا اور ہمارے مشائخِ طریقت و شریعت کا یہی مذہب ہے ۔
(مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین، ص81)
مسئلہ افضلیت باب عقائد سے ہے
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بالجملہ مسئلہ افضلیت ہرگز بابِ فضائل سے نہیں جس میں ضعاف (ضعیف حدیثیں) سُن سکیں بلکہ مواقف و شرح مواقف میں تو تصریح کی کہ بابِ عقائد سے ہے اور اس میں اٰحاد صحاح (صحیح لیکن خبرِ واحد روایتیں) بھی نامسموع ۔ (فتاویٰ رضویہ،5/581)
حضرت صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : بعد انبیا و مرسلین ، تمام مخلوقاتِ الٰہی انس و جن و مَلک سے افضل صدیق اکبر ہیں ، پھر عمر فاروقِ اعظم ، پھر عثمان غنی ، پھر مولیٰ علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہم ۔
مسئلہ افضلیت باب عقائد سے ہے
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بالجملہ مسئلہ افضلیت ہرگز بابِ فضائل سے نہیں جس میں ضعاف (ضعیف حدیثیں) سُن سکیں بلکہ مواقف و شرح مواقف میں تو تصریح کی کہ بابِ عقائد سے ہے اور اس میں اٰحاد صحاح (صحیح لیکن خبرِ واحد روایتیں) بھی نامسموع ۔ (فتاویٰ رضویہ،5/581)
حضرت صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : بعد انبیا و مرسلین ، تمام مخلوقاتِ الٰہی انس و جن و مَلک سے افضل صدیق اکبر ہیں ، پھر عمر فاروقِ اعظم ، پھر عثمان غنی ، پھر مولیٰ علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہم ۔
(بہار شریعت جلد 1 صفحہ 241 امامت کا بیان مکتبۃ المدینہ)
افضلیت حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شیعہ کتب کی روشنی میں
شیعہ حضرات کی کتب سے شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہما سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے اور حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے فرمایا ۔ اصل عبارت درج کی جاتی ہے ۔ شیعوں کا محققِ اعظم لکھتا ہے : انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفۃ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ،،،، وحب ابی بکر و عمر ایمان و بغضہما کفر ۔ ترجمہ : انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ،،،،،،، حضرت ابو بکر عمر (رضی اللہ عنہما) کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 283 مطبوعہ بیروت لبنان،چشتی)
حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ۔ ابوبکر کو سب لوگوں سے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نماز کے ساتھی اور ثانی اثنین ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات ظاہری میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا ۔
افضلیت حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شیعہ کتب کی روشنی میں
شیعہ حضرات کی کتب سے شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہما سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے اور حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے فرمایا ۔ اصل عبارت درج کی جاتی ہے ۔ شیعوں کا محققِ اعظم لکھتا ہے : انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفۃ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ،،،، وحب ابی بکر و عمر ایمان و بغضہما کفر ۔ ترجمہ : انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ،،،،،،، حضرت ابو بکر عمر (رضی اللہ عنہما) کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 283 مطبوعہ بیروت لبنان،چشتی)
حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ۔ ابوبکر کو سب لوگوں سے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نماز کے ساتھی اور ثانی اثنین ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات ظاہری میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا ۔
(شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید شیعی، جلد اول، ص 332)
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ۔ ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر یعنی اس امت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر ہیں ۔ (کتاب الشافی، جلد دوم، ص 428)
حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر و عمر کے بارے میں فرمایا ۔ انہما اماما الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول ﷲ ومن اقتدی بہما عصم یعنی یہ حضرت ابوبکر و عمر دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مقتدیٰ ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ برائی سے بچ گیا ۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ۔ ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر یعنی اس امت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر ہیں ۔ (کتاب الشافی، جلد دوم، ص 428)
حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر و عمر کے بارے میں فرمایا ۔ انہما اماما الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول ﷲ ومن اقتدی بہما عصم یعنی یہ حضرت ابوبکر و عمر دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مقتدیٰ ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ برائی سے بچ گیا ۔
(تلخیص الشافی للطوسی، جلد 2،ص 428،چشتی)
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ ان ابابکر منی بمنزلۃ السمع وان عمر منی بمنزلۃ البصر یعنی بے شک ابوبکر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میرے کان اور عمر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میری آنکھ ۔
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ ان ابابکر منی بمنزلۃ السمع وان عمر منی بمنزلۃ البصر یعنی بے شک ابوبکر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میرے کان اور عمر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میری آنکھ ۔
(عیون اخبار الرضا لابن بابویہ قمی، جلد اول، ص 313، معانی الاخبار قمی، ص 110، تفسیر حسن عسکری)
حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا ۔ لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری یعنی اگر ایسا شخص میرے پاس لایا گیاتو جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتا ہوگا تو میں اس پر مفتری کی حد جاری کروں گا ۔
حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا ۔ لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری یعنی اگر ایسا شخص میرے پاس لایا گیاتو جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتا ہوگا تو میں اس پر مفتری کی حد جاری کروں گا ۔
(رجال کشی ترجمہ رقم 257)(معجم الخونی ص 153)
ان تمام تصریحات سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی افضلیت پر صحابہ کرام ، تابعین عظام رضی اللہ عنہم اور اکابر علما علیہم الرحمہ کا اجماع ہے ۔ اب اس اجماعی عقیدہ کا جو انکار کرے وہ ضرور گمراہ و بد مذہب ہوگا ، بلکہ قریب ہے کہ اس کے ایمان میں خطرہ ہو ۔ شرح قصیدہ بدء الامالی میں ہے :
ان تمام تصریحات سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی افضلیت پر صحابہ کرام ، تابعین عظام رضی اللہ عنہم اور اکابر علما علیہم الرحمہ کا اجماع ہے ۔ اب اس اجماعی عقیدہ کا جو انکار کرے وہ ضرور گمراہ و بد مذہب ہوگا ، بلکہ قریب ہے کہ اس کے ایمان میں خطرہ ہو ۔ شرح قصیدہ بدء الامالی میں ہے :
من أنکر یوشک أن فی ایمانہ خطرا ۔
(شرح بدء الامالی، تحت شعر:34،چشتی)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم بھی افضلیت شیخین کو تسلیم کرتے ہیں مگر یہ جمہور کا عقیدہ ہے کہ جمائی عقیدہ نہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا عقیدہ تھا کہ سیدہ النساء فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا سب سے افضل ہیں (طبرانی اوسط) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا عقیدہ تھا کہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ سب سے افضل ہیں (ترمزی) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا عقیدہ تھا کہ اہل مدینہ میں سب سے افضل سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں (فضائل الصحابہ) بعض علماء کا خیال ہے کہ حضرت عمر فاروق سب سے افضل ہے اور بعض کا خیال ہے کہ حضرت علی افضل ہیں اور بعض کا خیال ہے کہ حضرت عباس افضل ہیں۔معلوم ہوا کہ یہ تمام عقائد درست ہے کسی ایک کو اختیار کرلینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا جب مختلف صحابہ کے بارے میں افضلیت کے اقوال موجود ہیں تو آپ لوگ صرف مولا علی کا نام آتے کیوں سیخ پا ہو جاتے ہیں ۔
جواب : ان لوگوں نے جتنے بزرگوں کے اقوال پیش کیے ہیں آپ نے ان کے تمام اقوال کو مد نظر نہیں رکھا اور ان کا صحیح مفہوم سمجھنے اخلاص اور تحقیق سے کام نہیں لیا ۔
1 ان کا پہلا قول ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا پیش کیا ہے کہ وہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا افضل سمجھتی تھیں پوری صورتحال اس طرح ہے کہ یہی ام المومنین رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے گھر میں تین چاند اترے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعبیر یہ فرمائیں کہ تمہارے گھر میں تین افراد دفن ہوں گے جو روئے زمین کے تمام لوگوں سے افضل ہوں گے ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم بھی افضلیت شیخین کو تسلیم کرتے ہیں مگر یہ جمہور کا عقیدہ ہے کہ جمائی عقیدہ نہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا عقیدہ تھا کہ سیدہ النساء فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا سب سے افضل ہیں (طبرانی اوسط) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا عقیدہ تھا کہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ سب سے افضل ہیں (ترمزی) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا عقیدہ تھا کہ اہل مدینہ میں سب سے افضل سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں (فضائل الصحابہ) بعض علماء کا خیال ہے کہ حضرت عمر فاروق سب سے افضل ہے اور بعض کا خیال ہے کہ حضرت علی افضل ہیں اور بعض کا خیال ہے کہ حضرت عباس افضل ہیں۔معلوم ہوا کہ یہ تمام عقائد درست ہے کسی ایک کو اختیار کرلینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا جب مختلف صحابہ کے بارے میں افضلیت کے اقوال موجود ہیں تو آپ لوگ صرف مولا علی کا نام آتے کیوں سیخ پا ہو جاتے ہیں ۔
جواب : ان لوگوں نے جتنے بزرگوں کے اقوال پیش کیے ہیں آپ نے ان کے تمام اقوال کو مد نظر نہیں رکھا اور ان کا صحیح مفہوم سمجھنے اخلاص اور تحقیق سے کام نہیں لیا ۔
1 ان کا پہلا قول ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا پیش کیا ہے کہ وہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا افضل سمجھتی تھیں پوری صورتحال اس طرح ہے کہ یہی ام المومنین رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے گھر میں تین چاند اترے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعبیر یہ فرمائیں کہ تمہارے گھر میں تین افراد دفن ہوں گے جو روئے زمین کے تمام لوگوں سے افضل ہوں گے ۔
(الحدیث مستدرک الحاکم 4400 موطا امام مالک صفحہ 162)
حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے اس کی تصدیق کی ہے یہی ام المومنین روایت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی قوم کو زیب نہیں دیتا کہ ابوبکر کی موجودگی میں کوئی دوسرا نماز پڑھائے ۔ (ترمذی 3673)
یہی ام المومنین روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اور اس کے فرشتے ابوبکر کے علاوہ ہر کسی کا انکار کر رہے ہیں ۔ (مسلم 6181)
اب بات سمجھنا بالکل آسان ہوگیا کہ ام المؤمنین نے سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کو بضع رسول اللہ ہونے کے حوالے سے جزوی فضیلت کا قول کیا ہے ۔
2 دوسرا قول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا پیش کیا ہے کہ وہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ کو افضل سمجھتے تھے یہ بھی آپ نے پوری صورتحال کو نظر انداز کیا ہے یہی ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ مرفوعاً روایت فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر امت میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے ۔
حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے اس کی تصدیق کی ہے یہی ام المومنین روایت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی قوم کو زیب نہیں دیتا کہ ابوبکر کی موجودگی میں کوئی دوسرا نماز پڑھائے ۔ (ترمذی 3673)
یہی ام المومنین روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اور اس کے فرشتے ابوبکر کے علاوہ ہر کسی کا انکار کر رہے ہیں ۔ (مسلم 6181)
اب بات سمجھنا بالکل آسان ہوگیا کہ ام المؤمنین نے سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کو بضع رسول اللہ ہونے کے حوالے سے جزوی فضیلت کا قول کیا ہے ۔
2 دوسرا قول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا پیش کیا ہے کہ وہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ کو افضل سمجھتے تھے یہ بھی آپ نے پوری صورتحال کو نظر انداز کیا ہے یہی ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ مرفوعاً روایت فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر امت میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے ۔
(سنن ابو داود 4652)(مستدرک الاحاکم 4500)
یہی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ابوبکر کو جنت کے آٹھوں دروازوں سے آواز دی جائے گی ۔ (بخاری 1897 مسلم2371)
یہی ابو ہریرہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے ہر کسی کے احسانوں کا بدلہ دے دیا ہے سوائے ابوبکر کے اس کے مجھ پر ایسے احسانات ہیں کہ ان کا بدلہ قیامت کے دن اللہ تعالی دے گا مجھے ابوبکر کے مال نے اتنا فائدہ دیا ہے کہ کسی دوسرے کے مال میں اتنا فائدہ نہیں دیا اگر میں کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکرکو بناتا ۔ (ترمذی 3661 ابن ماجہ 94)
آپ نے جو حدیث پیش کی ہے وہ مسند امام احمد بن حنبل میں ہے یہ حدیث اس طرح موجود ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت جعفر طیار کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جود و کرم میں سب سے افضل سمجھتے تھے ۔ (مسند احمد)
واضح ہوگیا کہ اس حدیث میں حضرت جعفر طیار کی مسکین پروری کے حوالے سے جزوی فضیلت مذکور ہے چناچہ بخاری شریف میں بھی اس کی وضاحت موجود ہے یہی حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ :
اخیر الناس للمسکین جعفر بن ابی طالب ۔ (بخاری3708)
امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ترمذی کی حدیث کا اطلاق بخاری کی اس حدیث کے ساتھ مقید ہے ۔ (فتح الباری جلد 7 صفحہ 76)
اسی سخاوت کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ کو ابو المساکین کا لقب دیا تھا ۔ (ترمذی 3766)(فتح الباری جلد 7 صفحہ 76)
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ساتھ ہجری محرم میں مسلمان ہوئے تھے اور حضرت جعفر طیار آٹھ جمادی الاولیٰ جنگ موتہ میں شہید ہو گئے تھے آپ خود سوچ لیجیے کہ اتنے قلیل عرصے میں حضرت ابوہریرہ اتنا بڑا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں ؟
3 تیسرا قول حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا پیش کیا ہے کہ ہم کہا کرتے تھے کہ اہل مدینہ میں سب سے افضل حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اور اس حدیث کو اپ نے حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے متعارض قرار دیا ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ورسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم حی کہ الفاظ موجود ہیں۔
اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ والی اس حدیث میں یہ الفاظ موجود نہیں ۔
تطبیق بالکل آسان ہے ۔
وہ اس طرح ہے کے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ اس زمانے میں بولے ہیں جب شیخ اس دنیا سے جا چکے تھے علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وَهُوَ مَحْمُول على ان ذَلِك قَالَه بن مَسْعُود بعد قتل عمر ۔
یہی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ابوبکر کو جنت کے آٹھوں دروازوں سے آواز دی جائے گی ۔ (بخاری 1897 مسلم2371)
یہی ابو ہریرہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے ہر کسی کے احسانوں کا بدلہ دے دیا ہے سوائے ابوبکر کے اس کے مجھ پر ایسے احسانات ہیں کہ ان کا بدلہ قیامت کے دن اللہ تعالی دے گا مجھے ابوبکر کے مال نے اتنا فائدہ دیا ہے کہ کسی دوسرے کے مال میں اتنا فائدہ نہیں دیا اگر میں کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکرکو بناتا ۔ (ترمذی 3661 ابن ماجہ 94)
آپ نے جو حدیث پیش کی ہے وہ مسند امام احمد بن حنبل میں ہے یہ حدیث اس طرح موجود ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت جعفر طیار کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جود و کرم میں سب سے افضل سمجھتے تھے ۔ (مسند احمد)
واضح ہوگیا کہ اس حدیث میں حضرت جعفر طیار کی مسکین پروری کے حوالے سے جزوی فضیلت مذکور ہے چناچہ بخاری شریف میں بھی اس کی وضاحت موجود ہے یہی حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ :
اخیر الناس للمسکین جعفر بن ابی طالب ۔ (بخاری3708)
امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ترمذی کی حدیث کا اطلاق بخاری کی اس حدیث کے ساتھ مقید ہے ۔ (فتح الباری جلد 7 صفحہ 76)
اسی سخاوت کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ کو ابو المساکین کا لقب دیا تھا ۔ (ترمذی 3766)(فتح الباری جلد 7 صفحہ 76)
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ساتھ ہجری محرم میں مسلمان ہوئے تھے اور حضرت جعفر طیار آٹھ جمادی الاولیٰ جنگ موتہ میں شہید ہو گئے تھے آپ خود سوچ لیجیے کہ اتنے قلیل عرصے میں حضرت ابوہریرہ اتنا بڑا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں ؟
3 تیسرا قول حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا پیش کیا ہے کہ ہم کہا کرتے تھے کہ اہل مدینہ میں سب سے افضل حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اور اس حدیث کو اپ نے حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے متعارض قرار دیا ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ورسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم حی کہ الفاظ موجود ہیں۔
اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ والی اس حدیث میں یہ الفاظ موجود نہیں ۔
تطبیق بالکل آسان ہے ۔
وہ اس طرح ہے کے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ اس زمانے میں بولے ہیں جب شیخ اس دنیا سے جا چکے تھے علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وَهُوَ مَحْمُول على ان ذَلِك قَالَه بن مَسْعُود بعد قتل عمر ۔
(فتح الباری ابن حجر جلد : 7 صفحه 58)
علماء نے یہ قاعدہ بیان فرمایا ہے کہ :
علماء نے یہ قاعدہ بیان فرمایا ہے کہ :
لا يجوز للعامى أن يأخذ بظاهر الحديث لجواز أن يكون منسوخا أو ماولا أو مصروفا عن ظاهره ۔
یعنی عام آدمی کےلیے جائز نہیں کہ حدیث کے ظاہری الفاظ سے خود استدلال کرتا پھرے اس لیے کہ ہو سکتا ہے وہ حدیث منسوخ ہو یا ماوّل ہو یا اپنے ظاہر پر محمول نہ ہو ۔ عام آدمی سے مراد غیر مجتہد ہے ویسے خوا کتنا بڑا علم کیوں نہ ہو ائمہ نے نصوص میں تنسیخ ترجیح اور تطبیق کے بعد حتمی فیصلے دیے ہیں ۔ ان کی مخالفت کرنا چٹان سے ٹکرانے کے مترادف ہے ۔
چوتھی بات یہ لکھی ہے کہ بعض لوگ حضرت عمر حضرت علی کو اور بعض حضرت عباس کو افضل کہتے ہیں ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جن لوگوں نے ایسی باتیں کہی ہیں اہل سنت نے انہیں اہل سنت سے خارج قرار دیا ہے جس فرقے نے سیدنا عمر فاروق کو افضل کہا ہے اس کا نام خطابیہ ہے جس سے فرقے نے حضرت علی کو افضل کہا ہے اس کا نام شیعہ ہے جس فرقے نے حضرت عباس کو افضل کہا ہے اس کا نام راوندیہ ہے ۔
یعنی عام آدمی کےلیے جائز نہیں کہ حدیث کے ظاہری الفاظ سے خود استدلال کرتا پھرے اس لیے کہ ہو سکتا ہے وہ حدیث منسوخ ہو یا ماوّل ہو یا اپنے ظاہر پر محمول نہ ہو ۔ عام آدمی سے مراد غیر مجتہد ہے ویسے خوا کتنا بڑا علم کیوں نہ ہو ائمہ نے نصوص میں تنسیخ ترجیح اور تطبیق کے بعد حتمی فیصلے دیے ہیں ۔ ان کی مخالفت کرنا چٹان سے ٹکرانے کے مترادف ہے ۔
چوتھی بات یہ لکھی ہے کہ بعض لوگ حضرت عمر حضرت علی کو اور بعض حضرت عباس کو افضل کہتے ہیں ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جن لوگوں نے ایسی باتیں کہی ہیں اہل سنت نے انہیں اہل سنت سے خارج قرار دیا ہے جس فرقے نے سیدنا عمر فاروق کو افضل کہا ہے اس کا نام خطابیہ ہے جس سے فرقے نے حضرت علی کو افضل کہا ہے اس کا نام شیعہ ہے جس فرقے نے حضرت عباس کو افضل کہا ہے اس کا نام راوندیہ ہے ۔
(الفتح المغیث 3/129 تدریب الراوی 2/194)
یہاں سے یہ تصور بھی ختم ہو گیا کہ سنی صرف مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا نام آتے ہی سیخ پا ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے علماء نے اہلسنت کی علامت افضلیت شیخین کو قرار دیا ہے ان الفاظ پر غور فرمائیے تو واضح ہو گا کہ شیخین کے علاوہ کسی صحابی کو افضل ماننا سنیت سے خروج ہے ۔ مولا علی رضی اللہ عنہ کی افضلیت کے قائلین کا نسبتاً زیادہ نوٹس اس لیے لیا جاتا ہے کہ باقی فرقے معدوم ہو چکے ہیں اور یہ فرقہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ باقی کسی فرقے سے روافض کی تائید نہیں ہوتی جبکہ یہ فرقہ روافض کا دست راست بنا ہوا ہے ۔
امام اہل سنت امام احمدرضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں : اہل سنت و جماعت نصر ہم اللہ تعالی کا اجماع ہے کہ مرسلین ملائکہ ، ورسل ، و انبیائے بشر صلوات اللہ تعالی وتسلیماتہ علیہم کے بعد حضرات خلفائے اربعہ رضوان تعالی علیہم تمام مخلوق الہٰی سے افضل ہیں ۔ پھر ان میں باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر ، پھر فاروق اعظم ، پھر عثمان غنی ، پھر مولیٰ علی صلی اللہ تعالی علی سید ہم ومولا ہم وآلہ وعلیہم وبارک وسلم ۔ اس مذہب مہذب پر آیات قرآن عظیم و احادیث کثیرہ حضور پرنور نبی کریم علیہ وعلی آلہ و صحبہ الصلوۃ والتسلیم و ارشادات جلیہ واضحہ امیر المؤمنین مولی علی مرتضی ودیگر ائمۂ اہل بیت طہارت و ارتضاواجماع صحاب کرام وتابعین عظام وتصریحات اولیائے امت وعلمائے امت رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین سے وہ دلائل باہرہ وحجج قاہرہ ہیں ، جن کا استیعاب نہیں ہوسکتا ۔
یہاں سے یہ تصور بھی ختم ہو گیا کہ سنی صرف مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا نام آتے ہی سیخ پا ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے علماء نے اہلسنت کی علامت افضلیت شیخین کو قرار دیا ہے ان الفاظ پر غور فرمائیے تو واضح ہو گا کہ شیخین کے علاوہ کسی صحابی کو افضل ماننا سنیت سے خروج ہے ۔ مولا علی رضی اللہ عنہ کی افضلیت کے قائلین کا نسبتاً زیادہ نوٹس اس لیے لیا جاتا ہے کہ باقی فرقے معدوم ہو چکے ہیں اور یہ فرقہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ باقی کسی فرقے سے روافض کی تائید نہیں ہوتی جبکہ یہ فرقہ روافض کا دست راست بنا ہوا ہے ۔
امام اہل سنت امام احمدرضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں : اہل سنت و جماعت نصر ہم اللہ تعالی کا اجماع ہے کہ مرسلین ملائکہ ، ورسل ، و انبیائے بشر صلوات اللہ تعالی وتسلیماتہ علیہم کے بعد حضرات خلفائے اربعہ رضوان تعالی علیہم تمام مخلوق الہٰی سے افضل ہیں ۔ پھر ان میں باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر ، پھر فاروق اعظم ، پھر عثمان غنی ، پھر مولیٰ علی صلی اللہ تعالی علی سید ہم ومولا ہم وآلہ وعلیہم وبارک وسلم ۔ اس مذہب مہذب پر آیات قرآن عظیم و احادیث کثیرہ حضور پرنور نبی کریم علیہ وعلی آلہ و صحبہ الصلوۃ والتسلیم و ارشادات جلیہ واضحہ امیر المؤمنین مولی علی مرتضی ودیگر ائمۂ اہل بیت طہارت و ارتضاواجماع صحاب کرام وتابعین عظام وتصریحات اولیائے امت وعلمائے امت رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین سے وہ دلائل باہرہ وحجج قاہرہ ہیں ، جن کا استیعاب نہیں ہوسکتا ۔
(فتاوی رضویہ جلد 28 صفحہ 478 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
ان دلائل باہرہ میں سے ایک قرآنی دلیل ہدیہ قارئین ہے ۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ ۔ الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰىۚ ۔ وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ ۔ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰىۚ ۔ وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى۠ ۔
ترجمہ : اورعن قریب سب سے بڑے پرہیزگار کو اس آگ سے دور رکھا جائے گا ۔ جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ اسے پاکیزگی ملے ۔ اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جانا ہو ۔ صرف اپنے سب سے بلند شان والے رب کی رضا تلاش کرنے کے لیے ۔ اور بےشک قریب ہے کہ وہ خوش ہوجائے گا ۔
ان آیات مقدسہ میں غور کریں ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس ذات کو ”اتقی” فرمایا ، اس کے چار اوصاف ذکر فرمائے ۔
پہلا وصف یہ کہ : وہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر اپنا مال لٹاتا ہے ۔
دوسرا وصف یہ بیان فرمایا کہ : اس پرکسی کا ایسا احسان نہیں ، جس کا بدلہ دیا جائے ۔
تیسری صفت یہ بیان ہوئی کہ : اسے اس سے صرف رضائے الہی مطلوب ہے ۔
چوتھی صفت یہ بیان ہوئی کہ : اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ خوش خبری سنائی اسے رب کی رضا حاصل ہوگی ۔
یہ سارے اوصاف جس ذات پر صادق آتے ہیں ، باجماع مفسرین وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر رازی میں فرماتے ہیں : أجمع المفسرون منا على أن المراد منه ابوبكر رضي الله عنه ۔
ترجمہ : اہل سنت کے مفسرین کا اجماع ہے کہ ”اتقی” سے مراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔ (التفسیر الکبیر،ج:31،ص:205 دارالفکر بیروت)
تفسیر معالم التنزیل میں ہے : الاتقى يعنى ابابكر الصديق في قول الجميع ۔
ترجمہ : اتقی سے بالاتفاق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ مراد ہیں ۔
ان دلائل باہرہ میں سے ایک قرآنی دلیل ہدیہ قارئین ہے ۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ ۔ الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰىۚ ۔ وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ ۔ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰىۚ ۔ وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى۠ ۔
ترجمہ : اورعن قریب سب سے بڑے پرہیزگار کو اس آگ سے دور رکھا جائے گا ۔ جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ اسے پاکیزگی ملے ۔ اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جانا ہو ۔ صرف اپنے سب سے بلند شان والے رب کی رضا تلاش کرنے کے لیے ۔ اور بےشک قریب ہے کہ وہ خوش ہوجائے گا ۔
ان آیات مقدسہ میں غور کریں ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس ذات کو ”اتقی” فرمایا ، اس کے چار اوصاف ذکر فرمائے ۔
پہلا وصف یہ کہ : وہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر اپنا مال لٹاتا ہے ۔
دوسرا وصف یہ بیان فرمایا کہ : اس پرکسی کا ایسا احسان نہیں ، جس کا بدلہ دیا جائے ۔
تیسری صفت یہ بیان ہوئی کہ : اسے اس سے صرف رضائے الہی مطلوب ہے ۔
چوتھی صفت یہ بیان ہوئی کہ : اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ خوش خبری سنائی اسے رب کی رضا حاصل ہوگی ۔
یہ سارے اوصاف جس ذات پر صادق آتے ہیں ، باجماع مفسرین وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر رازی میں فرماتے ہیں : أجمع المفسرون منا على أن المراد منه ابوبكر رضي الله عنه ۔
ترجمہ : اہل سنت کے مفسرین کا اجماع ہے کہ ”اتقی” سے مراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔ (التفسیر الکبیر،ج:31،ص:205 دارالفکر بیروت)
تفسیر معالم التنزیل میں ہے : الاتقى يعنى ابابكر الصديق في قول الجميع ۔
ترجمہ : اتقی سے بالاتفاق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ مراد ہیں ۔
(تفسیر معالم التنزیل،ج:8،ص:70،دار طیبہ ریاض)
الصواعق المحرقہ میں امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے ہے :
الصواعق المحرقہ میں امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے ہے :
قال ابن الجوزي : أجمعوا أنها نزلت في أبي بكر،ففيها التصريح بأنه أتقى من سائر الأمة ۔
امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اہل سنت کا اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ اور اس میں صراحت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق امت میں سب سے اتقی ہیں ۔
امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اہل سنت کا اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ اور اس میں صراحت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق امت میں سب سے اتقی ہیں ۔
(الصواعق المحرقہ،ص:98،الباب الثالث،الفصل الثانی فی ذکر فضائل أبی بکر،مکتبہ فیاض)
ان تفسیرات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ اہل سنت کا اجماع ہے کہ ”اتقی” سے مراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔
اللہ تعالی نے سورہ حجرات میں ارشاد فرمایا : اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ ۔
ترجمہ : بےشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے ، جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے ۔ بے شک اللہ جاننے والا خبردار ہے ۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ”اکرم” یعنی سب سے زیادہ عزت والا،سب سے زیادہ فضیلت والا وہ ہے جو ”اتقی” ہے ۔ اور ”اتقی” سے بالاتفاق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ مراد ہیں ۔ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ۔
لہٰذا پتا چلا کہ اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ فضیلت والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہی ہیں ۔
شرح المواقف للجرجانی میں ہے : أفضل الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم هو عندنا و اكثر قدماء المعتزله، ابو بكر رضي الله تعالى عنه ۔ لنا وجوه: الاول،قوله تعالى: سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ ۔ الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰىۚ ۔ قال اكثر المفسرين وقد اعتمد عليه العلماء،أنها نزلت في أبي بكر فهو “اتقى”، و من هو “اتقى” فهو “اكرم” عند الله ؛ لقوله تعالى : اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ ۔ وهو أي : الاكرم عند الله هو الأفضل.فأبوبكر أفضل ممن عداه من الأمة ۔
ان تفسیرات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ اہل سنت کا اجماع ہے کہ ”اتقی” سے مراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔
اللہ تعالی نے سورہ حجرات میں ارشاد فرمایا : اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ ۔
ترجمہ : بےشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے ، جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے ۔ بے شک اللہ جاننے والا خبردار ہے ۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ”اکرم” یعنی سب سے زیادہ عزت والا،سب سے زیادہ فضیلت والا وہ ہے جو ”اتقی” ہے ۔ اور ”اتقی” سے بالاتفاق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ مراد ہیں ۔ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ۔
لہٰذا پتا چلا کہ اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ فضیلت والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہی ہیں ۔
شرح المواقف للجرجانی میں ہے : أفضل الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم هو عندنا و اكثر قدماء المعتزله، ابو بكر رضي الله تعالى عنه ۔ لنا وجوه: الاول،قوله تعالى: سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ ۔ الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰىۚ ۔ قال اكثر المفسرين وقد اعتمد عليه العلماء،أنها نزلت في أبي بكر فهو “اتقى”، و من هو “اتقى” فهو “اكرم” عند الله ؛ لقوله تعالى : اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ ۔ وهو أي : الاكرم عند الله هو الأفضل.فأبوبكر أفضل ممن عداه من الأمة ۔
(شرح المواقف للجرجانی،ج:8، ص:397 دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی)
ترجمہ : ہمارے اور اکثر معتزلہ کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعد افضل الناس ابوبکر صدیق ہیں ۔ اس کی کئی دلیلیں ہیں۔ان میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ قرآن کریم میں ہے : سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ ۔ الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰىۚ ۔ اکثر مفسرین نے کہا اور علماء نے اسی پر اعتماد کیا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق کے بارے میں اتری ہے ۔ تو ابوبکر صدیق “اتقی” ہوئے اور جو “اتقی” ہے ، وہ اکرم ہے ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے : اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ ۔ اور جو اللہ کے نزدیک اکرم ہے ، وہی افضل ہے ۔ لہٰذا ابو بکر افضل امت ہوئے ۔
امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وہ صدیق جس کی افضلیت مطلقہ پر قرآنِ کریم کی شہادت ناطقہ ہے کہ فرمایا : اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ ۔ تم میں سب سے زیادہ عزت والا ﷲ کے حضور وہ ہے، جو تم سب میں “اتقی” ہے ۔ اور دوسری آیت کریمہ میں صاف فرمادیا : سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ ۔ قریب ہے کہ جہنم سے بچایا جائے گا وہ اتقٰی ۔ بہ شہادت آیت اُولی ان آیات کریمہ سے وہی مراد ہے ، جو افضل و اکرم امتِ مرحومہ ہے ، اور وہ نہیں، مگر اہل سنت کے نزدیک صدیق اکبر ۔ اور تفضیلیہ و روافض کے نزدیک یہاں امیر المومنین مولٰی علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔
مگر ﷲ عزوجل کے لیے حمد کہ اس نے کسی کی تلبیس و تدلیس اور حق و باطل میں آمیزش و آویزش کو جگہ نہ چھوڑی ، آیت کریمہ نے ایسے وصفِ خاص سے “اتقٰی” کی تعیین فرمادی ، جو حضرت صدیق اکبر کے سوا کسی پر صادق آہی نہیں سکتا ۔ فرماتا ہے : وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ ۔ اس پر کسی کا ایسا احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے ۔ اور دنیا جانتی مانتی ہے کہ وہ صرف صدیقِ اکبر ہی ہیں ، جن کی طرف سے ہمیشہ بندگی و غلامی و خدمت و نیاز مندی اور مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف سے براہِ بندہ نوازی قبول و پذیرائی کا برتاؤ رہا۔یہاں تک کہ خودارشاد فرمایا کہ : بے شک تمام آدمیوں میں اپنی جان و مال سے کسی نے ایسا سلوک نہیں کیا،جیسا ابوبکر نے کیا ۔ (جامع الترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ) جب کہ مولٰی علی نے مولائے کل ، سیّد الرسل صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے کنارِ اقدس میں پرورش پائی ، حضور کی گود میں ہوش سنبھالا، اور جو کچھ پایا ،بظاہر حالات یہیں سے پایا ، تو آیت کریمہ : وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ (اس پر کسی کا ایسا احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے) ۔ سے مولا علی قطعاً مراد نہیں ہو سکتے ، بلکہ بالیقین صدیقِ اکبر ہی مقصود ہیں ، اور اسی پر اجماعِ مفسرین موجود ۔
ترجمہ : ہمارے اور اکثر معتزلہ کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعد افضل الناس ابوبکر صدیق ہیں ۔ اس کی کئی دلیلیں ہیں۔ان میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ قرآن کریم میں ہے : سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ ۔ الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰىۚ ۔ اکثر مفسرین نے کہا اور علماء نے اسی پر اعتماد کیا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق کے بارے میں اتری ہے ۔ تو ابوبکر صدیق “اتقی” ہوئے اور جو “اتقی” ہے ، وہ اکرم ہے ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے : اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ ۔ اور جو اللہ کے نزدیک اکرم ہے ، وہی افضل ہے ۔ لہٰذا ابو بکر افضل امت ہوئے ۔
امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وہ صدیق جس کی افضلیت مطلقہ پر قرآنِ کریم کی شہادت ناطقہ ہے کہ فرمایا : اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ ۔ تم میں سب سے زیادہ عزت والا ﷲ کے حضور وہ ہے، جو تم سب میں “اتقی” ہے ۔ اور دوسری آیت کریمہ میں صاف فرمادیا : سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ ۔ قریب ہے کہ جہنم سے بچایا جائے گا وہ اتقٰی ۔ بہ شہادت آیت اُولی ان آیات کریمہ سے وہی مراد ہے ، جو افضل و اکرم امتِ مرحومہ ہے ، اور وہ نہیں، مگر اہل سنت کے نزدیک صدیق اکبر ۔ اور تفضیلیہ و روافض کے نزدیک یہاں امیر المومنین مولٰی علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔
مگر ﷲ عزوجل کے لیے حمد کہ اس نے کسی کی تلبیس و تدلیس اور حق و باطل میں آمیزش و آویزش کو جگہ نہ چھوڑی ، آیت کریمہ نے ایسے وصفِ خاص سے “اتقٰی” کی تعیین فرمادی ، جو حضرت صدیق اکبر کے سوا کسی پر صادق آہی نہیں سکتا ۔ فرماتا ہے : وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ ۔ اس پر کسی کا ایسا احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے ۔ اور دنیا جانتی مانتی ہے کہ وہ صرف صدیقِ اکبر ہی ہیں ، جن کی طرف سے ہمیشہ بندگی و غلامی و خدمت و نیاز مندی اور مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف سے براہِ بندہ نوازی قبول و پذیرائی کا برتاؤ رہا۔یہاں تک کہ خودارشاد فرمایا کہ : بے شک تمام آدمیوں میں اپنی جان و مال سے کسی نے ایسا سلوک نہیں کیا،جیسا ابوبکر نے کیا ۔ (جامع الترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ) جب کہ مولٰی علی نے مولائے کل ، سیّد الرسل صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے کنارِ اقدس میں پرورش پائی ، حضور کی گود میں ہوش سنبھالا، اور جو کچھ پایا ،بظاہر حالات یہیں سے پایا ، تو آیت کریمہ : وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ (اس پر کسی کا ایسا احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے) ۔ سے مولا علی قطعاً مراد نہیں ہو سکتے ، بلکہ بالیقین صدیقِ اکبر ہی مقصود ہیں ، اور اسی پر اجماعِ مفسرین موجود ۔
(فتاوی رضویہ،ج: 18، ص:248,249،امام احمد رضا اکیڈمی،بریل شریف)
افضلیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حدیث کی روشنی میں
سیدنا عبد اللہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ہم رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانۂ مبارکہ میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو شمار کرتےان کے بعد حضرت سیدنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو اور ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو۔
افضلیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حدیث کی روشنی میں
سیدنا عبد اللہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ہم رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانۂ مبارکہ میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو شمار کرتےان کے بعد حضرت سیدنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو اور ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو۔
(صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب فضل ابی بکر بعد النبی ، الحدیث : ۳۶۵۵، ج۲، ص۵۱۸،چشتی)،(صحیح بخاری مترجم جلد 2 صفحہ نمبر 605)،(تاریخ مدینۃ دمشق ج۳۰ ص۳۴۶)
حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔
حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔
(المعجم الکبیر للطبرانی ، حدیث 178 جلد اول ، ص107)
ابوالبختری طائی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو فرماتے سنا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا ، میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر اور وہی آپ کے وصال کے بعد آپ کی اُمّت کے والی یعنی خلیفہ ہوں گے اور وہی اُمّت میں سب سے افضل اور سب سے بڑھ کر نرم دل ہیں ۔
ابوالبختری طائی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو فرماتے سنا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا ، میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر اور وہی آپ کے وصال کے بعد آپ کی اُمّت کے والی یعنی خلیفہ ہوں گے اور وہی اُمّت میں سب سے افضل اور سب سے بڑھ کر نرم دل ہیں ۔
(ابن عساکر ، تاریخ دمشق، جلد 30، صفحہ 73،چشتی)
حضرت محمد بن حنفیہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے (فرماتے ہیں) کہ میں نے اپنے باپ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے عرض کی کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر ، میں نے عرض کی، پھر کون ؟ فرمایا حضرت عمر رضی ﷲ عنہما ۔
حضرت محمد بن حنفیہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے (فرماتے ہیں) کہ میں نے اپنے باپ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے عرض کی کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر ، میں نے عرض کی، پھر کون ؟ فرمایا حضرت عمر رضی ﷲ عنہما ۔
(بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی،حدیث 3671، جلد 2، ص 522)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ میری امت میں میرے بعد سب سے بہتر شخص ابوبکر ہیں ، پھر عمر (ابن عساکر)
حضرت ابو حجیفہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا ۔ میں نے عرض کی اے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص ! تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو حجیفہ ! کیا تجھے بتائوں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ وہ حضرت ابوبکر ہیں ، پھر حضرت عمر ، اے ابو حجیفہ ! تجھ پر افسوس ہے ، میری محبت اور ابوبکر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور نہ میری دشمنی اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہوسکتی ہے ۔
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ میری امت میں میرے بعد سب سے بہتر شخص ابوبکر ہیں ، پھر عمر (ابن عساکر)
حضرت ابو حجیفہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا ۔ میں نے عرض کی اے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص ! تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو حجیفہ ! کیا تجھے بتائوں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ وہ حضرت ابوبکر ہیں ، پھر حضرت عمر ، اے ابو حجیفہ ! تجھ پر افسوس ہے ، میری محبت اور ابوبکر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور نہ میری دشمنی اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہوسکتی ہے ۔
(المعجم الاوسط للطبرانی من اسمہ علی، حدیث 3920، جلد 3، صفحہ 79)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ پھر عرض کی کہ اے ﷲ کے رسول ! ہم پر کسی کو خلیفہ مقرر فرمایئے ۔ ارشاد فرمایا کہ نہیں ! ﷲ تعالیٰ اسے تم پر خلیفہ مقرر فرمادے گا جو تم میں سب سے بہتر ہوگا پھر ﷲ تعالیٰ نے ہم میں سے سب سے بہتر ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو جانا، جنہیں ہم پر خلیفہ مقرر فرمایا ۔
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ پھر عرض کی کہ اے ﷲ کے رسول ! ہم پر کسی کو خلیفہ مقرر فرمایئے ۔ ارشاد فرمایا کہ نہیں ! ﷲ تعالیٰ اسے تم پر خلیفہ مقرر فرمادے گا جو تم میں سب سے بہتر ہوگا پھر ﷲ تعالیٰ نے ہم میں سے سب سے بہتر ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو جانا، جنہیں ہم پر خلیفہ مقرر فرمایا ۔
(دارقطنی، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 290-289،چشتی)
ہمدانی سے باکمال روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وصال کے وقت مجھے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر ، ان کے بعد عمر ، ان کے بعد عثمان خلیفہ ہے ۔ بعض روایات میں یہ لفظ ہے کہ پھر انہیں خلافت ملے گی ۔
ہمدانی سے باکمال روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وصال کے وقت مجھے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر ، ان کے بعد عمر ، ان کے بعد عثمان خلیفہ ہے ۔ بعض روایات میں یہ لفظ ہے کہ پھر انہیں خلافت ملے گی ۔
(ابن شاہین، فضائل الصدیق لملا علی قاری ، ابن عساکر ، تاریخ دمشق، جلد 5، ص189)
حضرت عمرو بن العاص رضي الله عنہ سے روایت ہے کہ جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے استفسار کیا کہ : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نزدیک مردوں میں سب زیادہ محبوب کون ہے ؟ إرشاد فرمایا : أبوبکر حدیث کے الفاظ ہیں : أن النبي صلى الله عليه وسلم بعثه على جيش ذات السلاسل فأتيته فقلت : أي الناس أحب إليك ؟ قال : "عائشة” فقلت من الرجال ؟ قال: "أبوها” قلت ثم من ؟ قال : ” ثم عمر بن الخطاب” فعد رجالاً ۔ [رواہ بخاری و مسلم]
حضرت عائشہ رضی الله عنها کی روایت ہے کہ سقيفۂ بنی ساعدہ کے موقع پر امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : آپ ہمارے سردار ، ہم میں سب سے بہتر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب زیادہ محبوب ہیں یہ ایک طویل حدیث ہے جس کے بعض الفاظ ہیں : وفيه أن أبا بكر قال للأنصار : ولكنا الأمراء وأنتم الوزراء هم أوسط العرب دارا، وأعربهم أحسانا، فبايعوا عمر بن الخطاب أو أبا عبيدة بن الجراح فقال عمر بل نبايعك أنت فأنت سيدنا وخيرنا وأحبنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخذ عمر بيده فبايعه وبايعه الناس ۔ (رواہ البخاری)
چوتھے خلیفہ راشد باب العلم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جب ان کے صاحبزادے حضرت محمد بن الحنفیہ نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد لوگوں میں کون سب سے بہتر ہے .؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ابوبکر ۔ حدیث کے متعلقہ الفاظ ہیں : محمد بن الحنفية قال : قلت : لأبي: أي الناس خير بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أبو بكر قلت: ثم من ؟ قال : عمر ۔ (رواہ البخاری)
مسند احمد بن حنبل میں ہے کہ حضرت علي رضي الله عنه نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد اس امت میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق ہیں. حدیث کے الفاظ ہیں : عن علی رضی اللہ عنه أنه قال لأبي جحيفة: يا أبا جحيفة ألا أخبرك بأفضل هذه الأمة بعد نبيها قال: قلت: بلى ولم أكن أرى أن أحدا أفضل منه قال : أفضل هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر وبعد أبي بكر عمر وبعدهما آخر ثالث ولم يسمه ۔ (روى الإمام أحمد بإسناده)
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کی افضلیت پر اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم
حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہمارے سردار ہیں ، ہم میں سب سے بہتر اور رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نزدیک ہم میں سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔
حضرت عمرو بن العاص رضي الله عنہ سے روایت ہے کہ جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے استفسار کیا کہ : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نزدیک مردوں میں سب زیادہ محبوب کون ہے ؟ إرشاد فرمایا : أبوبکر حدیث کے الفاظ ہیں : أن النبي صلى الله عليه وسلم بعثه على جيش ذات السلاسل فأتيته فقلت : أي الناس أحب إليك ؟ قال : "عائشة” فقلت من الرجال ؟ قال: "أبوها” قلت ثم من ؟ قال : ” ثم عمر بن الخطاب” فعد رجالاً ۔ [رواہ بخاری و مسلم]
حضرت عائشہ رضی الله عنها کی روایت ہے کہ سقيفۂ بنی ساعدہ کے موقع پر امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : آپ ہمارے سردار ، ہم میں سب سے بہتر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب زیادہ محبوب ہیں یہ ایک طویل حدیث ہے جس کے بعض الفاظ ہیں : وفيه أن أبا بكر قال للأنصار : ولكنا الأمراء وأنتم الوزراء هم أوسط العرب دارا، وأعربهم أحسانا، فبايعوا عمر بن الخطاب أو أبا عبيدة بن الجراح فقال عمر بل نبايعك أنت فأنت سيدنا وخيرنا وأحبنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخذ عمر بيده فبايعه وبايعه الناس ۔ (رواہ البخاری)
چوتھے خلیفہ راشد باب العلم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جب ان کے صاحبزادے حضرت محمد بن الحنفیہ نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد لوگوں میں کون سب سے بہتر ہے .؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ابوبکر ۔ حدیث کے متعلقہ الفاظ ہیں : محمد بن الحنفية قال : قلت : لأبي: أي الناس خير بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أبو بكر قلت: ثم من ؟ قال : عمر ۔ (رواہ البخاری)
مسند احمد بن حنبل میں ہے کہ حضرت علي رضي الله عنه نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد اس امت میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق ہیں. حدیث کے الفاظ ہیں : عن علی رضی اللہ عنه أنه قال لأبي جحيفة: يا أبا جحيفة ألا أخبرك بأفضل هذه الأمة بعد نبيها قال: قلت: بلى ولم أكن أرى أن أحدا أفضل منه قال : أفضل هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر وبعد أبي بكر عمر وبعدهما آخر ثالث ولم يسمه ۔ (روى الإمام أحمد بإسناده)
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کی افضلیت پر اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم
حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہمارے سردار ہیں ، ہم میں سب سے بہتر اور رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نزدیک ہم میں سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔
(سنن الترمذی کتاب المناقب مناقب ابی بکر الصدیق الحدیث ۳۶۷۶ جلد ۵ صفحہ ۳۷۲)
حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ارشادفرماتے ہیں :
حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ارشادفرماتے ہیں :
نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد اس امت میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں اور اگراس کے علاوہ کسی نے کوئی دوسری بات کی تووہ مُفْتَرِی یعنی الزام لگانے والا ہے اوراس کی سزا بھی وہی ہے جوالزام لگانے والے کی سزا ہے ۔
کنزالعمال، کتاب الفضائل ، باب فضائل الصحابۃ، فضل الصدیق، الحدیث : ۳۵۶۲۲، ج۶، الجزء : ۱۲، ص۲۲۳، جمع الجوامع، مسند عمر بن الخطاب، الحدیث : ۱۰۵۸، ج۱۱، ص۲۱۹)
حضرت سیدنا اِصبغ بن نباتہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہےفرماتے ہیں :
حضرت سیدنا اِصبغ بن نباتہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہےفرماتے ہیں :
میں نے امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے استفسار کیا : اس امت میں رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ فرمایا : اس اُمت میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ، ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ، پھر حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ، پھر میں ۔ (الریاض النضرۃ، ج۱، ص۵۷)
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے والد حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی انہوں نے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے انہوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے سنا ابوبکر سے بہتر کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ اس کے بعد حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے روایت میں غلط بیانی کی ہو تو مجھے شفاعت نصیب نہ ہو اور میں تو قیامت کے دین صدیق کی شفاعت کا طلب گار رہونگا ۔ اسی کے ساتھ دوسری روایت ہے کہ ساری امت سے افضل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے والد حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی انہوں نے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے انہوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے سنا ابوبکر سے بہتر کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ اس کے بعد حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے روایت میں غلط بیانی کی ہو تو مجھے شفاعت نصیب نہ ہو اور میں تو قیامت کے دین صدیق کی شفاعت کا طلب گار رہونگا ۔ اسی کے ساتھ دوسری روایت ہے کہ ساری امت سے افضل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔
(الرّیاض النضرہ مترجم اردو جلد اوّل صفحہ نمبر 267 ، 268 مطبوعہ مکتبہ نورِ حسینیہ لاہور،چشتی)
حضرت ابو الدرداء رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : انبیاء کرام علیہم السّلام کے بعد ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) سے افضل کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ ایک روایت میں ہے کہ انبیاء و رسل علیہم السّلام کے بعد ابوبکر اور عمر سے زیادہ افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ حضرت جابر رضی ﷲ عنہ کی حدیث میں بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں فرمایا ﷲ کی قسم آپ سے افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ (مسند عبد بن حمید حدیث 212، ص 101 ابو نعیم طبرانی)
حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔
حضرت ابو الدرداء رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : انبیاء کرام علیہم السّلام کے بعد ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) سے افضل کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ ایک روایت میں ہے کہ انبیاء و رسل علیہم السّلام کے بعد ابوبکر اور عمر سے زیادہ افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ حضرت جابر رضی ﷲ عنہ کی حدیث میں بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں فرمایا ﷲ کی قسم آپ سے افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ (مسند عبد بن حمید حدیث 212، ص 101 ابو نعیم طبرانی)
حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔
(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث 178 جلد اول، ص107،چشتی)
ابوالبختری طائی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا ، میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر اور وہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اُمّت کے والی یعنی خلیفہ ہوں گے اور وہی اُمّت میں سب سے افضل اور سب سے بڑھ کر نرم دل ہیں ۔ (ابن عساکر تاریخ دمشق جلد 30 ص 73)
حضرت محمد بن حنفیہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے (فرماتے ہیں) کہ میں نے اپنے باپ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے عرض کی کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر ، میں نے عرض کی ، پھر کون ؟ فرمایا حضرت عمر رضی ﷲ عنہم ۔
ابوالبختری طائی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا ، میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر اور وہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اُمّت کے والی یعنی خلیفہ ہوں گے اور وہی اُمّت میں سب سے افضل اور سب سے بڑھ کر نرم دل ہیں ۔ (ابن عساکر تاریخ دمشق جلد 30 ص 73)
حضرت محمد بن حنفیہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے (فرماتے ہیں) کہ میں نے اپنے باپ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے عرض کی کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر ، میں نے عرض کی ، پھر کون ؟ فرمایا حضرت عمر رضی ﷲ عنہم ۔
(بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی حدیث 3671 جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 522)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ۔ میری امت میں میرے بعد سب سے بہتر شخص ابوبکر ہیں ، پھر عمر ۔
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ۔ میری امت میں میرے بعد سب سے بہتر شخص ابوبکر ہیں ، پھر عمر ۔
ابن عساکر)
حضرت ابو حجیفہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا ۔ میں نے عرض کی اے رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص ! تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو حجیفہ ! کیا تجھے بتاؤں کہ رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ وہ حضرت ابوبکر ہیں ، پھر حضرت عمر ، اے ابو حجیفہ ! تجھ پر افسوس ہے ، میری محبت اور ابوبکر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور نہ میری دشمنی اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہوسکتی ہے ۔
حضرت ابو حجیفہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا ۔ میں نے عرض کی اے رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص ! تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو حجیفہ ! کیا تجھے بتاؤں کہ رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ وہ حضرت ابوبکر ہیں ، پھر حضرت عمر ، اے ابو حجیفہ ! تجھ پر افسوس ہے ، میری محبت اور ابوبکر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور نہ میری دشمنی اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہوسکتی ہے ۔
(المعجم الاوسط للطبرانی من اسمہ علی، حدیث 3920، جلد 3، ص 79)
(مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ)
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
طالب دعا و دعا گو
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ النفس محقق دوراں حضرت علامہ مولانا مفتی
ڈاکٹر فیض احمد چشتی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی