(سوال نمبر 4456)
کیا وسیلہ لینا ضروری ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں
اللہ فرماتا ہے ایاک نعبد و ایاک نستعین تم مجھے ہی پوجو تو مجھ سے ہی مانگو میں ہی دینے والا ہوں تو کیا اللہ سے مانگنے کے لیے کسی کا وسیلہ لینا پڑے گا یا ڈریکلی خدا کی بارگاہ میں دعا مانگے گا تو خدا قبول کرے گا اگر وسیلہ کی ضرورت نہیں تو پھر حضرت ادم علیہ السلام کو میرے نبی کا وسیلہ کیوں منانا پڑا۔علمائے کرام حوالہ کے ساتھ قران و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل:- حافظ محمد نوشاد چشتی سیتا مڑھی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
آیت میں ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھے سے مدد مانگتے ہیں۔
یہاں پر ذاتی مدد کی بات ہے یعنی اصل مدد کرنے والا رب ہی ہے ۔
آپ صرف اللہ سے بھی مانگ سکتے ہو وہ دینے پر قادر ہے مگر وسیلہ کے ذریعے مانگنے کا انکار نہیں کر سکتے کیونکہ
باقی ایت میں خود اللہ نے وسیلہ سے مانگنے کا حکم دیا ہے ۔
کسی مسئلہ کو صرف ایک ایت سے نہیں سمجھا جا سکتا ہے بلکہ کتاب و سنت میں مانگنے کے تعلق سے جتنی ایات و احادیث ہیں سب کو دیکھنا پڑے گا پھر بات سمجھ میں ائے گی
توسّل کا مطلب یہ ہے کہ حاجتوں کے بَر آنے اور مطالب کے حاصل ہونےکے لئے ان محبوب ہستیوں کو اللّٰہ تَعَالٰی کی بارگاہ میں وسیلہ اور واسطہ بنایاجائے کیونکہ انہیں اللّٰہ تَعَالٰی کی بارگاہ میں ہماری نسبت زیادہ قُرب حاصل ہے اللّٰہ تَعَالٰی ان کی دعا پوری فرماتا ہے اور ان کی شفاعت قبول فرماتاہے۔
دُنیاوی اور اُخروی حاجتوں کو پورا کرنے کے لئے اللّٰہ تَعَالٰی کی بارگاہ میں ان سے توسّل شرعاً جائز ہے۔
وسیلہ بنانا قرآن وسنّت اور سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہے،چُنانچہ
آیتِ مبارکہ اللّٰہ تَعَالٰی فرماتا ہے
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ (پ۶،المائدة:۳۵)
کیا وسیلہ لینا ضروری ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں
اللہ فرماتا ہے ایاک نعبد و ایاک نستعین تم مجھے ہی پوجو تو مجھ سے ہی مانگو میں ہی دینے والا ہوں تو کیا اللہ سے مانگنے کے لیے کسی کا وسیلہ لینا پڑے گا یا ڈریکلی خدا کی بارگاہ میں دعا مانگے گا تو خدا قبول کرے گا اگر وسیلہ کی ضرورت نہیں تو پھر حضرت ادم علیہ السلام کو میرے نبی کا وسیلہ کیوں منانا پڑا۔علمائے کرام حوالہ کے ساتھ قران و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل:- حافظ محمد نوشاد چشتی سیتا مڑھی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
آیت میں ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھے سے مدد مانگتے ہیں۔
یہاں پر ذاتی مدد کی بات ہے یعنی اصل مدد کرنے والا رب ہی ہے ۔
آپ صرف اللہ سے بھی مانگ سکتے ہو وہ دینے پر قادر ہے مگر وسیلہ کے ذریعے مانگنے کا انکار نہیں کر سکتے کیونکہ
باقی ایت میں خود اللہ نے وسیلہ سے مانگنے کا حکم دیا ہے ۔
کسی مسئلہ کو صرف ایک ایت سے نہیں سمجھا جا سکتا ہے بلکہ کتاب و سنت میں مانگنے کے تعلق سے جتنی ایات و احادیث ہیں سب کو دیکھنا پڑے گا پھر بات سمجھ میں ائے گی
توسّل کا مطلب یہ ہے کہ حاجتوں کے بَر آنے اور مطالب کے حاصل ہونےکے لئے ان محبوب ہستیوں کو اللّٰہ تَعَالٰی کی بارگاہ میں وسیلہ اور واسطہ بنایاجائے کیونکہ انہیں اللّٰہ تَعَالٰی کی بارگاہ میں ہماری نسبت زیادہ قُرب حاصل ہے اللّٰہ تَعَالٰی ان کی دعا پوری فرماتا ہے اور ان کی شفاعت قبول فرماتاہے۔
دُنیاوی اور اُخروی حاجتوں کو پورا کرنے کے لئے اللّٰہ تَعَالٰی کی بارگاہ میں ان سے توسّل شرعاً جائز ہے۔
وسیلہ بنانا قرآن وسنّت اور سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہے،چُنانچہ
آیتِ مبارکہ اللّٰہ تَعَالٰی فرماتا ہے
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ (پ۶،المائدة:۳۵)
ترجمۂ کنزالایمان:-
اے ایمان والو اللّٰه سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔
سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے خود ایک نابینا شخص کو ایک دعاکے ذریعے وسیلہ کی تعلیم ارشاد فرمائی، چُنانچہ ترمذی شریف میں حضرت عثمان بن حُنَیْف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے :ایک نابینا بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم میں حاضرِ خدمت ہوا اور عرض کی کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم اللّٰہ تَعَالٰی سے دعا کریں کہ وہ مجھے آنکھ والا کردے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:اگر تو چاہے تو میں تیرے لیے دعا کروں اور اگر تو چاہے تو صبر کرکہ وہ تیرے لیے بہتر ہے۔ عرض کی کہ دعا فرمائیں، حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے اسے حکم دیاکہ اچھا وضو کرو، دور کعت نمازپڑھو اور یہ دعا کرو :اے اللّٰہ میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیری طرف محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کے وسیلہ سے توجہ کرتا ہوں جو نبی رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم ہیں ،یارسولَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم !میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف اپنی اس حاجت میں توجہ کرتا ہوں تو اسے پوری فرمادے۔ اے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ!میرے بارے میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کی شفاعت قبول فرما (راوی بیان فرماتے ہیں )کہ وہ شخص جب آپ کے فرمانے کے مطابق دعاکرکے کھڑا ہوا وہ آنکھ والا ہوگیا
(ترمذی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
اے ایمان والو اللّٰه سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔
سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے خود ایک نابینا شخص کو ایک دعاکے ذریعے وسیلہ کی تعلیم ارشاد فرمائی، چُنانچہ ترمذی شریف میں حضرت عثمان بن حُنَیْف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے :ایک نابینا بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم میں حاضرِ خدمت ہوا اور عرض کی کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم اللّٰہ تَعَالٰی سے دعا کریں کہ وہ مجھے آنکھ والا کردے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:اگر تو چاہے تو میں تیرے لیے دعا کروں اور اگر تو چاہے تو صبر کرکہ وہ تیرے لیے بہتر ہے۔ عرض کی کہ دعا فرمائیں، حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے اسے حکم دیاکہ اچھا وضو کرو، دور کعت نمازپڑھو اور یہ دعا کرو :اے اللّٰہ میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیری طرف محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کے وسیلہ سے توجہ کرتا ہوں جو نبی رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم ہیں ،یارسولَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم !میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف اپنی اس حاجت میں توجہ کرتا ہوں تو اسے پوری فرمادے۔ اے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ!میرے بارے میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کی شفاعت قبول فرما (راوی بیان فرماتے ہیں )کہ وہ شخص جب آپ کے فرمانے کے مطابق دعاکرکے کھڑا ہوا وہ آنکھ والا ہوگیا
(ترمذی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
18_09/2023
18_09/2023