(سوال نمبر 4510)
طلاق کی کتنی اقسام ہیں اور کس میں عدت ہے اور کس میں نہیں؟
................................
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ طلاق کی کتنی اقسام ہیں اور کس میں عدت ہے اور کس میں نہیں؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- غلام رضا برکاتی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
وقوع کے اعتبار سے طلاق کی تین قسمیں ہیں
١/ طلاق رجعی
٢/ طلاق بائن
٣/ طلاق مغلظہ
١/ رجعی طلاق وہ ہوتی ہے جس میں دوران عدت رجوع ممکن ہوتا ہے وہ ایک دی جائے یا دو ۔
مثلا شوہر اپنی بیوی کو طلاق کےصریح الفا ظ سےطلاق دے جسے تجھے طلاق ہے یا اسی کے ہم معنی الفاظ میں سے کوئی لفظ کہے یعنی تجھے چھوڑدیا۔
٢/ بائن طلاق وہ ہوتی ہے جس سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے اوررجوع ممکن نہیں ہوتی البتہ تجدید نکاح جائز ہوتا ہے
جیسے شوہر اپنی بیوی کو بینونت کے الفاظ سے طلاق دے کہ تو بائن ہے یا الفاظ کنائی سے طلاق دے یا ایسے الفاظ سے طلاق دے جس میں شدت کا معنی کہ تجھے سخت طلاق ہو لمبی چوڑی طلاق ہو
یاد رہے کبھی ایک لفظ طلاق رجعی کا ہوتا ہے مگرمخصوص احوال کی وجہ سے وہ بھی بائن بن جاتا ہے جیسے غیر مدخولہ کو اگر طلاق رجعی بھی دی جائے تو وہ بائن ہوتی ہے اسی طریقے سے اگر ایک طلاق رجعی دی جائے اور پھر عدت کے دوران رجوع نہ کی جائے تو وہ طلاق رجعی بائن بن جاتاہے اسی طرح اگر بائن کے بعد رجعی دی جائے تو وہ بھی بائن ہوتی ہے۔
٣/ جب طلاقوں کا عدد تین تک پہنچ جائے تو اسے طلاق مغلظہ کہتے ہٰیں جیسے بیوی کو تین طلاقیں الگ الگ دے یا ایک ساتھ دے ۔
واضح رہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دینے میں اگرچہ گناہ ہے تاہم اس طرح طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجائےگی
فتاوی ہندیہ میں ہے
وهو كأنت طالق ومطلقة وطلقتك وتقع واحدة رجعية وإن نوى الأكثر أو الإبانة أو لم ينو شيئا كذا في الكنز۔(كتاب الطلاق، ج:1، ص:354)
وفیہ ایضا
إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة .
ولو قال أنت طالق أقبح الطلاق أو أفحشه أو أخبثه أو أسوأه أو أغلظه أو أشره أو أطوله أو أكبره أو أعرضه أو أعظمه ولم ينو شيئا أو نوى واحدة أو ثنتين في غير الأمة كانت واحدة بائنة
والطلاق البائن يلحق الطلاق الصريح بأن قال لها أنت طالق ثم قال لها أنت بائن تقع طلقة أخرى (كتاب الطلاق، ج:1، ص:372/73/77)
وفیہ ایضا
وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية۔
طلاق کی کتنی اقسام ہیں اور کس میں عدت ہے اور کس میں نہیں؟
................................
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ طلاق کی کتنی اقسام ہیں اور کس میں عدت ہے اور کس میں نہیں؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- غلام رضا برکاتی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
وقوع کے اعتبار سے طلاق کی تین قسمیں ہیں
١/ طلاق رجعی
٢/ طلاق بائن
٣/ طلاق مغلظہ
١/ رجعی طلاق وہ ہوتی ہے جس میں دوران عدت رجوع ممکن ہوتا ہے وہ ایک دی جائے یا دو ۔
مثلا شوہر اپنی بیوی کو طلاق کےصریح الفا ظ سےطلاق دے جسے تجھے طلاق ہے یا اسی کے ہم معنی الفاظ میں سے کوئی لفظ کہے یعنی تجھے چھوڑدیا۔
٢/ بائن طلاق وہ ہوتی ہے جس سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے اوررجوع ممکن نہیں ہوتی البتہ تجدید نکاح جائز ہوتا ہے
جیسے شوہر اپنی بیوی کو بینونت کے الفاظ سے طلاق دے کہ تو بائن ہے یا الفاظ کنائی سے طلاق دے یا ایسے الفاظ سے طلاق دے جس میں شدت کا معنی کہ تجھے سخت طلاق ہو لمبی چوڑی طلاق ہو
یاد رہے کبھی ایک لفظ طلاق رجعی کا ہوتا ہے مگرمخصوص احوال کی وجہ سے وہ بھی بائن بن جاتا ہے جیسے غیر مدخولہ کو اگر طلاق رجعی بھی دی جائے تو وہ بائن ہوتی ہے اسی طریقے سے اگر ایک طلاق رجعی دی جائے اور پھر عدت کے دوران رجوع نہ کی جائے تو وہ طلاق رجعی بائن بن جاتاہے اسی طرح اگر بائن کے بعد رجعی دی جائے تو وہ بھی بائن ہوتی ہے۔
٣/ جب طلاقوں کا عدد تین تک پہنچ جائے تو اسے طلاق مغلظہ کہتے ہٰیں جیسے بیوی کو تین طلاقیں الگ الگ دے یا ایک ساتھ دے ۔
واضح رہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دینے میں اگرچہ گناہ ہے تاہم اس طرح طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجائےگی
فتاوی ہندیہ میں ہے
وهو كأنت طالق ومطلقة وطلقتك وتقع واحدة رجعية وإن نوى الأكثر أو الإبانة أو لم ينو شيئا كذا في الكنز۔(كتاب الطلاق، ج:1، ص:354)
وفیہ ایضا
إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة .
ولو قال أنت طالق أقبح الطلاق أو أفحشه أو أخبثه أو أسوأه أو أغلظه أو أشره أو أطوله أو أكبره أو أعرضه أو أعظمه ولم ينو شيئا أو نوى واحدة أو ثنتين في غير الأمة كانت واحدة بائنة
والطلاق البائن يلحق الطلاق الصريح بأن قال لها أنت طالق ثم قال لها أنت بائن تقع طلقة أخرى (كتاب الطلاق، ج:1، ص:372/73/77)
وفیہ ایضا
وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية۔
(کتاب الطلاق، ج:3، ص: 473)
واضح رہے کہ آزاد عورت جس کو رخصتی کے بعد طلاق ہوجائے اس کی عدت کی تین اقسام ہیں
١/ مطلقہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔
٢/ ایسی مطلقہ جس کو حیض آتا ہو اس کی عدت تین حیض ہے۔
٣/ ایسی مطلقہ جس کو کم عمری بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو اس کی عدت تین ماہ ہے۔
مگر ایسی مطلقہ جس کو نکاح کے بعد اور رخصتی سے پہلے طلاق ہو جائے اس پر عدت نہیں ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا
اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ تم انہیں مَس کرو (یعنی خلوتِ صحیحہ کرو) تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدّت (واجب) نہیں ہے کہ تم اسے شمار کرنے لگو، پس انہیں کچھ مال و متاع دو اور انہیں اچھی طرح حُسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کرو۔
(الاحزاب، 33: 49)
والله ورسوله اعلم بالصواب
واضح رہے کہ آزاد عورت جس کو رخصتی کے بعد طلاق ہوجائے اس کی عدت کی تین اقسام ہیں
١/ مطلقہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔
٢/ ایسی مطلقہ جس کو حیض آتا ہو اس کی عدت تین حیض ہے۔
٣/ ایسی مطلقہ جس کو کم عمری بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو اس کی عدت تین ماہ ہے۔
مگر ایسی مطلقہ جس کو نکاح کے بعد اور رخصتی سے پہلے طلاق ہو جائے اس پر عدت نہیں ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا
اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ تم انہیں مَس کرو (یعنی خلوتِ صحیحہ کرو) تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدّت (واجب) نہیں ہے کہ تم اسے شمار کرنے لگو، پس انہیں کچھ مال و متاع دو اور انہیں اچھی طرح حُسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کرو۔
(الاحزاب، 33: 49)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
23/09/2023
23/09/2023