Type Here to Get Search Results !

طلاق کے بغیر دوسری شادی کرنا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 4571)
 کیا بالغ اور بالغہ بدون گواہ نکاح کرلے تو نکاح فاسد ہوا مگر لڑکی طلاق کے بغیر دوسری شادی نہیں کرسکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں
کہ میں نے ایک حضرت سے سنا اگر کسی بالغ لڑکا لڑکی نے بغیر گواہ کے نکاح کیا تو بھی وہ نکاح ہو جائیگا لیکن نکاح فاسد ہوگا یعنی جسمانی تعلقات نہیں قائم کیا جا سکتا ہے لیکن اگر وہ لوگ الگ کہیں اور نکاح کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اس نکاح کو ختم کرنا ہوگا؟
شرعی رہنمائی فرمائیے
سائل:- نورِ مجسّم قادری فیض آباد یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

نکاح کے منعقد ہونے کے لئے شرط یہ ہے کہ کم از کم دو عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول ہو،لہٰذا اگر بغیر گواہوں کے موجودگی کے کسی نے ایجاب و قبول کر لیا تو یہ نکاح فاسد ہوا جس سے دونوں میاں بیوی نہیں بنے ،بلکہ اجنبی رہے
الھدایۃ میں ہے 
قال العلامۃ المرغینانی رحمہ اللہ:
و لا ینعقد نکاح المسلمین إلا بحضور شاھدین حرین عاقلین بالغین مسلمین رجلین أو رجل و امرأتین۔
( الھدایۃ :1/185 )            
فتح القدیر میں ہے 
و قال ابن ھمام رحمہ اللہ:ولا ینعقد نکاح المسلمین إلا بحضور شاہدین عاقلین بالغین مسلمین رجلين ،أو رجل وامرأتين، عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف) اعلم أن الشهادة شرط في باب النكاح لقوله صلى الله عليه وسلم لا نكاح إلا بشهود۔
(فتح القدیر 3/199)
حاصل کلام یہ ہے کہ 
نکاح کے درست انعقاد کے لیے عاقل بالغ لڑکے لڑکی کی رضا مندی اور دو عاقل بالغ مسلمان گواہوں کی موجودگی میں بعوض حق مہر ایجاب و قبول کرنا ضروری ہے ورنہ نکاح قائم نہیں ہوتا
آئمہ فقہاء فرماتے ہیں
ولا ینعقد نکاح المسلمین الا بحضور شهدین حرین عاقلین بالغین مسلمین رجلین أو رجل و امرأتین 
دو مسلمانوں کا نکاح منعقد نہیں ہوتا جب تک، دو آزاد ، عاقل بالغ مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہ موجود ہوں۔
( الهدایة شرح البدایة، 1: 190، المکتبة الاسلامیة)
درمختارمیں نکاح فاسدکی تعریف کرتے ہوئے فرمایا
وھوالذی فقدشرطامن شرائط الصحۃ کشھود" اوریہ وہ نکاح ہے ،جس میں صحت نکاح کی شرائط میں سے کوئی شرط مفقودہو مثلاگواہوں کاہونا۔
چوں کہ نکاح فاسد میں لڑکے اور لڑکی کے لئے ازدواجی تعلق قائم کرنا حلال نہیں ہوتا اس لیے ہم بستری تو جائز ہی نہیں نیز طلاق تب واقع ہوتی ہے جب نکاح صحیح ہو نکاح فاسد میں طلاق متحقق ہوتی ہی نہیں البتہ دونوں متعاقدین پر جلد از جلد متارکت کرنا ضروری ہوتا ہے
متارکت کے الفاظ اور جملے جو فقہاءِ کرام نے بیان کیے ہیں وہ یہ ہیں میں نے آپ کو چھوڑ دیا میں نے آپ کا راستہ چھوڑ دیا آزاد کردیا۔یا طلاق دیدی وغیرہ، لہٰذا نکاحِ فاسد کی صورت میں مذکورہ جملوں میں سے کوئی بھی جملہ کہنے سے دونوں کے درمیان متارکت ہوجائےگی 
نکاحِ فاسد کی صورت میں متارکت یا تو قاضی کی طرف سے تفریق سے ہوگا یا لڑکے کی طرف سے مذکورہ الفاظ کہنے سے ہوگی لہذا متارکت صرف لڑکے کی طرف سے ہوسکتی ہے لڑکی کو نکاح فسخ کروانے کا حق تو حاصل ہے لیکن لڑکی کی طرف سے الفاظِ متارکت کہنے سے متارکت واقع نہیں ہوگی نیز جب تک دونوں میں متارکت نہ ہوجائے ،لڑکی کادوسرے مرد سے شادی کرنا جائز نہیں ہو گا
فتاویٰ شامی (الدرّ المختار وردّالمحتار) میں ہے
(و) يثبت (لكل واحد منهما فسخه ولو بغير محضر عن صاحبه دخل بها أو لا) في الأصح خروجا عن المعصية. فلاينافي وجوبه بل يجب على القاضي التفريق بينهما (وتجب العدة بعد الوطء) لا الخلوة للطلاق لا للموت (من وقت التفريق) أو متاركة الزوج وإن لم تعلم المرأة بالمتاركة في الأصح.
(قوله: أو متاركة الزوج) في البزازية: المتاركة في الفاسد بعد الدخول لاتكون إلا بالقول كخليت سبيلك أو تركتك و مجرد إنكار النكاح لايكون متاركةً. أما لو أنكر و قال أيضا: اذهبي وتزوجي كان متاركةً و الطلاق فيه متاركة، لكن لاينقص به عدد الطلاق، و عدم مجيء أحدهما إلى آخر بعد الدخول ليس متاركةً؛ لأنها لاتحصل إلا بالقول. و قال صاحب المحيط: و قبل الدخول أيضا لايتحقق إلا بالقول. اهـ
(كتاب النكاح، باب المهر، مطلب في النكاح الفاسد، ج:3، ص:132، ط:ایچ ایم سعید)
البحر الرائق شرح ِ کنزالدقائق میں ہے
والتفريق في النكاح الفاسد إما بتفريق القاضي أو بمتاركة الزوج ولا يتحقق الطلاق في النكاح الفاسد بل هو متاركة فيه ولا تحقق للمتاركة إلا بالقول إن كانت مدخولا بها كقوله تاركتك أو تاركتها أو خليت سبيلك أو خليت سبيلها أو خليتها، وأما غير المدخول بها فتتحقق المتاركة بالقول وبالترك عند بعضهم وهو تركها على قصد أن لا يعود إليها وعند البعض لا تكون المتاركة إلا بالقول فيهما حتى لو تركها ومضى على عدتها سنون لم يكن لها أن تتزوج بآخر
(كتاب النكاح، باب المهر، ج:3، ص:185ط: دار الكتاب الاسلامي)
 نکاحِ باطل وہ نکاح ہے جس میں خاتون محلّ نکاح ہی نہ ہو جبکہ نکاح فاسد وہ ہے جس میں خاتون محلِّ نکاح تو ہو لیکن صحتِ نکاح کی شرائط میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے لہذا بغیر گواہوں کے نکاح کرنا نکاحِ فاسد ہے
نیز احکامِ نکاح(مثلاً مہرکے لزوم/ عدم توارث وغیرہ) کے اعتبار سے نکاح فاسد اور باطل میں فرق نہیں ہے تاہم عدت کے سلسلے میں دونوں میں فرق ہے کہ نکاح فاسد میں متارکت کے بعد عدت گزارنا لازمی ہوتاہے جبکہ نکاحِ باطل میں عدت لازم نہیں ہوتی
فتاویٰ شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے
(ويجب مهر المثل في نكاح فاسد) وهو الذي فقد شرطا من شرائط الصحة كشهود (بالوطء) في القبل (لا بغيره) كالخلوة لحرمة وطئها (ولم يزد) مهر المثل (على المسمى)
فتاوی اہل سنت میں ہے 
اگر کسی نے عدت میں نکاح کرلیا اوراگر عدت میں ہونا معلوم نہیں تھا تو یہ نکاح فاسد ہوا،اس صورت میں اگرہمبستری نہیں ہوئی تواس صورت میں بھی دوسرے نکاح کی کوئی عدت نہیں اورمتارکہ ضروری ہے خواہ دوسرے کی موجودگی میں کرے یاغیرموجودگی میں (یعنی شوہرکا عورت کے متعلق کہنا کہ میں نے تجھے یااسے چھوڑدیا ،یا عورت کا مردکے متعلق کہناکہ میں تجھ سے یا اس سے جداہوگئی ۔ (فتاوی اہل سنت)
درمختارمیں نکاح فاسدکاحکم بیان کرتے ہوئے فرمایا (و) يثبت (لكل واحد منهما فسخه ولو بغير محضر عن صاحبه دخل بهاأولا) في الأصح
اورمردوعورت میں سے ہرایک کوفاسدنکاح ختم کرنے کااختیارہوتاہے اگرچہ دوسرے کی غیرموجودگی میں کرے،عورت کے ساتھ دخول ہواہویانہ ہوا،اصح قول کے مطابق۔
فتاوی رضویہ میں ہے اگربکر نے یہ جان بوجھ کر کہ ابھی عورت عدت میں ہے اس سے نکاح کرلیا تھا جب تو وہ نکاح نکاح ہی نہ ہوا زنا ہوا، تواس کے لئے اصلاً عدت نہیں اگرچہ بکر نے صدہا بار عورت سے جماع کیا ہوکہ زنا کاپانی شرع میں کچھ عزت ووقعت نہیں رکھتا عورت کو اختیار ہے جب چاہے نکاح کرلے ۔ اور اگر بکر نے انجانی میں نکاح کیا تو یہ دیکھیں گے کہ اس چار برس میں ا س نے عورت سے کبھی جماع کیا ہے یانہیں، اگر کبھی نہ کیا تو بھی عدت نہیں، بکر کے چھوڑتے ہی فوراً جس سے چاہے نکاح کرلے،اور جو ایک بار بھی جماع کرچکا ہے تو جس دن بکر نے چھوڑ ا اس دن سے عورت پر عدت واجب ہوئی جب تک اس کی عدت سے نہ نکلے دوسرے سے نکاح نہیں کرسکتی، اور عدت طلاق کی چار مہینے دس دن نہیں یہ عدت موت کی ہے، طلاق کی عدت تین حیض کا مل ہیں یعنی بعد طلاق کے ایک نیا حیض آئے، پھر دوسرا، پھر تیسرا، جب یہ تیسرا ختم ہوگا اس وقت عدت سے نکلے گی اور اسے جس سے چاہے نکاح کرنا روا ہوگا۔
(فتاویٰ رضویہ،ج 13،ص 302،303،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
فتاوی رضویہ میں ہے
 اگر اس دوسرے شخص کو وقت نکاح معلوم تھا کہ عورت ہنوز عدت میں ہے یہ جان کر اس سے نکاح کرلیا جب تو وہ زنائے محض تھا عدت کی کچھ حاجت نہیں نہ طلاق کی ضرورت بلکہ ابھی جس سے چاہے نکاح کرے جبکہ شوہر اول کی عدت گزر چکی ہو اور اگر اسے عورت کا عدت میں ہونا معلوم نہ تھا تو طلاق کی اب حاجت نہیں مگر متارکہ ضرو ر ہے یعنی شوہر کا عورت سے کہنا کہ میں نے تجھے چھوڑدیا یا عورت کا اس سے کہہ دینا کہ میں تجھ سے جدا ہوگئی، اس کے بعد عدت بیٹھے عدت کے بعد جس سے چاہے نکاح کرے۔
(فتاویٰ رضویہ،ج 11،ص 423،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
28/09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area