Type Here to Get Search Results !

نہ چھوٹا شیر خواری میں بھی روزہ غوثِ اعظم کا


•┈┈┈┈•••✦✦•••┈┈┈┈•
نہ چھوٹا شیر خواری میں بھی روزہ غوثِ اعظم کا
(حافظ) افتخار احمد قادری برکاتی
♦•••••••••••••••••••••••••♦
  کہتے ہیں کہ تقوی کے تین درجے ہیں- 
          اول: شرک وکفر سے بیزار ہو کر دائمی عذاب سے بچنا
          دوم: ایسے اقوال وافعال سے بچنا جن سے گناہ لازم آئے- 
          سوم: ہر اس چیز سے بچنا جو آدمی کو حق سے غافل کردے اور کامل طور سےخدا کی طرف متوجہ ہونا- اسی کو کہتے ہیں طاعتہ الابرار سیئات المقربین
____________________________
     حضرتِ شیخ سعدی شیرازی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ نے اسے یوں بیان فرمایا ہے: 
عاصیاں از گناہ توبہ کند
 عارفاں از عبادت استغفار
  یعنی: گناہ گار لوگ تو اپنے گناہوں سے توبہ کرتے رہتے ہیں مگر عارفین حق اپنی عبادت کو ناقص سمجھتے ہوئے معافی کے طلبگار رہتے ہیں 
_____________________________________________
       اس سلسلے میں اولین کردار رزق کا ہے-
 حضورِ اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
 وہ جسم جنت میں نہیں داخل ہوگا جس نے حرام غذا استعمال کی ہے- ایک دوسری حدیثِ پاک کا خلاصہ یہ ہے: رزق حلال سے بہتر غذا انسان کے لیے کچھ بھی نہیں ہے- حرام و ناجائز غذا سے قلب انسانی جو تجلیات ربانی کا مسکن ہے وہ مردہ ہو جاتا ہے- بے نور و بے سرور ہو جاتا ہے-
مولانا روم رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں:
علم و حکمت زاید از لقمہ حلال
عشق و رقت زاید از لقمہ حلال
چوں از تو حسد بینی دوام
جہل و غفلت زاید آں راداں حرام
    حلال لقمے سے علم وحکمت کا ظہور ہوتا ہے- سوز وگداز اکل حلال ہی کا ثمرہ و نتیجہ ہوتا ہے- لیکن اس کے بر خلاف جب تم دیکھو کہ غذا سے حسد وجلن غفلت و نادانی وغیرہ خبیث افعال کا ظہور ہو رہا ہے تو ایسے لقمے کو حرام سمجھو- 
 یہی وجہ ہے کہ اربابِ طریقت جو آیت کریمہ: 
     ،، انما یخشی الله من عبادہ العلماء ،، اور احادیثِ مبارکہ:
،، العلماء ورثتہ الانبیاء ،، ،، علماء امتی کانیاء بنی اسرائیل ،، کے صحیح معنیٰ میں مصداق ہیں- ان کے یہاں سب سے پہلا درجہ اکل حلال کا ہے- پھر صدق مقال- چناچہ ہر سالک خواہ وہ مبتدی ہو یا منتہیٰ سب کے لیے ایسا لازم ہے کہ اس کے بغیر راہ طریقت پر چلنا یا اس کا مدعی ہونا خام خیال ہے
_________________________
   دانائے رموزِ شریعت، واقف اسرارِ طریقت، غواص بحر حقیقت ومعرفت، مقتدائے جملہ مشائخ، حضور سیدی غوثیت مآب رضی الله تعالیٰ عنہ جو کہ از روئے خاندان ممتاز ومنفرد ہیں- کیونکہ جس خاندان عالیشان کو نسبت وقرابت رسول کا شرف حاصل ہو، جس کے حق میں آیہ تطہیر نازل ہو، پھر اس مقدس گھرانے کی مثیل و نظیر کس طرح ممکن ہوسکتی ہے:
چہ نسبت خاک را با عالم پاک
سرکارِ اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
 تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
       لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی مسلم ہے کہ جو جتنے اہم رتبے اور مقام پر فائز ہوا اس میں ویسے ہی کمالات، علم وحلم، صبر وشکر، تقوی و پرہیزگاری، زہد و ورع، امانت و دیانت، سخاوت و قناعت اعلیٰ اخلاق وکردار جیسی دولتِ بے بہا بھی بدرجہ اتم موجود ہو بلکہ یہی باتیں اس کے حق میں اساس و کلید کی حیثیت رکھتی ہیں
__________________________________________
       اسی مذکورہ بالا اصول کی روشنی میں غوث الثقلین، نجیب الطرفین، شیخ العالم، غوث الاعظم، محی الدین عبد القادر جیلانی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ اور ان کے والدین کریمین رضی الله تعالیٰ عنہما کے زہد و ورع اور ان کے فضل وکمال کا جائزہ لیں
         ہمارے یہاں مشہور ہے کہ جوانی دیوانی ہوتی ہے- سچ ہے انسان سے جوانی میں کبھی لغزشیں واقع ہوتی ہیں اس لیے کہ ،، الشاب شعبتہ من الجنون،، جوانی جنون کا ایک حصہ ہے- مگر اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی مسلم ہے کہ جن نفوسِ قدسیہ پر خدا وندعالم اپنا فضل فرمائے وہ ہرگز ہرگز نفس کی شرارتوں کا شکار نہیں ہوسکتے- حضور غوثِ اعظم رضی الله عنہ کے والدِ ماجد حضرتِ شیخ ابو صالح موسیٰ جنگی دوست رحمتہ الله علیہ کا عالم شباب ہے- وصول الی الله کی راہ پر گامزن ہیں- شب وروز اپنے مقصودِ اصلی کے لیے سرگرداں ہیں- ریاضت ومجاہدہ کی کٹھن راہ سے گذر رہے ہیں- فاقے سے کئی دن گزر گئے- نفس الجوع الجوع کی صدا پیہم لگا رہا ہے- اسی حالت میں دریا کے کنارے سے آپ کا گزر ہوتا ہے- اچانک ایک سیب دریا میں بہتا ہوا نظر آیا آپ نے اسے اٹھا کر کھا لیا- لیکن فوراً ہی دل میں یہ خیال گزرا کہ جو سیب میں نے کھایا ہے خدا جانے کس کا تھا؟ بلا اجازت کھانا اچھا نہیں چلو مالک کوتلاش کر کے اس سے معافی مانگی جائے- دریا کے کنارے جس جانب سے وہ سیب بہتا ہوا آیا تھا ادھر چل پڑے- کچھ دور چلنے کے بعد ایک باغ نظر آیا- آپ نے دریافت کیا کہ یہ باغ کس کا ہے؟ بتانے والے نے حضرتِ عبد الله صومعی کا نام لیا- یہ حضرتِ عبد الله صومعی خود بلند پایہ خدا ترس بزرگ تھے- حضرتِ ابو صالح ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معافی چاہی- حضرتِ عبد الله صومعی اپنے نور فراست سے سمجھ گیے کہ یہ نوجوان اور نوجوانوں کی طرح نہیں ہے- انہوں نے پہلے یہ شرط پیش کی کچھ دنوں تک باغ کی رکھوالی منظور کی جائے پھر سیب کی معافی کی بابت کچھ کہا جائے گا- حضرتِ ابو صالح نے پوری امانت ودیانت داری کے ساتھ مدت معینہ تک باغ کی رکھوالی کی اور پھر باغ کے مالک سے معافی کے طلبگار ہوئے- مالک باغ نے کہا! میری ایک لڑکی ہے جو لنگڑی، لولی، بہری اور گونگی ہے- اس سے تمہیں نکاح کرنا ہوگا- سیب کی معافی کے پیشِ نظر حضرتِ ابو صالح نے بلا چوں چرا قبول فرما لیا- یہ ایسی شرط تھی کہ حضرتِ ابو صالح کی جگہ کوئی اور انسان ہوتا تو پاؤ تلے سے زمین کھسک جاتی- لیکن قربان جاؤں ان نفوسِ قدسیہ پر جن کے یہاں آخرت کی ذلت ورسوائی کے خوف کے مقابلے ناپائیدار دنیا کی تکلیف ومصیبت، آلام و مصائب اور ذلت ورسوائی کی کوئی وقعت ہی نہیں تھی- آخرت کی فلاح و بہبودی اور خدا و رسول کی رضامندی و خوشنودی سے زیادہ عزیز کوئی پونجی نہ تھی وہ کب اور کیوں کر اس شرط کو قبول نہ فرماتے
_____________________________
        شب کو جب حجرہ عروسی میں تشریف لے گئے تو کیا دیکھتے ہیں یہاں تو حسن وجمال کی پیکر بہت ہی حسین و خوبصورت صحیح و تندرست، سلیم الاعضاء لڑکی بیٹھی ہے- فوراً ہی الٹے قدم واپس ہوکر مالک باغ حضرتِ عبد الله صومعی کی خدمت میں حاضر گزار ہوئے کہ شاید حجرے میں غلطی سے کوئی دوسری لڑکی چلی گئی ہے- حضرت عبد الله صومعی نے فرمایا: میرے فرزند میں نے اپنی دختر نیک اختر کی جو صفات بیان کی تھیں ان کا مطلب یہ ہے کہ میری لڑکی نے اپنی نگاہوں سے کبھی کسی غیر محرم کو نہیں دیکھا- کبھی ناجائز جگہوں کی طرف اپنا قدم نہی اٹھایا- کسی ممنوع چیز کو اپنے ہاتھ سے نہیں چھوا، کسی ناجائز بات کو اپنے کانوں سے نہیں سنا، حق کے خلاف کبھی اپنی زبان نہیں کھولی، لہذا وہ اندھی، لولی، لنگڑی، بہری اور گونگی ہے- اب اندازہ کیا جائے کہ جب حضور غوث الاعظم رضی الله عنہ کے والدین کریمین کے تقویٰ و پرہیز گاری، زہد و ورع اور خوف خدا کا یہ عالم تھا پھر اس گلشن سے کھلنے والے پھول کا کیا عالم ہوگا- ڈاکٹر اقبال نے کہا ہے:
بتولے باش پنہاں شوازیں عصر
 کہ در آغوش شبیرے بگیری
       یہ امر مسلم ہے کہ ماں باپ کا اثر بچوں پر ضرور پڑتا ہے- بچہ اپنے ماں باپ کا مجسم نمونہ ہوا کرتا ہے- یہی کچھ اسباب و وجوہ ہیں کہ حضور غوثِ اعظم رضی الله تعالیٰ عنہ کی پوری زندگی ولادت سے وصال تک شریعت کی آئینہ دار رہی- آپ حیات ناپائیدار کی شب وروز میں ایک لمحہ کے لیے بھی جادہ مستقیم سے ذرہ برابر نہ ہٹے- بلکہ آپ نے اتباع سنت کے سلسلے میں جبل استقامت بن کر ہر شیطانی منصوبے کو خاک میں ملا دیا اور اپنے پیش رو کے لیے باعثِ صد افتخار اور قیامت تک آنے والے طالبان حق کے لیے مشعلِ راہ بن گئے اور بطن مادر سے ظہور فرماتے ہی اپنی ولایت و کرامت، فضل و شرف کا اعلان فرمایا
_______________________
     
منقول ہے کہ شعبان المعظم کی انتیس تاریخ تھی- سورج اپنی منزل طے کر چکا تھا- لوگوں کی نگاہیں افق پر لگی ہوئی تھیں- لیکن بادل کے سبب چاند نہیں دیکھا جاسکا- ہر طرف چاند کا چرچا تھا- اہل ایمان متردد ہیں کہ چاند ہوا یا نہیں؟ ادھر حضرتِ ابوصالح کے چاند دنیائے ولایت وکرامت کے سلطان نے اگلے روز طلوع صبح صادق سے پستان مادر سے منہ نہیں لگایا ہے- آپ کی یہ بات لوگوں میں پھیلنے لگی حتٰی کہ شدہ شدہ پورے گیلان میں یہ خبر عام ہوگئی کہ سادات کرام میں ایک بچہ پیدا ہوا ہے- جو طلوع صبحِ صادق سے غروب آفتاب تک ماں کا دودھ نہیں پیتا- یہ ہے حضور غوثِ اعظم رضی الله تعالیٰ عنہ کی اتباع شریعت کا حال کہ بحالت شیر خواری بھی آپ نے روزہ نہیں چھوڑا- بلکہ دیگر اہلِ ایمان کو اپنے روزے سے چاند کی شہادت عطا فرمائی اور اپنے مادر زاد ولی ہونے کا اعلان کیا- حضرتِ جمیل الرحمٰن قادری بریلوی فرماتے ہیں:
رہے پابند احکامِ شریعت ابتدا ہی سے
نہ چھوٹا شیرخواری میں بھی روزہ غوثِ اعظم کا
اسی ایک واقعہ سے اچھی طرح یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کا بچپن کتنا مقدس اور پاکیزہ گزرا ہوگا- آپ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ والد ماجد حضرتِ شیخ ابو صالح رحمتہ الله علیہ کا انتقال ہوگیا- والدہ ماجدہ نے تربیت فرمائی اہل گیلان سے علومِ دینیہ حاصل کرتے رہے- یہاں تک کہ وہ دن بھی آگیا کہ آپ اپنی والدہ کے سامنے التجائے شوق لیے دست بستہ حاضر ہیں- امی جان! اجازت ہو تو بغداد جاکر اپنے جدِ کریم مسیح دوعالم صلی الله علیہ وسلم کی وراثت حاصل کروں- والدہ رحمتہ الله علیہما کی عمر اس وقت تقریباً اٹھتر سال تھی- لیکن اس کبر سنی کے باوجود خوشی کے ساتھ اجازت عطا کردی اور چالیس اشرفیاں آپ کی صدری میں سی دیں اور ارشاد فرمایا: بیٹا کیسی ہی مصیبت کی گھڑی سر پہ کیوں نہ کھڑی ہو لیکن جھوٹ ہرگز نہ بولنا- ایک قافلے کے ہمراہ بغداد شریف کا ارادہ کر کے نکلے جب یہ قافلہ ہمدان سے کچھ آگے نکلا ڈاکوؤں نے قافلے کو لوٹ لیا- ایک ڈاکو حضور غوث الاعظم کی خدمت میں آیا اور پوچھنے لگا لڑکے تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں میرے پاس چالیس اشرفیاں ہیں- اس ڈاکو نے سوچا شاید یہ لڑکا مذاق کر رہا ہے- اور آگے بڑھ گیا دوسرے ڈاکو سے چرچا کیا وہ لوگ بھی حضور غوث الاعظم کے پاس آئے وہی سوال و جواب ہوا ان ڈاکوؤں نے اپنے سردار کو بتایا ڈاکوؤں کا سردار بھی آپ کے پاس آکر پوچھتا ہے- لڑکے سچ سچ بتا کیا تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے پاس چالیس اشرفیاں ہیں دیکھا گیا تو حقیقتاً چالیس اشرفیاں برآمد ہوئیں- یہ دیکھ کر ڈاکوؤں کے حیرت کی انتہا نہ رہی- سردار نے پوچھا تم جانتے ہو ہم ڈاکوں ہیں لوگ ہم سے اپنے مالوں کو چھپاتے ہیں پھر تم نے اپنی اشرفیوں کو کیوں ظاہر کردیا؟ آپ نے فرمایا: گھر سے چلتے وقت والدہ ماجدہ نے مجھ سے فرمایا تھا بیٹا کبھی جھوٹ مت بولنا- لہٰذا میں نے تمہیں سچ سچ بتا دیا- یہ سن کر ڈاکوؤں کا سردار بہت ہی متاثر ہوا اور کہنے لگا! لڑکے تم نے اپنی ماں کی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی ہائے افسوس! میں نے برسہا برس سے اپنے خالق و مالک کی نافرمانی کی یہ کہتا ہوا آپ کے قدموں میں گر پڑا اور توبہ کی- جب اس کے ساتھیوں نے اپنے سردار کو توبہ کرتے دیکھا تو وہ سب بھی یہی کہہ کر تائب ہو گئے کہ جب تم رہزنی میں ہمارے سردار تھے تو اب توبہ میں بھی تم ہمارے سردار ہو- الله تعالیٰ نے ان سب کو اپنے صالحین بندوں میں شامل فرما لیا- حضور غوث الاعظم رضی الله عنہ نے ایک دفعہ اپنے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: یہ پہلا گروہ تھا جس نے میرے ہاتھ پر توبہ کی
_______________
      اس واقعہ سے جہاں دیگر باتیں معلوم ہوتی ہیں وہیں یہ بھی اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ حضور غوثِ اعظم کس درجہ اپنی ماں کے فرماں بردار تھے- ایسے وقت میں آدمی ہر بات کو بھول جاتاہے صرف اور صرف جان و مال کی فکر رہتی ہے- آپ نے بغداد شریف پہنچ کر باقی علوم و فنون کی تکمیل فرمائی- بہت سے علماء، متبحرین اجلہ محدثین و فقہاء کاملین سے اپنی تشنگی کو بھجایا یہاں تک کہ تاج قطبیت آپ کے سر رکھا گیا- جس کا اظہار خود حضور غوثِ اعظم رضی الله تعالیٰ عنہ نے کیا ہے
درست العلم حتیٰ صرت قطبا
ونلت السعد من مولی الموالی
    فراغت کے بعد آپ نے مکمل طور سے ریاضت و مجاہدہ کا عزم فرمایا- اسی اثنا میں آپ جنگل و بیابان میں چلے جاتے مہینوں اور کبھی برسوں صحراؤں میں گشت کرتے- درختوں کے پتے مباح گری پڑی چیزیں کھالیا کرتے- اس دوران قسم قسم کے شیطانی حملے بھی مسلسل ہوتے رہے- لیکن غوثیت کبریٰ کے مالک نے اپنے رب کے فضل و کرم سے ہر شیطانی وار کو ناکام بنادیا اس کے باوجود حاشا و کلا آپ اوامر و نواہی شرع سے غافل نہ ہوئے کہ ان سے غافل ہونا ہی تو شیطانی وار اور اس کا مقصود و مطلوب
_________(❤️)_________ 
کتبہ:- (حافظ)افتخاراحمدقادری برکاتی 
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 
 کریم گنج، پورن پور، ضلع پیلی بھیت    

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area