Type Here to Get Search Results !

کیا واقف عید گاہ میں اپنی اولاد میں سے کسی کو دفن کر سکتا ہے؟

 
 •┈┈┈┈•••✦✦•••┈┈┈┈•
 (سوال نمبر 4482)
کیا واقف عید گاہ میں اپنی اولاد میں سے کسی کو دفن کر سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
زید ایک ٹکہ زمین کا عید گاہ بنانے کے لئے وقف کیا تھا  عید گاہ بنادی گئ اور برسوں سے عید کی نماز ہوتی رہی لیکن زید کا کہنا ہے کہ اپنی اولاد میں سے کسی کا انتقال ہوتو اسی عید گاہ میں جانب شمال دفن کرنا ہے اب دریافت طلب یہ ہے اس طرح وقف کی ہوئ زمین میں زید کی ملکیت باقی ہے یا نہیں اور اس میں میت دفن کرسکتاہے یانہیں اور میت دفن کر دی گئ اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
 سائل:- حافظ عبد السجان نظامی گورکھپور یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

عید گاہ اگر شہر میں ہے اور وقف شدہ ہے اور سرکاری کاغذات بھی ہے جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے برسوں عید کی نماز ہوتی رہی پھر اس میں واقف یا کوئی اور میت دفن نہیں کر سکتے کہ یہ اللہ کی ملکیت ہے اور اگر دیہات میں ہے اب چونکہ دیہات میں عیدین و جمعہ واجب نہیں اس لئے وقف صحیح نہیں وہ جس کی زمین ہے اسی کی ملکیت ہے اس کی اجازت سے میت دفن کیا جا سکاتا ہے
چنانچہ امام اہلسنت فرماتے ہیں :
و وہ زمین و عمارت ملک بانیان ہیں انہیں اختیار ہے اس میں جو چاہیں کریں ، خواہ اپنا مکان بنائیں یا زراعت کریں یا قبرستان کرائیں (فتاویٰ رضویہ ، ۱۶/۳۴۳)
در مختار کتاب الوقف میں ہے
 شرطه ان یکون قربة في ذاته (در مختار ج 6 ص 423)
اس لئے کہ دیہات میں عیدین کی نماز جائز نہیں  
در مختار باب العيدين میں ہے 
وفي القنية: صلاة العيدين في القرى تكره تحريما ای لانه اشتغال بمالايصح لان المصر شرط الصحة۔ (در مختار ج 3 ص 146)
 تو وہاں پر عیدگاہ بنانا بلا ضرورت ہے 
فتاوی رضویہ میں ہے
ہمارے ائمہ کرام رضی الله تعالی عنہم اجمعین کے مذہب میں گاؤں میں عیدین جائز نہیں ہے تو وہاں عیدگاہ وقف
نہیں ہوسکتی کہ محض بے حاجت و بے قربت بلکہ مخالف قربت ہے تو وہ زمین و عمارت ملک بانیان ہیں انہیں اختیار ہے اس میں جو چاہیں کریں خواہ اپنا مکان بنائیں یا زراعت کریں۔(فتاویٰ رضویہ ج 6 ص 416)
 جب وقف صحیح نہیں ہوا تو وہ ملک واقف کی طرف پلٹ آئی 
لأن المال لہم فیصرف با  باذنهم. ھکذا فی الفتاوی الرضویہ ج 6 ص 385
اگر عیدگاہ کی زمین شہر میں ہے تو شریعت مطہرہ میں یہ حکم ہے کہ وہاں پر عیدگاہ کا وقف صحیح ہے، اور اب اس میں کسی طرح کی تبدیلی ہرگز جائز نہیں 
فتاوی عالمگیری میں ہے 
لا يجوز تغيير الوقف عن هیئتہ
(فتاوی عالمگیری ج 2 ص 490)
فتاوی رضویہ میں ہے 
مسلمانوں کو تغییر وقف کا کوئی اختیار نہیں، تصرف آدمی اپنی ملک میں کر سکتا ہے وقف مالک حقیقی جل و علا کی ملک خالص ہے اس کے بے اذن دوسرے کو اس میں تصرف کا اختیار نہیں 
(فتاویٰ رضویہ ج 6 ص 38)
فتاوی برکاتیہ میں ہے 
جس زمانے میں وہ زمین دینے والے نے عیدگاہ کے لیے دی یا عیدگاہ بنانے کی نیت سے خریدی گئی اگر اس وقت وہ آبادی شہر میں داخل تھی تو اس عیدگاہ کو مسجد بنانا ہرگز جائز نہیں اس لیے کہ عیدگاہ کے لیے وقف صحیح ہوگیا اور وقف کی تبدیلی جائز نہیں۔(فتاویٰ برکاتیہ ص 367)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
20/09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area