Type Here to Get Search Results !

کیا تعویذ پہننا یا بنا نا جائز ہے اسکی ابتدا کب سے ہے؟

 (سوال نمبر 4565)
کیا تعویذ پہننا یا بنا نا جائز ہے اسکی ابتدا کب سے ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم و رحمتہ اللہ تعالیٰ و برکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
 کیا تعویذ پہننا یا بنا نا جائز ہے؟ اسکی ابتدا کب سے ہے برائے کرم مدلل جواب عنایت فرمائیں 
سائل:- سراج احمد نعیمی. قطر العرب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

تعویذ پہننا بنانا اور اس اس پر اجرت لینا جائز ہے 
تعویذ کیا ہے ؟ قران کی ایات اور ماثورہ دعائیں تعویذ کی اصل یہی ہے۔
اور دونوں میں شفاء ہے۔
آقا علیہ السلام سے پہلے سے دم وغیرہ کا رواج تھا 
 اقا علیہ السلام نے خود تعویذ اپنے صحابہ سے لکھوائے تعویذ کو عربی میں تَمِیْمَۃ کہتے ہیں زمانَۂ جاہلیت میں جب کسی کو کوئی نظر لگ جاتی تو اہل عرب اس پر کچھ پڑھ کردم کرتے جیسا کہ حضرت عوف بن مالک اَشْجَعی رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں ہم دور جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے تو ہم نے عرض کی یارسول اللہُ َلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ ارشاد فرمایا: اپنےمنتر مجھے سناؤ۔ ان میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ ان میں شرک نہ ہو۔(صحیح مسلم)
 بعض اوقات کچھ لکھ کر اس کے گلے میں لٹکا دیتے تھے اسے تَمِیْمَہ کہتے تھے
تعویذات میں عموماً قرآن پاک کی آیات اور اللہ پاک کے اسماء لکھے ہوتے ہیں اور ان کو پڑھ کر دم کیا جاتا ہے۔لہٰذا تعویذات سے استفادہ کرنے والا قرآن سے شفاء طلب کرنے والا ہے اور یقیناً قرآن کریم میں شفاء ہے 
اللہ پاک کا ارشاد ہے
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ (کنز الایمان)
(پ15، بنی اسرائیل:82) 
اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔
یہی مضمون احادیث میں بھی موجود ہے چنانچہ حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَوَسَلَّم نے فرمایا خیر ُالدواءِ القُرْآن ُ یعنی قرآن بہترین دواہے۔ (ابنِ ماجہ)
حدیث میں ہے 
حضرت ابو دُجانہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہےکہ میں نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی بارگاہ میں (جنات کی) شکایت کرتے ہوئے عرض کیا:یا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم میں بستر پر لیٹا ہوا تھا کہ اچانک میں نے اپنے گھر میں ایک آواز سنی جو کہ چکی چلنے کی طرح تھی،ایک بھنبھناہٹ سنی جوشہد کی مکھیوں کی مثل تھی اور بجلی کی چمک جیسی چمک دیکھی ،میں نے گھبرا کرسراٹھا کر دیکھا تو ایک سیاہ سایہ تھا جو کہ گھر کے صحن میں بلند ہوتا جارہا تھا،میں نے اس کے قریب جا کر اس کی کھال کو چھوا تو اس کی کھال ساہی(ایک کانٹے دار کھال والا جانور) کی کھال کی طرح تھی پھر اس نے میرے چہرے پر آگ کے چنگاریوں کی مثل کوئی چیز پھینکی تو مجھے ایسے لگا گویا اس نے مجھے جلا کر رکھ دیا ہے (یاگھر کو جلاکر رکھ دیا ہے)۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:اے ابو دُجَانَہ!وہ تیرے گھر میں ایک بری چیز رہنے والی ہےاور ربِّ کعبہ کی قسم اے اَبُوْ دُجَانَہ!تیری مثل لوگ تکلیف دئیے جاتے ہیں پھر فرمایا ایک کاغذ اور دوات لا میں دونوں چیزیں لے کر حاضر ہوا تو سرکار اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ نے حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو دےکر فرمایا: اے ابوالحسن لکھو ! انہوں نے عرض کیا کہ کیا لکھوں ؟فرمایا یہ لکھو:بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰن ِالرَّحِیْم ھٰذَا کِتَابٌ مِّنْ مُّحَمَّدِِ رَّسُوْلِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اِلٰی مَنْ طَرَقَ الدَّارَمِّنَ الْعُمَّارِ وَالزُّوَارِوَالصَّالِحِیْنَ اِلَّا طَارِقاً یَّطْرُقُ بِخَیْرٍ یَّا رَحْمٰنُ اَمَّا بَعْدُ :فَاِنَّ لَنَا وَلَکُمْ فِیْ الْحَقِّ سَعَۃً ،فَاِنْ تَکُ عَاشِقاً مُوْلِعاً، فَاجِراً مُقْتَحِماً أَوْ رَاغِباً حَقّاً أَوْ مُبْطِلاً،ھٰذَا کِتَابُ اللہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی یَنْطِقُ عَلَیْنَا وَعَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ ،اِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخ ُ مَا کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ وَرُسُلُنَا یَکْتُبُوْنَ مَاتَمْکُرُوْنَ، اُتْرُکُوْا صَاحِبَ کِتَابِیْ ھٰذَا وَانْطَلِقُوْا اِلٰی عَبْدَۃِ الْاَصْنَامِ وَاِلٰی مَنْ یَّزْعَم ُاَنَّ مَعَ اللہِ اِلٰہًا آخَر لَااِلٰہَ اِلَّا ھُوَ کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہ لَہُ الْحُکْمُ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ یُغْلَبُوْنَ حٰم لَا یُنْصَرُوْنَ حٰم عسق، تُفَرَّقُ اَعْدَاءُ اللہ ِ،وَبَلَغَتْ حُجَّۃُ اللہِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃ اِلَّا بِا اللہِ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللہُ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔
حضرت اَبُوْ دُجَانَہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں میں اس کو لپیٹ کر گھر لے آیا اوررات کو اپنے سر کے نیچے رکھ کر سو گیا، پھر میں ایک چلانے والے کی چیخ سے اٹھا ،وہ کہہ رہا تھا کہ اے ابُو دُجَانَہ ! لَات و عُزّٰی کی قسم ان کلمات نے ہمیں جلا کر رکھ دیا ہے ،تیرے صاحب کی قسم جب تو اس تحریر کو ہم سے اٹھالے گا تو ہم نہ تو تیرے گھر لوٹ کر آئیں گے(ایک روایت میں ہے کہ نہ ہم تجھے ایذا دیں گے )اور نہ تیرے پڑوس میں کبھی آئیں گےاور نہ اس جگہ آئیں گے جہاں یہ کتاب (تعویذ ) ہوگی ۔ابُو دُجَانَہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا : میرے صاحب (یعنی رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ) کی قسم کہ میں اس کو اس وقت تک نہ اٹھاؤں گا جب تک نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے اجازت نہ مانگ لوں ۔اَبُوْ دُجَانَہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں: جب میں نے جنوں کی آہ و بکاسنی تھی ، میرے لیے رات لمبی ہوگئی یہاں تک کہ صبح ہوئی تو میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی اور رات کو جنوں سے ہونے والامکالمہ بیان کیا تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ نے فرمایا :اے اَبُوْ دُجَانَہ! اس قوم سے اس تعویذ کو اٹھا لو کیونکہ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا!وہ قوم قیامت تک عذاب کی تکلیف میں مبتلارہے گی۔ (الخصائص الکبریٰ)
حضرت امام احمد بن حنبل رَضِیَ اللہُ عَنْہ نقل فرماتے ہیں:حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عمر ورَضِیَ اللہُ عَنْہُاپنے بالغ بچوں کو سوتے وقت یہ کلمات پڑھنے کی تلقین فرماتے :بِسْمِ اللہِ اَعُوْذُبِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ غَضَبِہِ وَعِقَابِہِ وَشَرِّعِبَادِہِ وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَاَنْ یَحْضُرُوْنَ اور ان میں سے جو نابالغ ہوتے اور یاد نہ کرسکتے تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ مذکورہ کلمات لکھ کر ان کا تعویذ بچوں کے گلے میں ڈال دیتے۔ (مسند احمد)
حضرتِ سیِّدُنا سعید بن مسیب رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں : قرآنی تعویذ کو کسی ڈبیہ یا کاغذ میں لپیٹ کر لٹکانے میں کوئی حرج نہیں، امام ابن سیرین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ قرآن میں سے کچھ لکھ کر کسی انسان کے گلے میں لٹکایا جائے۔(البحر المحیط)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
28/98/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area