(سوال نمبر 4541)
کیا عمدا جمعہ اور پنجوقتہ نماز نہ پڑھنے والا کافر ہوجاتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
مسلسل جمعہ کی نماز نہ پڑھنے سے انسان اسلام سے خارج ہو جاتا ہے یا یا پھر ایک فرض نماز چھوڑنے سے اسلام سے خارج ہو جاتا ہے قران میں واضح ہے واقیم والصلاہ
ولا تکون من المشرکین
نماز قائم کرنا اور مشرک نہ ہو جانا اور مسلم میں حدیث شریف ہے (246)
کہ بندے کے شرک اور ایمان کفر اور اسلام کے درمیان فرق نماز ہے اللہ کے نزدیک جو نماز نہیں پڑھتا وہ کافر ہے یہ تو کلیئر کٹ مسئلہ ہے ۔جمعہ تو بہت دور کی بات ہے
کیا یہ دونوں جواب سہی ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل:- حافظ محمد نوشاد چشتی سیتا مڑھی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مسلسل جمعہ کی نماز نہ پڑھنے سے یا ایک فرض نماز چھوڑنے سے انسان خارج از اسلام ہوجاتا ہے یہ غلط ہے ایسا کہنے والا اپنے قول سے رجوع کرے اور ہوا میں تیر نہ چھوڑے صرف اردو میں حدیث پڑھ کر اہل حدیث کی طرح مسئلہ سمجھنے کی کوشش نہ کریں۔اپنا دماغ اس میں نہ لگائے قرآن کی آیت بھی غلط لکھا ہے ۔
قران و حدیث کی شرح جو صحابہ محدثین اور فقہاء کرام نے کئے ہیں اس تناظر میں قرآن وحدیث کو سمجھے ۔
مذکورہ سارے جواب غلط ہیں
اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان
اتَّقُوْهُ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ (31)(کنزالعرفان)
اور اس سے ڈرو اور نماز قائم رکھو اور مشرکوں میں سے نہ ہونا۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین پر قائم رہو اور اس کی طرف توبہ کرتے ہوئے اور اس کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اپنا چہرہ دین ِاسلام کیلئے سیدھا رکھو اورا س کی مخالفت کرنے سے ڈرو اور نماز کی شرائط اور حقوق کی رعایت کرتے ہوئے وقت پراسے ادا کرو اور ایمان قبول کر لینے کے بعد اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرو۔
کیا عمدا جمعہ اور پنجوقتہ نماز نہ پڑھنے والا کافر ہوجاتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
مسلسل جمعہ کی نماز نہ پڑھنے سے انسان اسلام سے خارج ہو جاتا ہے یا یا پھر ایک فرض نماز چھوڑنے سے اسلام سے خارج ہو جاتا ہے قران میں واضح ہے واقیم والصلاہ
ولا تکون من المشرکین
نماز قائم کرنا اور مشرک نہ ہو جانا اور مسلم میں حدیث شریف ہے (246)
کہ بندے کے شرک اور ایمان کفر اور اسلام کے درمیان فرق نماز ہے اللہ کے نزدیک جو نماز نہیں پڑھتا وہ کافر ہے یہ تو کلیئر کٹ مسئلہ ہے ۔جمعہ تو بہت دور کی بات ہے
کیا یہ دونوں جواب سہی ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل:- حافظ محمد نوشاد چشتی سیتا مڑھی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مسلسل جمعہ کی نماز نہ پڑھنے سے یا ایک فرض نماز چھوڑنے سے انسان خارج از اسلام ہوجاتا ہے یہ غلط ہے ایسا کہنے والا اپنے قول سے رجوع کرے اور ہوا میں تیر نہ چھوڑے صرف اردو میں حدیث پڑھ کر اہل حدیث کی طرح مسئلہ سمجھنے کی کوشش نہ کریں۔اپنا دماغ اس میں نہ لگائے قرآن کی آیت بھی غلط لکھا ہے ۔
قران و حدیث کی شرح جو صحابہ محدثین اور فقہاء کرام نے کئے ہیں اس تناظر میں قرآن وحدیث کو سمجھے ۔
مذکورہ سارے جواب غلط ہیں
اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان
اتَّقُوْهُ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ (31)(کنزالعرفان)
اور اس سے ڈرو اور نماز قائم رکھو اور مشرکوں میں سے نہ ہونا۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین پر قائم رہو اور اس کی طرف توبہ کرتے ہوئے اور اس کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اپنا چہرہ دین ِاسلام کیلئے سیدھا رکھو اورا س کی مخالفت کرنے سے ڈرو اور نماز کی شرائط اور حقوق کی رعایت کرتے ہوئے وقت پراسے ادا کرو اور ایمان قبول کر لینے کے بعد اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرو۔
(روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۳۱، ۷ / ۳۲-۳۳، تفسیرکبیر، الروم، تحت الآیۃ: ۳۱، ۹ / ۹۹، ملتقطاً بحوالہ صراط الجنان)
یاد رہے کہ جان بوجھ کر قصدا جمعہ یا پنجوقتہ نماز کو چھوڑنا گناہ کبیرہ یعنی بڑا گناہ ہے اور گناہ کبیرہ کا مرتکب فاسق ہوتا ہے کافر نہیں ہوتا ہے۔
آقا علیہ السلام نے ایسے شخص کوتہدیداً یعنی دھمکی کے طور پر کافر فرمایا ہے تاکہ وہ اس کے ترک کرنے سے بچ سکے۔
اور صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر نہیں ہوتا ہے کہ دائرہ اسلام سے نکل جائے بلکہ اس گناہ کی وجہ سے فاسق ہوجاتا ہے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ
عن يحيى بن يعمر، حدثه، ان ابا الاسود الدؤلي، حدثه ان ابا ذر رضي الله عنه حدثه، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم وعليه ثوب ابيض، وهو نائم، ثم اتيته وقد استيقظ، فقال:" ما من عبد قال لا إله إلا الله، ثم مات على ذلك، إلا دخل الجنة"، قلت: وإن زنى وإن سرق، قال:" وإن زنى وإن سرق"، قلت: وإن زنى وإن سرق، قال:" وإن زنى وإن سرق"، قلت: وإن زنى وإن سرق، قال:" وإن زنى وإن سرق"، على رغم انف ابي ذر، وكان ابو ذر إذا حدث بهذا، قال: وإن رغم انف ابي ذر۔
(كِتَاب اللِّبَاسِ، بَابُ الثِّيَابِ الْبِيضِ:حدیث نمبر: 5827)
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کے جسم مبارک پر سفید کپڑا تھا اور آپ سو رہے تھے، پھر دوبارہ حاضر ہوا تو آپ بیدار ہو چکے تھے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس بندہ نے بھی کلمہ «لا إله إلا الله» ”اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“ کو مان لیا اور پھر اسی پر وہ مرا تو جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو، آپ ﷺ نے فرمایا کہ چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو، میں نے پھر عرض کیا: چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ فرمایا: چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ میں نے (حیرت کی وجہ سے پھر) عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو یا اس نے چوری کی ہو۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:چاہے اس نے زنا کیا ہو چاہے اس نے چوری کی ہو۔ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔ ابوذر رضی اللہ عنہ بعد میں جب بھی یہ حدیث بیان کرتے تو نبی کریم ﷺ کے الفاظ ابوذر کے لیے (وإن رغم أنف أبي ذر.) ضرور بیان کرتے۔
اس حدیث شریف کی تشریح میں ملاء علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں، کہ ففيه بشارة إلى أن عاقبته دخول الجنة، وإن كان له ذنوب جمة، لكن أمره إلى الله إن شاء عفا عنه وأدخله الجنة، وإن شاء عذبه بقدر ذنبه، ثم أدخله الجنة"
۔اس حدیث میں اس بات کی خوشخبری ہے کہ مسلمان بالآخر انجام کار کے اعتبار سے جنت میں داخل ہوگا، چاہے اس پر گناہوں کے انبار ہی کیوں نہ ہو، لیکن اس کا معاملہ اللہ کے قبضے میں ہے، چاہے تو معاف فرما دیں اور جنت میں داخل فرما دیں اور چاہیں تو گناہوں کے بقدر سزا دیں اور پھر جنت میں داخل فرمائیں۔
یہ حدیث مبارکہ واضح طور پر دلالت کر رہی ہے کہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب مسلمان، اگر ایمان کی حالت میں اس دنیا سے چلا گیا ہے تو وہ جنت میں ضرور داخل ہوگا، چاہے اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر ہی ہو۔
اور یہ بات واضح ہے کہ جنت میں کافر کو ہرگز داخل نہیں کیا جائےگا، لہذا معلوم ہوا کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب فاسق تو ہے، لیکن کافر نہیں ہے۔
اور جن احادیث میں یہ آیا ہے کہ بندہ اور کفر کے درمیان فرق صرف نماز چھوڑنا ہے
اس کے محدثین نے کئی مطلب لکھے ہیں
١/ اس حدیث کا مطلب ہے کہ جو نماز چھوڑنے کو حلال سمجھے وہ کافر ہے البتہ جو اس کو حلال نہ سمجھے بلکہ اپنی سستی اور غفلت کی وجہ سے نماز کو ادا نہ کر سکے تو وہ اس حکم میں داخل نہ ہوگا، وہ فاسق ہے۔
٢/ اور نماز چھوڑنا کفر تک پہنچا دیتا ہے۔
3/ اس حدیث کا مطلب ہے کہ نماز کے چھوڑنے والے کے بارے میں یہ خدشہ ہے کہ وہ کافر ہو کر مرے۔
٤/ نماز کا چھوڑنا کافرانہ عمل ہے اس کے چھوڑنے والے نے گویا کافروں والا کام کیا۔
لہذا نماز چھوڑنا اگرچہ سخت گناہ ہے لیکن اس سے آدمی کافر نہیں ہوتاہے۔
اسی طرح جو شخص کسی عذر شرعی کے بغیر معمولی سمجھ کر تین جمعہ چھوڑدے تو اللہ تعالی اس کے دل پر مہر لگادیتایے اور بعض روایات میں ہے اللہ تعالی اسے منافق لکھ دیتا ہے لیکن آدمی اسلام سے خارج نہیں ہوتا لہٰذااگر آدمی سچی پکی توبہ کرلے اور چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کرلے تو حسب سابق سچا مسلمان ہوجائے گا۔
حدیث شریف میں ہے
عن أبي جعد الضمري قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من ترک ثلاث جمع تھاوناً بھا طبع اللہ علی قلبہ رواہ أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجة والدارمي ورواہ مالک عن صفوان بن سلیم وأحمد عن أبي قتادة ۔
یاد رہے کہ جان بوجھ کر قصدا جمعہ یا پنجوقتہ نماز کو چھوڑنا گناہ کبیرہ یعنی بڑا گناہ ہے اور گناہ کبیرہ کا مرتکب فاسق ہوتا ہے کافر نہیں ہوتا ہے۔
آقا علیہ السلام نے ایسے شخص کوتہدیداً یعنی دھمکی کے طور پر کافر فرمایا ہے تاکہ وہ اس کے ترک کرنے سے بچ سکے۔
اور صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر نہیں ہوتا ہے کہ دائرہ اسلام سے نکل جائے بلکہ اس گناہ کی وجہ سے فاسق ہوجاتا ہے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ
عن يحيى بن يعمر، حدثه، ان ابا الاسود الدؤلي، حدثه ان ابا ذر رضي الله عنه حدثه، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم وعليه ثوب ابيض، وهو نائم، ثم اتيته وقد استيقظ، فقال:" ما من عبد قال لا إله إلا الله، ثم مات على ذلك، إلا دخل الجنة"، قلت: وإن زنى وإن سرق، قال:" وإن زنى وإن سرق"، قلت: وإن زنى وإن سرق، قال:" وإن زنى وإن سرق"، قلت: وإن زنى وإن سرق، قال:" وإن زنى وإن سرق"، على رغم انف ابي ذر، وكان ابو ذر إذا حدث بهذا، قال: وإن رغم انف ابي ذر۔
(كِتَاب اللِّبَاسِ، بَابُ الثِّيَابِ الْبِيضِ:حدیث نمبر: 5827)
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کے جسم مبارک پر سفید کپڑا تھا اور آپ سو رہے تھے، پھر دوبارہ حاضر ہوا تو آپ بیدار ہو چکے تھے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس بندہ نے بھی کلمہ «لا إله إلا الله» ”اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“ کو مان لیا اور پھر اسی پر وہ مرا تو جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو، آپ ﷺ نے فرمایا کہ چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو، میں نے پھر عرض کیا: چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ فرمایا: چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ میں نے (حیرت کی وجہ سے پھر) عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو یا اس نے چوری کی ہو۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:چاہے اس نے زنا کیا ہو چاہے اس نے چوری کی ہو۔ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔ ابوذر رضی اللہ عنہ بعد میں جب بھی یہ حدیث بیان کرتے تو نبی کریم ﷺ کے الفاظ ابوذر کے لیے (وإن رغم أنف أبي ذر.) ضرور بیان کرتے۔
اس حدیث شریف کی تشریح میں ملاء علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں، کہ ففيه بشارة إلى أن عاقبته دخول الجنة، وإن كان له ذنوب جمة، لكن أمره إلى الله إن شاء عفا عنه وأدخله الجنة، وإن شاء عذبه بقدر ذنبه، ثم أدخله الجنة"
۔اس حدیث میں اس بات کی خوشخبری ہے کہ مسلمان بالآخر انجام کار کے اعتبار سے جنت میں داخل ہوگا، چاہے اس پر گناہوں کے انبار ہی کیوں نہ ہو، لیکن اس کا معاملہ اللہ کے قبضے میں ہے، چاہے تو معاف فرما دیں اور جنت میں داخل فرما دیں اور چاہیں تو گناہوں کے بقدر سزا دیں اور پھر جنت میں داخل فرمائیں۔
یہ حدیث مبارکہ واضح طور پر دلالت کر رہی ہے کہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب مسلمان، اگر ایمان کی حالت میں اس دنیا سے چلا گیا ہے تو وہ جنت میں ضرور داخل ہوگا، چاہے اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر ہی ہو۔
اور یہ بات واضح ہے کہ جنت میں کافر کو ہرگز داخل نہیں کیا جائےگا، لہذا معلوم ہوا کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب فاسق تو ہے، لیکن کافر نہیں ہے۔
اور جن احادیث میں یہ آیا ہے کہ بندہ اور کفر کے درمیان فرق صرف نماز چھوڑنا ہے
اس کے محدثین نے کئی مطلب لکھے ہیں
١/ اس حدیث کا مطلب ہے کہ جو نماز چھوڑنے کو حلال سمجھے وہ کافر ہے البتہ جو اس کو حلال نہ سمجھے بلکہ اپنی سستی اور غفلت کی وجہ سے نماز کو ادا نہ کر سکے تو وہ اس حکم میں داخل نہ ہوگا، وہ فاسق ہے۔
٢/ اور نماز چھوڑنا کفر تک پہنچا دیتا ہے۔
3/ اس حدیث کا مطلب ہے کہ نماز کے چھوڑنے والے کے بارے میں یہ خدشہ ہے کہ وہ کافر ہو کر مرے۔
٤/ نماز کا چھوڑنا کافرانہ عمل ہے اس کے چھوڑنے والے نے گویا کافروں والا کام کیا۔
لہذا نماز چھوڑنا اگرچہ سخت گناہ ہے لیکن اس سے آدمی کافر نہیں ہوتاہے۔
اسی طرح جو شخص کسی عذر شرعی کے بغیر معمولی سمجھ کر تین جمعہ چھوڑدے تو اللہ تعالی اس کے دل پر مہر لگادیتایے اور بعض روایات میں ہے اللہ تعالی اسے منافق لکھ دیتا ہے لیکن آدمی اسلام سے خارج نہیں ہوتا لہٰذااگر آدمی سچی پکی توبہ کرلے اور چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کرلے تو حسب سابق سچا مسلمان ہوجائے گا۔
حدیث شریف میں ہے
عن أبي جعد الضمري قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من ترک ثلاث جمع تھاوناً بھا طبع اللہ علی قلبہ رواہ أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجة والدارمي ورواہ مالک عن صفوان بن سلیم وأحمد عن أبي قتادة ۔
(مشکاة المصابیح، کتاب الصلاة، باب وجوب الجمعة، الفصل الثاني، ص: ۱۲۱)
(طبع اللہ) أي ختم (علی قلبہ) بمنع إیصال الخیر إلیہ، وقیل: کتبہ منافقاً۔
(طبع اللہ) أي ختم (علی قلبہ) بمنع إیصال الخیر إلیہ، وقیل: کتبہ منافقاً۔
(رواہ أبو داود والترمذي)
قال میرک: وحسنہ (والنسائي) قال ابن الھمام: وحسنہ (وابن ماجة والدارمي) قال میرک: والحاکم وقال: صحیح علی شرط مسلم وابن خزیمة وابن حبان في صحیحھما ولفظھما:
من ترک الجمعة ثلاثاً من غیر عذر فھو منافق۔
قال میرک: وحسنہ (والنسائي) قال ابن الھمام: وحسنہ (وابن ماجة والدارمي) قال میرک: والحاکم وقال: صحیح علی شرط مسلم وابن خزیمة وابن حبان في صحیحھما ولفظھما:
من ترک الجمعة ثلاثاً من غیر عذر فھو منافق۔
(مرقاة المفاتیح، ۳: ۴۲۰، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)
حاصل کلام یہ ہے کہ
ایسا شخص مسلمان تو باقی رہے گا البتہ جمعہ دیگر نمازیں چھوڑنے کی وجہ سے سخت مجرم ہے توبہ بھی کرے اور قضا بھی کرے
مرقاة المفاتیح میں ہے
ثم من التأويلات أن يكون مستحلا لتركها، أو تركها يؤدي إلى الكفر، فإن المعصية بريد الكفر، أو يخشى على تاركها أن يموت كافرا، أو فعله شابه فعل الكافر۔
حاصل کلام یہ ہے کہ
ایسا شخص مسلمان تو باقی رہے گا البتہ جمعہ دیگر نمازیں چھوڑنے کی وجہ سے سخت مجرم ہے توبہ بھی کرے اور قضا بھی کرے
مرقاة المفاتیح میں ہے
ثم من التأويلات أن يكون مستحلا لتركها، أو تركها يؤدي إلى الكفر، فإن المعصية بريد الكفر، أو يخشى على تاركها أن يموت كافرا، أو فعله شابه فعل الكافر۔
(مرقاة المفاتیح: (510/2، ط دار الفکر)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
26/09/2023
26/09/2023