(سوال نمبر 4601)
کیا اسقاط حمل کے بعد غسل کرنا فرض ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا اسقاط حمل کے بعد غسل کرنا فرض ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
حمل گرانے کی صورت میں عورت پر غسل کرنا فرض ہے یا نہیں
سائل:- علی حسنین شہر لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت میں خون انے کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہے
اگر اسقاط 120 دن کے بعد ہوا تو خون نِفاس ہے۔کم کی کوئی مدت نہیں جب خون بند ہو نہانا فرض ہے ورنہ 40 دن کے بعد جب بند ہو تو غسل فرض
یعنی نفاس کی مدت زیادہ سے زیادہ چالیس دن ہے اور کم کی کوئی مدت متعین نہیں ہے۔
اگر چالیس دن سے پہلے نفاس کا خون بند ہو جائے تو فوراً غسل کرکے نماز پڑھنا شروع کردے ورنہ اگر تین دن رات تک رہا اور اس سے پہلے پندرہ دن پاک رہنے کا زمانہ گزر چکا ہے تو حَیض ہے اور جو تین دن سے پہلے ہی بند ہو گیا یا ابھی پورے پندرہ دن طہارت کے نہیں گزرے ہیں تو اِستحاضہ ہے۔
اسقاط حمل کے بعد جو خون آرہا ہو وہ اگر حیض ماہواری خون بن سکتا ہو تو حیض شمار ہوگا یعنی اگر ایام حیض میں خون آرہا ہے اور عادت کے مطابق ہے یا دس دن تک آکر بند ہوجاتا ہے تو حیض ہے
اورحیض میں نماز معاف ہے
اورحیض بند ہونے کے بعد غسل طہارت لازم ہے
اور اگر وہ خون دس دن سے زائد آتا ہے تو عادت کے مطابق ایام کو ایام حیض شمار کریں گے اور اس سے زائد کو استحاضہ شمار کریں گے اور استحاضہ میں نماز معاف نہیں
اگر استحاضہ میں خون اس تسلسل کے ساتھ آئے کہ عورت کو ایک نماز کے پورے وقت میں اتنا بھی موقع خالی نہ ملے کہ وضو کرکے فرض نماز ادا کرسکے تو وہ شرعاً معذور ہے اس کو اسی حال میں وضو کر کے نماز پڑھنا چاہئے اور وقت کے ختم ہونے کے ساتھ اس کا وضو بھی ختم ہو جائے گا اور دوسری نماز کے لئے دوسرا وضو کرنا ہوگا۔
بہار شریعت میں ہے
حمل ساقط ہو گیا اور اس کا کوئی عُضْوْ بن چکا ہے جیسے ہاتھ، پاؤں یا انگلیاں تو یہ خون نِفاس ہے۔ ورنہ اگر تین دن رات تک رہا اور اس سے پہلے پندرہ دن پاک رہنے کا زمانہ گزر چکا ہے تو حَیض ہے اور جو تین دن سے پہلے ہی بند ہو گیا یا ابھی پورے پندرہ دن طہارت کے نہیں گزرے ہیں تو اِستحاضہ ہے۔
پیٹ سے بچہ کاٹ کر نکالا گیا، تو اس کے آدھے سے زِیادہ نکالنے کے بعد نِفاس ہے۔
حمل ساقط ہونے سے پہلے کچھ خون آیاکچھ بعد کو، تو پہلے والا اِستحاضہ ہے بعد والا نفاس، یہ اس صورت میں ہے جب کوئی عُضْوْ بن چکا ہو، ورنہ پہلے والا اگر حَیض ہو سکتا ہے تو حَیض ہے نہیں تو اِستحاضہ۔
حمل ساقط ہوا اور یہ معلوم نہیں کہ کوئی عُضْوْ بنا تھا یا نہیں ،نہ یہ یاد کہ حمل کتنے دن کا تھا(کہ اسی سے عُضْوْ کا بننا نہ بننا معلوم ہو جاتایعنی ایک سو بیس ۱۲۰ دن ہو گئے ہیں تو عُضْوْ بن جانا قرار دیا جائے گا) اور بعد اسقاط کے خون ہمیشہ کو جاری ہوگیا تو اسے حَیض کے حکم میں سمجھے ،کہ حَیض کی جو عادت تھی اس کے گزرنے کے بعد نہا کر نماز شروع کردے اور عادت نہ تھی تو دس دن کے بعد اور باقی وہی اَحْکام ہیں جو حَیض کے بیان میں مذکور ہوئے۔(بہار شریعت)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
حمل گرانے کی صورت میں عورت پر غسل کرنا فرض ہے یا نہیں
سائل:- علی حسنین شہر لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت میں خون انے کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہے
اگر اسقاط 120 دن کے بعد ہوا تو خون نِفاس ہے۔کم کی کوئی مدت نہیں جب خون بند ہو نہانا فرض ہے ورنہ 40 دن کے بعد جب بند ہو تو غسل فرض
یعنی نفاس کی مدت زیادہ سے زیادہ چالیس دن ہے اور کم کی کوئی مدت متعین نہیں ہے۔
اگر چالیس دن سے پہلے نفاس کا خون بند ہو جائے تو فوراً غسل کرکے نماز پڑھنا شروع کردے ورنہ اگر تین دن رات تک رہا اور اس سے پہلے پندرہ دن پاک رہنے کا زمانہ گزر چکا ہے تو حَیض ہے اور جو تین دن سے پہلے ہی بند ہو گیا یا ابھی پورے پندرہ دن طہارت کے نہیں گزرے ہیں تو اِستحاضہ ہے۔
اسقاط حمل کے بعد جو خون آرہا ہو وہ اگر حیض ماہواری خون بن سکتا ہو تو حیض شمار ہوگا یعنی اگر ایام حیض میں خون آرہا ہے اور عادت کے مطابق ہے یا دس دن تک آکر بند ہوجاتا ہے تو حیض ہے
اورحیض میں نماز معاف ہے
اورحیض بند ہونے کے بعد غسل طہارت لازم ہے
اور اگر وہ خون دس دن سے زائد آتا ہے تو عادت کے مطابق ایام کو ایام حیض شمار کریں گے اور اس سے زائد کو استحاضہ شمار کریں گے اور استحاضہ میں نماز معاف نہیں
اگر استحاضہ میں خون اس تسلسل کے ساتھ آئے کہ عورت کو ایک نماز کے پورے وقت میں اتنا بھی موقع خالی نہ ملے کہ وضو کرکے فرض نماز ادا کرسکے تو وہ شرعاً معذور ہے اس کو اسی حال میں وضو کر کے نماز پڑھنا چاہئے اور وقت کے ختم ہونے کے ساتھ اس کا وضو بھی ختم ہو جائے گا اور دوسری نماز کے لئے دوسرا وضو کرنا ہوگا۔
بہار شریعت میں ہے
حمل ساقط ہو گیا اور اس کا کوئی عُضْوْ بن چکا ہے جیسے ہاتھ، پاؤں یا انگلیاں تو یہ خون نِفاس ہے۔ ورنہ اگر تین دن رات تک رہا اور اس سے پہلے پندرہ دن پاک رہنے کا زمانہ گزر چکا ہے تو حَیض ہے اور جو تین دن سے پہلے ہی بند ہو گیا یا ابھی پورے پندرہ دن طہارت کے نہیں گزرے ہیں تو اِستحاضہ ہے۔
پیٹ سے بچہ کاٹ کر نکالا گیا، تو اس کے آدھے سے زِیادہ نکالنے کے بعد نِفاس ہے۔
حمل ساقط ہونے سے پہلے کچھ خون آیاکچھ بعد کو، تو پہلے والا اِستحاضہ ہے بعد والا نفاس، یہ اس صورت میں ہے جب کوئی عُضْوْ بن چکا ہو، ورنہ پہلے والا اگر حَیض ہو سکتا ہے تو حَیض ہے نہیں تو اِستحاضہ۔
حمل ساقط ہوا اور یہ معلوم نہیں کہ کوئی عُضْوْ بنا تھا یا نہیں ،نہ یہ یاد کہ حمل کتنے دن کا تھا(کہ اسی سے عُضْوْ کا بننا نہ بننا معلوم ہو جاتایعنی ایک سو بیس ۱۲۰ دن ہو گئے ہیں تو عُضْوْ بن جانا قرار دیا جائے گا) اور بعد اسقاط کے خون ہمیشہ کو جاری ہوگیا تو اسے حَیض کے حکم میں سمجھے ،کہ حَیض کی جو عادت تھی اس کے گزرنے کے بعد نہا کر نماز شروع کردے اور عادت نہ تھی تو دس دن کے بعد اور باقی وہی اَحْکام ہیں جو حَیض کے بیان میں مذکور ہوئے۔(بہار شریعت)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
03/010/2023
03/010/2023