(سوال نمبر 4562)
کیا عید میلادالنبی ﷺ کو بطور عید منانا چاہیے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
کیا عید میلادالنبی ﷺ کو بطور عید منانا چاہیے؟ ثبوت کے ساتھ شرعی حکم ارشاد فرمائیں۔
سائلہ:- نور شہر ملتان پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
یوم مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں عیدوں سے زیادہ خوشیاں منانی چاہئے البتہ یہ عرفی عید ہے
یوم عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دو عید کیا ہزاروں عیدوں قربان ۔۔
نثار تیری چہل پہل پہ ہزاروں عیدیں ربیع الاول
سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں
شب ولادت میں سب مسلماں نہ کیوں کریں جان و مال قرباں
ابو لہب جیسے سخت کافر خوشی میں جب فیض پا رہے ہیں
زمانہ بھر میں یہ قاعدہ ہے کہ جس کا کھانا اسی کا گا نا
تو نعمتیں جن کی کھارہے ہیں انہی کے ہم گیت گا رہے ہیں
جب عیدین اور جمعہ بلکہ سب سے اہم ،ایمان جو ہمیں ملا اقا علیہ السلام کی مبعوث ہونے کی وجہ سے، تو یوم میلاد یوم عید کیوں نہیں، ہم یوم عید میلاد کو عید منانا واجب تو نہیں کہتے ۔بلکہ مستحب ہے
جمعہ کے دن کو عید کا دن کہنا جائز ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے
يَوْمُ الْجُمْعَة يَوْمُ الْعِيْد۔(ترمذی ج 5 ص 250، رقم الحديث : 3043)
جمعہ کا دن عید کا دن ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنی رحمت کے حصول پر خوشیاں منانے کا حکم دیا ہے اور آقا علیہ السلام سے بڑھ کر مومن کے لئے کوئ رحمت نہیں ہے اس لئے اس رحمت یعنی آقا علیہ کی یوم ولایت پر خوشیاں منانا جائز ہے اور اسی خوشی منانے کو عرفا ہم عید کہتے ہیں۔
اللہ کا فرمان ہے
قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ (يونس 58)
فقہ کا قاعدہ ہے اشیاء میں اصل اباحت ہے جس بابت کتاب و سنت میں ممانعت نہیں وہ جائز ہے
خزائن العرفان میں نے
جو لوگ توشہ گیارہویں میلاد شریف بزرگوں کی فاتحہ، عرس، مجالس شہادت وغیرہ کی شیرینی، سبیل کے شربت کو ممنوع کہتے ہیں، وہ اس آیت کے خلاف کرکے گنہ گار ہوتے ہیں اور اس کو ممنوع کہنا اپنی رائے کو دین میں داخل کرنا ہے اور یہی بدعت و ضلالت ہے۔ (حاشیہ خزائن العرفان، ص 248، مطبوعہ تاج کمپنی لاہور)
کیا عید میلادالنبی ﷺ کو بطور عید منانا چاہیے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
کیا عید میلادالنبی ﷺ کو بطور عید منانا چاہیے؟ ثبوت کے ساتھ شرعی حکم ارشاد فرمائیں۔
سائلہ:- نور شہر ملتان پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
یوم مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں عیدوں سے زیادہ خوشیاں منانی چاہئے البتہ یہ عرفی عید ہے
یوم عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دو عید کیا ہزاروں عیدوں قربان ۔۔
نثار تیری چہل پہل پہ ہزاروں عیدیں ربیع الاول
سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں
شب ولادت میں سب مسلماں نہ کیوں کریں جان و مال قرباں
ابو لہب جیسے سخت کافر خوشی میں جب فیض پا رہے ہیں
زمانہ بھر میں یہ قاعدہ ہے کہ جس کا کھانا اسی کا گا نا
تو نعمتیں جن کی کھارہے ہیں انہی کے ہم گیت گا رہے ہیں
جب عیدین اور جمعہ بلکہ سب سے اہم ،ایمان جو ہمیں ملا اقا علیہ السلام کی مبعوث ہونے کی وجہ سے، تو یوم میلاد یوم عید کیوں نہیں، ہم یوم عید میلاد کو عید منانا واجب تو نہیں کہتے ۔بلکہ مستحب ہے
جمعہ کے دن کو عید کا دن کہنا جائز ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے
يَوْمُ الْجُمْعَة يَوْمُ الْعِيْد۔(ترمذی ج 5 ص 250، رقم الحديث : 3043)
جمعہ کا دن عید کا دن ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنی رحمت کے حصول پر خوشیاں منانے کا حکم دیا ہے اور آقا علیہ السلام سے بڑھ کر مومن کے لئے کوئ رحمت نہیں ہے اس لئے اس رحمت یعنی آقا علیہ کی یوم ولایت پر خوشیاں منانا جائز ہے اور اسی خوشی منانے کو عرفا ہم عید کہتے ہیں۔
اللہ کا فرمان ہے
قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ (يونس 58)
فقہ کا قاعدہ ہے اشیاء میں اصل اباحت ہے جس بابت کتاب و سنت میں ممانعت نہیں وہ جائز ہے
خزائن العرفان میں نے
جو لوگ توشہ گیارہویں میلاد شریف بزرگوں کی فاتحہ، عرس، مجالس شہادت وغیرہ کی شیرینی، سبیل کے شربت کو ممنوع کہتے ہیں، وہ اس آیت کے خلاف کرکے گنہ گار ہوتے ہیں اور اس کو ممنوع کہنا اپنی رائے کو دین میں داخل کرنا ہے اور یہی بدعت و ضلالت ہے۔ (حاشیہ خزائن العرفان، ص 248، مطبوعہ تاج کمپنی لاہور)
صاحب بہار شریعت فرماتے ہیں
اَلأصْلُ فِی الأشْیَاءِ الإبَاحَۃُ یعنی ہر چیز اصل میں مباح و جائز ہے۔ یہ اصل حضرت امام شافعی اور احناف میں حضرت امام کرخی کے نزدیک ہے متاخرین احناف نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضاعلیہ الرحمۃ والرضوان بھی اس کو سند لائے ہیں دلیل اس کی یہ ہے کہ ﷲ عزوجل نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاۗ- ﷲ ہی نے تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے پیدا فرمایا
لہٰذا ہر چیز مباح اور جائز ہے جب تک اس کے عدم جواز یا تحریم پر کوئی دوسرا حکم نہ ہو صاحبِ ہدایہ علیہ الرحمہ کا بھی یہی مسلک ہے۔حدیث شریف میں ہے: اَلْحَلالُ مَا أحَلَّ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ وَالْحَرَامُ مَاحَرَّمَ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ وَمَاسَکَتَ عَنْہُ فَھُوَ مِمَّا عَفَا عَنْہُ حلال وہ ہے جو ﷲ عزوجل نے اپنی کتاب میں حلال فرمادیا اور حرام وہ ہے جواﷲ عزوجل نے اپنی کتاب میں حرام فرمادیا اور جن چیزوں سے سکوت اختیار فرمایا وہ معاف ہیں۔
اَلأصْلُ فِی الأشْیَاءِ الإبَاحَۃُ یعنی ہر چیز اصل میں مباح و جائز ہے۔ یہ اصل حضرت امام شافعی اور احناف میں حضرت امام کرخی کے نزدیک ہے متاخرین احناف نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضاعلیہ الرحمۃ والرضوان بھی اس کو سند لائے ہیں دلیل اس کی یہ ہے کہ ﷲ عزوجل نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاۗ- ﷲ ہی نے تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے پیدا فرمایا
لہٰذا ہر چیز مباح اور جائز ہے جب تک اس کے عدم جواز یا تحریم پر کوئی دوسرا حکم نہ ہو صاحبِ ہدایہ علیہ الرحمہ کا بھی یہی مسلک ہے۔حدیث شریف میں ہے: اَلْحَلالُ مَا أحَلَّ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ وَالْحَرَامُ مَاحَرَّمَ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ وَمَاسَکَتَ عَنْہُ فَھُوَ مِمَّا عَفَا عَنْہُ حلال وہ ہے جو ﷲ عزوجل نے اپنی کتاب میں حلال فرمادیا اور حرام وہ ہے جواﷲ عزوجل نے اپنی کتاب میں حرام فرمادیا اور جن چیزوں سے سکوت اختیار فرمایا وہ معاف ہیں۔
(بهار ح ١٩ ص ١٠٧٧ مكتبة المدينة)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
28/09/2023
28/09/2023