(سوال نمبر 4570)
کافر کس کو کہتے ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
کفر کی پہچان کیا ہے کفر کا مطلب کیا ہے؟ کافر کس کو کہتے ہے؟ اور کیا ہم کافر سے تعلق رکھ سکتے ہے؟علمائے کرام قران و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- حافظ محمد نوشاد چشتی سیتا مڑھی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
وہ شخص جو دل سے ایمان کو تسلیم کرے اور نہ زبان سے خدا کی وحدانیت اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرے اسے کافر کہتے ہیں۔
کافر سے دنیاوی تعلق اور دنیاوی معاملات رکھ سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ شرک توحید کی ضد ہے اور عقیدہ توحید کے بابت بہار شریعت میں ہے
ﷲ۔عزوجل ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں نہ ذات میں نہ صفات میں نہ افعال میں نہ احکام میں نہ اسماء میں۔(بہار شریعت ح ١ ص ۴)
اور شرک کی وضاحت نیز کفر وشرک کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں
شرک کے معنی غیرِ خدا کو واجبُ الوجود یا مستحقِ عبادت جاننا، یعنی اُلوہیت میں دوسرے کو شریک کرنا، اور یہ کفر کی سب سے بدتر قسم ہے اس کے سوا کوئی بات اگرچہ کیسی ہی شدید کفر ہو حقیقۃً شرک نہیں ،ولہٰذا شرعِ مطہّر نے اہلِ کتاب کفّار کے احکام مشرکین کے احکام سے جدا فرمائے، کتابی کا ذبیحہ حلال، مشرک کا مُردار، کتابیہ سے نکاح ہو سکتا ہے، مشرکہ سے نہیں ہوسکتا، امام شافعی کے نزدیک کتابی سے جزیہ لیا جائے گا، مشرک سے نہ لیا جائے گا
اور کبھی شرک بول کر مطلق کفر مراد لیا جاتا ہے یہ جو قرآنِ عظیم میں فرمایا: کہ شرک نہ بخشا جائے گا وہ اسی معنی پر ہے یعنی اَصلاً کسی کفر کی مغفرت نہ ہوگی باقی سب گناہ ﷲ عزوجل کی مشیت پر ہیں جسے چاہے بخش دے۔
کافر کس کو کہتے ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
کفر کی پہچان کیا ہے کفر کا مطلب کیا ہے؟ کافر کس کو کہتے ہے؟ اور کیا ہم کافر سے تعلق رکھ سکتے ہے؟علمائے کرام قران و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- حافظ محمد نوشاد چشتی سیتا مڑھی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
وہ شخص جو دل سے ایمان کو تسلیم کرے اور نہ زبان سے خدا کی وحدانیت اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرے اسے کافر کہتے ہیں۔
کافر سے دنیاوی تعلق اور دنیاوی معاملات رکھ سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ شرک توحید کی ضد ہے اور عقیدہ توحید کے بابت بہار شریعت میں ہے
ﷲ۔عزوجل ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں نہ ذات میں نہ صفات میں نہ افعال میں نہ احکام میں نہ اسماء میں۔(بہار شریعت ح ١ ص ۴)
اور شرک کی وضاحت نیز کفر وشرک کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں
شرک کے معنی غیرِ خدا کو واجبُ الوجود یا مستحقِ عبادت جاننا، یعنی اُلوہیت میں دوسرے کو شریک کرنا، اور یہ کفر کی سب سے بدتر قسم ہے اس کے سوا کوئی بات اگرچہ کیسی ہی شدید کفر ہو حقیقۃً شرک نہیں ،ولہٰذا شرعِ مطہّر نے اہلِ کتاب کفّار کے احکام مشرکین کے احکام سے جدا فرمائے، کتابی کا ذبیحہ حلال، مشرک کا مُردار، کتابیہ سے نکاح ہو سکتا ہے، مشرکہ سے نہیں ہوسکتا، امام شافعی کے نزدیک کتابی سے جزیہ لیا جائے گا، مشرک سے نہ لیا جائے گا
اور کبھی شرک بول کر مطلق کفر مراد لیا جاتا ہے یہ جو قرآنِ عظیم میں فرمایا: کہ شرک نہ بخشا جائے گا وہ اسی معنی پر ہے یعنی اَصلاً کسی کفر کی مغفرت نہ ہوگی باقی سب گناہ ﷲ عزوجل کی مشیت پر ہیں جسے چاہے بخش دے۔
(بہار شریعت ح ١ ص١٨۵ ، ١٨٦)
مذکورہ بالا بیانوں سے واضح ہے کہ شرک خاص ہے اور کفر عام ہے کیوں کہ کفر کسی بھی ایسی چیز کے تکذیب وانکار کو کہتے ہیں جس کا دین سے ہونا ہر خاص وعام مسلمان پر روشن ہو، اسی لیے نماز، روزہ کی فرضیت کا انکار کفر ہے مگر شرک نہیں
لیکن کہیں شرک بول کر وہی کفر کا معنی مراد لیا جاتاہے اور کفر ہو یا شرک یہ دونوں ایسے سنگین جرم ہیں جو پروردگار کے یہاں ناقابلِ معافی ہیں۔
واضح رہے کہ کفر وشرک سے روزآنہ احتیاطاً توبہ کرنا ایک بہت ہی پسندیدہ اور محمود عمل ہے، نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو شرک سے توبہ کرتے رہنے کی تعلیم وتلقین فرمائی ہے
بہار شریعت میں ہے
کفر و شرک سے بدتر کوئی گناہ نہیں اور وہ بھی ارتداد کہ یہ کفر اصلی سے بھی باعتبار احکام سخت ترہے جیسا کہ اس کے احکام سے معلوم ہوگا۔ مسلمان کو چاہیے کہ اس سے پناہ مانگتا رہے کہ شیطان ہر وقت ایمان کی گھات میں ہے اور حدیث میں فرمایا کہ شیطان انسان کے بدن میں خون کی طرح تیرتا ہے آدمی کو کبھی اپنے اوپر یا اپنی طاعت واعمال پر بھروسا نہ چاہیے ہر وقت خدا پر اعتماد کرے اور اسی سے بقائے ایمان کی دعا چاہے کہ اسی کے ہاتھ میں قلب ہے اور قلب کو قلب اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ لَوٹ پَوٹ ہوتا رہتا ہے ۔
ایمان پر ثابت رہنا اسی کی توفیق سے ہے جس کے دستِ قدرت میں قلب ہے اور حدیث میں فرمایا کہ شرک سے بچو کہ وہ چیونٹی کی چال سے زیادہ مخفی ہے۔ اور اس سے بچنے کی حدیث میں ایک دعا ارشاد فرمائی اسے ہر روز تین مرتبہ پڑھ لیا کرو، حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ شرک سے محفوظ رہوگے وہ دعا یہ ہے
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَیْئًا وَّاَنَا اَعْلَمُ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا اَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ۔(بہار شریعت ح٩ ص۴۵٧ ، ۴۵٨ بحوالہ مسائلورلڈ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
مذکورہ بالا بیانوں سے واضح ہے کہ شرک خاص ہے اور کفر عام ہے کیوں کہ کفر کسی بھی ایسی چیز کے تکذیب وانکار کو کہتے ہیں جس کا دین سے ہونا ہر خاص وعام مسلمان پر روشن ہو، اسی لیے نماز، روزہ کی فرضیت کا انکار کفر ہے مگر شرک نہیں
لیکن کہیں شرک بول کر وہی کفر کا معنی مراد لیا جاتاہے اور کفر ہو یا شرک یہ دونوں ایسے سنگین جرم ہیں جو پروردگار کے یہاں ناقابلِ معافی ہیں۔
واضح رہے کہ کفر وشرک سے روزآنہ احتیاطاً توبہ کرنا ایک بہت ہی پسندیدہ اور محمود عمل ہے، نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو شرک سے توبہ کرتے رہنے کی تعلیم وتلقین فرمائی ہے
بہار شریعت میں ہے
کفر و شرک سے بدتر کوئی گناہ نہیں اور وہ بھی ارتداد کہ یہ کفر اصلی سے بھی باعتبار احکام سخت ترہے جیسا کہ اس کے احکام سے معلوم ہوگا۔ مسلمان کو چاہیے کہ اس سے پناہ مانگتا رہے کہ شیطان ہر وقت ایمان کی گھات میں ہے اور حدیث میں فرمایا کہ شیطان انسان کے بدن میں خون کی طرح تیرتا ہے آدمی کو کبھی اپنے اوپر یا اپنی طاعت واعمال پر بھروسا نہ چاہیے ہر وقت خدا پر اعتماد کرے اور اسی سے بقائے ایمان کی دعا چاہے کہ اسی کے ہاتھ میں قلب ہے اور قلب کو قلب اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ لَوٹ پَوٹ ہوتا رہتا ہے ۔
ایمان پر ثابت رہنا اسی کی توفیق سے ہے جس کے دستِ قدرت میں قلب ہے اور حدیث میں فرمایا کہ شرک سے بچو کہ وہ چیونٹی کی چال سے زیادہ مخفی ہے۔ اور اس سے بچنے کی حدیث میں ایک دعا ارشاد فرمائی اسے ہر روز تین مرتبہ پڑھ لیا کرو، حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ شرک سے محفوظ رہوگے وہ دعا یہ ہے
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَیْئًا وَّاَنَا اَعْلَمُ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا اَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ۔(بہار شریعت ح٩ ص۴۵٧ ، ۴۵٨ بحوالہ مسائلورلڈ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
28/09/2023
28/09/2023