Type Here to Get Search Results !

مفقود الخبر کی بیوی کتنے سال بعد دوسرا نکاح کر سکتی ہے؟

 (سوال نمبر 4718)
مفقود الخبر کی بیوی کتنے سال بعد دوسرا نکاح کر سکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر شوہر لا پتہ ہو تو عورت کو کتنے سال تک انتظار کرنا ہوگا۔ اگر مقررہ مدت تک انتظار کے بعد نکاح کر لے پھر سابقہ شوہر آجائے تو عورت کے نکا ح کا کیا حکم ہوگا۔۔؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائلہ:- بنت خادم حسین کراچی پاکستان۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عز وجل 
اس وقت تمام حنفی فقہاء کے نزدیک وقت ضرورت مفقود کی عورت کو مذہب امام مالک کے مذہب پر عمل کی رخصت ہے
انکے مذہب پر عورت ضلع کے سب سے بڑے سنی صحیح العقیدہ عالم قاضی شرع کے پاس فسخ نکاح کا دعویٰ کرے وہ قاضی دعویٰ سن کر چار سال مدت مقرر کرے اگر مفقود کی عورت نے کسی قاضی شرع پاس دعویٰ پیش نہ کیا اور بطور خود چار سال انتظار کرتی رہی تو یہ عدت حساب میں شمار نہ ہوگی بلکہ دعویٰ کے بعد چار سال مدت درکار ہے
اور اس مدت میں شوہر کی موت وزندگی معلوم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے جب مدت گذر جائے اور موت وزندگی کا حال معلوم نہ ہو تو وہ عورت اسی عالم کے پاس استغاثہ پیش کرے وہ عالم اس وقت شوہر پر موت کا حکم کرےگا پھر عورت عدت وفات گذارکر جس سنی صحیح العقیدہ سے چاہے نکاح کرسکتی ہے اس سے پہلے اسکا نکاح کسی سے ہرگز جائز نہیں۔
موطا امام مالک میں ہے ۔
 عن سعید بن المسیب ان عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنه قال أیما إمراة فقدت زوجھا فلم تدر این ھو فإنھا تنتظر اربع سنین ثم اربعة اشھر وعشرا ثم تحل. 
(موطا باب عدة التی تفتقد زوجھا وسبل السلام ج3ص207 ،208 ونیل الاوطار)
جناب سعید بن مسیب تابعی حضرت عمر بن خطاب سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جو عورت اپنے شوہر کو گم پائے اور اس کا کوئی پتہ نشان نہ ملے تو اس کو چاہیے کہ چار سال تک اس کا انتظار کرے بعد ازاں چار ماہ  دس دن عدت وفات میں بیٹھے ،پھر نکاح کرالے ۔
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں 
کہ ہمارے مذہب میں وہ نکاح نہیں کرسکتی جب تک شوہر کی عمر ستر سال گذر کر اس کی موت کا حکم نہ دیا جائے اس وقت وہ بعد عدت وفات نکاح کرسکے گی یہی مذہب امام احمد کا بھی ہے اور اسی طرف امام شافعی نے رجوع فرمائ ہے امام مالک نے چار سال مقرر فرماتے ہیں وہ اسکے گم ہونے کے دن سے نہیں بلکہ قاضی کے یہاں مرافعہ کے دن سے خود امام مالک نے مدونہ میں تصریح فرمائی ہے کہ مرافعہ سے پہلے اگر چہ بیس برس گذر چکے ہوں ان کا اعتبار نہیں۔ (فتاوی رضویہ ج 5 ۵۰۰)
اور جہاں سلطان اسلام وقاضی شرع نہ ہوں وہاں ضلع کا سب سے بڑا سنی صحیح العقیدہ عالم ہی اسکا قائم مقام ہے ۔
٢/ قاضی شرع نے فیصلہ کیا کہ چار سال کے بعد عدت وفات گزارے ہندہ نے ایسا ہی کیا پھر مفقود الزوج واپس اگئے اب مفقود الزوج کے آنے کے بعد ہندہ کا نکاح شوہر اول سے قائم اور بالیقین باقی ہے اس صورت میں شوہر ثانی کا نکاح خود بخود باطل ہوگیا اس لئے ضروری ہوگا کہ شوہر ثانی سے فی الفور الگ ہوجائے، اور اگر ہندہ کا شوہر ثانی کے ساتھ رخصتی بھی ہوگئی تھی اب شوہر اول کو اپنی بیوی سے ہمبستری اس وقت تک جائز نہیں جب تک ہندہ شوہر ثانی کی عدت پوری نہ کرلے ۔
کما فی المبسوط للسرخسی 
وأما تخييره إياه بين أن يردها عليه وبين المهر فهو بناء على مذهب عمر رضي الله عنه في المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت وتزوجت ثم أتى الزوج الأول حياً أنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر، وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي رضي الله عنه، فإنه كان يقول: ترد إلى زوجها الأول، ويفرق بينها وبين الآخر، ولها المهر بما استحل من فرجها، ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر، وبهذا كان يأخذ إبراهيم رحمه الله فيقول: قول علي رضي الله عنه أحب إلي من قول عمر رضي الله عنه، وبه نأخذ أيضاً؛ لأنه تبين أنها تزوجت وهي منكوحة، ومنكوحة الغير ليست من المحللات، بل هي من المحرمات في حق سائر الناس"
(المبسوط للسرخسي ـ موافق للمطبوع (11/ 64)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
15/10/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area