Type Here to Get Search Results !

حضور ﷺ کا رنگ بدل گیا داڑھی مبارک پر آنسو گرنے لگے مجھے سینے سے لگایا میرا ماتھا چوم کے فرمانے لگے؟


(سوال نمبر 4416)
حضور ﷺ کا رنگ بدل گیا داڑھی مبارک پر آنسو گرنے لگے مجھے سینے سے لگایا میرا ماتھا چوم کے فرمانے لگے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ الله وبركاته 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ کیا مندرجہ ذیل حدیث صحیح ہے اور کیا حالت کفر میں کی گئی نیکی بعد ایمان کام آتا ہے،؟
شرعی رہنمائی فرمائیں۔
سائلہ:- آمنہ عطاریہ شہر لاہور پاکستان 
حدیث شریف یہ ہے
حضرت صعصعہ بن ناجیہ دروازہ رسول الله ﷺ پر کلمہ پڑھنے آئے مسلمان ہونے کے بعد نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کرنے لگے یا رسول الله ﷺ ایک بات پوچھنی ہے حضور ﷺ نے فرمایا پوچھو کہنے لگے یا رسول الله ﷺ دور جاہلیت میں ہم نے جونیکیاں کی ہے اُن کا بھی الله ہمیں آجر عطا کرے گا
کیا اُسکا بھی آجر ملے گا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا تُو بتا تُو نے کیا نیکی کی تو کہنے لگے
یا رسول الله ﷺ میرے دو اونٹ گم ہوگئے میں اپنے تیسرے اونٹ پر بیٹھ کر اپنے دو اونٹوں کو ڈھونڈنے نکلا
میں اپنے اونٹوں کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے جنگل کے اُس پار نکل گیا جہاں پرانی آبادی تھی وہاں میں نے اپنے دو اونٹوں کو پا لیا ایک بوڑھا آدمی جانوروں کی نگرانی پر بیٹھا تھا اُس کو جا کر میں نے بتایا کہ
یہ دو اونٹ میرے ہیں وہ کہنے لگا یہ تو چرتے چرتے یہاں آگئے تھے تمہارے ہیں تو لے جاؤ اُنہی باتوں میں اُس نے پانی بھی منگوا لیا چند کھجوریں بھی آ گئی میں پانی پی رہا تھا کھجوریں بھی کھا رہا تھا کہ ایک بچے کے رونے کی آواز آئی تو بوڑھا پوچھنے لگا
بتاؤ بیٹی آئی کہ بیٹا
میں نے پوچھا بیٹی ہوئی تو کیا کرو گے کہنے لگا اگر بیٹا ہوا تو قبیلے کی شان بڑھائے گا اگر بیٹی ہوئی تو ابھی یہاں اُسے زندہ دفن کرا دوں گا اِس لیئے کہ
میں اپنی گردن اپنے داماد کے سامنے جھکا نہیں سکتا میں بیٹی کی پیدائش پر آنے والی مصیبت برداشت نہیں کر سکتابمیں ابھی دفن کرا دوں گا حضرت صعصعہ بن ناجیہ ؓ فرمانے لگے یا رسول الله ﷺ یہ بات سن کے میرا دل نرم ہوگیا
میں نے اُسے کہا پھر پتہ کرو بیٹی ہے کہ بیٹا ہے اُس نے معلوم کیا تو پتہ چلا
کہ بیٹی آئی ہے میں نے کہا کیا واقعی تو دفن کرے گا کہنے لگا ہاں ! میں نے کہا دفن نہ کر مجھے دے دے میں لے جاتا ہوں یا رسول اللّٰه ﷺ وہ مجھے کہنے لگا
اگر میں بچی تم کو دے دوں تو تم کیا دو گے میں نے کہا
تم میرے دو اونٹ رکھ لو بچی دے دو کہنے لگا نہیں دو نہیں یہ جس اونٹ پہ تو بیٹھ کے
آیا ہے یہ بھی لے لیں گےحضرت صعصعہ بن ناجیہ ؓ عرض کرنے لگے ایک آدمی میرے ساتھ گھر بھیجو یہ مجھے گھر چھوڑ آئے میں یہ اونٹ اُسے واپس دےدیتا ہوں
یا رسول اللّٰه ﷺ میں نے تین اونٹ دے کر ایک بچی لے لی
اُس بچی کو لا کے میں نے اپنی کنیز کو دیا نوکرانی اُسے دودھ پلاتی یا رسول الله ﷺ وہ بچی میرے داڑھی کے بالوں سے کھیلتی
وہ میرے سینے سے لگتی حضور ﷺ پھر مجھے نیکی کا چسکا لگ گیا پھر میں ڈھونڈنے لگا کہ کون کون سا قبیلہ بچیاں دفن کرتا ہے یا رسول الله ﷺنمیں تین اونٹ دے کے بچی لایا کرتابیا رسول الله ﷺ میں نے 360 بچیوں کی جان بچائی ہے میری حویلی میں تین سو ساٹھ بچیاں پلتی ہیں حضور ﷺ مجھے بتائیں میرا مالک مجھے اِس کا اجر دے گا ؟ کہتے ہے حضور ﷺ کا رنگ بدل گیا داڑھی مبارک پر آنسو گرنے لگے مجھے سینے سے لگایا
میرا ماتھا چوم کے فرمانے لگے یہ تو تجھے اجر ہی تو ملا ہے رب نے تجھے دولتِ ایمان عطا کر دی ہے نبی کریم ﷺ فرمانے لگے یہ تیرا دنیا کا اجر ہے اور تیرے رسولﷺ کا وعدہ ہے قیامت کے دن رب کریم تمہیں خزانے کھول کے دے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

ہاں مذکورہ حدیث صحیح ہے اور کئی کتب حدیث میں مختلف طرق سے مروی ہے الطبرانئ مسند ابی یعنی حاکم المستدرک مجمع الزوائد امام ذہبی ابن حجر عسقلانی التاریخ الکبیر للبخاری ابن ابی عاصم ان تمام نے مذکورہ حدیث کو اپنی کتب حدیث میں جمع کیا ہے 
اس حدیث کے ایک راوی طفیل بن عمرو التمیمی پر محدثین کا مختلف کلام ہے جس کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے تاہم چونکہ یہ ضعف شدید نہیں ہے اس لیے ضعف کی صراحت کے ساتھ اس واقعے کو بیان کیا جا سکتا ہے
نیز سوال میں یہ واقعہ ادھورا بیان کیا گیا ہے، ذیل میں اس حدیث کا مکمل ترجمہ اور اسنادی حیثیت ذکر کی جاتی ہے
حضرت صعصعۃ بن ناجیہ المجاشعی رضی اللہ عنہ جو کہ (مشہور شاعر) فرزدق بن غالب بن صعصۃ کے جد امجد ہیں، ان کا بیان ہے کہ میں آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے مجھے اسلام کى دعوت دى، میں اسلام لے آیا اور مجھے قرآن کریم میں سے کچھ آیات سکھائیں، پھر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے زمانہ جاہلیت میں کچھ (نیک) کام کیے ہیں، کیا مجھے ان پر اجر ملے گا؟ آپ نے فرمایا: وہ کونسے (نیک) کام ہیں؟ میں نے عرض کیا: میرى دس ماہ کى دو گابھن اونٹنیاں گم ہو گئیں، چنانچہ میں اپنے ایک اونٹ پر سوار ہو کر ان کى تلاش میں نکل پڑا، اس دوران مجھے ایک کھلے میدان میں دو کمرے نظر آئے، میں ان کى طرف بڑھ گیا، اُن دو کمروں میں سے ایک کمرے میں ایک عمر رسیدہ بوڑھا شخص ملا تو میں نے ان سے کہا: کیا آپ نے دو گابھن اونٹنیاں دیکھى ہیں؟ اس کے جواب میں اس بوڑھے شخص نے کہا: ان دو اونٹنیوں کى نشانیاں کیا ہیں؟ میں نے کہا ان پر "بنی دارم" (بنو دارم حضرت صعصعۃ رضی اللّٰہ عنہ کے قبیلے کا نام ہے) کى علامت لگى ہوئى ہے، اس پر اس نے کہا: ہمیں آپ کى دونوں اونٹنیاں ملى ہیں، ہم نے ان کے بچے جنوائے اور ان کى دیکھ بھال کى (یعنی وہ گابھن تھیں، ان کے بچوں کى ولادت کے وقت اور اس کے بعد ان کى دیکھ بھال ہم نے کى ہے) اور اللہ تعالى نے ان کے ذریعے تمہارى قوم (عرب) کے قبیلہ مضر کے ایک گھر کو خوشحال کر دیا ہے، وہ بوڑھا شخص مجھ سے محو گفتگو تھا، اسى دوران ایک عورت نے دوسرے کمرے سے آواز دى: بچہ جَنْنے والی نے بچہ جَنْ دیا ہے (جس عورت کے ہاں بچے کی ولادت ہونی تھی، اس کے ہاں بچے کى ولادت ہوئى ہے) یہ سن کر اس بوڑھے نے کہا: کیا جَنا ہے؟ اگر لڑکا جَنا ہے تو وہ ہمارے ساتھ ہمارى قوم میں شریک ہوگا اور اگر لڑکى ہوئى تو اس کو دفن کر دو، اس کے جواب میں اس عورت نے کہا: لڑکى ہے۔ میں نے کہا: یہ زندہ درگور ہونے والى بچى کون ہے؟ اس بوڑھے نے کہا: میرى بیٹى ہے۔ میں نے کہا: میں تم سے اس بچى کو خرید لیتا ہوں۔ اس بوڑھے نے کہا: اے تمیمى! کیا تم مجھ سے یہ کہنا چاہتے ہو: کیا تم مجھے اپنى لڑکى بیچو گے؟ حالانکہ میں نے تمہیں بتلا دیا ہے کہ میں عرب کے قبیلہ مضر کا آدمى ہوں (گویا یہ ہمارى شان کے خلاف ہے کہ ہم اپنى لڑکى کو بیچ دیں) تب میں نے کہا: میں تم سے تمہارى لڑکى کو بطورِ ملکیت نہیں خرید رہا ہوں، بلکہ میں تو صرف اس کى روح خرید رہا ہوں کہ تم اس کو قتل نہ کرو۔ اس بوڑھے نے کہا: تم کتنى قیمت میں خریدو گے؟ میں نے کہا: میں اپنى ان دو اونٹنیوں اور ان کے دونوں بچوں کے عوض اس بچى کى روح کو خریدتا ہوں، اس بوڑھے نے کہا: کیا تم اپنے اس اونٹ کو بھى قیمت میں شامل کرو گے؟ میں کہا: ٹھیک ہے (میں اس اونٹ کو بھی قیمت میں شامل کر دوں گا) اس شرط پر کہ تم اپنا ایک قاصد میرے ساتھ بھیجو، جب میں اپنے گھر پہنچ جاوں گا تو تمہارا یہ اونٹ تمہیں لوٹا دوں گا، اس نے ایسا ہى کیا، پس جب میں اپنے گھر والوں کے پاس پہنچ گیا تو میں نے اس کا اونٹ واپس لوٹا دیا، جب رات کا کچھ حصہ گذر گیا تو میں نے اپنے جى ہی جی میں سوچا: یہ کام تو بھلائى کا بہت بڑا کارنامہ ہے، مجھ سے پہلے عرب کے کسى شخص نے ایسا خیر کا کارنامہ سرانجام نہیں دیا ہے، (پھر میں لگا تار اس خیر کے کام میں لگا رہا) چنانچہ اسلام کے ظاہر ہونے تک میں نے 360 بچیوں کى جان بچائى، ہر ایک بچى کو دو گابھن اونٹیوں اور ایک اونٹ کے بدلے میں خریدتا تھا تو کیا میرے اس خیر کے کام پر کوئى اجر ہے؟ اس پر آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "تمهیں اس نیک عمل کا ثواب ملے گا، کیونکہ تم پر اللہ تعالى نے اسلام کى دولت سے اپنا فضل فرما دیا ہے" (اسلام لانے کے بعد اسلام سے پہلے کے نیک اعمال کا ثواب ملے گا) عَبَّاد (راوی حدیث) کہتے ہیں: حضرت صعصعہ رضی اللہ عنہ کے قول کا مصداق فرزدق شاعر كا یہ شعر ہے، (ترجمہ شعر): اور میرا دادا وہ شخص ہے جس نے زندہ درگور کرنے والیوں کو اس (بھیانک) عمل سے روکا، پس اس نے زندہ درگور ہونے والى (عورت) کو زندگى دلائى، سو پھر اس کے بعد اسے (عورت) کو زندہ دفن نہیں کیا گیا۔
(المعجم الکبیر للطبرانی: حدیث نمبر: 7412)
تخریج الحدیث:
١/ امام بخارى رحمہ اللہ (م 256 ھ) 
نے اس حدیث کو اپنی کتاب "التاریخ الکبیر4/ 319 ، ترجمۃ صعصعۃ بن ناجیۃ المجاشعی، ط: دائرة المعارف العثمانية، حيدر آباد الدكن، میں مختصرا نقل فرمایا ہے۔
٢/ ابن ابی عاصم رحمہ اللہ (م 287 ھ) نے الآحاد والمثانی 2/ 403، رقم الحدیث (1199)، ط: دار الرایۃ-الریاض
میں اس حدیث کو نقل فرمایا ہے، اس کے آخر میں یہ الفاظ ہیں آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "یہ کام تو نیکى کا ایک دروازہ اور آپ اس کا اجر ملے گا کونکہ اللہ تعالى نے آپ کو اسلام کى دولت سے نوازا ہے
٣/ امام بزار رحمہ اللہ (م 292 ھ) نے مسند البزار بحوالہ کشف الأستار 1/ 55، رقم الحدیث (72) كتاب الإيمان/ باب فيمن عمل خيرا قبل أن يسلم، میں اس حدیث کو نقل فرمایا ہے۔
٤/ امام ابو یعلى رحمہ اللہ (م 307 ھ) نے مسند ابی یعلى بحوالہ لسان المیزان 4/ 353 ، ط: مکتب المطبوعات الإسلامیۃ، میں طفیل بن عمرو التمیمی کے تذکرے میں نقل فرمایا ہے۔
٥/ امام حاكم رحمه الله (م 405 ھ)
 نے "المستدرک على الصحیحین" 3/ 707 رقم الحدیث (6562) کتاب معرفة الصحابة/ ذكر صعصعة بن ناجية المجاشعي رضي الله عنه، ط: دار الكتب العلمية، میں نقل فرمایا ہے، اس کے اندر آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بھى ہیں: تمہارے اس نیک عمل کا اجر مکمل ہو گیا ہے، کیونکہ اللہ تعالى نے تمہیں اسلام کى دولت سے نوازا ہے"۔
حدیث کى اسنادی حیثیت:
١/ اس حدیث کو علامہ ہیثمی رحمہ اللہ (م 807 ھ) نے "مجمع الزوائد" 1/ 276 ، رقم الحدیث (338) کتاب الإیمان/ باب فيمن عمل خيرا ثم اسلم، ط: دار الفکر، میں امام طبرنی اور امام بزار رحمہما اللہ کے حوالے سے نقل کر کے فرمایا ہے: اس حدیث کى سند میں "طفیل بن عمرو التمیمی" ہیں، ان کے متعلق امام بخارى رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ان کى حدیث "صحیح" نہیں ہے اور امام عقیلی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ان کى حدیث کى متابعت نہیں کى جاتى ہے، یعنى یہ روایت کرنے میں منفرد ہیں۔
٢/ تاہم امام حاکم رحمہ اللہ (م 405 ھ) نے "مستدرک حاکم" میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد اس پر سکوت فرمایا ہے، نیز امام ذہبی رحمہ اللہ (م 748 ھ) نے بھی "تلخیص المستدرک" میں اس حدیث پر سکوت فرمایا ہے۔
٣/ مزید یہ کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (م 852 ھ) نے "لسان المیزان" 4/ 353 میں "طفیل بن عمرو التمیمی کے تذکرے میں فرمایا ہے: طفیل کو امام ابن حبان رحمہ اللہ نے "الثقات" میں نقل فرمایا ہے۔گویا حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کے نزدیک طفیل بن عمرو ضعیف راوى نہیں ہیں۔
خلاصہ اس حدیث کے راوی طفیل بن عمرو پر محدثین کا کلام ہے، بعض محدثین نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے اور بعض محدثین نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے، مختلف فیہ ہونے کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے، تاہم چونکہ اس حدیث کا ضعف شدید نہیں ہے، اس لیے اس حدیث کو ضعف کی صراحت کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے اب اتنے محدثین کے قبول کرنے سے ضعف ختم ہوگئی 
المعجم الكبير (رقم الحديث: 7412، 76/8، ط: مكتبة الرشد)
حدثنا محمد بن زكريا الغلابي ، حدثنا العلاء بن الفضل وحدثني أبو أمية سلم بن عصام الأصبهاني الثقفي ، حدثنا العباس بن الفرج الرياشي ، حدثنا العلاء بن الفضل بن عبد الملك ، حدثنا عباد بن كسيب أبو الحساب العنبري ، حدثنا طفيل بن عمرو الربعي ربيعة بن مالك بن حنظلة إخوة عجيف ، عن صعصعة بن ناجية المجاشعي ، وهو جد الفرزدق بن غالب بن صعصعة قال : قدمت على النبي صلى الله عليه وسلم ، فعرض علي الإسلام فأسلمت ، وعلمني آيا من القرآن فقلت : يا رسول الله ، إني عملت أعمالا في الجاهلية ، فهل لي فيها أجر ؟ قال : "وما عملت؟" فقلت : إني ضلت ناقتان لي عشراوان ، فخرجت أبتغيها على جمل لي ، فرفع لي بيتان في فضاء من الأرض ، فقصدت قصدهما ، فوجدت في أحدهما شيخا كبيرا ، فقلت : هل احتسستم ناقتين عشراوين ؟ قال : ما ناراهما ؟ قلت : ميسم ابن دارم ، قال : قد أصبنا ناقتيك ، ونتجناهما وطارناهما ، وقد نعش الله بهما أهل بيت من قومك من العرب من مضر ، فبينما هو يخاطبني إذ نادت امرأة من البيت الآخر ، ولدت ممن ولدت ، قال : قال : وما ولدت إن كان غلاما ، فقد شركنا في قومنا ، وإن كانت جارية فأدفناها ، فقالت : جارية ، فقلت : وما هذه الموؤدة ؟ قال : ابنة لي . فقلت : إني أشتريها منك قال : يا أخا بني تميم ، أتقول أتبيع ابنتك ؟ وقد أخبرتك أني رجل من العرب من مضر ؟ فقلت : إني لا أشتري منك رقبتها ، إنما أشتري روحها أن لا تقتلها . قال : بم تشتريها ؟ قلت : ناقتي هاتين وولديهما . قال : وتزيدني بعيرك هذا ؟ قلت : نعم ، على أن ترسل معي رسولا ، فإذا بلغت إلى أهلي رددت إليك البعير ففعل ، فلما بلغت أهلي رددت إليه البعير ، فلما كان في بعض الليل فكرت في نفسي إن هذه لمكرمة ، ما سبقني إليها أحد من العرب ، وظهر الإسلام ، وقد أحييت ثلاثمئة وستين من الموؤدة أشتري كل واحدة منهن بناقتين عشراوين وجمل ، فهل لي في ذلك من أجر ؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم : "لك أجره إذ من الله عليك بالإسلام". قال عبادة : ومصداق قول صعصعة قول الفرزدق :وجدي الذي منع الوائدات ... فأحيى الوئيد ، فلم يوأد. والحديث أورده الهيثمي في المجمع 1/ 276 (338) كتاب الإيمان/ باب فيمن عمل خيرا ثم أسلم، وقال: رواه الطبراني في الكبير، والبزار، وفيه الطفيل بن عمرو التميمي، قال البخاري: لا يصح حديثه. وقال العقيلي: لا يتابع عليه.
وقال الحافظ في "لسان الميزان" 4/ 353 في ترجمة الطفيل بن عمرو التميمي، ط: مكتب المطبوعات الإسلامية: والطفيل قد ذكره ابن حبان في "الثقات".
التاريخ الكبير للبخاري: (ترجمة صعصعة بن ناجية، المجاشعي جد الفرزدق، 319/4، ط: دائرة المعارف العثمانية)
مختصرا، بدون ذكر القصة، وقال: فيه نظر.
الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم: (رقم الحديث: 1199، 403/2، ط: دار الراية - الرياض)
وفي آخره: "هذا باب من البر ولك أجره، إذ من الله عز وجل عليك بالإسلام"...الخ.
مسند البزار كما في كشف الأستار عن زوائد البزار: (كتاب الإيمان، باب فيمن عمل خيرا قبل أن يسلم، رقم الحديث: 72، 55/1، ط: مؤسسة الرسالة)
وفي آخره: فقال: "أسلمت على ما فرض لك من أجر، أو قال: "هذا باب من الخير".
المستدرك على الصحيحين للحاكم: (كتاب معرفة الصحابة رضي الله عنهم، ذكر صعصعة بن ناجية المجاشعي رضي الله عنه، رقم الحديث: 6562، 707/3، ط: دار الكتب العلمية)
وفيه تم لك أجره إذ من الله۔
وسكت عنه الحاكم والذهبي.
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
14/09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area