حضرت علی بن شیبان رضی ﷲ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ شریف میں رسول کریم ، رؤف رحیم صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ عَلَیْہِ السَّلام عصر کی نماز میں تاخیر فرماتے تھے جب تک سورج صاف اور روشن رہتا ۔
شرح الحدیث :-
اس کو ابوداؤد نے روایت کیا اور اس پر سکوت فرمایا۔ابوداؤد جس حدیث پر سکوت فرماتے ہیں وہ ان کے نزدیک حسن ہوتی ہے ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز عصر کو تاخیر سے پڑھنا مستحب ہے ۔اور تاخیر کی حد بھی معلوم ہوگئی کہ سورج کے زرد ہونے سے پہلے پڑھے جبکہ آفتاب صاف اور روشن ہو۔ اتنی تاخیر نہ کرے کہ وقت مکروہ ہوجائے۔
اسی کی تائید میں وہ حدیث ہے
جو امام احمد وترمذی نے بسند صحیح اُمِّ سَلَمَہْ رضی ﷲ عنہا سے روایت کیا ہے ۔وہ فرماتی ہیں کہ جناب رسول کریم صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم نماز ظہر کو تم سے جلدی پڑھتے تھے اور تم نماز عصر جناب رسول کریم صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے جلدی پڑھتے ہو
(جامع الترمذی ابواب الصلوۃ ۱ / ۲۳)
۔ معلوم ہوا کہ نماز عصر میں تاخیر کرنا مستحب ہے ۔ رسول کریم صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّمکا یہی طریقہ تھا اور یہی امام اعظم رَحْمَۃُ ﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا مذہب ہے ۔
عبد الرزاق اپنی مُصَنَّفْ میں ثَوْرِیْ سے وہ ابو اسحاق سے وہ عبدالرحمن بن یزید سے روایت کرتے ہیں کہ عبد ﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ عصر کی نماز میں تاخیر کیا کرتے تھے۔ (مصنف عبدالرزاق ۱؍۳۰۶۔)
اسی طرح عبد الواحد بن نافع کہتے ہیں کہ میں مسجد مدینہ عَلٰی صَاحِبِھَا الصَّلٰوۃُ وَ السَّلاَمُ میں داخل ہوا تو مؤذِّن نے نماز عصر کے لئے اذان دی ایک بزرگ بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے مؤذِّن کو ملامت کی اور فرمایاکہ میرے باپ نے مجھے خبردی ہے کہ رسول کریم صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم. نماز عصر کی تاخیر کا حکم دیا کرتے تھے میں نے پوچھا کہ یہ بزرگ کون ہیں لوگوں نے کہا یہ عبد اﷲ بن رافع بن خدیج ہیں ۔اس حدیث کو دارقطنی اور بیہقی نے روایت کیا ۔ (صحیح بہاری جلد ۲ ص ۳۵۹)
معلوم ہوا کہ نماز عصر میں تاخیر مستحب ہے اور جن حدیثوں میں عصر کا سویرے (جلدی)پڑھنا آیا ہے وہ ان احادیث کے منافی نہیں کیونکہ سورج کے تَغَیُّر سے پہلے عصر پڑھ لینے سے غروب تکنَحْرٌ طَبْخٌ اَکْلٌ(ذبح کرنا‘ پکانااور کھانا)سب کچھ ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ اہل بادیہ (دیہاتی)یہ سب کا م جلدی کرلیتے ہیں
مآخذ مراجع :،اربعین حنفیہ ،جاء الحق ،غیر مقلدین کا احادیث صحیحین سے انحراف