Type Here to Get Search Results !

درس حدیث قسط نمبر 3


•┈┈┈┈•••✦✦•••┈┈┈┈•
(درس حدیث 03)
عَنْ أَبِيْ ذَرٍّ رَضِیَ ﷲُ عَنْہُ قَالَ کُنَّا مَعَ الْنَّبِي صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فَأَرَادَ الْمُؤَذِّنُ أَنْ یُؤَذِّنَ فَقَالَ لَہ ‘ اَبْرِدْ ثُمَّ اَرَادَ اَنْ یُّؤَذِّنَ فَقَالَ لَہ ‘ اَبْرِدْ ثُمَّ اَرَادَ أنْ یُّؤَذِّنَ فَقَالَ لَہ ‘ اَبْرِدْ حَتّٰی سَاوَی الْظِّلُّ التَّلُوْلَ فَقَال الْنَّبِيُّ صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم إِنَّ شِدَّۃَ الْحَرِّ مِنْ فَیْحِ جَھَنَّمَ ۔رَوَاہٗ الْبُخَارِيُّ. (صحیح البخاری ۱/۸۷ باب الاذان‘الصحیح لمسلم باب استحباب الابراد بالظہر ۱/۴۳)
ترجمۃ الحدیث:
حضرت سیدنا ابو ذر غفاری رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول کریم صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے ہمراہ سفر میں تھے ۔مؤذن نے اذان دینے کا ارادہ کیا تو آپ صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ٹھنڈا کرو یعنی وقت ٹھنڈا ہونے دو ۔اس نے پھر تھوڑی دیر کے بعد اذان دینے کاارادہ کیا تو آپ صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ٹھنڈا ہونے دو۔ اس نے پھر تھوڑی دیر کے بعد اذان کا ارادہ کیا تو آپ صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا اور ٹھنڈا ہونے دو ۔یہاں تک کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہوگیا۔پھر آپ صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ گرمی کی شدت دوزخ کے جوش سے ہوتی ہے۔
شرح الحدیث:
 اس کوامام بخاری نے روایت کیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ظہر کا وقت ایک مثل کے بعد بھی رہتا ہے ۔ کیونکہ یہ امر مشاہدہ سے معلوم ہے کہ ٹیلوں کا سایہ بہت دیر سے ظاہر ہوتا ہے کیونکہ ٹیلے اشیا منبسطہ(پھیلی ہوئی اشیاء) میں سے ہیں۔ یعنی مٹی یا ریت کے اونچے ڈھیر کو ٹیلہ کہتے ہیں ۔ اس کا سایہ جب ایک مثل ہو جیسا کہ حدیث مذکور میں آیا ہے تو اشیا منتصبہ(نصب کی جانے والی اشیاء) لکڑی وغیرہ جو کھڑی کی جائے اس کا سایہ مثل سے زیادہ ہوتا ہے اور حدیثِ مذکور میں صاف تصریح ہے کہ ظہر کی اذان اس وقت ہوئی جب کہ ٹیلوں کا سایہ ان کے برابر ہوگیا۔ تو یہ اذان کھڑی چیزوں کے سایہ کے ایک مثل کے بعد میں ہوئی۔ تو ثابت ہوا کہ ظہر کا وقت ایک مثل کے بعد تک باقی رہتا ہے۔ علاوہ اس کے اذان تو ایک مثل کے بعد ہوئی اور اذان اور نماز میں ایک معتدبہ فصل(عادت کے مطابق وقفہ یا فاصلہ)ہوتا ہے ۔تو نماز کا ایک مثل کے بعد ہونا اور بھی ظاہر ہوگا۔ یہی مذہب ہے حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃُ ﷲ علیہ کا کہ نمازِ ظہر کا وقت دو مثل تک باقی رہتا ہے ۔  
اسی کی تائید میں وہ حدیث ہے جو کہ امام بخاری علیہ الرحمۃ نے عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے روایت کی ہے۔ انہوں نے رسول کریم صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے سنا فرماتے تھے کہ تمہاری عمر، ان لوگوں کی عمر کے مقابلہ میں جو تم سے پہلے تھے ایسی ہے جیسے کہ عصر کی نماز سے غروب شمس تک۔ اہل تورات کو تورات شریف ملی۔ انہوں نے کام کیا جب آدھا دن ہو گیا تو وہ عاجز آگئے یعنی تھک گئے تو ان کو ایک ایک قیراط دیا گیا۔پھر اہل انجیل کو انجیل شریف ملی تو انہوں نے عصر تک کام کیا پھر عاجز ہو کر رہ گئے تو ان کو بھی ایک ایک قیراط ملا پھر ہمیں قرآن دیا گیا تو ہم نے غروب آفتاب تک کام کیا تو ہمیں دو دو قیراط عطا ہوئے اس پر ان دونوں اہل کتاب (یہودو نصاریٰ) نے کہا کہ اے خدا تو نے ان کو دو دو قیراط دیئے اور ہمیں ایک ایک قیراط دیا حالانکہ ہم کام میں ان سے بڑھے ہوئے ہیں ۔ تو ﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا میں نے تمہاری مزدوری میں سے کچھ نقصان کیا ؟ انہوں نے کہا نہیں۔تو فرمایا کہ یہ میرا فضل ہے جس کو چاہوں دے دوں۔ اس کو بخاری نے روایت کیا۔ 
(صحیح البخاری ۲/۷۹۲)
(ف):اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ ظہر کا وقت ایک مثل کے بعد دو مثل تک باقی رہتا ہے کیونکہ اس میں تصریح ہے کہ یہود و نصاریٰ دونوں کہتے ہیں اَکْثَرُ عَمَلٍ ایک دوسری روایت میں ہے وَ اَقَلُّ عَطَاءٍکہ ہمیں کام بہت اور اجرت تھوڑی ۔تو اگر ظہر کا وقت ایک ہی مثل تک ختم ہوجائے اور عصر کا وقت شروع ہوجائے تو عصر کا وقت ظہر کے وقت کے برابر ہوجائے گا بلکہ کچھ زیادہ ہی ہوگا حالانکہ حدیث کے الفاظ یہ چاہتے ہیں کہ عصر کا وقت بہ نسبت ظہر کے وقت کے کم ہو اور یہ اُسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ظہر کا وقت دو مثل تک باقی رہے اور دو مثل کے بعد عصر شروع ہو۔ تاکہ غروب آفتاب تک اس کا وقت ظہر کے وقت سے کم ہو۔
 اس کی تائید میں وہ حدیث ہے جو امام مالک نے مؤطا میں عبد ﷲ. بن رافع رضی ﷲ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ سے نماز کے اوقات کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا :
صَلِّ الظُّھْرَ إِذَا کَانَ ظِلُّکَ مِثْلَکَ وَالْعَصْرَ إِذَا کَانَ ظِلُّکَ مِثْلَیْکَ
 یعنی ظہر کو اس وقت ادا کر جبکہ تیرا سایہ تیری مثل ہوجائے اور عصر اس وقت پڑ ھ جبکہ تیرا سا یہ دو مثل ہو جائے۔ (المؤطا لامام مالک ۱/۸)
تو اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک مثل کے بعد ظہر کا وقت باقی رہتا ہے کیونکہ ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ سے یہ بہت بعید ہے کہ وہ نماز کا وقت گزر جانے کے بعد نماز پڑھنے کا حکم کریں ۔تو جب وہ ظہر کی نماز کو اس وقت پڑھنے کا حکم دیتے ہیں جب سایہ ایک مثل ہوجائے تو معلوم ہوا کہ مثل کے بعد تک ظہر کا وقت باقی رہتا ہے۔ ایسے ہی نمازِ عصر کو دو مثل کے بعد پڑھنے کا حکم دیتے ہیں یہی مذہب سیدنا امام اعظم رضی اﷲ عنہکا ہے۔وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔
حضرت جبریلِ امین علیہِ السّلام کی امامت والی حدیث میں تصریح ہے کہ جبریل نے پہلے دن عصر اس وقت پڑھی جبکہ سایہ ہرشے کا اس کی مثل تھا۔پھر دوسرے دن ظہر اس وقت پڑھی جس وقت پہلے دن عصر پڑھی تھی۔چنانچہ حدیث کے الفاظ ہیں ۔
صَلّٰی الْمَرَّۃَ الثَّانِیَۃَ الظُّھْرَ حِیْنَ کَانَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مَثْلَہ‘ لِوَقْتِ الْعَصْرِِ بِالْأَمْسِ۔
 اس کو ترمذی و ابوداؤد نے روایت کیا۔ 
(جامع الترمذی۱/۲۷۹، السنن لابی داؤد،۱۰۷/ ۱)
اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ ایک مثل کے بعد ظہر کا وقت باقی رہتا ہے۔ رہی یہ بات کہ اس حدیث سے نماز عصر کا ایک مثل کے وقت پڑھنا ثابت ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث جبریل علیہِ السّلام دربارہ وقت عصر منسوخ ہے کیونکہ حدیث ابوذر جس کو ہم اوپر لکھ آئے ہیں متاخر ہے اورحدیث جبریل یقینا مقدم ہے ۔ان دونوں کی تطبیق ممکن نہیں ۔تو لامحالہ حدیث مقدم منسوخ سمجھی جائے گی۔
کَمَا قَالَ ابْنُ الْھُمَامِ فِيْ فَتْحِ الْقَدِیْرِ  
نیز حدیث بریدہ رضی اﷲ عنہ جس میں ایک سائل نے حضور پر نور، شافع یوم النشور صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے اوقاتِ نماز کا سوال کیا اس کی تائید کرتی ہے ۔اس میں آیا ہے
فَلَمَّا اَنْ کَانَ الْیَوْمُ الثَّانيْ أَمَرَہ‘ أَبْرِدْ بِالظُّھْرِ فَأَبْرَدَ بِھَا فَاَنْعَمَ أَنْ یُبْرِدَ بِھَا
جب دوسرا دن ہوا تو حضور علیہِ السّلام نے فرمایا کہ ظہر کو سرد کرو تو اس نے سرد کیا اور سرد کرنے میں مبالغہ کیا اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ بعد مثل کے ادا ہو ۔اور یہ کہنا کہ بعد مثل ظہر اورعصر کا وقت مشترک ہے اجماع کے خلاف ہے ۔ بعض علماء نے امام مالک علیہ الرحمۃسے نقل کیا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ ان کا قول بھی یہی ہے کہ ظہر کا اخیر وقت دو مثل تک ہے۔کَذَا فِیْ رَحْمَۃُ الْاُمَّۃِ للِشَّعْرَانِیْ۔
اس تحقیق سے کما حقہ ثابت ہوگیا کہ امام اعظم علیہ الرحمۃکا مذہب کہ ظہر کا وقت دو مثل تک ہے نہایت صحیح اور احادیث صحیحہ کے موافق ہے ۔فقہاء علیہم الرحمۃ نے اسی کو اختیار کیا ۔بدائع میں اس کو صحیح لکھا ہے ۔محیط اور ینابیع میں وَ ھُوَ الصَّحِیْحُ لکھا ہے ۔
مآخذ و مراجع:-
اربعین حنفیہ، نزھۃ القاری ،جاء الحق ،آثار السنن ،شرح جامع ترمذی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area