(سوال نمبر 4521)
علامہ ابنِ کثیر اور علامہ زہبی کے بارے کیسا نظریہ ہونا چاہئے ؟
................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
1)علامہ ابنِ کثیر اور علامہ زہبی کے بارے کیسا نظریہ ھونا چاہئے
علامہ ابنِ کثیر اور علامہ زہبی کے بارے کیسا نظریہ ہونا چاہئے ؟
................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
1)علامہ ابنِ کثیر اور علامہ زہبی کے بارے کیسا نظریہ ھونا چاہئے
کیا اِنہیں رحمت اللہ علیہ کہہ سکتے ھیں؟
سنا ھے یہ ابنِ تیمیہ کے شاگرد تھے تو کیا ان کے بھی کچھ عقائد ابنِ تیمیہ والے تھے؟
اہلسنت کا اِن کے بارے کیا موقف ھونا چاھیۓ؟
2) اگر کوئ دوست دیوبندی یا وہابی یا مودودی ھو تو اس کی اصلاح کس طرح کی جاۓ کہ وہ حق جان لے اور راہِ راست اختیار کر لے؟؟؟؟
سائل:- محمد عمر عبد المصطفیٰ از پاکستان,راولپنڈی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
علامہ ابن کثیر اور علامہ ذہبی رحمہما اللہ میرے علم کے مطابق دونوں اہل سنت و جماعت سے ہیں۔
البتہ ابن تیمیہ کے بابت علما کرام نے گمراہ لکھا ہے ۔
١/ حافظ ابن کثیر کی ولادت 701ھ میں مجدل میں ہوئی جو بصریٰ کے اطراف میں ایک قریہ ہے۔ کم سنی میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ بڑے بھائی نے اپنی آغوش تربیت میں لیا۔ انہیں کے ساتھ دمشق چلے گئے۔ یہیں ان کی نشو و نما ہوئی۔ ابتدا میں فقہ کی تعلیم اپنے بڑے بھائی سے پائی اور بعد کو شیخ برہان الدین اور شیخ کمال الدین سے اس فن کی تکمیل کی۔ اس کے علاوہ آپ نے ابن تیمیہ وغیرہ سے بھی استفادہ کیا۔ تمام عمر آپ کی درس و افتاء، تصنیف و تالیف میں بسر ہوئی۔ حافظ ذہبی کی وفات کے بعد مدرسہ ام صالح اور مدرسہ تنکریہ میں آپ شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے۔ اخیر عمر میں بینائی جاتی رہی۔ 26 شعبان بروز جمعرات 774ھ میں وفات پائی۔
حجاز کے ہم طبقہ وہ علما جن سے آپ نے علم حدیث حاصل کیا اور جن کا ذکر خصوصیت سے آپ کے تذکرہ میں علما نے کیا ہے وہ حسب ذیل ہیں
(1) عیسی بن المعطعم ّ
ابن کثیر رحمہ اللہ کی سب سے مشہور تصنیف البدایۃ و النھایۃ
(2) بہاؤالدین قاسم بن عساکر المتوفی 723ھ
(3) عفیف الدین اسحاق بن یحیی الامدی المتوفی 725ھ
(4) محمد بن زراد
(5) بدرالدین محمد بن ابراہیم معروف بہ ابن سویدی المتوفی 711ھ
(6) ابن الرضی
(7) حافظ مزی
(8) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ
(9) حافظ ذہبی
(10) عمادالدین محمد بن الشیرازی المتوفی749ھ۔
لیکن ان تمام حضرات میں سب سے زیادہ جس سے آپ کو استفاد ہ کا موقع ملا وہ محدث شام حافظ جمال الدین یوسف بن عبد الرحمن مزی شافعی مصنف تہذیب الکمال المتوفی 742ھ ہیں۔ حافظ مزی نے خصوصی تعلق کی بنا پر اپنی صاحبزادی کا آپ سے نکاح کر دیا تھا۔ اس رشتہ نے اس تعلق کو اور زیادہ استوار کر دیا۔ سعادت مند شاگرد نے اپنے محترم استاذکی شفقت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا، مدت مدید تک حاضر خدمت رہے اور ان کی اکثر تصانیف کاجس میں تہذیب الکمال بھی داخل ہے بھی داخل ہے خود ان سے سماع کیا اور اس فن کی پوری تکمیل ان ہی کی خدمت میں رہ کرکی چنانچہ سیوطی لکھتے ہیں وتخرج بالمزی ولازمہ وبرع۔ اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ المتوفی 728ھ سے بھی آپ نے بہت کچھ علم حاصل کیا تھا اور عرصہ تک ان کی صحبت میں رہے تھے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ مصر سے آپ کو دیوسی، وانی اور ختنی وغیرہ نے حدیث کی اجازت دی تھی.
اگرچہ علامہ ابن کثیر کا استاد ابن تیمیہ ہیں مگر ان کا سا عقیدہ اپ کا نہیں۔ اس لئے ابن تیمیہ کے علاوہ دونوں کو رحمتہ اللہ علیہ کہنا چاہتے۔
دیوبندی وہابی مودودئ کو دلائل کی روشنی میں ان کی اصلاح کریں۔
٢/ امام شمس الدین ذہبی علیہ الرحمہ کا فقہی مذہب اپ خود اپنے بارے میں لکھتے ہیں
الذهبي المصنف، محمد بن احمد بن عثمان بن قايماز ابن الشيخ عبد الله التركماني الفارقي ثم الدمشقي الشافعي المقرئ المحدث، مخرج هذا المعجم.( المعجم المختص بالمحدثین للذہبی ص 117 رقم 113، حرف الذال)
الحمدللہ امام ذہبی علیہ الرحمہ کی ذاتی تحریر سے ثابت ہوا کہ وہ تقلیدا شافعی تھے لہذا جو گنے چنے لوگ اہل سنت کے چار فقہی مسالک کو بدعت کہتے ہیں وہ خود ایک بدعتی ہیں ان سے اجتناب اور دوری ضروری ہے۔۔
٣/ ابن تیمیہ کا پورا نام تقی الدین احمد ہے مگر اس نے اپنی کنیت ابن تیمیہ سےشہرت پائی ٦٦١ھ مطابق ١٢٦٣ء میں حران ترکی میں پیدا ہوا سات سال کی عمر میں دمشق شام ہجرت کر گیا اور وہیں حفظ قرآن کیا اور مذہبی تعلیم مکمل کی پھر دمشق ہی میں درس وافتاء کا کام شروع کیا یہی جگہ اس کا میدان عمل بنی جب اس کے نئے نئے دینی نظریات سامنے آنے لگے تو اس دور کے علماء نے اس کی جم کر سرکوبی کی جب اس کا یہ باطل نظریہ سامنے آیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر کی زیارت کے لئے سفر کرنا ناجائز بلکہ سفر معصیت ہے
تو کسافی افنائی مالکی نے سلطان ناصر مصر کو درخواست دی کہ ابن تیمیہ کو اس کی بے ادبی کی وجہ سے قتل کرادیا جائے اس محضر نامہ پر اور علماء نے بھی تائیدی دستخط کئے نتیجہ یہ ہوا کہ سلطان ناصر نے ابن تیمیہ کو دمشق کے قلعہ میں قید کردیا اور جمعہ ١٠ شعبان ٧٢٦ھ کو دمشق کی جامع مسجد میں شاہی اعلان سنایا گیا کہ ابن تیمیہ کو انبیاء کی قبروں کی زیارت سے منع کرنے پر قید کی سزا دی جاتی ہے آئندہ سے وہ کوئی فتویٰ نہیں دے سکتا ۔(امام ابن تیمیہ محمد یوسف کوکنی ص،٥٦٤،،٥٦٥)
دو سال بعد اسی قید خانہ میں ٧٢٨ھ میں دمشق میں فوت ہوگیا ابن تیمیہ کہنے کو تو حنبلی المذہب تھا مگر صحیح معنوں میں تقلید کا مخالف تھا اور ذہین تو بہت بڑا تھا مگر طبیعت میں آزادی اور جدت تھی علم و ذہانت تو اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے مگر سلامتی فکر و نظر اور اصابت رائے کی توفیق میسر نہ ہو تو علم و ذہانت زحمت و مصیبت بن جاتے ہیں اس لئے علمائے اسلام کی روش سے ہٹ کر اس نے بہت سے فکری نظریاتی بدعتیں ایجاد کیں اور کئ ایک مسائل میں قرآن واحادیث سنت و شریعت اور اجماع امت سے اختلاف کیا جس کا بروقت مسکت جواب بھی دیا گیا مشہور مؤرخ ابن بطوطہ نےابن تیمیہ کو جنونی اورفاتر العقل عالم کہا ہے ۔(تحریک وہابیت کا مختصرتعارف،،ص١٢،،١٣)
ابن تیمیہ کے عقائد و نظریات
ابن تیمیہ کے کچھ عقائد علامہ ابن حجر مکی شافعی ہیتمی (متوفی ٩٧٤ھ) نے علامہ تاج الدین سبکی (متوفی٧٧١ھ) کے حوالے سےنقل کئے ہیں جن مسائل میں ابن تیمیہ نے خرق اجماع کیا ہے ان میں سے چند یہ ہیں
١ / نماز اگر چھوڑ دی جائے تو اس کی قضا واجب نہیں
٢ / رسول خدا ﷺکا کوئ مرتبہ نہیں
٣ / جو شخص اجماع امت کی مخالفت کرے اسے کافر فاسق نہیں کہا جائے گا.
٤ / حالت حیض میں اور طہر میں ہم بستری کرنے سے طلاق نہیں واقع ہوتی.
٥ / حضور علیہ السلام کی قبر کو زیارت کی نیت سے سفر کرنا گناہ ہے
٦ /اللہ تعالی کی ذات میں تغیر وتبدل ہوتا ہے
٧ /تین طلاق سے ایک ہی طلاق پڑتی ہے
٨ / انبیائے کرام علیہم السلام معصوم نہیں
٩/ ان کو وسیلہ بنانا حرام ہے
١٠ / جہنم فنا ہوجائے گا
١١ / حالت حیض میں بیت اللہ کا طواف کرنا جائز ہے اور کوئ کفارہ نہیں
١٢/ تیل وغیرہ میں پتلی چیزیں چوہا وغیرہ کے مرنے سے نجس نہیں ہوتی
١٣/ خدائے تعالی بالکل عرش کے برابر ہے نہ اس سے چھوٹا ہے نہ بڑا
(فتاوی حدیثیہ ص١١٦)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ علامہ ابن کثیر اور علامہ ذہبی رحمہما اللہ ہمارے اکابرین علماء اہل سنت سے ہیں سوائے ابن تیمیہ کے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
سنا ھے یہ ابنِ تیمیہ کے شاگرد تھے تو کیا ان کے بھی کچھ عقائد ابنِ تیمیہ والے تھے؟
اہلسنت کا اِن کے بارے کیا موقف ھونا چاھیۓ؟
2) اگر کوئ دوست دیوبندی یا وہابی یا مودودی ھو تو اس کی اصلاح کس طرح کی جاۓ کہ وہ حق جان لے اور راہِ راست اختیار کر لے؟؟؟؟
سائل:- محمد عمر عبد المصطفیٰ از پاکستان,راولپنڈی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
علامہ ابن کثیر اور علامہ ذہبی رحمہما اللہ میرے علم کے مطابق دونوں اہل سنت و جماعت سے ہیں۔
البتہ ابن تیمیہ کے بابت علما کرام نے گمراہ لکھا ہے ۔
١/ حافظ ابن کثیر کی ولادت 701ھ میں مجدل میں ہوئی جو بصریٰ کے اطراف میں ایک قریہ ہے۔ کم سنی میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ بڑے بھائی نے اپنی آغوش تربیت میں لیا۔ انہیں کے ساتھ دمشق چلے گئے۔ یہیں ان کی نشو و نما ہوئی۔ ابتدا میں فقہ کی تعلیم اپنے بڑے بھائی سے پائی اور بعد کو شیخ برہان الدین اور شیخ کمال الدین سے اس فن کی تکمیل کی۔ اس کے علاوہ آپ نے ابن تیمیہ وغیرہ سے بھی استفادہ کیا۔ تمام عمر آپ کی درس و افتاء، تصنیف و تالیف میں بسر ہوئی۔ حافظ ذہبی کی وفات کے بعد مدرسہ ام صالح اور مدرسہ تنکریہ میں آپ شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے۔ اخیر عمر میں بینائی جاتی رہی۔ 26 شعبان بروز جمعرات 774ھ میں وفات پائی۔
حجاز کے ہم طبقہ وہ علما جن سے آپ نے علم حدیث حاصل کیا اور جن کا ذکر خصوصیت سے آپ کے تذکرہ میں علما نے کیا ہے وہ حسب ذیل ہیں
(1) عیسی بن المعطعم ّ
ابن کثیر رحمہ اللہ کی سب سے مشہور تصنیف البدایۃ و النھایۃ
(2) بہاؤالدین قاسم بن عساکر المتوفی 723ھ
(3) عفیف الدین اسحاق بن یحیی الامدی المتوفی 725ھ
(4) محمد بن زراد
(5) بدرالدین محمد بن ابراہیم معروف بہ ابن سویدی المتوفی 711ھ
(6) ابن الرضی
(7) حافظ مزی
(8) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ
(9) حافظ ذہبی
(10) عمادالدین محمد بن الشیرازی المتوفی749ھ۔
لیکن ان تمام حضرات میں سب سے زیادہ جس سے آپ کو استفاد ہ کا موقع ملا وہ محدث شام حافظ جمال الدین یوسف بن عبد الرحمن مزی شافعی مصنف تہذیب الکمال المتوفی 742ھ ہیں۔ حافظ مزی نے خصوصی تعلق کی بنا پر اپنی صاحبزادی کا آپ سے نکاح کر دیا تھا۔ اس رشتہ نے اس تعلق کو اور زیادہ استوار کر دیا۔ سعادت مند شاگرد نے اپنے محترم استاذکی شفقت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا، مدت مدید تک حاضر خدمت رہے اور ان کی اکثر تصانیف کاجس میں تہذیب الکمال بھی داخل ہے بھی داخل ہے خود ان سے سماع کیا اور اس فن کی پوری تکمیل ان ہی کی خدمت میں رہ کرکی چنانچہ سیوطی لکھتے ہیں وتخرج بالمزی ولازمہ وبرع۔ اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ المتوفی 728ھ سے بھی آپ نے بہت کچھ علم حاصل کیا تھا اور عرصہ تک ان کی صحبت میں رہے تھے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ مصر سے آپ کو دیوسی، وانی اور ختنی وغیرہ نے حدیث کی اجازت دی تھی.
اگرچہ علامہ ابن کثیر کا استاد ابن تیمیہ ہیں مگر ان کا سا عقیدہ اپ کا نہیں۔ اس لئے ابن تیمیہ کے علاوہ دونوں کو رحمتہ اللہ علیہ کہنا چاہتے۔
دیوبندی وہابی مودودئ کو دلائل کی روشنی میں ان کی اصلاح کریں۔
٢/ امام شمس الدین ذہبی علیہ الرحمہ کا فقہی مذہب اپ خود اپنے بارے میں لکھتے ہیں
الذهبي المصنف، محمد بن احمد بن عثمان بن قايماز ابن الشيخ عبد الله التركماني الفارقي ثم الدمشقي الشافعي المقرئ المحدث، مخرج هذا المعجم.( المعجم المختص بالمحدثین للذہبی ص 117 رقم 113، حرف الذال)
الحمدللہ امام ذہبی علیہ الرحمہ کی ذاتی تحریر سے ثابت ہوا کہ وہ تقلیدا شافعی تھے لہذا جو گنے چنے لوگ اہل سنت کے چار فقہی مسالک کو بدعت کہتے ہیں وہ خود ایک بدعتی ہیں ان سے اجتناب اور دوری ضروری ہے۔۔
٣/ ابن تیمیہ کا پورا نام تقی الدین احمد ہے مگر اس نے اپنی کنیت ابن تیمیہ سےشہرت پائی ٦٦١ھ مطابق ١٢٦٣ء میں حران ترکی میں پیدا ہوا سات سال کی عمر میں دمشق شام ہجرت کر گیا اور وہیں حفظ قرآن کیا اور مذہبی تعلیم مکمل کی پھر دمشق ہی میں درس وافتاء کا کام شروع کیا یہی جگہ اس کا میدان عمل بنی جب اس کے نئے نئے دینی نظریات سامنے آنے لگے تو اس دور کے علماء نے اس کی جم کر سرکوبی کی جب اس کا یہ باطل نظریہ سامنے آیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر کی زیارت کے لئے سفر کرنا ناجائز بلکہ سفر معصیت ہے
تو کسافی افنائی مالکی نے سلطان ناصر مصر کو درخواست دی کہ ابن تیمیہ کو اس کی بے ادبی کی وجہ سے قتل کرادیا جائے اس محضر نامہ پر اور علماء نے بھی تائیدی دستخط کئے نتیجہ یہ ہوا کہ سلطان ناصر نے ابن تیمیہ کو دمشق کے قلعہ میں قید کردیا اور جمعہ ١٠ شعبان ٧٢٦ھ کو دمشق کی جامع مسجد میں شاہی اعلان سنایا گیا کہ ابن تیمیہ کو انبیاء کی قبروں کی زیارت سے منع کرنے پر قید کی سزا دی جاتی ہے آئندہ سے وہ کوئی فتویٰ نہیں دے سکتا ۔(امام ابن تیمیہ محمد یوسف کوکنی ص،٥٦٤،،٥٦٥)
دو سال بعد اسی قید خانہ میں ٧٢٨ھ میں دمشق میں فوت ہوگیا ابن تیمیہ کہنے کو تو حنبلی المذہب تھا مگر صحیح معنوں میں تقلید کا مخالف تھا اور ذہین تو بہت بڑا تھا مگر طبیعت میں آزادی اور جدت تھی علم و ذہانت تو اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے مگر سلامتی فکر و نظر اور اصابت رائے کی توفیق میسر نہ ہو تو علم و ذہانت زحمت و مصیبت بن جاتے ہیں اس لئے علمائے اسلام کی روش سے ہٹ کر اس نے بہت سے فکری نظریاتی بدعتیں ایجاد کیں اور کئ ایک مسائل میں قرآن واحادیث سنت و شریعت اور اجماع امت سے اختلاف کیا جس کا بروقت مسکت جواب بھی دیا گیا مشہور مؤرخ ابن بطوطہ نےابن تیمیہ کو جنونی اورفاتر العقل عالم کہا ہے ۔(تحریک وہابیت کا مختصرتعارف،،ص١٢،،١٣)
ابن تیمیہ کے عقائد و نظریات
ابن تیمیہ کے کچھ عقائد علامہ ابن حجر مکی شافعی ہیتمی (متوفی ٩٧٤ھ) نے علامہ تاج الدین سبکی (متوفی٧٧١ھ) کے حوالے سےنقل کئے ہیں جن مسائل میں ابن تیمیہ نے خرق اجماع کیا ہے ان میں سے چند یہ ہیں
١ / نماز اگر چھوڑ دی جائے تو اس کی قضا واجب نہیں
٢ / رسول خدا ﷺکا کوئ مرتبہ نہیں
٣ / جو شخص اجماع امت کی مخالفت کرے اسے کافر فاسق نہیں کہا جائے گا.
٤ / حالت حیض میں اور طہر میں ہم بستری کرنے سے طلاق نہیں واقع ہوتی.
٥ / حضور علیہ السلام کی قبر کو زیارت کی نیت سے سفر کرنا گناہ ہے
٦ /اللہ تعالی کی ذات میں تغیر وتبدل ہوتا ہے
٧ /تین طلاق سے ایک ہی طلاق پڑتی ہے
٨ / انبیائے کرام علیہم السلام معصوم نہیں
٩/ ان کو وسیلہ بنانا حرام ہے
١٠ / جہنم فنا ہوجائے گا
١١ / حالت حیض میں بیت اللہ کا طواف کرنا جائز ہے اور کوئ کفارہ نہیں
١٢/ تیل وغیرہ میں پتلی چیزیں چوہا وغیرہ کے مرنے سے نجس نہیں ہوتی
١٣/ خدائے تعالی بالکل عرش کے برابر ہے نہ اس سے چھوٹا ہے نہ بڑا
(فتاوی حدیثیہ ص١١٦)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ علامہ ابن کثیر اور علامہ ذہبی رحمہما اللہ ہمارے اکابرین علماء اہل سنت سے ہیں سوائے ابن تیمیہ کے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
24/09/2023
24/09/2023