طبری نے حضرت امیر معاویہ پر لعنت کیوں بھیجی
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ امام طبری نے حضرت امیر معاویہ پر لعنت ہو لکھا ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
مصباح الدین
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ امام طبری نے حضرت امیر معاویہ پر لعنت ہو لکھا ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
مصباح الدین
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
ابن جریر طبری شیعہ سنی کے درمیان متنازع شخصیت ہے، طبری کا جھکاؤ شیعہ کی طرف تھا طبری کا بھانجا خود اپنے ان اشعار میں فخریہ انداز میں ذکر کرتا ہے
با مل مولدی و بنو جریر فاخو الی و یحکی المرء خالہ فھا انا رافضی عن کلا لہ
(الکنی والا لقاب جلد اول)
ترجمہ مقام مل میری جاۓ پیدائش ہے, اور جریر کے بیٹے میرے ماموں ہے، اور آدمی اپنے ماموں کے مشابہ ہوتا ہے،ہاں ہاں میں جدی پشتی شیعہ ہوں اور میرے سوا شیعہ کہلانے والا جدی پشتی نہیں بلکہ دور کا شیعہ ہے اس شعر میں خود اقرار کیا یے ابن جریر طبری شیعہ ہے اس لیے جو بات طبری کی عقائد اہلسنت کے موافق ہوں گی ،
اس کو تو ہم قبول کرسکتے ہیں، لیکن اگر طبری کی کوئی بات عقائد اہلسنت کے خلاف ہوگی اس کو ہم قبول نہیں کریں گے۔ لہٰذا جس روایت کے تعلق سے آپنے سوال کیا یے،
طبری نے دو جگہ سیدنا امیر معاویہ پر لعنت بھیجی ہے، میں ایک مقام کا ذکر کرتا ہوں ،، طبری 13 جلد میں اس طرح لکھتے ہے:
و قد روی نوفل بن معاویہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم و تو فی نوفل بالمدینتہ فی خلافتہ یزید بن معاویہ لعنھما اللہ
ترجمہ نوفل بن معاویہ نے نبی علیہ السلام سے روایت حدیث کی ہے، اور یہ نوفل مدینہ منورہ میں، یزید بن معاویہ
(،ان دونوں پر لعنت ہو) ،کی خلافت کے دوران فوت ہوا
اس میں طبری نے سیدنا امیر معاویہ پر لعنت کی ہے، اور یہ عقیدہ اور فعل ہر گز کسی سنی کا نہیں ہو سکتا اس سے بھی طبری کی شیعیت ظاہر ہوتی ہے اس کے علاوہ اور جگہ۔ طبری میں ہی سیدنا امیر معاویہ پر لعنت بھیجی ہے،،
تاریخ طبری میں طبری نے ایسی روایات بھی ذکر کی ہیں جو اہلسنت کے عقائد کے خلاف ہیں، ان ہی روایات کو شیعہ سنیوں کو دکھاکر گمراہ کرنا چاہتے ہیں
اوپر مذکورہ روایات بھی اسی کا حصہ ہے، طبری میں ایک اور روایت موجود ہے، جس میں حضرت عمر آگ لیکر حضرت عائشہ کے گھر کو جلانے کے لیے گۓ کسی نے کہا یہاں حضرت فاطمہ بھی ہے ، تو جواب دیا ہوا ہو اور یہ سب اس وجہ سے کیا کچھ لوگوں نے حضرت ابو بکر کی خلافت بیعت کا انکار کیا تھا یہ روایت بھی اہلسنت کے عقائد کے خلاف ہے،اور اس سے بھی طبری کی شیعیت ظاہر ہو رہی ہے نیز طبری شیعہ حضرات کے لیے حدیث گھڑھتا تھا ،،
لسان المیزان اور میزان اعتدال میں یے،،
احمد ابن علی السلیمانی الحافظ فقال کان یضع للروافض
ترجمہ حافظ احمد بن علی سلیمانی کہتے ہیں ، کہ ابن جریر رافضیوں کے لیے حدیث گھڑا کرتا تھا
البدایہ و النہایہ میں ہے طبری کو 86 سال کی عمر میں انتقال ہوا اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دیا گیا، حنبلی لوگوں نے اسے شیعہ کی طرف منسوب کیا، طبری کو ان کے گھر میں دفن کیا گیا،،
اسی البدایہ و النہایہ میں ہے
طبری وضو کے دوران پاؤں کے مسح کا قول کیا کرتا تھا یعنی پاؤں کو دھویا نہ جاۓ ،،یہ بات اس کی بہت مشہور تھی،
انہ کان یقول بجواز مسح القدمین فی الوضوء و انہ لا یجب غسلھما وقد اشتھر عنہ ھذا،،
اس کا ترجمہ وہی ہے جو اوپر ہم نے ذکر کیا کی پاؤں کا مسح کا قول کیا کرتا تھا،،
شیعہ سنی میں جہاں عقائد کا اختلاف ہے ،،وہی اس مسئلہ میں بھی اختلاف ہے،اہلسنت وضو میں پاؤں دھونے کے قائل ہیں، اور شیعہ مسح کرنے کے قائل ہیں
اور ابن جریر طبری فرماتے ہیں
،ابن جریر طبری نے تفسیر طبری جلد 2 میں لکھا ہے،
ہمارے نزدیک پاؤں کا مسح کرنا صحیح ہے ،اللہ نے پاؤں کو دھونے کا نہیں بلکہ مسح کرنے کا حکم دیا ہے،ض۔
ان سب دلائل سے واضح ہوجاتا ہے ابن جریر طبری کا میلان شیعہ کی طرف تھا، لہذا طبری کی اگر کوئی بات عقائد اہلسنت کے خلاف ہوگی تو اس کو ہر گز قبول نہیں کیا جاۓ گا سوال میں جس روایت کے تعلق سے پوچھا وہ اہلسنت کے عقائد کے خلاف ہے، اس لیے اس کو ہر گز قبول نہیں کیا جاۓ گا۔
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
ابن جریر طبری شیعہ سنی کے درمیان متنازع شخصیت ہے، طبری کا جھکاؤ شیعہ کی طرف تھا طبری کا بھانجا خود اپنے ان اشعار میں فخریہ انداز میں ذکر کرتا ہے
با مل مولدی و بنو جریر فاخو الی و یحکی المرء خالہ فھا انا رافضی عن کلا لہ
(الکنی والا لقاب جلد اول)
ترجمہ مقام مل میری جاۓ پیدائش ہے, اور جریر کے بیٹے میرے ماموں ہے، اور آدمی اپنے ماموں کے مشابہ ہوتا ہے،ہاں ہاں میں جدی پشتی شیعہ ہوں اور میرے سوا شیعہ کہلانے والا جدی پشتی نہیں بلکہ دور کا شیعہ ہے اس شعر میں خود اقرار کیا یے ابن جریر طبری شیعہ ہے اس لیے جو بات طبری کی عقائد اہلسنت کے موافق ہوں گی ،
اس کو تو ہم قبول کرسکتے ہیں، لیکن اگر طبری کی کوئی بات عقائد اہلسنت کے خلاف ہوگی اس کو ہم قبول نہیں کریں گے۔ لہٰذا جس روایت کے تعلق سے آپنے سوال کیا یے،
طبری نے دو جگہ سیدنا امیر معاویہ پر لعنت بھیجی ہے، میں ایک مقام کا ذکر کرتا ہوں ،، طبری 13 جلد میں اس طرح لکھتے ہے:
و قد روی نوفل بن معاویہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم و تو فی نوفل بالمدینتہ فی خلافتہ یزید بن معاویہ لعنھما اللہ
ترجمہ نوفل بن معاویہ نے نبی علیہ السلام سے روایت حدیث کی ہے، اور یہ نوفل مدینہ منورہ میں، یزید بن معاویہ
(،ان دونوں پر لعنت ہو) ،کی خلافت کے دوران فوت ہوا
اس میں طبری نے سیدنا امیر معاویہ پر لعنت کی ہے، اور یہ عقیدہ اور فعل ہر گز کسی سنی کا نہیں ہو سکتا اس سے بھی طبری کی شیعیت ظاہر ہوتی ہے اس کے علاوہ اور جگہ۔ طبری میں ہی سیدنا امیر معاویہ پر لعنت بھیجی ہے،،
تاریخ طبری میں طبری نے ایسی روایات بھی ذکر کی ہیں جو اہلسنت کے عقائد کے خلاف ہیں، ان ہی روایات کو شیعہ سنیوں کو دکھاکر گمراہ کرنا چاہتے ہیں
اوپر مذکورہ روایات بھی اسی کا حصہ ہے، طبری میں ایک اور روایت موجود ہے، جس میں حضرت عمر آگ لیکر حضرت عائشہ کے گھر کو جلانے کے لیے گۓ کسی نے کہا یہاں حضرت فاطمہ بھی ہے ، تو جواب دیا ہوا ہو اور یہ سب اس وجہ سے کیا کچھ لوگوں نے حضرت ابو بکر کی خلافت بیعت کا انکار کیا تھا یہ روایت بھی اہلسنت کے عقائد کے خلاف ہے،اور اس سے بھی طبری کی شیعیت ظاہر ہو رہی ہے نیز طبری شیعہ حضرات کے لیے حدیث گھڑھتا تھا ،،
لسان المیزان اور میزان اعتدال میں یے،،
احمد ابن علی السلیمانی الحافظ فقال کان یضع للروافض
ترجمہ حافظ احمد بن علی سلیمانی کہتے ہیں ، کہ ابن جریر رافضیوں کے لیے حدیث گھڑا کرتا تھا
البدایہ و النہایہ میں ہے طبری کو 86 سال کی عمر میں انتقال ہوا اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دیا گیا، حنبلی لوگوں نے اسے شیعہ کی طرف منسوب کیا، طبری کو ان کے گھر میں دفن کیا گیا،،
اسی البدایہ و النہایہ میں ہے
طبری وضو کے دوران پاؤں کے مسح کا قول کیا کرتا تھا یعنی پاؤں کو دھویا نہ جاۓ ،،یہ بات اس کی بہت مشہور تھی،
انہ کان یقول بجواز مسح القدمین فی الوضوء و انہ لا یجب غسلھما وقد اشتھر عنہ ھذا،،
اس کا ترجمہ وہی ہے جو اوپر ہم نے ذکر کیا کی پاؤں کا مسح کا قول کیا کرتا تھا،،
شیعہ سنی میں جہاں عقائد کا اختلاف ہے ،،وہی اس مسئلہ میں بھی اختلاف ہے،اہلسنت وضو میں پاؤں دھونے کے قائل ہیں، اور شیعہ مسح کرنے کے قائل ہیں
اور ابن جریر طبری فرماتے ہیں
،ابن جریر طبری نے تفسیر طبری جلد 2 میں لکھا ہے،
ہمارے نزدیک پاؤں کا مسح کرنا صحیح ہے ،اللہ نے پاؤں کو دھونے کا نہیں بلکہ مسح کرنے کا حکم دیا ہے،ض۔
ان سب دلائل سے واضح ہوجاتا ہے ابن جریر طبری کا میلان شیعہ کی طرف تھا، لہذا طبری کی اگر کوئی بات عقائد اہلسنت کے خلاف ہوگی تو اس کو ہر گز قبول نہیں کیا جاۓ گا سوال میں جس روایت کے تعلق سے پوچھا وہ اہلسنت کے عقائد کے خلاف ہے، اس لیے اس کو ہر گز قبول نہیں کیا جاۓ گا۔
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
ہلدوانی نینیتال
9917420179📲
ہلدوانی نینیتال
9917420179📲