Type Here to Get Search Results !

حضور شمس الفقہاء کی تقریر پر اعتراض کا منہ توڑ جواب

حضور شمس الفقہاء کی تقریر پر اعتراض کا منہ توڑ جواب
_________________________
 اعتراض 
عرس اعلی حضرت جامعۃ الرضا بریلی ، 
مفتی شمشاد گھوسوی کی تقریر
چاہے ہاشمی ہو حسینی ہو حسنی ہو سید ہو غیر سید ہو عربی ہو ، عجمی ہو، مکی ہو ، مدنی ہو، افریقی ہو، جنہیں اردو عربی فارسی آتی ہو نہیں آتی ہو ، چینی ہو ، جاپانی ہو ، یونانی ، فرینچ ہو ، بغدادی ہو ، اجمیری ہو، عراقی ہو ، لبنانی ہو ، امریکی ہو ، جو بھی ہو، جو بریلی بھی کسی شہر کا نام ہے جانتا ہو نہ جانتا ہو اعلی حضرت کون ہیں جانتا ہو نہ جانتا ہو پہچانتا ہو نہ پہچانتا ہو ، فتاوی رضویہ حسام الحرمین کس چڑیا جا نام ہے جانتا ہو نہ جانتا ہو سنا ہو نہ سنا ہو سب کے اوپر مسلک اعلی حضرت پر ایمان لانا فرض ہے ایمان لائے بنا وہ مسلمان نہیں ہو سکتا ،
اس سے ثابت ہوا کہ مسلک اعلی کو ماننا ضروریات دین میں سے ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہوا ، 
اکملت لکم دینکم ،
والی آیت ادھوری تھی جسے مولوی شمشاد نے آج پوری کردی ،، ایمان مجمل ایمان مفصل سب ادھورے رہ گئے تھے جو کہ آج پورا ہوا ، 
اعلی حضرت سے پہلے کے تمام مسلمان پکے مسلمان نہیں تھے پکے مسلمان اعلی حضرت کے بعد ان کے ماننے سے ہوئے ، چلئے ایک نئی چیز معلوم ہوئی ،، اللہ خیر فرمائے،
آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
عن أنس وأبي هريرة رضي الله عنہ لا يُؤْمِنُ أحدُكم حتى أَكُونَ أَحَبَّ إليه مِن وَلَدِه، ووالِدِه، والناس أجمعين،
حضور فرماتے ہیں کہ تم میں کا کوئی بھی شخص اس وقت تک کامل مسلمان نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ وہ اپنی ماں اپنے اپنے باپ اور تمام لوگوں سے زیادہ محبت مجھ سے نہ کرلے ،
مگر گھوسوی صاحب کہتے ہیں نہیں پکا مسلمان وہ ہے جو مسلک اعلی حضرت کو تسلیم کرلے ، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس گھوسوی صاحب کی بات میں کتنا تضاد ہے ،،
یہ لوگ خود اسلام سے خارج ہوچکے ہیں
ان لوگوں نے اپنا دین و مذہب ہی الگ بنا لیا ہے ان کی باتوں سے مکمل واضح ہوگیا کہ اب اللہ و رسول اور قرآن و حدیث کو ماننے والا مسلمان نہیں ہے بلکہ اعلی حضرت کو ماننے والا ہی مسلمان ہے ،،
______________________________
      ٧٨٦/٩٢ 
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :- 
      تحریر مذکور سے مضمون نگار کے دل میں اعلی حضرت اور مسلک اعلی حضرت کے حوالے سے جو بغض و عداوت ہے وہ بالکل ظاہر ہے ۔
   حضور شمس الفقہاء مفتی شمشاد احمد مصباحی کی تقریر بے غبار ہے اسکو نہ سمجھ پانا زبان و بیان اور محاورہ کلام الناس سے ناواقفیت کی دلیل ہے ۔
حضور شمس الفقہاء نے اپنی تقریر میں پہلے اسلام میں اٹھنے والے فتنوں کو ذکر فرمایا پھر ان فتنوں کو کچلنے والی نمایاں شخصیتوں کو ذکر فرما کر یہ بتایا کہ ان فتنوں کے بالمقابل اسلامی شخصیات نے جن تعلیمات کو پیشِ فرمایا در اصل وہی تعلیمات بر حق ہیں ، کتاب و سنت سے مستنبط ہیں، انھیں ماننا لازم و ضروری ہے ۔ اور ان تعلیمات کی پہچان اپنے اپنے دور میں انھیں شخصیات سے ہوئیں جنہوں نے اپنے اپنے زمانے کے باطل فتنوں کو مٹانے کیلئے زبان و قلم سے جہاد فرمایا مثلاً انکار زکات کے فتنہ کو مٹانے کیلئے صدیق اکبر نے جہاد فرمایا تو اس دور میں جماعت حقہ کی پہچان صدیق اکبر سے ہوئی خارجیت کو مٹانے کے لئے حضرت علی آگے بڑھے تو خارجیوں کے بالمقابل جماعت حقہ کی پہچان حضرت علی سے ہوئی ۔ معتزلہ کے بالمقابل امام احمد ابن حنبل نے مجاہدانہ کردار پیش کیا تو جماعت حقہ کی پہچان مسلک امام احمد ابن حنبل سے ہوئی ۔ فتنہ دین الٰہی کو مٹانے کیلئے مجدد الف ثانی آگے بڑھے تو مسلک اہل سنت کی پہچان مسلک مجدد الف ثانی سے ہوئی اور دور آخیر میں وہابیت. دیوبندیت. قادیانیت. غیر مقلدیت. نیچریت. شمع نیازیت. ندویت. وغیرہ باطل فتنوں کی سرکوبی کیلئے امام احمد رضا نے ناقابل فراموش کارنامہ انجام دیا تو ان فتنوں کے بالمقابل جماعت اہل سنت، جماعت حقہ کی پہچان اعلی حضرت اور مسلک اعلی حضرت سے ہوئی ۔
اب کوئی بھی ہو ہاشمی ہو ، مدنی ہو، قرشی ہو، عربی ہو ، بغدادی ہو، اجمیری ہو ، بدایونی ہو ، جب تک مسلک اعلی حضرت کو تسلیم نہیں کرے گا اسکو پکا مسلمان نہیں مانا جائیگا مطلب واضح ہے ! کہ جو تعلیمات اعلی حضرت کو جانتے ہوئے مسلک اعلی حضرت کا انکار کرے وہ پکا مسلمان نہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ" کہا جائے وہ سرے سے مسلمان ہی نہیں۔ کیونکہ مسلک اعلی حضرت کے قطعی عقائد کا انکار کفر ہے مگر انکار کرنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے قطعیات کا انکار نہیں کیا بلکہ صرف اصطلاح مسلک اعلی حضرت کا انکار کیا ہے ۔ یا بعض فروعی مسائل کا انکار کیا ہے ۔ یعنی یہاں تاویل کی گنجائش ہے اسی لیے بہت سوچ سمجھ کر کہا گیا کہ وہ پکا مسلمان نہیں کیونکہ جہاں تاویل کی گنجائش ہو وہاں تکفیر نہیں ہوسکتی 
حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ انصار مدینہ کی محبت مومن کی پہچان ہے اور انکی دشمنی منافق کی علامت ہے ۔ یوہیں حضور نے فرمایا کہ حضرت علی کی محبت مومن کی پہچان ہے اور انکی دشمنی منافق کی نشانی تو اس حدیث کا یہی مطلب ہے کہ انصار مدینہ اور حضرت علی سے واقف ہونے کے باوجود جو ان سے عداوت و دشمنی رکھے وہ دین کا دشمن ہے اسی طرح حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جس نے صحابہ سے محبت کی ,مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے صحابہ سے محبت کی اور جس نے صحابہ سے دشمنی کی ,مجھ سے دشمنی کرنے کی وجہ سے صحابہ سے دشمنی کی ، ظاہر ہے کہ یہ ساری باتیں ان انکار کرنے والوں کے لۓ ہیں جو صحابہ و انصار مدینہ اور حضرت علی سے واقف ہیں اور ان کی بے مثال دینی خدمات سے واقف ہیں۔ نہ کہ ان کے لئے جو ان پڑھ اور جاہل ہیں ، ان حضرات کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں۔ ان جاہلوں پر صحابہ کی عظمت و محبت کے انکار کا الزام کیسے لگایا جاسکتا ہے ؟اور انکو منافق کیوں کر کہا جاسکتا ہے؟ اسی طرح جو اعلی حضرت اور تعلیمات اعلی حضرت سے واقف نہیں اور نہ یہ جانتا ہے کہ اس دور میں مسلک اعلی حضرت ، مسلک اہل سنت کی پہچان ہے اس پر مسلک اعلی حضرت کے انکار کا الزام کیسے لگایا جاسکتا ہے؟ اور اس قسم کی قیدیں و شرطیں دلالت عرف کی بنیاد پر سمجہی جاتی ہیں ۔ ہر جگہ ان کو بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ ؟, اتنی معمولی سی بات گمنام مضمون نگار کے ذہن میں نہ آئی ؟ کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے _ یوہیں کوئی بے وفا نہیں ہوتا _ عام بول چال میں کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص حسام الحرمین کی تصدیق نہیں کرتا ‌ اس لۓ وہ مسلمان نہیں اسکا صاف مطلب ہے کہ اگر وہابیہ، دیابنہ کے اقوال کفریہ پر مطلع ہوکر انکی تکفیر نہیں کرتا بلکہ انکو مسلمان مانتا ہے یا انکے کفر و عذاب میں شک کرتا ہے تو وہ کافر ہے _ چاہے ، ھاشمی ہو ، مدنی ہو ، عربی ہو ، عجمی ہو ، قرشی ہو ، بغدادی ہو ، اجمیری ہو ، بدایونی ہو ، کوئی بھی ہو وہابیہ ، دیابنہ کے اقوال کفریہ پر مطلع ہوکر جو انکی تکفیر نہیں کرتا یا انکے کفر و عذاب میں شک کرتا ہے وہ کافر ہے ، ٹھیک اسی طرح حضور‌ شمس الفقہاء کی تقریر میں بھی علم و اطلاع کی شرط پر حکم بیان کیا گیا ہے ، اور یہ قید و شرط اس قدر مشہور و معروف ہے کہ ہر جگہ اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ، اصول کی کتابوں میں پڑھایا گیا ہے ، " الشئ اذا ثبت ثبت بلوازمه ، کوئی بھی چیز جب ثابت ہوتی ہے تو اپنے لوازم کے ساتھ ثابت ہوتی ہے ، ٹھیک اسی طرح کسی بھی مسلک کا انکار یا اقرار اس کو جانے بغیر ممکن نہیں ۔۔۔یہ بالکل بدیہی بات ہے 
      اس لۓ اس مقام پر حکم کا مدار اس پر ہوگا کہ جو تعلیمات اعلی حضرت کو جان کر اس کا انکار کرے _ حضور شمس الفقہاء ، کی پوری تقریر سننے کے بعد اس قسم کا بچکانہ اعتراض وہی کرسکتا ہے جس کا علم سے دور دور تک کوئی رشتہ نہیں ،اوراگرپوری تقریر نہیں سنی تو پہلے پوری تقریر سن لے, آدھی ادھوری بات سن کر کسی پر اعتراض کرنا جہالت و حماقت کی دلیل ہے ۔ حضور شمس الفقہاء نے مثالوں کے ذریعہ بہت شاندار انداز میں مسلک اہلسنت کے ساتھ مسلک اعلیٰ حضرت کے استعمال کے فوائد ذکر کۓ _ بلاشبہ اس دور میں تمام باطل فرقوں سے مکمل طور پر اگر کوئی لفظ امتیاز دلاسکتا ہے اور صحیح العقیدہ سنیوں کو‌ جعلی اور نقلی سنیوں سے ممتاز کرسکتا ہے تو وہ مسلک اعلیٰ حضرت ہے ___ حضور شمس الفقہاء کی تقریر سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ اعلی حضرت کو ماننا ضروریات دین سے ہے ، مسلک اعلی حضرت ایک نیا فرقہ ہے ، جو اعلی حضرت کو نہیں مانتا وہ کافر ہے ، یہ نتیجہ وہی اخذ کرسکتا ہے جو پکا جاہل ہے یا اس کے دل میں اعلی حضرت کا بغض بھرا ہوا ہے 
    اللہ رب العزت حضور شمس الفقہاء کو سلامت رکھے اور حاسدوں کے حسد سے بچاۓ ۔ آمین -
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦ 
     ( مفتی) سید مبارک حسین قادری ، رانی بنور ، ضلع ہاویری، کرناٹک ۔
  ١٤ / ستمبر ٢٠٢٣ ء

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area