(سوال نمبر 4401)
مرد و عورت کو نقلی بال لگانا کیسا ہے؟
...........................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مرد و عورت کو وگ مطلب نقلی بال لگانا کیسا ہے؟ نیز بالوں کی پیوند کاری کرنا کیسا ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں ۔
سائل:- توصیف احمد البرھانی خانیوال پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
سر پر مصنوعی بال لگانے کا حکم یہ ہے کہ اگر یہ بال دوسرے انسان کے ہوں تو ان کا لگانا گناہِ کبیرہ ہے اور انسانی بال لگوانے والوں پر حدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے اور اگر مصنوعی بال انسان یا خنزیر کے نہ ہوں تو ان کا لگوانا جائز ہے البتہ مصنوعی وگ لگانے میں اگر کسی کو دھوکا دینا مقصد ہو تو یہ بھی درست نہیں ہے
حدیث شریف میں ہے
عن ابن عمر أن النبی ﷺ قال : لعن الله الواصلة و المستوصلة و الواشمة و المستوشمة
مرد و عورت کو نقلی بال لگانا کیسا ہے؟
...........................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مرد و عورت کو وگ مطلب نقلی بال لگانا کیسا ہے؟ نیز بالوں کی پیوند کاری کرنا کیسا ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں ۔
سائل:- توصیف احمد البرھانی خانیوال پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
سر پر مصنوعی بال لگانے کا حکم یہ ہے کہ اگر یہ بال دوسرے انسان کے ہوں تو ان کا لگانا گناہِ کبیرہ ہے اور انسانی بال لگوانے والوں پر حدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے اور اگر مصنوعی بال انسان یا خنزیر کے نہ ہوں تو ان کا لگوانا جائز ہے البتہ مصنوعی وگ لگانے میں اگر کسی کو دھوکا دینا مقصد ہو تو یہ بھی درست نہیں ہے
حدیث شریف میں ہے
عن ابن عمر أن النبی ﷺ قال : لعن الله الواصلة و المستوصلة و الواشمة و المستوشمة
( متفق علیه ، المشکاة ٣٨١)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی نے لعنت فرمائی اس عورت پر جو اپنے بالوں میں کسی دوسرے کے بالوں کا جوڑ لگائے اور اس عورت پر جوکسی دوسری عورت کے بالوں میں اپنے بالوں کا جوڑ لگائے اور جسم گودنے اور گدوانے والی پر (بھی لعنت فرمائی )۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے
وفي اختيار: ووصل الشعر بشعر الآدمي حرام، سواء كان شعرها أو شعر غيرها؛ لقوله صلى الله عليه وسلم : «لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة والواشرة والمستوشرة والنامصة والمتنمصة». النامصة التي تنتف الشعر من الوجه، والمتنمصة التي يفعل بها ذلك.
(قوله: سواء كان شعرها أو شعر غيرها)؛ لما فيه من التزوير، كما يظهر مما يأتي، وفي شعر غيرها انتفاع بجزء الآدمي أيضاً، لكن في التتارخانية: وإذا وصلت المرأة شعر غيرها بشعرها فهو مكروه، وإنما الرخصة في غير شعر بني آدم تتخذه المرأة؛ لتزيد في قرونها، وهو مروي عن أبي يوسف، وفي الخانية: ولا بأس للمرأة أن تجعل في قرونها وذوائبها شيئاً من الوبر. (قوله «لعن الله الواصلة» إلخ) الواصلة: التي تصل الشعر بشعر الغير والتي يوصل شعرها بشعر آخر زوراً. والمستوصلة: التي يوصل لها ذلك بطلبها. والواشمة: التي تشم في الوجه والذراع، وهو أن تغرز الجلد بإبرة، ثم يحشى بكحل أو نيل فيزرق. والمستوشمة: التي يفعل بها ذلك بطلبها. والواشرة: التي تفلج أسنانها أي تحددها، وترقق أطرافها، تفعله العجوز تتشبه بالشواب. والمستوشرة: التي يفعل بها بأمرها اهـ اختيار، ومثله في نهاية ابن الأثير، وزاد أنه روي عن عائشة - رضي الله تعالى عنها - أنها قالت: ليس الواصلة بالتي تعنون. ولابأس أن تعرى المرأة عن الشعر، فتصل قرناً من قرونها بصوف أسود، وإنما الواصلة التي تكون بغياً في شبيهتها، فإذا أسنت وصلتها بالقيادة. والواشرة كأنه من وشرت الخشبة بالميشار غير مهموز". اهـ(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 372)
حاصل کلام یہ ہے کہ
خنزیر کے علاوہ کسی بھی جانور مثلاً گھوڑے بندر وغیرہ کے بالوں یا پھر پلاسٹک کے مصنوعی بالوں کی بنی ہوئی وِگ یا جُوڑا لگانا جائز ہے البتہ خنزیر اور انسان کے بالوں سے تیار شدہ وِگ یا جُوڑا لگانا، ناجائز وحرام ہے
یاد رہے یہ عارضی وِگ اگر وضو میں سر کا مسح کرنے یا غسل میں سر کے اصلی بالوں کے دھونے سے مانع رکاوٹ ہو تو اسے اتار کر وضو و غسل کرنا لازم ہو گا۔
مذکورہ حکم مرد و زن دونوں کے لیے ہے
محقق مسائل جدیدہ
مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارکپور فرماتے ہیں
نائلن کے مصنوعی بال سے بچنا چاہیے, شریعت مطہرہ نے کوئی ممانعت نہیں فرمائی ہے، تاہم جہاں تک ہو سکے اس سے بچنا چاہیے البتہ انسان کا بال اپنے بالوں میں لگا کر بڑھانا جائز نہیں بلکہ گناہ ہے اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ہے اور ایسے لوگوں پر لعنت بھی فرمائی ہے. ہاں سر میں بالوں کی کاشت ناجائز ہے کہ یہ بلا حاجت شرعی ضرر رسانی ہے (فتاوی مسائل ورلڈ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی نے لعنت فرمائی اس عورت پر جو اپنے بالوں میں کسی دوسرے کے بالوں کا جوڑ لگائے اور اس عورت پر جوکسی دوسری عورت کے بالوں میں اپنے بالوں کا جوڑ لگائے اور جسم گودنے اور گدوانے والی پر (بھی لعنت فرمائی )۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے
وفي اختيار: ووصل الشعر بشعر الآدمي حرام، سواء كان شعرها أو شعر غيرها؛ لقوله صلى الله عليه وسلم : «لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة والواشرة والمستوشرة والنامصة والمتنمصة». النامصة التي تنتف الشعر من الوجه، والمتنمصة التي يفعل بها ذلك.
(قوله: سواء كان شعرها أو شعر غيرها)؛ لما فيه من التزوير، كما يظهر مما يأتي، وفي شعر غيرها انتفاع بجزء الآدمي أيضاً، لكن في التتارخانية: وإذا وصلت المرأة شعر غيرها بشعرها فهو مكروه، وإنما الرخصة في غير شعر بني آدم تتخذه المرأة؛ لتزيد في قرونها، وهو مروي عن أبي يوسف، وفي الخانية: ولا بأس للمرأة أن تجعل في قرونها وذوائبها شيئاً من الوبر. (قوله «لعن الله الواصلة» إلخ) الواصلة: التي تصل الشعر بشعر الغير والتي يوصل شعرها بشعر آخر زوراً. والمستوصلة: التي يوصل لها ذلك بطلبها. والواشمة: التي تشم في الوجه والذراع، وهو أن تغرز الجلد بإبرة، ثم يحشى بكحل أو نيل فيزرق. والمستوشمة: التي يفعل بها ذلك بطلبها. والواشرة: التي تفلج أسنانها أي تحددها، وترقق أطرافها، تفعله العجوز تتشبه بالشواب. والمستوشرة: التي يفعل بها بأمرها اهـ اختيار، ومثله في نهاية ابن الأثير، وزاد أنه روي عن عائشة - رضي الله تعالى عنها - أنها قالت: ليس الواصلة بالتي تعنون. ولابأس أن تعرى المرأة عن الشعر، فتصل قرناً من قرونها بصوف أسود، وإنما الواصلة التي تكون بغياً في شبيهتها، فإذا أسنت وصلتها بالقيادة. والواشرة كأنه من وشرت الخشبة بالميشار غير مهموز". اهـ(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 372)
حاصل کلام یہ ہے کہ
خنزیر کے علاوہ کسی بھی جانور مثلاً گھوڑے بندر وغیرہ کے بالوں یا پھر پلاسٹک کے مصنوعی بالوں کی بنی ہوئی وِگ یا جُوڑا لگانا جائز ہے البتہ خنزیر اور انسان کے بالوں سے تیار شدہ وِگ یا جُوڑا لگانا، ناجائز وحرام ہے
یاد رہے یہ عارضی وِگ اگر وضو میں سر کا مسح کرنے یا غسل میں سر کے اصلی بالوں کے دھونے سے مانع رکاوٹ ہو تو اسے اتار کر وضو و غسل کرنا لازم ہو گا۔
مذکورہ حکم مرد و زن دونوں کے لیے ہے
محقق مسائل جدیدہ
مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارکپور فرماتے ہیں
نائلن کے مصنوعی بال سے بچنا چاہیے, شریعت مطہرہ نے کوئی ممانعت نہیں فرمائی ہے، تاہم جہاں تک ہو سکے اس سے بچنا چاہیے البتہ انسان کا بال اپنے بالوں میں لگا کر بڑھانا جائز نہیں بلکہ گناہ ہے اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ہے اور ایسے لوگوں پر لعنت بھی فرمائی ہے. ہاں سر میں بالوں کی کاشت ناجائز ہے کہ یہ بلا حاجت شرعی ضرر رسانی ہے (فتاوی مسائل ورلڈ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
12/09/2023
12/09/2023