(سوال نمبر 4371)
کیا کلمہ پڑھنے کے بعد اللہ و رسول کے لئے علم غیب کا ماننا ضروری ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
کیا کلمہ پڑھنے کے بعد اللہ و رسول کے لئے علم غیب کا ماننا ضروری ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
ہم جو کلمہ پڑھتے ہیں اس میں کہیں علمِ غیب کا ذکر نہیں ,ھم جو ایمانِ مفصل و مجمل پڑھتے ہیں اس میں بھی علمِ غیب کا کہیں ذکر نہیں تو منکرِ علمِ غیب کافر کیسے؟ کیونکہ جو کلمہ ھم مسلمان ھونے کیلۓ پڑھتے ھیں اگر ان کا انکار کریں گے تبھی کافر ھوں گے کیونکہ جس کا اقرار مومن بنا رہا ھے اسی کا انکار کافر کرے گا اور اِن کلمات میں کہیں بھی علمِ غیب کا ذکر نہیں اور نہ ھی قرآن میں اللہ نے کہا کہ علمِ غیب پر لازمی ایمان لاؤ تو علمِ غیب کا منکر کافر کیسے ہو سکتا ہے؟
علماء سے درخواست ہے کہ تفصیلی و مدلل جواب عطا فرمائیں اور بےحساب ثواب پائیں۔
جزاک اللہ۔
سائل:- محمد عمر عبد المصطفیٰ از پاکستان راولپنڈی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
کلمہ میں نماز روزہ حج زکات کا ذکر نہیں ہے تو کیا یہ سب فرض نہیں ہے؟اور ان سب کا منکر کافر نہیں ہے؟
یقینا مذکورہ عبادات سب فرض ہے اور ان سب کا منکر کافر ہے
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماننے کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی اللہ و رسول کا حکم ہے سب کو زبان و دل سے مانتا ہوں اب قران و حدیث مانے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا اور قران و سنت میں علم غیب کا ذکر کثرت سے موجود ہے اس لئے مطلق علم غیب کا ماننا فرض ہے اور اس کا منکر کافر ہے
اللہ سبحانہ و تعالی کل ذاتی عالم الغیب ہے قرآن میں ہے
ہو اللہ الذی لاالہ الا ہو عالم الغصب والشہادة ۔۔اللہ کے علم غیب کا منکر کافر چونکہ یہ ایت قرآنی ہے۔
اسی طرح بلا شبہہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو بعطائے الہی علم غیب حاصل ہے ۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالی کے علم غیب کا انکار قرآن کریم کی متعدد آیتوں کا انکار ہے ۔ اور قرآن پاک کی کسی آیت کا انکار کفر ہے ۔
بہار شریعت میں ہے
ﷲ عزوجل نے انبیاء علیہم السلام کو اپنے غیوب پر اطلاع دی زمین وآسمان کا ہر ذرہ ہر نبی کے پیشِ نظر ہے، مگر یہ غیب کہ اُن کو ہے اللہ کے دیے سے ہے لہذا اُن کا علم عطائی ہوا اور علمِ عطائی ﷲ عزوجل کے لیے محال ہے، کہ اُس کی کوئی صفت، کوئی کمال کسی کا دیا ہوا نہیں ہوسکتا، بلکہ ذاتی ہے جو لوگ انبیاء بلکہ سیّد الانبیاء صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وعلیہم وسلم سے مطلق علمِ غیب کی نفی کرتے ہیں وہ قرآنِ عظیم کی اس آیت کے مصداق ہیں
اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَ تَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍۚ
یعنی قرآنِ عظیم کی بعض باتیں مانتے ہیں اور بعض کے ساتھ کُفر کرتے ہیں
کہ آیتِ نفی دیکھتے ہیں اور اُن آیتوں سے جن میں انبیاء علیہم السلام کو علومِ غیب عطا کیا جانا بیان کیا گیا ہے انکار کرتے ہیں حالانکہ نفی واِثبات دونوں حق ہیں کہ نفی علمِ ذاتی کی ہے کہ یہ خاصۂ اُلوہیت ہے، اِثبات،عطائی کا ہے کہ یہ انبیاء ہی کی شایانِ شان ہے اور مُنافیٔ اُلوہیت ہے اور یہ کہنا کہ ہر ذرّہ کا علم نبی کے لیے مانا جائے تو خالق و مخلوق کی مساوات لازم آئے گی باطل محض ہے کہ مساوات تو جب لازم آئے کہ ﷲ عزوجل کیلئے بھی اتنا ہی علم ثابت کیا جائے اور یہ نہ کہے گا مگر کافر ذرّاتِ عالَم متناہی ہیں اور اُس کا علم غیر متناہی ورنہ جہل لازم آئے گا اور یہ محال، کہ خدا جہل سے پاک، نیز ذاتی و عطائی کا فرق بیان کرنے پر بھی مساوات کا الزام دینا صراحۃً ایمان و اسلام کے خلاف ہے کہ اس فرق کے ہوتے ہوئے مساوات ہو جایا کرے تو لازم کہ ممکن و واجب وجود میں معاذ ﷲ مساوی ہو جائیں کہ ممکن بھی موجود ہے اور واجب بھی موجود اور وجود میں مساوی کہنا صریح کُفر کھلا شرک ہے انبیاء علیہم السلام غیب کی خبر دینے کے لیے ہی آتے ہیں کہ جنّت و نار و حشر و نشر و عذاب و ثواب غیب نہیں تو اور کیا ہیں ؟ اُن کا منصب ہی یہ ہے کہ وہ باتیں ارشاد فرمائیں جن تک عقل و حواس کی رسائی نہیں اور اسی کا نام غیب ہے
علماء سے درخواست ہے کہ تفصیلی و مدلل جواب عطا فرمائیں اور بےحساب ثواب پائیں۔
جزاک اللہ۔
سائل:- محمد عمر عبد المصطفیٰ از پاکستان راولپنڈی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
کلمہ میں نماز روزہ حج زکات کا ذکر نہیں ہے تو کیا یہ سب فرض نہیں ہے؟اور ان سب کا منکر کافر نہیں ہے؟
یقینا مذکورہ عبادات سب فرض ہے اور ان سب کا منکر کافر ہے
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماننے کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی اللہ و رسول کا حکم ہے سب کو زبان و دل سے مانتا ہوں اب قران و حدیث مانے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا اور قران و سنت میں علم غیب کا ذکر کثرت سے موجود ہے اس لئے مطلق علم غیب کا ماننا فرض ہے اور اس کا منکر کافر ہے
اللہ سبحانہ و تعالی کل ذاتی عالم الغیب ہے قرآن میں ہے
ہو اللہ الذی لاالہ الا ہو عالم الغصب والشہادة ۔۔اللہ کے علم غیب کا منکر کافر چونکہ یہ ایت قرآنی ہے۔
اسی طرح بلا شبہہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو بعطائے الہی علم غیب حاصل ہے ۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالی کے علم غیب کا انکار قرآن کریم کی متعدد آیتوں کا انکار ہے ۔ اور قرآن پاک کی کسی آیت کا انکار کفر ہے ۔
بہار شریعت میں ہے
ﷲ عزوجل نے انبیاء علیہم السلام کو اپنے غیوب پر اطلاع دی زمین وآسمان کا ہر ذرہ ہر نبی کے پیشِ نظر ہے، مگر یہ غیب کہ اُن کو ہے اللہ کے دیے سے ہے لہذا اُن کا علم عطائی ہوا اور علمِ عطائی ﷲ عزوجل کے لیے محال ہے، کہ اُس کی کوئی صفت، کوئی کمال کسی کا دیا ہوا نہیں ہوسکتا، بلکہ ذاتی ہے جو لوگ انبیاء بلکہ سیّد الانبیاء صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وعلیہم وسلم سے مطلق علمِ غیب کی نفی کرتے ہیں وہ قرآنِ عظیم کی اس آیت کے مصداق ہیں
اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَ تَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍۚ
یعنی قرآنِ عظیم کی بعض باتیں مانتے ہیں اور بعض کے ساتھ کُفر کرتے ہیں
کہ آیتِ نفی دیکھتے ہیں اور اُن آیتوں سے جن میں انبیاء علیہم السلام کو علومِ غیب عطا کیا جانا بیان کیا گیا ہے انکار کرتے ہیں حالانکہ نفی واِثبات دونوں حق ہیں کہ نفی علمِ ذاتی کی ہے کہ یہ خاصۂ اُلوہیت ہے، اِثبات،عطائی کا ہے کہ یہ انبیاء ہی کی شایانِ شان ہے اور مُنافیٔ اُلوہیت ہے اور یہ کہنا کہ ہر ذرّہ کا علم نبی کے لیے مانا جائے تو خالق و مخلوق کی مساوات لازم آئے گی باطل محض ہے کہ مساوات تو جب لازم آئے کہ ﷲ عزوجل کیلئے بھی اتنا ہی علم ثابت کیا جائے اور یہ نہ کہے گا مگر کافر ذرّاتِ عالَم متناہی ہیں اور اُس کا علم غیر متناہی ورنہ جہل لازم آئے گا اور یہ محال، کہ خدا جہل سے پاک، نیز ذاتی و عطائی کا فرق بیان کرنے پر بھی مساوات کا الزام دینا صراحۃً ایمان و اسلام کے خلاف ہے کہ اس فرق کے ہوتے ہوئے مساوات ہو جایا کرے تو لازم کہ ممکن و واجب وجود میں معاذ ﷲ مساوی ہو جائیں کہ ممکن بھی موجود ہے اور واجب بھی موجود اور وجود میں مساوی کہنا صریح کُفر کھلا شرک ہے انبیاء علیہم السلام غیب کی خبر دینے کے لیے ہی آتے ہیں کہ جنّت و نار و حشر و نشر و عذاب و ثواب غیب نہیں تو اور کیا ہیں ؟ اُن کا منصب ہی یہ ہے کہ وہ باتیں ارشاد فرمائیں جن تک عقل و حواس کی رسائی نہیں اور اسی کا نام غیب ہے
(بہار شریعت ح اول ص۴١ تا ۴٦)
فتاوی رضویہ میں ہے
غیب ذاتی کہ اپنی ذات سے بے کسی کے دیئے ہو، ﷲ عزوجل کے لیے خاص ہے اُن آیتوں میں یہی معنٰی مراد ہیں کہ بے خدا کے دیئے کوئی نہیں جان سکتا اور ﷲ کے بتائے سے انبیاء کو معلوم ہونا ضروریاتِ دین سے ہے، قرآن مجید کی بہت آیتیں اس کے ثبوت میں ہیں،از آنجملہ سورہ جِن میں فرماتا ہے عٰلم الغیب فلا یظھر علٰی غیبہ احدا الاّ من ارتضٰی من رسول۔ (القران الکریم ۷۲/ ۲۶ و ۲۷)
اور فرماتا ہے
تلک من انباء الغیب نوحیہاالیک (الکریم ۱۱/ ۴۵)
اور فرماتا ہے
وما ھو علی الغیب بضنین ۔(القرآن الکریم ۸۱/ ۲۴)
اس مسئلہ کے بیان کو رسالہ انباء المصطفٰی ورسالہ خالص الاعتقاد دیکھئے کہ کتنی آیتوں حدیثوں اور اقوالِ ائمہ دین سے ثبوت ہے
فتاوی رضویہ میں ہے
غیب ذاتی کہ اپنی ذات سے بے کسی کے دیئے ہو، ﷲ عزوجل کے لیے خاص ہے اُن آیتوں میں یہی معنٰی مراد ہیں کہ بے خدا کے دیئے کوئی نہیں جان سکتا اور ﷲ کے بتائے سے انبیاء کو معلوم ہونا ضروریاتِ دین سے ہے، قرآن مجید کی بہت آیتیں اس کے ثبوت میں ہیں،از آنجملہ سورہ جِن میں فرماتا ہے عٰلم الغیب فلا یظھر علٰی غیبہ احدا الاّ من ارتضٰی من رسول۔ (القران الکریم ۷۲/ ۲۶ و ۲۷)
اور فرماتا ہے
تلک من انباء الغیب نوحیہاالیک (الکریم ۱۱/ ۴۵)
اور فرماتا ہے
وما ھو علی الغیب بضنین ۔(القرآن الکریم ۸۱/ ۲۴)
اس مسئلہ کے بیان کو رسالہ انباء المصطفٰی ورسالہ خالص الاعتقاد دیکھئے کہ کتنی آیتوں حدیثوں اور اقوالِ ائمہ دین سے ثبوت ہے
(فتاوی رضویہ ج ٢٩ص٩ نسخہ دعوت اسلامی ایپ)
حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا نور ہونا احادیث سے ثابت ہے اور اس کا انکار جہالت وگمراہی ہے۔ اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ اس کی توضیح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں
نور عرف عامہ میں ایک کیفیت ہے کہ نگاہ پہلے اسے ادراک کرتی ہے اوراس کے واسطے سے دوسری اشیائے دیدنی کو۔قال السید فی تعریفاتہ النور کیفیۃ تدرکہا الباصرۃ اولا وبواسطتہا سائر المبصرات
اورحق یہ کہ نور اس سے اجلٰی ہے کہ اس کی تعریف کی جائے ۔یہ جو بیان ہوا تعریف الجلی بالخفی ہےکمانبہ علیہ فی المواقف وشرحھا۔ نور بایں معنٰی ایک عرض وحادث ہے اوررب عزوجل اس سے منزہ ۔ محققین کے نزدیک نوروہ کہ خود ظاہر ہو اوردوسروں کا مظہر ،کما ذکرہ الامام حجۃ الاسلام الغزالی ثم العلامۃ الزرقانی فی شرح المواھب الشریفۃ۔ بایں معنی اللہ عزوجل نور حقیقی ہے بلکہ حقیقۃً وہی نور ہے اورآیہ کریمہ اللہ نور السمٰوٰت والارض بلاتکلف وبلادلیل اپنے معنی حقیقی پر ہے ۔
فان اللہ عزوجل ھو الظاھر بنفسہ المظھر لغیرہ من السمٰوٰت والارض ومن فیھن وسائر المخلوقات ۔حضور پرنورسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بلاشبہ اللہ عزوجل کے نور ذاتی سے پیداہیں ۔ حدیث شریف میں وارد ہے
ان اللہ تعالٰی قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہٖ رواہ عبدالرزاق ونحوہ
حدیث میں نورہ فرمایا جس کی ضمیر اللہ کی طرف ہے کہ اسم ذات ہے،من نور جمالہ یا نور علمہ یا نور رحمتہ وغیرہ نہ فرمایا کہ نور صفات سے تخلیق ہو۔ علامہ زرقانی رحمہ اللہ تعالٰی اسی حدیث کے تحت میں فرماتے ہیں (من نورہٖ) ای من نورھوذاتہ :یعنی اللہ عزوجل نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اس نور سے پیدا کیا جو عین ذات الٰہی ہے یعنی اپنی ذات سے بلاواسطہ پیدا فرمایا
کما سیأتی تقریرہ۔
امام احمد قسطلانی مواہب شریف میں فرماتے ہیں
لما تعلقت ارادۃ الحق تعالٰی بایجاد خلقہ ابرز الحقیقۃ المحمدیۃ من الانوار الصمدیۃ فی الحضرۃ الاحدیۃ ثم سلخ منہا العوالم کلہا علوھا وسفلھا۔
شرحِ علامہ میں ہے
والحضرۃ الاحدیۃ ھی اول تعینات الذات واول رتبہا الذی لااعتبارفیہ لغیر الذات کما ھو المشار الیہ بقولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کان اللہ ولا شیئ معہ ذکرہ الکاشی
ہاں عین ذاتِ الٰہی سے پیدا ہونے کے یہ معنی نہیں کہ معاذاللہ ذاتِ الٰہی ذاتِ رسالت کیلئے مادہ ہے جیسے مٹی سے انسان پیداہو، یا عیاذاً باللہ ذات الٰہی کا کوئی حصہ یا کُل ذاتِ نبی ہوگیا۔ اللہ عزوجل حصے اورٹکڑے اورکسی کے ساتھ متحد ہوجانے یا کسی شَئے میں حلول فرمانے سے پاک ومنزہ ہے حضو رسیدِ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خواہ کسی شے کو جزء ذاتِ الٰہی خواہ کسی مخلوق کو عین ونفس ذاتِ الٰہی ماننا کفر ہے ۔
اس تخلیق کے اصل معنی تو اللہ ورسول جانیں جل وعلا و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عالم میں ذاتِ رسول کو تو کوئی پہچانتا نہیں
حدیث میں ہے
یا ابابکر لم یعرفنی حقیقۃ غیر ربی۔
ذاتِ الٰہی سے اس کے پیداہونے کے حقیقت کسے مفہوم ہو؟مگر اس میں فہم ظاہر بیں کا جنتا حصہ ہے وہ یہ ہے کہ حضر ت حق عزجلالہ، نے تمام جہان کو حضور پرنورمحبوب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے واسطے پیدا فرمایا، حضور نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا۔
لولاک لما خلقت الدنیا
حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا نور ہونا احادیث سے ثابت ہے اور اس کا انکار جہالت وگمراہی ہے۔ اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ اس کی توضیح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں
نور عرف عامہ میں ایک کیفیت ہے کہ نگاہ پہلے اسے ادراک کرتی ہے اوراس کے واسطے سے دوسری اشیائے دیدنی کو۔قال السید فی تعریفاتہ النور کیفیۃ تدرکہا الباصرۃ اولا وبواسطتہا سائر المبصرات
اورحق یہ کہ نور اس سے اجلٰی ہے کہ اس کی تعریف کی جائے ۔یہ جو بیان ہوا تعریف الجلی بالخفی ہےکمانبہ علیہ فی المواقف وشرحھا۔ نور بایں معنٰی ایک عرض وحادث ہے اوررب عزوجل اس سے منزہ ۔ محققین کے نزدیک نوروہ کہ خود ظاہر ہو اوردوسروں کا مظہر ،کما ذکرہ الامام حجۃ الاسلام الغزالی ثم العلامۃ الزرقانی فی شرح المواھب الشریفۃ۔ بایں معنی اللہ عزوجل نور حقیقی ہے بلکہ حقیقۃً وہی نور ہے اورآیہ کریمہ اللہ نور السمٰوٰت والارض بلاتکلف وبلادلیل اپنے معنی حقیقی پر ہے ۔
فان اللہ عزوجل ھو الظاھر بنفسہ المظھر لغیرہ من السمٰوٰت والارض ومن فیھن وسائر المخلوقات ۔حضور پرنورسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بلاشبہ اللہ عزوجل کے نور ذاتی سے پیداہیں ۔ حدیث شریف میں وارد ہے
ان اللہ تعالٰی قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہٖ رواہ عبدالرزاق ونحوہ
حدیث میں نورہ فرمایا جس کی ضمیر اللہ کی طرف ہے کہ اسم ذات ہے،من نور جمالہ یا نور علمہ یا نور رحمتہ وغیرہ نہ فرمایا کہ نور صفات سے تخلیق ہو۔ علامہ زرقانی رحمہ اللہ تعالٰی اسی حدیث کے تحت میں فرماتے ہیں (من نورہٖ) ای من نورھوذاتہ :یعنی اللہ عزوجل نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اس نور سے پیدا کیا جو عین ذات الٰہی ہے یعنی اپنی ذات سے بلاواسطہ پیدا فرمایا
کما سیأتی تقریرہ۔
امام احمد قسطلانی مواہب شریف میں فرماتے ہیں
لما تعلقت ارادۃ الحق تعالٰی بایجاد خلقہ ابرز الحقیقۃ المحمدیۃ من الانوار الصمدیۃ فی الحضرۃ الاحدیۃ ثم سلخ منہا العوالم کلہا علوھا وسفلھا۔
شرحِ علامہ میں ہے
والحضرۃ الاحدیۃ ھی اول تعینات الذات واول رتبہا الذی لااعتبارفیہ لغیر الذات کما ھو المشار الیہ بقولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کان اللہ ولا شیئ معہ ذکرہ الکاشی
ہاں عین ذاتِ الٰہی سے پیدا ہونے کے یہ معنی نہیں کہ معاذاللہ ذاتِ الٰہی ذاتِ رسالت کیلئے مادہ ہے جیسے مٹی سے انسان پیداہو، یا عیاذاً باللہ ذات الٰہی کا کوئی حصہ یا کُل ذاتِ نبی ہوگیا۔ اللہ عزوجل حصے اورٹکڑے اورکسی کے ساتھ متحد ہوجانے یا کسی شَئے میں حلول فرمانے سے پاک ومنزہ ہے حضو رسیدِ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خواہ کسی شے کو جزء ذاتِ الٰہی خواہ کسی مخلوق کو عین ونفس ذاتِ الٰہی ماننا کفر ہے ۔
اس تخلیق کے اصل معنی تو اللہ ورسول جانیں جل وعلا و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عالم میں ذاتِ رسول کو تو کوئی پہچانتا نہیں
حدیث میں ہے
یا ابابکر لم یعرفنی حقیقۃ غیر ربی۔
ذاتِ الٰہی سے اس کے پیداہونے کے حقیقت کسے مفہوم ہو؟مگر اس میں فہم ظاہر بیں کا جنتا حصہ ہے وہ یہ ہے کہ حضر ت حق عزجلالہ، نے تمام جہان کو حضور پرنورمحبوب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے واسطے پیدا فرمایا، حضور نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا۔
لولاک لما خلقت الدنیا
(فتاوی رضویہ٣٠ ج ص ١٨٣ ، ١٨۴ ایسا ہی فتاوی مسائل ورلڈ میں ہے)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
10/09/2023
10/09/2023