Type Here to Get Search Results !

کیا اجماع امت کا منکر کافر ہوتا ہے؟

 (سوال نمبر 4361)
کیا اجماع امت کا منکر کافر ہوتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ منکر اجماع امت کے بارے میں کیا حکم ہے تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد عمر عبد المصطفی روالپنڈی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

اجماع امت کے باعتبار دلائل مراتب ہیں۔
اجماع اگر ایسے مسئلہ کے بارے میں ہو جس کا ثبوت تواتر سے ثابت ہو تو اس کا انکار کفر ہے البتہ اگر ایسے مسئلہ کے بارے میں ہو جس کا ثبوت تواتر سے ثابت نہ ہو یا جمیع صحابہؓ کا اس پر اجماع نہ ہو یا اجماع تو تمام صحابہ کا ہو لیکن مسئلہ قطعی نہ ہو یعنی تواتر سے ثابت نہ ہو تو ایسے مسائل میں اجماع کا منکر کافر نہیں مگر خرقِ اجماع کے بناء پر ضال اور فاسق ضرور ہے
و فی حاشية ابن عابدين وهذا موافق لما قدمناه عنه من أنه يكفر بإنكار ما أجمع عليه بعد العلم به، ومثله ما في نور العين عن شرح العمدة أطلق بعضهم، أن مخالف الإجماع يكفر والحق أن المسائل الإجماعية تارة يصحبها التواتر عن صاحب الشرع كوجوب الخمس، وقد لا يصحبها فالأول يكفر جاحده لمخالفته التواتر لا لمخالفته الإجماع. اهـ. (4/ 223)
فتاوی رضویہ میں ہے 
امام اہل سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز نے تحریر فرمایا
  مانی ہوئی باتیں چارقسم کی ہوتی ہیں
ضروریات دین 
ان کا ثبوت قرآن عظیم یا حدیث متواتر یا اجماع قطعی قطعیات الدلالات واضحۃ الافادات سے ہوتا ہے جن میں نہ شبہے کی گنجائش نہ تاویل کی راہ اور ان کا منکر یاان میں باطل تاویلات کا مرتکب کافر ہوتا ہے
ضروریات مذہب اہل سنت وجماعت ان کاثبوت بھی دلیل قطعی سے ہوتا ہے مگر ان کے قطعی الثبوت ہونے میں ایک نوع شبہہ اور تاویل کا احتمال ہوتا ہے اسی لیے ان کا منکر کافر نہیں بلکہ گمراہ،بدمذہب، بددین کہلاتا ہے۔ 
ثابتات محکمہ ان کے ثبوت کو دلیل ظنی کافی،جب کہ اس کا مفاد اکبررائے ہوکہ جانب خلاف کومطروح ومضمحل اورالتفات کے ناقابل بنادے۔اس کے ثبوت کے لیے حدیث آحاد،صحیح یاحسن کافی،اورقول سواد اعظم وجمہور علما کی سندوافی:فان ید اللہ علی الجماعۃ۔
ان کا منکر وضوح امر کے بعد خاطی وآثم، خطاکار و گناہگار قرار پاتا ہے۔نہ بددین وگمراہ نہ کافر وخارج از اسلام۔
ظنیات محتملہ ان کے ثبوت کے لیے ایسی دلیل ظنی بھی کافی،جس نے جانب خلاف کے لیے بھی گنجائش رکھی ہو۔ان کے منکر کو صرف مخطی وقصور وار کہا جائے گا۔نہ گناہگار،چہ جائیکہ گمراہ،چہ جائیکہ کافر۔
ان میں سے ہربات اپنے ہی مرتبے کی دلیل چاہتی ہے۔جوفرق مراتب نہ کرے، اور ایک مرتبے کی بات کواس سے اعلیٰ درجے کی دلیل مانگے،وہ جاہل بے وقوف ہے یا مکار فیلسوف (فتاویٰ رضویہ ج۹۲ ص ۵۸۳ جامعہ نظامیہ رضویہ: لاہور)
جیسے اجماع امت ہے اس بات پر کہ ہمارے نبی علیہ الصلاۃ والسلام اور انبیاء کرام علیہم الصلاۃو السلام میں سے جس نبی علیہ السلام کی بھی تخفیف ہو کفر ہے عام ازیں کہ تخفیف کرنے والا تخفیف کو حلال سمجھ کر کرے یا نبی کی عزت کا معتقد ہو کر کرے بہرحال کفر ہے اس مسئلہ میں علماء کرام کا کوئی اختلاف نہیں ، سبّ گالی کا ارادہ ہو یا نہ ہو اس لئے کہ کوئی بھی کفر میں بوجہ جہالت اور بوجہ دعوی لغزش ِ زبانی کے معذور نہ سمجھا جائے گا جب کہ اس کی عقلِ فطرت صحیح وسالم ہو
(تفسیر روح البیان ج ۳ ص۳۹۴ پ ۱۰ التوبۃ، تحت الآیۃ ۱۲)
جیسے کسی منکرِ ضروریات دین کو کافر نہ کہے آپ کافر ہے امام علامہ قاضی عیاض قدس سرہ شفا شریف میں فرماتے ہیں الإجماع علی کفر من لم یکفر أحداً من النصاری والیہود و کلّ من فارق دین المسلمین أو وقف في تکفیرھم أو شک، قال القاضي أبو بکر لأنّ التوقیف والإجماع اتفقا علی کفرھم فمن وقف في ذلک فقد کذب النص والتوقیف أو شک فیہ، والتکذیب والشک فیہ لا یقع إلّا من کافر یعنی اجماع ہے اس کے کفر پر جو یہود ونصاری یا مسلمانوں کے دین سے جدا ہونیوالے کو کافر نہ کہے یا اس کے کافر کہنے میں توقف کرے یا شک لائے، امام قاضی ابوبکر باقلانی نے اس کی وجہ یہ فرمائی کہ نصوص شرعیہ و اجماعِ امت ان لوگوں کے کفر پر متفق ہیں تو جو ان کے کفر میں توقف کرتا ہے وہ نص وشریعت کی تکذیب کرتا ہے یا اس میں شک رکھتا ہے اور یہ امر کافر ہی سے صادر ہوتا ہے۔
اسی میں ہے 
کفر من لم یکفر من دان بغیر ملۃ الإسلام أو وقف فیھم أو شک أو صحح مذھبھم وإن أظھر الإسلام واعتقد إبطال کل مذھب سواہ فھو کافر بإظھار ما أظھر من خلاف ذلک، ا ھ ملخصاً 
یعنی کافر ہے جو کافر نہ کہے ان لوگوں کو کہ غیر ملت اسلام کا اعتقاد رکھتے ہیں یا ان کے کفر میں شک لائے یا ان کے مذہب کو ٹھیک بتائے اگرچہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا اور مذہب اسلام کی حقانیت اور اس کے سواسب مذہبوں کے بطلان کا اعتقاد ظاہر کرتاہوکہ اس نے بعض منکر ضروریات دین کو جب کہ کافر نہ جانا تواپنے اس اظہار کے خلاف اظہار کر چکا ا ھ ملخصا ۔’’ الفتاوی الرضویۃ ج ۱۵ ، ص ۴۴۳۔۴۴۴۔ وانظر الفتاوی الرضویۃ ج ۱۱ ، ص ۳۷۸۔
 فتاوی رضویہ‘‘ میں ہے اللہ عزوجل نے کافر کو کافر کہنے کا حکم دیا قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَۙ(۱) پ ۳۰ ، الکافرون )
اے نبی فرمادیجئے اے کافرو!)
جیسے اور وکالت کے جواز پر اجماع امت بھی منعقد لہٰذا کتاب و سنت و اجماع سے اس کا جواز ثابت۔ وکالت کے یہ معنیٰ ہیں کہ جو تصرف خود کرتا اُس میں دوسرے کو اپنے قائم مقام کر دینا بہار شریعت ج 12 ص 980 مکتبہ المدینہ 
جیسے وصیّت کرنا جائز ہے قرآن کریم سے، حدیث شریف سے اور اجماع امت سے اس کی مشروعیت ثابت ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
09/09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area