Type Here to Get Search Results !

کیا تراویح کے بغیر بھی روزہ رکھنا جائز ہے؟

 (سوال نمبر 2165)
کیا تراویح کے بغیر بھی روزہ رکھنا جائز ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ 
کیا تراویح پڑھنا ضروری ہے؟یا تراویح کے بغیر بھی روزہ رکھنا جائز ہے؟
شرعی راہنمائی فرما دیں 
جزاک اللہ خیرا 
سائلہ: جنت فاطمہ شہر سیالکوٹ  لاہور پاکستان
.....................................
نحمده و نصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عز وجل 
١/ جس طرح عاقل بالغ مردوں پر نماز تراویح سنت موکدہ ہے اسی طرح عاقلہ بالغہ عورتوں پر بھی نماز تراویح سنت موکدہ ہے 
٢/ روزہ رکھنا فرض ہے پر تراویح کے بغیر بھی روزہ ہوجائے گا لیکن تراویح نہ پڑھنے کا گناہ ہوگا ۔
واضح رہے کہ خواتین کے لیے بھی تراویح پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے اور لازم ہے،البتہ جماعت سے نہ پڑھیں، بلکہ گھر میں ہی انفرادی طور پر پڑھیں،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی نماز کو گھر اور گھر میں بھی اندرونی حصہ میں ادا کرنے کو  افضل قرار دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت اور احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس پر اتفاق ہوا کہ عورتیں گھروں میں نمازیں ادا کریں  اس لیے عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ فرض نمازوں کی طرح تراویح بھی گھر ہی میں ادا کریں۔ 
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں 
تراویح مرد و عورت سب کے لیے بالاجماع سنت مؤکدہ ہے اس کا ترک جائز نہیں اس پر خلفائے راشدین رضیﷲ تعالیٰ عنہم نے مداومت فرمائی اور نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری سنت اور سنت خلفائے راشدین کو اپنے اوپر لازم سمجھو۔اور خود حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی تراویح پڑھی اور اسے بہت پسند فرمایا۔
 
صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی، ارشاد فرماتے ہیں جو رمضان میں قیام کرے ایمان کی وجہ سے اور ثواب طلب کرنے کے لیے، اس کے اگلے سب گناہ بخش دیے جائیں  گے یعنی صغائر پھر اس اندیشہ سے کہ امت پر فرض نہ ہو جائے ترک فرمائی پھر فاروق اعظم رضیﷲ تعالیٰ عنہ رمضان میں ایک رات مسجد کو تشریف لے گئے اور لوگوں کو متفرق طور پر نماز پڑھتے پایا کوئی تنہا پڑھ رہا ہے، کسی کے ساتھ کچھ لوگ پڑھ رہے ہیں فرمایا میں مناسب جانتا ہوں کہ ان سب کو ایک امام کے ساتھ جمع کر دوں تو بہتر ہو، سب کو ایک امام ابی بن کعب رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اکٹھا کر دیا پھر دوسرے دن تشریف لے گئے ملاحظہ فرمایا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں فرمایا نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ  یہ اچھی بدعت ہے۔رواہ اصحاب السنن ۔
 
جمہور کا مذہب یہ ہے کہ تراویح کی بیس رکعتیں ہیں  اور یہی احادیث سے ثابت، بیہقی نے بسند صحیح سائب بن یزید رضی ﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ لوگ فاروقِ اعظم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور عثمان و علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کے عہد میں بھی یوہیں  تھا۔اور موطا میں یزید بن رومان سے روایت ہے، کہ عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں لوگ رمضان میں  تیئس ۲۳ رکعتیں پڑھتے  بیہقی نے کہا اس میں  تین رکعتیں وتر کی ہیں اور مولیٰ علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ
نے ایک شخص کو حکم فرمایا: کہ رمضان میں لوگوں کو بیس ۲۰ رکعتیں  پڑھائے نیز اس کے بیس رکعت ہونے میں  یہ حکمت ہے کہ فرائض و واجبات کی اس سے تکمیل ہوتی ہے اور کل فرائض و واجب کی ہر روز بیس
۲۰ رکعتیں ہیں لہٰذا مناسب کہ یہ بھی بیس ہوں  کہ مکمل و مکمل برابر ہوں 
(بہار ح ٤ص ٦٩٤ مكتبة المدينة )
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و 
٥/٤/٢٠٢٢

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area